- Advertisement -

شمالی علاقہ جات کی سیاحت

سید زاہد کا ایک کالم

پاکستان کے نقشے پر مشرق سے مغرب کی طرف نظر دوڑائیں تو سب سے پہلے کشمیر کی وادی آتی ہے جو کہ شمال میں مزید مشرق کی طرف جھک کر بلتستان میں داخل ہو جاتی ہے۔ مغرب کی طرف بڑھتے ہوئے کاغان، سوات، ہنزہ اور پھر چترال تک ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش کے پہاڑوں میں گھری یہ وادیاں ایک دوسرے سے مختلف اور انوکھے رنگ لیے ہوئے ہیں۔ بلتستان میں اٹھلاتی بل کھاتی ندیاں مغرور حسیناؤں کی طرح دامن اٹھا کر چلتے ہوئے خود کو اباسین کے دھارے کے حوالے کر دیتی ہیں، جس کے دور تک پھیلے ہوئے ریتلے، چمچماتے، دودھیا کہر میں لپٹے دامن میں برفاب چھپاکے مارتا ہوا دوڑتا چلا جاتا ہے۔

اس وادی میں آسمانوں کو چھوتے پتھریلے پہاڑوں کے درمیان جہاں کہیں پانی کی دھارا مٹی سے ملاپ کرتی ہے وہیں ان کنجوں میں حسیناؤں کے گالوں کے ہم رنگ پھول اور ان کے ہونٹوں جیسے سرخ پھل اپنی جوانی بکھیرتے ہیں۔

کشمیر کی تو بات ہی الگ ہے، وہاں کی ندیاں، جہلم و نیلم کے سنگ سنگ پتھروں سے ٹکراتی اٹھلاتی ہیں تو ان حسیناؤں کے پیروں کے بچھوے اپنے ڈنک اٹھائے دشمنوں کی تلاش میں پا بارکاب نظر آتے ہیں۔ دو دہائیاں گزر گئی ہیں کہ دشمن اپنے بل میں چوہیا کی طرح دبک گیا ہے اور وادی باہیں پھیلائے بروگی عشاق کے لیے چشم براہ ہے۔ کشن گنگا ایمان و دین کا افشردہ پیتے ہوئے پاکستان میں داخل ہوتا ہے تو لعل و نیلم، در و گوہر ساتھ لاتا ہے۔ اس کے جھرنوں کا پانی معشوق کی زبان کے نیچے پھوٹنے والے سوتوں کی طرح امرت رس بھرا ہوتا ہے۔

وادی کاغان میں ہمالیہ کی ہریالی اور برفشانوں کی چاندی دیوانہ بنا دیتی ہے۔ تنی ہوئی چھاتیوں جیسی پہاڑیاں، ہمہ ناز درز پستان جیسے تنگ درے جن کے نیچے کنہار کی وہ موجیں جنہوں نے محبوبہ کی کمر کے بل پر چلنا اور اچھلنا سیکھا۔ ٹھنڈی ہوائیں، معشوق کی ناف کے اتھلے پیالے سے مشک چرا کر لاتی ہیں۔ پہاڑوں کی بلندی سے گرتی ہوئی سیمیں آبشاروں میں ملکہ پربت موتی لٹاتی ہے۔ جھیلیں نٹ کھٹ دیویوں کی مدھ بھری آنکھوں سے بھی گہری، جس میں سیف الملوک جیسے مصری شہزادے بدیع المثال موتی ڈھونڈتے ڈھونڈتے ڈوب کر مکت ہو جاتے ہیں۔

بدھا کی پالتی کے زیر سایہ بستے سوات کی پرسکون ہواؤں میں اس قدر شانتی ہے کہ ان پر کئی عمریں قربان کی جا سکتی ہیں۔ موسم بہار کے آتے ہی شگوفہ زار قابل دید ہوتے ہیں۔ آڑو اور سیب کی عریاں شاخیں سفید، گلابی اور کاسنی پھولوں کا لباس پہن لیتی ہیں۔

کوئل یوں گاتی ہے جیسے بانسری بج رہی ہو، پیپیہا پی پی پکارتا ہے۔ ہوائیں آنے والے خوشگوار دنوں کا سندیسہ دیتی ہیں۔ برف پگھلتی ہے تو اشو اور اتروڑ ندیوں کا بہاؤ یوں بڑھ جاتا ہے جیسے محبوبہ چپکے چپکے چھپ کے ساجن سے ملنے جا رہی ہو۔ ان کا اٹھلانا، پتھروں سے ٹکرا کر اچھلنا اور پھر انہیں پتھروں میں چھپ جانا، سب وہی ادائیں ہیں۔ وادی اشو میں یہ ندی مہوڈنڈ جھیل کا روپ دھار کر یوں بکھر جاتی ہے جیسے وصال کی تھکن کے بعد الہڑ پہاڑن ریشمی گھاس جیسے بستر پر اوھندی پڑی ہو۔ اس جھیل کے شفاف پانی میں چمکدار ٹراوٹ تیرتی نظر آتی ہیں۔

ہزاروں بل ہیں اس کی چال میں۔ چترال تک پہنچتے پہنچتے سر بن پیے یوں گھومتا ہے کہ بادہ ریحانی و ارغوانی کی کمی پوری ہو جاتی ہے۔ اس وادی میں سردی و گرمی کا حسین امتزاج ملتا ہے۔ مضطرب بادل امڈ آئیں، ننھی ننھی بوندیں حجاب ابر سے گرنا شروع کر دیں تو ٹھنڈی ہوائیں پسلیوں کے اندر دھنسی جاتی ہیں لیکن اساڑھ کا سورج چمکنا شروع ہو جائے تو اس کی دھوپ سے بدن میں چنگیں پڑنے لگتی ہیں۔

ان وادیوں میں سب کچھ ہے، بن پیے نشہ چڑھ جاتا ہے۔ یہاں عشرت افزا گلشن، تر و تازہ چمن، آب ہائے رواں اور چشمہ سار بے حساب و بے شمار ہیں۔ پہاڑوں سے گرتی آبشاروں کا ہجوم ہے۔ پہاڑوں کی چوٹیوں پر ہواؤں کے دوش پر تیرتے رودباروں کا ہجوم یوں چکر لگاتا ہے جیسے مے گساروں اور بادہ خواروں کا ہجوم مے خانوں کی طرف امڈا چلا آتا ہے۔

ان کہساروں میں وہ سب کچھ ہے، جسے دیکھنے کی حسرت انسان کو دور دراز سے ادھر لے آتی ہے۔ سدا بہار گلزار دیکھنے کو لوگ بے تاب و بے قرار دوڑے چلے آتے ہیں۔ بہت پہلے چین سے ہیون سانگ آیا، مشرق وسطیٰ سے البیرونی، فرانس سے ڈاکٹر برینئر۔ اور بھی بہت سے لوگ پوری دنیا سے علم و ہنر سیکھنے، تجارت کرنے اور سیر سیاحت کے لیے ان علاقوں کا رخ کرتے رہے۔ صدیوں تک ان علاقوں میں بدھ مت کے سٹوپا اور ان کی بڑی بڑی جامعات میں شانتی و امن کی تعلیم دی جاتی رہی۔ یہاں سب کچھ ملتا تھا۔ آزادی تھی تو لوگ بھی آتے تھے۔ شاہراہ ریشم اور درہ خیبر سمیت کئی اہم تجارتی راستے ادھر سے گزرتے ہیں۔ اب کوئی غیر ملکی ادھر نہیں آتا۔ لوگ ہی لوگ ہیں لیکن صرف مقامی۔ کیوں؟

اب سوات کی وادی میں پرسکون ہوائیں تو ہیں شانتی نہیں، معشوق کی آنکھوں جیسی گہری جھیلیں تو ہیں، جھیل سی گہری آنکھیں ڈر کے مارے پردہ نشیں ہو گئی ہیں۔ مدھ بھری چال جیسی ندیاں تو ہیں مدھرا کہیں سے نہیں ملے گی۔ معشوق کے اتھلے ناف پیالے سے ہوائیں تو مشک چرا کر لا سکتی ہیں، بھنور جیسے پیالے کی گہرائیوں پر قوت شامہ کو آزمایا نہیں جاسکتا۔ ان وادیوں کو دیکھ کر بن پیے نشہ تو چڑھ جاتا ہے لیکن نشے میں بہکنے کی کسی کو اجازت نہیں۔ ٹھنڈی ہوائیں جب پسلیوں کے اندر دور تک دھنستی ہیں تو سینوں کو گرمی پہنچانے کا سامان کہیں بھی میسر نہیں۔ تیز دھوپ سے جب بدن میں چنگیں پھوٹنے لگیں تو ٹھنڈ حاصل کرنے کے لیے صرف برفاب ہی سر پر انڈیلا جا سکتا ہے، برف بھرا پیالا ہونٹوں سے نہیں لگایا جا سکتا۔ پہاڑی راستوں کی سیاحت سے نڈھال ہو کر ریشمی پلنگوں پر پڑے رہو۔ کسی بدن کی سیاحت سے نڈھال ہونے کا کوئی سوچے بھی نہ ورنہ کوئی مقامی ایسے گرم بندے کا سر پھوڑ کر اسے مکمل طور پر ٹھنڈا کر دے گا۔ کوئل تو بانسری کی آواز نکال سکتی ہے اور پپیہا پی پی پکار سکتا ہے کسی میوزیکل پروگرام میں پی کی جدائی کا راگ نہیں الاپا جاسکتا کیونکہ طالبان کے شاگرد لاٹھیاں کندھے پر اٹھائے دندناتے پھرتے ہیں۔

تجارتی راستے موجود ہیں، ان پر قیمتی گاڑیاں دوڑتی ہیں قیمتی سامان کی نقل و حمل مفقود ہے۔ دختر رز تیار کرنے والی مری کی اکلوتی فیکٹری اب انار و انگور کا افشردہ تیار کر رہی ہیں۔ ہم غیر ملکی سیاح کو ضرورت کا کوئی بھی ساماں مہیا نہیں کریں گے۔ ہمارے معاشرے میں خوبصورت لڑکی پر چچیرے ممیرے بھائی ہی قبضہ جما لیتے ہیں، ان سے بچ جائے تو اہل محلہ و قرابت دار اپنا حق جتلاتے ہیں۔ اسی طرح ہمارے شمالی علاقہ جات کی دلہنیا بھی اپنوں کے ہاتھوں ہی لٹنے کے لیے پیدا ہوئی ہے کوئی مصری شہزادہ اب اسے بیاہنے نہیں آ سکتا۔ یہ سوہنی چناب کے ٹھنڈے پانی میں ڈوب مرے گی، بلخ و بخارا کے مہینوال جیسا کوئی تاجر اس کی مانگ نہیں سنوار سکے گا۔

ہم سیاحت کو فروغ دیں گے لیکن ان اوچھے بھونڈے چھوکروں کے لیے جو ناران کے بازاروں، کیلاش کی پر پیچ گلیوں اور کشمیر کے چوراہوں میں بیٹھ کر کھیتوں سے لے کر بن ماں باپ کی سڑکوں، گاڑیوں، پہاڑیوں تک ہر چیز کی ماں بہن سے اپنے جنسی تعلقات کا زور شور سے اعلان کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

(پچھلے سال یوکے ویزا اپلائی کرنے کے لیے میر پور آزاد کشمیر جانے کا اتفاق ہوا۔ ٹی بی ٹیسٹ کی رپورٹ شام کو ملنی تھی۔ کچھ گھنٹوں کے لیے ہوٹل کا کمرہ لینے کا سوچا ہوٹل والوں نے پوری فیملی کے کارڈ مانگ لیے۔)

پوچھا، کیوں؟
کیا ایک ہی بندے کا شناخت نامہ کافی نہیں؟
جواب ملا کہ یہاں بہت سختی ہے۔

سامنے لگے ہدایت نامہ پر نظر پڑی جس میں یہ سب واضح طور پر لکھا تھا اور ہاں نیچے ایک سطر میں یہ بھی لکھا گیا تھا کہ نوجوان جوڑے نکاح نامہ دکھائیں۔

اس سال عید کے بعد محکمہ سیاحت نے پشاور سے جاری کردہ اپنی رپورٹ میں بتایا کہ 8 لاکھ 90 ہزار 722 ملکی اور 55 غیر ملکی سیاحوں نے خیبر پختون خواہ صوبے کا رخ کیا۔

گزشتہ ایک ماہ میں گلیات میں 3 لاکھ 33 ہزار 666 ملکی اور 4 غیر ملکی سیاح آئے۔

 

سید محمد زاہد

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
ایک افسانہ از ایم مبین