- Advertisement -

انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں اردو زبان و ادب کی ترقی

ساجد حمید کا ایک کالم

آج کا دور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ترقی کا دور ہے۔ جس میں کسی زبان کو استعمال کرتے ہوئے معلومات کا برق رفتاری سے تبادلہ عمل میں آرہا ہے۔

 

اردو ایک عالمی زبان ہے۔ اردو زبان کی گنگا جمنی تہذیب، اردو غزل اور اردو زبان کی ہمہ گیریت نے اسے بلاشبہ دنیا بھر کی مقبول اور پسندیدہ زبان بنا دیا ہے۔ امیر خسرو، ولی دکنی، میر تقی میر اور مرزا غالب نے اردو زبان کی جو وراثت چھوڑی تھی اس پر اردو کی آنے والی نسلوں نے شاندار تہذیبی عمارت تعمیر کی ہے اور دنیا کی دیگر زبانوں کی طرح اردو بھی اکیسویں صدی کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہورہی ہے۔ اردو زبان میں تعلیم اور روزگار کے بڑھتے مواقع ، اردو یونیورسٹیز کی شکل میں اردو میں روایتی اور فنی تعلیم کی ترقی کے مواقع فراہم ہونا اور اردو کی نئی بستیوں کے براعظم یورپ، امریکہ، افریقہ اور آسٹریلیا میں قیام اور وہاں اس زبان کی بڑھتی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اردو کا مستقبل روشن ہے۔ اردو ذریعہ تعلیم سے آگے بڑھنے والے کسی طالب علم کو مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ زندہ قوموں کی یہ نشانی ہوتی ہے کہ وہ اپنے عہد کے تقاضوں سے واقف ہوتی ہیں اور انہیں اپنی سہولت کے اعتبار سے حل کرتی ہیں۔اردو کے بارے میں بھی کہا جاسکتا ہے کہ میڈیا اور کمپیوٹر ٹیکنالوجی میں اردو کی نئی نسل اس زبان کے تقاضوں کو دور حاضر سے ہم آہنگ کرنے میں لگی ہوئی ہے۔

 

اکیسویں صدی کو انفارمیشن ٹیکنالوجی کی صدی کہا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں پل پل رونما ہو رہے واقعات کو بریکنگ نیوز کے نام سے ٹیلی ویژن، کمپیوٹر، انٹرنیٹ اور موبائل فون کے ذریعے برق رفتاری سے لوگوں تک پہنچایا جارہا ہے۔ پہلے اخبار کا نامہ نگار کاغذ پر نیوز لکھ کر بس یا ٹرین کی سہولت اور پوسٹ کے ذریعے نیوز روانہ کرتا تھا جس میں کافی وقت لگتا تھا۔ جب کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی سہولت سے یہ کام اب ای میل کے ذریعے فوری ہونے لگا ہے۔ دنیا بھر کے اخبارات کا مطالعہ اور اپنی پسند کی کسی کتاب یا کسی مواد کو اپنے ڈیسک ٹاپ کی اسکرین پر تلاش کرنا اور پڑھنا اب خواب نہیں رہا اور ہماری روزمرہ زندگی کی حقیقت بن گیا ہے۔

یہی حال زندگی کے دیگر شعبوں کا بھی ہے۔

 

انسان انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس طوفان میں مشینی زندگی گزارنے پر مجبور ہوگیا ہے۔ پہلے پڑھنا لکھنا جاننے والے کو خواندہ کہا جاتا تھا۔ آج خواندگی کا مفہوم کچھ بدل گیا ہے اور جسے کمپیوٹر استعمال کرنا نہیں آتا اسے جاہل کہا جاتا ہے۔ اس صدی میں کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے بڑھتے ہوئے استعمال نے اردو زبان کو بھی اس نئی ترقی سے ہم آہنگ ہونے کا حوصلہ دیا۔ جو زبان پہلے قلمی کتابت کے ذریعے اخباروں اور کتابوں سے عوام تک پہنچتی تھی، اب کمپیوٹر کتابت اور الیکٹرانک ذرائع سے ہم آہنگ ہوکر ترقی کرتے ہوئے ای ذرائع سے ہم تک پہنچ رہی ہے۔

 

انفارمیشن ٹیکنالوجی میں اردو بھی ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ آج سے دو دہائی قبل ان پیج کے ذریعے کمپیوٹر پر اردو کتابت کا کام شروع ہوا۔ اردو اخبارات اور کتابیں کمپیوٹر کی خوبصورت کتابت سے آراستہ ہو کر شائع ہونے لگیں۔ ان پیج کی کتابت میں صرف تصویری کام ہوتا ہے۔ کورل ڈرا اور فوٹو شاپ کی مدد سے رنگین تحریری کام کیا جاتا ہے، لیکن یہ کام دوسرے کمپیوٹر پروگراموں میں دیکھا نہیں جا سکتا۔ اردو تحریر کو پڑھنے کے لیے اردو ان پیج لازمی رہا۔ انٹرنیٹ کے فروغ کے بعد گوگل سرچ میں اگر ہم اردو کے کسی موضوع پر اردو میں مواد ڈھونڈنا چاہتے تھے تو اردو ان پیج کی کمزروی سے اردو کا بیش قیمت مواد انٹرنیٹ پر نظر آنے سے محروم رہتا تھا۔ جب دنیا میں کمپیوٹر کا استعمال بڑھا اور ٹیلی ویژن، موبائل فون اور دیگر ٹیکنالوجی کے آلات میں اردو کے استعمال کی ضرورت بڑھی تو اردو کے علاوہ دنیا کی تمام زبانوں کو کمپیوٹر کے ایم ایس آفس پروگرام اور انٹرنیٹ کے مختلف پروگراموں میں شامل کرنے کے لیے زبانوں کا یونی کوڈ نظام شروع کیا گیا اور اس کے اعتبار سے کی بورڈ کی تشکیل عمل میں آئی۔ اردو میں جمیل نوری نستعلیق اور علوی نستعلیق فانٹس تیار ہوئے۔ جن کی مدد سے ایم ایس آفس کے کسی بھی پروگرام، فیس بک، ٹویٹر اور دیگر پروگراموں اور موبائل فون میں اردو لکھنا آسان ہوگیا۔ ان پیج کو یونی کوڈ میں منتقل کرتے ہوئے اردو زبان و ادب کا بیش قیمت ذخیرہ انٹرنیٹ پر محفوظ کردیا گیا ہے۔ آج اگر کوئی بھی شخص گھر بیٹھے اپنے کمپیوٹر پر کلیات اقبال یا دیوان غالب دیکھنا چاہتا ہے، اپنی پسند کا کوئی شعر یا کسی شاعر یا ادیب کے حالات زندگی یا کسی موضوع پر مواد دیکھنا چاہتا ہے تو وہ یونی کوڈ سہولت کو گوگل سرچ میں استعمال کرے تو اسے اردو زبان و ادب کا ایک نیا جہاں نظر آئے گا۔ اردو وکی پیڈیا پر اردو کے شعراء اور اردو زبان و ادب کے دیگر موضوعات پر معلوماتی مضامین دستیاب ہوں گے۔ اردو کے اہم بلاگس، اردو کے ای اخبارات اور اردو زبان وادب کی دلچسپی کے بہت سے موضوعات دستیاب ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اردو کی نئی نسل تیار ہو اور وہ ٹیکنالوجی کے اس سفر میں اردو کو اور بھی آگے لے جائے۔

اسی طرح اردو والے اپنا کام جیسے ای میل بھیجنا یا مضامین بھیجنا ہو تو اسے اردو میں یونی کوڈ کی مدد سے بھیجیں۔

 

اردو کی اس ٹیکنالوجیکل ترقی کے علاوہ اردو کے اور بھی مواقع ہیں، جیسے اردو صحافت میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں اردو صحافیوں کی مانگ ہے۔ اردو کی طباعت اور اشاعت کے کاموں میں اضافہ ہوا ہے۔ ڈی ٹی پی اور کمپوزنگ کا کام جاننے والے اردو سے روزگار حاصل کر سکتے ہیں۔ اردو کے دیگر دستیاب مواقع سے بھی استفادہ حاصل کرنا وقت کا اہم تقاضہ ہے اور اردو کے مسائل کو پہچانتے ہوئے انہیں حل کرنا اردو کی آنے والی نسلوں کی اہم ذمہ داری ہوگی۔

 

زبان کی بقا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جب تک اسے استعمال کرنے والے رہیں گے تب تک زبان زندہ رہے گی۔

فیس بک پر آج خالص اردو ادب کے کئی گروپس ہیں جس میں اردو میں لکھنا لازمی ہے۔ اس طرح کی کوشش سے اردو رسم الخط کی بقا ممکن ہے۔ اردو افسانہ، شاعری اور طنز و مزاح کا فروغ اب مشاعروں اور ادبی محفلوں سے زیادہ فیس بک گروپس سے ہورہا ہے۔ اردو کے شاعر اور ادیب گوگل کی سہولت بلاگ اسپاٹ سے مدد حاصل کرتے ہوئے اپنی تخلیقات کو اردو میں دنیا بھر میں پیش کر سکتے ہیں۔

اسی طرح اردو کے ای میگزین اور اخبارات نکالے جا سکتے ہیں۔

 

موجودہ دور انفارمیشن ٹیکنالوجی کا ہے اور اردو کی نئی نسل کو اپنی زبان کو اس ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کرنے کے لیے تیار کرنا ہوگا۔ اس لیے اردو کی جامعات کے نصاب میں اردو اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کو شامل کرنا ہوگا۔ اردو کے ہر محقق کو کمپیوٹر سے واقف کرانا ہوگا۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں اردو میں کام کرنے والے ماہرین تیار کرنے ہوں گے۔ موبائل فون پر اردو کے استعمال کو عام کرنا ہوگا۔

 

بس یہ بات ذہن نشین رہے کہ جتنا ہم اس دور میں اردو کا چلن عام کریں گے اتنی ہی اردو زبان و ادب کی ترقی ہو گی۔

 

ساجد حمید

ایم فل اردو

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
اویس خالد کا ایک اردو کالم