- Advertisement -

جوتےکی نوک پر

ایک اردو افسانہ از محمد زاہد

جوتےکی نوک پر

”اری او سوہنی! کہاں ہو؟ جب دیکھو جوتوں سے ہی کھیلتی رہتی ہو۔ “

”جی، بی بی جی۔ آئی۔ “

”صبح سے کیا کام کیا ہے؟ “

”بی بی جی، سارا صحن صاف کر چکی ہوں۔ کمرے جھاڑ پونجھ لئے، اب صاحب کے جوتے پالش کر رہی ہوں۔ “

”اب چھوڑ بھی دو ان کو۔ کوئی اور کام بھی کر لو۔ “

”بی بی جی، اگر یہ چمکتے نہ ہوں تو آپ پھر بھی غصہ کرتی ہیں۔

اور مجھے یہ کام اچھا بھی لگتا ہے، میرا باپو ساری عمر جوتے ہی بنا تا رہا ہے اور یہ لمبے کالے سیا ہ جوتے تو اتنے پیارے ہیں۔ ”

”ٹھیک ہے اگلے ماہ تمہارے صاحب کو نئے جوتے مل جائیں گے پھر تم یہ ساتھ لے جانا۔ اب اور کام بھی کر لو۔ “

اسے بچپن سی ہی جوتے بہت پسند تھے اور کالے جوتے تو دیکھ کر پاگل ہو جاتی۔ اس کا باپ کہتا ”میں اپنی بیٹی کے لئے سبک اور خوبصورت جوتے بناؤں گا۔ نرم و ملائم کھال کے۔ انہیں پہن کر تم بہت آرام محسوس کرو گی۔ “ وہ اس کے پاس بیٹھ جاتی نرم و نازک چمڑے کی بجائے وہ کھردری اور سخت کھال پکڑ لیتی اور ریشمی ڈوری اٹھا کر اس کے پاس لی جاتی۔ کہتی ”باپو اس کا بناؤ اور اسے کالا رنگ دو۔ “

”میری بیٹی اس سے تو مردانہ جوتے بنتے ہیں۔ میں تجھے سوہا جوڑا پہناؤں گا۔ ٹاٹ بافی نرم ونازک جوتا بنا کر دوں گا یا پھر کفش سرخ بازار سے لے کر آؤں گا۔ “

”نہیں باپو مجھے بڑا جوتا ہی چاہیے۔ “

”ٹھیک ہے وہ بھی لادوں گا۔ اپنے دلہے کو پہنا دینا۔ “

وہ خوش ہو جاتی۔

اب وہ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ رہی تھی۔ اس کی جسم میں تبدیلیاں ہو رہی تھیں۔ قد تیزی سے بڑھ رہا تھا۔ اب وہ الجھے الجھے بالوں والی پھو ہڑ سی لڑکی نہیں رہی تھی۔ سینے میں ایک اینٹھن اٹھتی رہتی۔ چہرے پر لالی آگئی تھی۔ گال بھر چکے تھے، چہرہ اور جسم بھرا بھرا دکھائی دینے لگا تھا۔ جس کے نتیجے میں سارا جسم سڈول بن گیا تھا۔ ماں نے اسے بڑا دوپٹہ پہنا دیا تھا۔ اس کو کھلے کپڑے پہننے کو دیتی۔ لیکن کچھ دیر کے بعدوہ تنگ ہو جاتے۔

جب وہ کام کرنے جاتی تو اسے قمیض کے اندر ایک اور قمیض پہنا دیتی۔ گھر میں صرف بیگم صا حبہ ہی ہوتی تھیں اور وہ بھی اپنے کمرے میں بیٹھی ٹی وی پر انگریزی فلمیں دیکھتی رہتیں۔ گرمیوں میں کام کرتے اسے زیر جامہ پہنے ہوئے یہ کپڑے بہت تنگ کرتے۔ پسینے سے تنگ آکر وہ اپنے شلوکوں کے بٹن کھول دیتی۔ اس کا بدن کم و بیش عریان ہو جاتا۔ وہ اپنی گداز رانیں، سڈول سریں دیکھ کر حیران رہ جاتی۔ بیگم صاحبہ کی بیٹی اس سے دو تین سال بڑی تھی۔ اکثر اس کے کپڑے سوہنی کو مل جاتے تھے۔

گھر آ کر وہ انہیں اپنی جسامت کے مطابق سلائی کر لیتی۔ لیکن بلاؤز اسے ہمیشہ ہی کھلا رہتا۔ جب وہ بڑے بڑے جوتے لے کر آئی تو اس کاتسمہ نکال کر بلاؤز کے اندر سلائی کر لیا۔ شیشے کے سامنے کھڑے ہو کر کس کر اسے باندھا تواس کے جسم کی خوبصورتی ایک دم نمایاں ہوگئی۔ وہ گھوم گھوم کر دیکھ رہی تھی۔ اس نے کئی زاویوں سے خود کو آئینہ میں دیکھا۔ بلاؤز کی فٹنگ نے اس کے حسن کو دوبالا کردیا تھا۔ ڈور کو کسنے کے لئے مزید زور لگایا تو سامنے ابھار کے پاس ایک ہلکی سی آواز پیدا ہوئی اور وہاں کا کپڑا مسخ گیا۔ دوسرے جوتے سے بھی اس نے لمبا تسمہ نکالا اور اس کو اپنی پتلی کمر کے گرد باندھ لیا۔ وہ گوشت میں چبھ گیا، اس کے اوپر نیچے جلد مزید سرخ ہو گیا۔

اس کے ہمسائے میں ایک لڑکانصیر رہتا تھا جو کہ اب کالج میں پڑھتا تھا۔ وہ بچپن سے اس کے ساتھ کھیلتا رہا تھا۔ وہ میلے پر گیا تو اس کے لئے چوڑیاں لے آیا۔ ساتھ ہی دربار سے ایک کالا ریشمی دھاگا بھی لایا۔ گورے بازو کی پھولوں کی ٹہنی جیسی کلائی کے گرد باندھ کر کہنے لگا دیکھو یہ تمہارے سفید دودھیا ہاتھوں کونظر نہیں لگنے دے گا۔ وہ سوچ رہی تھی میں یہ تسمہ بھی نصیر کو دوں گی کہ اسے دربار کے فرش سے چھو کر لے آئے۔ یہ سوچ کر وہ شرما گئی اور اسے کھول کر مٹھی میں جکڑ لیا۔

سوہنی کے باپ کو اس کی شادی کی فکر تھی۔ خاندان کا ایک لڑکا سپاہی بھرتی ہو اتھا۔ اس سے سوہنی کی شادی طے پا گئی۔ اسے سب سے زیادہ خوشی یہ تھی کہ فیصل سپاہی ہے اورلانگ شوز پہنا کرے گا۔ جب دلہا عورتوں کے جھرمٹ میں اس کے پاس لا کر بٹھایا گیا تو وہ اس کے جوتوں کی طرف ہی دیکھتی جا رہی تھی۔ کالے سیاہ چمکدار۔ ان کی نوک یوں چمک رہی تھی جیسے دوج کے چاند کا کنارہ۔ اس نے شرما کر منہ جھکا لیا تو عورتیں کہنے لگیں، ”آج کل کی لڑکیاں تو دلہا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے دیکھتے رہتی ہیں۔

یہ دلہن بہت نیک ہے سر ہی نہیں اٹھا رہی۔ ”وہ مسکرا اٹھی۔ اس کا جی اتھل پتھل ہو نے لگا تو پھر کنکھیوں سے جوتوں کی طرف دیکھنا شروع کردیا۔ خاوند کی نوکری دوسرے شہر میں تھی۔ وہ اس کے ساتھ ہی ایک چھوٹے سے کوارٹر میں منتقل ہو گئی۔ فیصل انتہائی سخت گیر اور متشدد طبیعت کا مالک تھا۔ ایذا کوشی اس کی فطرت تھی۔ ہر وقت وہ اسے گالیاں دیتا رہتا۔ دوپہر چار بجے کے لگ بھگ وہ گھر آجاتا اس کے بعد وہ اسے مسلسل جھنجھوڑتا رہتا۔ وہ چوں چرا کرتی تو مار پیٹ بھی شروع کردیتا۔ جنسی حظ کیا اٹھانا تھا وہ تو سارا سارا دن اپنا جسم سہلاتی رہتی۔

فیصل کو کسی کے گھر آنا جا نا بھی پسند نہیں تھا۔ وہ سارا دن گھر میں ہی پڑی رہتی۔ سوہنی کا اب کام میں جی نہیں لگتا تھا لیکن اس بے دلی کے ہوتے ہوئے بھی وہ کاہلی نہیں برتتی تھی۔ فیصل اس کے اندرونی انتشار سے واقف نہیں تھا۔ اس کے سارے خواب بکھر گئے تھے۔ وہ اکیلی پڑی رہتی۔ فیصل خوش خوراک تھا اور خوش لباس بھی۔ تنخواہ کا زیادہ تر حصہ اس کی فضول خرچیوں پر ضائع ہو جاتا۔ وہ گلا کرتی یا کوئی ضرورت بتاتی تو جھڑک دیتا۔ ”عورت پاؤں کی جوتی ہوتی ہے۔ سب کچھ تو تمہارا پورا کرتا ہوں۔ “

مجھے بھی کچھ جیب خرچ دے دیا کرو۔ میری بھی کئی ضروریات ہوتی ہیں۔ ”

”کھانا پینا میرے ذمہ ہو۔ کپڑے لتے میں لے آتا ہوں۔ آرام سے گھر میں بیٹھی رہتی ہو۔ کوئی ڈر خوف نہیں۔ پیسوں کا تم نے کیا کرنا ہے؟ “

”لیکن تم ساری تنخواہ اڑا دیتے ہو۔ “

”میں نے لوگوں میں بیٹھنا اٹھنا ہوتا ہے۔ تمہیں صرف تحفظ اور روٹی چاہیے، وہ میں دے رہا ہوں۔ عورت کو گھر اور سیکورٹی مل جائے تو اسے اور کیا چاہیے؟ خبر دار کبھی میرے اخراجات کے بارے میں بات کی۔ تمہارے جیسی عورت کے لئے یہی مراعات کیا کم ہیں کہ تم ایک باعزت سپاہی کی بیوی ہو۔ اٹھو میرے کپڑے استری کرو اور جوتے بھی پالش کرو۔ “

پاؤ ں سے اشارہ کرتے ہوئے بولا، ”پھر کبھی بکواس کی تو ٹھو کر مار کر گھر سے نکال دوں گا۔ اب میں تمہیں ہمیشہ جوتے کی نوک پر رکھوں گا۔ “

اس نے اٹھ کر کپڑے استری کیے۔ لانگ بوٹ پالش کر رہی تھی تو خاوند بولا، ”موچی کی اولاد ہو کر تمہیں جوتے چمکانا نہیں آ تا۔ برش کے بعد اس کو کپڑے سے رگڑا کرو۔ “ وہ جوتے پہننے کے بعد بھی غصے میں بولتا ہی جا رہا تھا۔ پھرجوتے کی نوک اس کی ٹانگ میں زور زور سے مار کے کہنے لگا۔ ”ایسے کپڑے سے رگڑا کرو۔ “

وہ بہت صابر شاکر عورت تھی۔ اس نے سوچ لیا کہ اب وہ کبھی بھی خا وند سے کچھ نہیں مانگے گی۔ اس نے فیصل کی خدمت میں بھی اضافہ کر دیا۔ کپڑے ایسے استری کرتی کہ کوئی جھول نظر نہ آتی۔ بوٹ پالش کرنا تو اس کا شوق تھا۔ اب اس نے مزید محنت سے انہیں چمکانا شروع کردیا۔ پالش میں گرم تیل ڈالتی۔ اپنے پرانے ریشمی کپڑوں سے انہیں چمکاتی۔ تمام جوتے قظار میں رکھ کر ان کے اوپر سوتی موٹا کپڑا چڑ ہا دیتی۔ صبح جب وہ کپڑے پہن لیتا تو پھر دوبارہ انہیں صاف کر کے اپنے ہاتھوں سے اسے پہناتی۔

فیصل کے گھر آنے سے پہلے وہ تمام کام مکمل کر چکی ہوتی تھی۔ لیکن اس کا اذیت کو شی کا رویہ تبدیل نہ ہوا۔ جسمانی تعلقات میں تو وہ اب پہلے سے بھی زیادہ متشدد ہو گیا تھا۔ وہ درد سے چیختی رہتی اور نصیر اسے اس حال میں دیکھ کر خوش ہوتا۔ قہقہے لگاتا۔ اور بعد میں اسے دوسری طرف دھکا دے کر اوندھے منہ سو جاتا۔ وہ اپنی چوٹیں سہلاتی سہلاتی ساری رات جاگتی رہتی۔

اگلے دن صبح جب وہ نوکری پر چلا جاتا تو پھر کچھ دیر کے بعد اس کی آنکھ لگتی۔

آج بھی اسی حال میں وہ سوئی۔ وہ یاد کر رہی تھی کہ اسے جوتے کتنے پسند تھے ان کے تسمے وہ اپنی کمر کے ساتھ باندھ لیتی تو گورے دودھیا بدن پر نشان پڑ جاتا۔ پتلی ملائم کمر، ننگا پیٹ اور اس کے اوپر تنگ بلاؤز میں جکڑے اس کے ابھار ابھی بھی قیامت تھے۔ وہ ان کو دیکھتی تو خود ہی فدا ہو جاتی تھی۔ جب آنکھ کھلی تو دیکھا تو دوبج رہے تھے۔ وہ سوچنے لگی، چار بجے فیصل آ جائے گا۔ آتے ہی کھانا مانگے گا اور قمیض اتار کر لیٹ جائے گا۔ تھوڑی دیر کے بعد ہی وہ نئے کپڑے مانگے گا اور جوتے بھی۔ نیند ابھی بھی اس کو بیڈ پر ہی پڑے رہنے پر مجبور کر رہی تھی۔ لیٹے لیٹے اس نے جوتوں کی طرف دیکھنا شروع کر دیا۔ دونوں جوتے ساتھ ساتھ پڑے تھے ان کی چمکتی ہوئی نوکیں اس کے دل میں چبھ رہی تھیں۔

ابھی کل ہی وہ جاپانی بیسواؤں پر دستاویزی فلم دیکھ رہی تھی۔ جوتوں کی نوک پر پڑتی روشنی گول گول دکھائی دے رہی تھی۔ اسے یہ نوکیں ساتھ ساتھ پڑی ”بن وا گیندیں“

(Bin Wa Balls)

لگ رہی تھیں۔ جب اس کی نظر لانگ شوز کے لمبے تسموں پر پڑی تو اسے ایسے لگا کہ وہ جوتوں کے سوراخوں سے نکل کر باہر آ رہے ہیں۔ اس نے لیٹے لیٹے آنکھیں بند کر لیں۔ نیند پھر اس پر غلبہ پانے کی کوشش کر نے لگی۔ اسے پھر یاد آتا ہے کہ ظالم خاوندآنے ہی والا ہے۔ وہ چونک جاتی ہے لیکن اتنی دیر میں تسمے ریشمی ڈوری کی شکل اختیار کر لتے ہیں۔ ڈوری جو اس کی کلائی پر باندھی گئی تھی۔ ڈوری جو اس کے سینے میں بلاوز کے اندر سے چبھ کر اس کے جسم کو تانت کر دیتی تھی۔ ریشم کی یہ ڈوری اس کی آنکھوں کے سامنے اپنا پھن پھیلا کر کھڑی ہو جاتی ہے۔ یہی ریشمی ڈوری بڑھتے بڑھتے گیندوں کے اندر سوراخ بنا کر ان کر جوڑ لیتی ہے اور گیندیں ”رن۔ نو۔ ٹاما“ کی شکل دھار لیتی ہیں۔

وہ خوف زدہ ہو جاتی ہے۔ جسم پسینے سے شرابور۔ سر جھٹک کر اٹھ جاتی ہے۔ لیکن نظریں جوتوں پر ہی ٹکی رہتی ہیں۔

وہ سوچنے لگتی ہے کہ صبح جوتے چمکائے تھے یا نہیں؟

شاید نہیں۔ وہ اٹھ کر جوتوں کے پاس چلی جاتی ہے۔ ان کو پکڑ کر پالش کرتی ہے۔ تیل ملی پالش لگاتی ہے۔ دیکھتی ہے کہ چمک ابھی بھی کم ہے۔ ریشمی کپڑا ڈھونڈتی ہے کہیں نہیں ملتا۔

یاد آتا ہے کہ اس نے جو کپڑے پہنے ہیں وہ بودے ہو چکے ہیں۔ اب ان کو تلف تو کر ہی دینا ہے۔ ان سے ہی چمکا لیتی ہوں۔ جوتے کو اپنی ٹانگ پر رگڑنا شروع کر دیتی ہے۔ نوک چبھتی ہے۔ یہ سخت سخت نوک جب ٹانگ کی اندر کی طرف رگڑ کھاتی ہے تو اس کے نتھنے پھڑ کنے لگتے ہیں۔ دستا ویزی فلم سامنے آ جاتی ہے۔ گیندیں شکل بدل کر صبورا بن جاتی ہیں۔ چکنا، تیلیا صبورا۔ وہ جوتے چمکاتی جاتی ہے اور رگڑتی جاتی ہے، ٹانگ کی اندرونی طرف۔ پھر اوپر اور اوپر۔

یک دم یوں لگتا ہے جیسے دروازہ کھل گیا ہے اور اس کا خاوند کہتا ہے، ”میں تجھے جوتے کی نوک پر رکھتا ہوں۔ “ اس کا جسم پسینے سے شرابور ہو جاتا ہے۔

خوف ہوا بن کر اڑ جاتا ہے اور وہ پر سکون نیند سو جاتی ہے۔ زندگی میں پہلی بار پر سکون نیند۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
ناز بٹ کا اردو مضمون