- Advertisement -

فطرت کے بھکاری

لبنیٰ مقبول کا ایک اردو کالم

فطرت کے بھکاری

گزرے وقتوں کا زکر ہے کہ ایک بہت بڑی سلطنت کا بادشاہ تھا- بادشاہ نہایت خوبرو اور حسین و جمیل تھا، ہر شہزادی کی دلی خواہش تھی کہ اس کی ملکہ بنے- لیکن کبھی کوئی اس کے دل کو نہیں بھایا- ایک دفعہ لشکر کے ساتھ اپنی سلطنت کے ایک پر رونق بازار سے گزرتے ہوئے اس کی نظر ایک بھکارن پر پڑی جو نہایت خوبصورت اور ملکوتی حسن کی مالک تھی- بادشاہ اس کو دیکھ کر مبہوت رہ گیا اور اپنا دل ہار بیٹھا، محل واپس آکر بھی جب کئی دن تک وہ بھکارن اس کے دل و دماغ سے نہ نکل پائی تو بادشاہ نے اس کو اپنی ملکہ بنانے کا فیصلہ کرلیا- اور اسطرح وہ بھکارن اُس سلطنت کی ملکہ بن گئی- بادشاہ بے انتہا خوش تھا لیکن پھر کچھ ہی مہینوں میں ملکہ کا حسن پھیکا پڑنا شروع ہو گیا اور وہ دن بدن کمزور اور لاغر ہوتی گئی-

بادشاہ نے پریشان ہو کر سلطنت کے ماہر طبیبوں کی خدمات حاصل کیں، لیکن ملکہ کی کیفیت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی یہاں تک کہ وہ بسترِ مرگ تک جا پہنچی- بادشاہ نے منادی کرائی کہ جو طبیب بھی ملکہ کا علاج کرے گا اس کو خطیر رقم اور بھاری انعام و اکرام سے نوازا جائے گا-

آخرکار ایک ماہر طبیب ملکہ کے علاج کی ذمہ داری لیتا ہے اور بادشاہ کو کہتا ہے کہ ملکہ کو کھانا دینے والی سب کنیزوں کو ملکہ کی خدمت سے ہٹا دیا جائے- بادشاہ حیران تو ہوتا ہے لیکن ہامی بھر لیتا ہے- طبیب مزید کہتا ہے کہ ملکہ کو اب جو بھی کھانا دیا جائے گا وہ محل کی بارہ کھڑکیوں پر رکھا جائے گا- بادشاہ اس پر بھی راضی ہوجاتا ہے- اُس دن ایسا ہی کیا گیا اور ملکہ کو محل کے باغیچے میں چہل قدمی کے لیے لے جایا گیا اور سب خدمتگاروں کو وہاں سے ہٹ جانے کا حکم دے دیا گیا-

ملکہ کی نظر کھڑکی میں رکھے کھانوں پر پڑی تو وہ بےاختیار وہاں پہنچی اور دونوں ہاتھوں سے اٹھا کر کھانا شروع کردیا۔ اسی طرح پھر وہ دوسری کھڑکی کی طرف گئی اور وہاں سے بھی کھانا کھایا، اس طرح کرتے کرتے جب وہ چوتھی کھڑکی کی طرف گئی تو اس کو وہ کھڑکی بند ملی، اس کے منہ سے آواز نکلنا شروع ہوگئی کہ
"اللہ کے نام پر کچھ دے دو”
بادشاہ ایک کونے میں کھڑا یہ سب نہایت حیرت سے دیکھتا رہا- ہر روز یہ عمل دہرایا جاتا اور حیرت انگیز طور پر ملکہ کی صحت دن بدن بہتر ہونے لگی اور وہ پھر سے پہلے کی طرح خوبصورت اور حسین و جمیل لگنے لگی-

بادشاہ طبیب سے اس سارے معاملے کے پیچھے چھپی حکمت دریافت کرتا تو طبیب کہتا ہے کہ آپ نے ایک بھکارن کو ملکہ تو بنا دیا لیکن مانگ کر کھانا اس کی فطرت میں شامل ہے تو آپ اس کے آگے بھلے دنیا جہان کی آسائشات لا کر رکھ دیں گے لیکن وہ کھانا اور کپڑا اس کے جسم کو نہیں لگے گا کیونکہ وہ مانگ کر کھانے میں ہی خوش اور مطمئن رہتی ہے اور یہی اسکی حقیقت ہے-

اب آپ سب یقیناً یہ سوچ رہے ہوں گے راقم الحروف نے کئی دفعہ کی پڑھی ہوئی یہ کہانی آپ کو کیوں سنائی تو جناب بحیثیت ایک پاکستانی قوم کے ہماری مثال بھی اس بھکارن کی طرح ہے جو مانگ کر کھانے کے عادی تھی، چاہے وہ غریب ہوں یا صنعتکار ہوں یا سیاست دان- اور متوسط طبقے کے کشادہ دل اور امدادی جذبات اس بادشاہ کی طرح ہیں جو اپنی محبت کے ہاتھوں مجبور ہو کر اس بھکارن کو ملکہ بنانے کے خواب دیکھتا ہے اور عملی طور پر پوری کوشش کرتا ہے کہ اس کی خواہشات کا پیٹ بھر سکے-

ان ساری باتوں کا پس منظر وہ وڈیو ہے جو حال ہی میں سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی اور جس میں ایک غریب آدمی اس لاک ڈاؤن میں لوگوں اور حکومت کی طرف سے امداد کے طور پر دیے جانے والے راشن کو دکاندار کو فروخت کرنا چاہتا ہےاور یہ انکشاف کرتا ہے کہ اس وقت اس کے پاس کئی من اناج جمع ہوچکا ہے-

تو جناب یہ سب چکر اس نفسیات کا ہے جس میں ایک طرف امداد کرنے والوں کا جذبہ جو کہ ان لوگوں کو غریب سمجھ کر مدد کیے جا رہے ہیں اور دوسری طرف ان غریبوں کی مانگنے کی ہوس جو پوری نہیں ہو رہی اور وہ اس امداد کو اس لاک ڈاؤن نہیں بلکہ اپنی آئندہ نسلوں تک کا حق سمجھ کر وصول کرنا چاہ رہے ہیں-

افسوسناک بات یہ ہے کہ اس سب میں جو اصل غریب اور سفید پوش طبقہ ہے وہ ہی پس رہا ہے- کیوں کہ اس نے کبھی ہاتھ نہیں پھیلایا لہٰذا ان کا کسی کو پتا ہی نہیں چل پاتا اور وہ محروم کے محروم ہی رہتے ہیں-
مخیر حضرات دل کھول کر امداد تو دے رہے ہیں لیکن اس کے ثمرات اصل مستحقین تک نہیں پہنچ پا رہے-

امداد دیتے وقت کا فوٹو سیشن، سفید پوشی کی راہ میں سب سے زیادہ حائل نظر آتا ہے کہ اگر امداد قبول کر بھی لی جائے تو امداد قبول کرنے والا اپنی اولاد اور جاننے والوں میں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہ پاتا-

اس سب کا خوفناک پہلو یہ ہے کہ مانگنا اور مانگ کر بھی مطمئن نا ہونا بلکہ اس کو اپنی نسلوں تک کے لیے محفوظ کر لینے کی فکر اور ہوس ہمیں ہر سطح پر نظر آتی ہے اب چاہے وہ بھکاری ہوں یا سیاست دان یہ سب شاید ایسے ہی ہمارے خون میں شامل ہوچکی ہے اور ہر کوئی اپنی جگہ رہتے ہوئے نا صرف اپنے طریقے کار سے مانگ رہا ہے بلکہ اپنی نسلوں تک کو مستفید کرنا چاہتا ہے-

یہ کرپشن شاید اب ہمارے خون میں رچ بس گئی ہے- ہم بحیثیت قوم، مجموعی طور پر ان حالات میں قناعت اور اللہ پر یقین کے جذبے سے عاری نظر آتے ہیں- امداد دینے والوں کا جذبہ تو قابلِ رشک ہے لیکن جنکی امداد کی جا رہی ہے ان کی کرپشن بھی قابلِ دید ہے- معاملہ صرف اس ایک وڈیو کا نہیں کتنے لوگوں نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ وہ لوگ بھی جن کو اس وقت راشن کی ضرورت نہیں امداد لینے والی قطاروں میں آگے سے آگے سمیٹنے کی فکر میں غلطاں نظر آتے ہیں- جسکو ایک تھیلا راشن اور امداد مل گئی اور وہ اس کے دو دن کی ضرورت کے لیے کافی ہے تو وہ پھر بھی پر سکون نظر نہیں آتا-

یہ کیسی سوچ ہے؟؟ یہ کیسا انداز ہے؟؟ لاہور اور کراچی میں غریب لوگ ٹولیوں کی شکل میں یہی کام کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں- امداد دینے والا گھروں میں جا کر چیک کرنے سے تو رہا- غریب کے خون میں کرپشن کی آمیزش شاید اس کا قصور نہیں- یہ تو وہ تربیت ہے جو قیامِ پاکستان سے اسے اپنے اطراف سے اور ماحول سے مل رہی ہے-
سیاستدانوں کا حال کسی سے ڈھکا چھپا نہیں- بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا ان سے بہتر کس کو آتا ہے- جنہوں نے خود اپنی فکر تو کی ہی کی، اپنے بچوں کی خود سے زیادہ فکر کرتے ہوئے ان کے مستقبل کو محفوظ بنایا اور اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ان کی آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی اتنا کچھ اسی کرپشن اور ملنے والی امداد سے جمع کر لیا ہے کہ یقیناً ان نسلوں کو مستقبل میں ان کے نام کی مالا جپنے کے علاوہ اور کوئی کام کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی-
تو غریب اور امیر اس وقت ایک ہی کشتی کا سوار نظر آتا ہے- چھوٹا بڑے سے سیکھتا ہے اور بڑا دماغ ہر دفعہ کچھ نیا لاتا ہے-
کس کو دوش دیں؟؟
ہمارے خون میں رچی بسی کرپشن کا خاتمہ کیسے ہوگا؟؟
علاقائی سطح پر غریب کی مدد ہو یا عالمی سطح پر غریب ملک کی حیثیت سے مدد…. کتنا جمع کیا جائے اپنے لیے…. بغیر دوسرے کا سوچے ہوئے؟؟
اس پوری کرپشن کو ٹھیک کرنے کے لیے جادو کی چھڑی کہاں سے لائی جائے گی؟؟
پہلا قدم کون اٹھائے گا؟؟؟

آپ؟؟ میں؟؟ غریب؟؟؟ امیر؟؟؟ یا سیاستدان اور صنعتکار؟؟
آئندہ کی فکر کرتے ہوئے جمع کرنا… اس سوچ کو روکنا اور قناعت کرنا اور دوسروں کو موقع دینا…. یہ سب کب اور کس طرح عملی طور پر ہوتا ہوا نظر آئے گا؟؟؟

پاکستان ایک ایسا بدقسمت ملک ہے کہ جہاں غریبوں، یتیموں اور مسکینوں کے حق پر بھی بڑی شان سے ڈاکہ ڈالا جاتا رہا ہے- بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا گیا۔ اپنے اپنے رشتے داروں کو نوازا گیا۔ مگر آج تک کون ان لٹیروں کو پکڑ سکا؟؟ پوری دنیا کورونا سے متاثر ہوٸی، دوسرے ملکوں کی حکومتوں نے خزانوں کے منہ کھول کر سب کو تنخواہیں ادا کی ہیں۔ کسی کو بیروزگار نہیں ہونے دیا۔

ہماری حکومت نے ایک احسن قدم اٹھایا کہ غریبوں کے لیے بارہ ہزار فی کس کے اعتبار سے مالی مدد کا اعلان کیا۔ لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ امداد درحقیقت مستحقین تک پہنچے- ہم سب کی حکومت وقت سے پرزور اپیل ہے کہ اس پروگرام کا حال بھی بینظیر انکم سپورٹ پروگرام جیسا نہ ہو جائے۔ اس وقت حکومت کا عام غریب اور سفید پوش طبقے تک پہنچنا بہت ضروری ہے۔

لبنیٰ مقبول

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
سید عدید کی کتاب پی ڈی ایف میں پڑھیں