- Advertisement -

حضرت عثمان غنیؓ کی مظلومانہ شہادت

اویس خالد کا ایک اردو کالم

awais khalid

خلیفہ سوم حضرت عثمان غنیؓ کی مظلومانہ شہادت 18 ذوالحجہ ماہتاب رسالت ؐ کے ایک چمکتے ستارے، حضرت امیر المومنین،خلیفۃالمسلمین،ذوالہجرتین،ذوالبشارتین،مُصلّی علی القبلتین،ذوالنورین،شاملِ عشرہ مبشرہ،کامل الحیاء والایمان،جامع الناس علی القرآن،سیدنا عثمان ابن عفا نؓ کا یوم شہادت ہے۔آپ کا اسم مبارک عثمان،اسلام سے پہلے کنیت ابو عمرہ اور اسلام کے بعد ابو عبد اللہ اورلقب ذوالنورین تھا۔والد کا نام عفّان اور والدہ کا نام اُرویٰ اور بعض جگہ پر اس کا تلفظ ارومی درج ہے۔خاندان بنو امیہ سے تعلق تھا۔عبد مناف پر آ کر پانچویں پشت میں آپ کا سلسلہ نسب نبی کرم ﷺ سے جا ملتا ہے۔
آپ ؓ کی والدہ ام حکیم بیضاء کی بیٹی ہیں یعنی آپؓ کی نانی ہیں،اور وہ حضرت عبد المطلبؓ کی سگی بیٹی اور حضرت عبد اللہؓ کی سگی بہن ہیں اور آپؐ کی پھوپھو جان ہیں۔اس حساب سے آپؐ حضرت عثمانؓ کے خالِ محترم ماموں جان لگتے ہیں۔ آپؐ کی خواہش پر 35 ہزار درہم کے عوض بیئر رومہ خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کرنے والے آپؓ ہی ہیں۔مسجد نبویؐ شریف کی قیمت بھی آپؓ نے ادا کی۔جنگ تبوک میں ایک ہزار دینار،ہزار اونٹ مع ضروری سامان راہ خدا میں دیے۔غزوہ ذات الرقاع میں نبی پاکؐ نے آپؓ کو ہی مدینہ میں اپنا نائب مقرر فرمایا۔آپؐ نے فرمایا:کیا میں اس شخص (عثمان) سے حیا نہ کروں جس سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں۔(مسلم شریف)۔آپؐ نے فتنوں کا ذکر فرماتے ہوئے فرمایا۔کہ عثمان ان فتنوں میں بھی راہ راست پر ہو گا۔(ترمذی،ابن ماجہ)۔آپؐ نے ایک شخص کا جنازہ اس لیے نہیں پڑھا کہ یہ حضرت عثمان سے بغض رکھتا تھا۔(ترمذی)آپؐ نے فرمایا جنت میں عثمان میرا رفیق ہے۔(ترمذی)۔حضرت عثمان غنیؓ کی شہادت بڑی مظلومانہ ہے۔بلوائیوں نے حضرت عثمانؓ کے گھر کا محاصرہ کر رکھا تھا لیکن شروع میں لوگوں کو ملنے جلنے دیا جاتا تھا۔لیکن ایک جعلی خط جو مصر کے گورنر کے نام تھا کہ سب کو قتل کر دیا جائے،وہ خط قاصد سے پکڑا گیا اور جس پر حضرت عثمانؓ کی جھوٹی مہر بھی لگائی گئی تھی۔ جس سے معاملات مزید بگڑ گئے۔حضرت عثمانؓ نے اس سے مکمل لا تعلقی کا اعلان کیا لیکن بلوائی کسی صورت ماننے کو تیار نہیں تھے۔انؓ کے گھر کا محاصرہ سخت کر دیا گیا اور پانی بھی بند کر دیا گیا۔مشہور قول کے مطابق چالیس روز تک محاصرہ رہا اور اس دوران پانی بھی بند رکھا گیا۔تاہم اس میں دنوں کا کچھ فرق آ سکتا ہے لیکن اس بات پر تمام مؤرخین متفق ہیں کہ طویل مدت تک پانی بند رکھا گیا۔سیر اعلام النبلاء میں ہے کہ حضرت علیؓ نے ان تک تین مشکیزے پانی پہنچائے تھے۔یوم شہادت بڑی دقت سے ہمسائیوں کی طرف سے کچھ پانی پہنچایا گیا مگر صبح صادق ہو چکی تھی اور آپؓ روزے کی نیت کر چکے تھے لہذا آپ نے پانی نہ پیا۔حضرت علیؓ کے کہنے پر حضرت امام حسنؓ و حضرت امام حسینؓ اور حضرت عبد اللہ بن زبیرؓپہرہ دیتے رہے۔باغیوں کو یہ ڈر تھا کہ اگر ذیادہ دیر کی تو اور ملکوں سے فوجیں نہ آ جائیں لہذا انھیں جلد قتل کر دینا چاہیے۔ایک دن باغی موقع پا کر دیوار پھاند کر اندر داخل ہو گئے۔آپؓ تلاوت قرآن میں مشغول تھے۔ایک بد بخت نے آگے بڑھ کر تلوار کا وار کیا آپ کی زوجہ حضرت نائلہؓ بنت الفراضہ بچانے کے لیے آگے بڑھیں تو ان کے ہاتھ کی تین انگلیاں کٹ کر گر گئیں۔ایک ظالم نے آگے بڑھ کرآپؓ کی پیشانی مبارک پر لٹھ ماری جس سے لہو کا فوارہ جاری ہوا اور قرآن پاک کے اوراق مقدسہ کو رنگین کر گیا۔
ایک بلوائی نے اور وار کیااور کئی دنوں کی پیاس کی شدت اور روزے کی حالت میں آپؓ کو شہید کیا گیا۔ بلوائیوں میں سے ایک نے بڑھ کر آپؓ کا سر اقدس اتارنے کی کوشش کی لیکن مستورات نے شور مچا دیا۔ابن عدیس بولا۔رہنے دو، اس سر سے ہمیں کوئی سروکار نہیں۔کنانہ بن بشیر بحتیمی نے آپؓ کی شہادت کا بیڑہ اٹھایا۔عمرو بن حمق نے نیزہ کے زخم لگائے۔عمیر بن ضابی نے ایسے بے دردی سے ٹھوکریں ماریں کہ آپؓ کی پسلیاں ٹوٹ گئیں۔آپؓ کی شہادت 18 ذوالحجہ 35ھ بروز جمعہ کو ہوئی۔شہادت کے بعد بھی آپؓ کا جسد مبارک تین دن تک بے گورو کفن رہا۔اگلے دن مابین مغرب و عشاء جنازہ لے کر جایا گیا۔حضرت جبیر بن معطمؓ نے نماز پڑھائی۔جنت البقیع کے باہر حس کوکب میں آپؓ کو دفن کیا گیا جو جگہ بعد میں جنت البقیع میں شامل ہوئی تھی۔بغیر غسل کے اسی لباس میں ایسے ہی آپؓ کی تدفین کی گئی جس لباس میں آپؓ نے جام شہادت نوش فرمایا تھا۔آپؓ کی شہادت سے امت مسلمہ کی وحدت پارہ پارہ ہو گئی۔آپس میں خانہ جنگی شروع ہو گئی۔مسلمانوں کی فتوحات کا سلسلہ بھی رک گیا۔شورائی نظام درہم برہم ہو گیا۔اسلامی قوت کمزور پڑ گئی۔وہ تلواریں جو متحد ہو کر دشمنوں کا حلق کاٹا کرتی تھیں اب آپس میں ٹکرانے لگیں۔دشمنوں نے اس صورت حال سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور اور اپنی سابقہ ناکامیوں کا بدلہ لیتے رہے۔تاریخ گواہ ہے کہ سیدنا عثمان غنیؓ کی مظلومانہ شہادت سے ملت اسلامیہ کاوہ نقصان ہوا جس کو آج بھی امت مسلمہ بھگت رہی ہے۔

اویس خالد

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
افتخار عارف کی ایک اردو غزل