مارگلہ اور تم اور میں
کوئی پھولوں بھرا جنگل تھا
بھاری خوشبوؤں والا
کسی وادی میں ٹھنڈی سبز رنگت گر رہی تھی
دل بھی گہرائی میں گرتا تھا
گھنے پتوں کے گھیرے دار گہرے سبز بادل تھے
جہاں تنہا کرن نے خود کو ہی رستہ بنایا
خود ہی اس پر سات رنگا جسم لے کرچل پڑی
آنکھوں پہ اُتری ، پُتلیوں کے پار پہنچی۔۔۔۔
تو وہاں میں دیکھ پایا ۔۔۔۔ تم کو اور خود کو
ہمارا رنگ دھانی تھا !
جمالِ رنگ نغمہ ریز تھا
ہم سن رہے تھے !
وہ عجب رنگوں بھرا سپنا تھا
جس میں چل رہے تھے ہم
ہوا چلتی تو میرے دل سے کوئی بات لے لیتی
تمھارے دل میں رکھ دیتی
تمھاری آنکھ سے جو رنگ اُڑتا
وہ مری آنکھوں میں آجاتا
وہ اک پھولوں بھرا سپنا تھا
جس میں چل رہے تھے ہم
مگر اب دیکھتے ہیں
چار جانب دھوپ میں جلتا زمانہ ہے
زمانے کی بہت بے رنگ سڑکیں ہیں
ہم اِن پر بھاگتے ہیں اور خود کو مل نہیں پاتے
نجانے تم کہاں گم ہو
نجانے میں کہاں گم ہوں ۔۔۔۔۔