آپ کا سلاماردو نظمسید محمد زاہد

بھلا پروانوں کا بھی کوئی وارث ہوتا ہے؟

سید محمد زاہد کی اردو نظم

یہ سرخی جو حنا میں چھپی بیٹھی ہے
کنوارے ارمانوں کا خون اس میں شامل ہے۔
رنگ افسردگی شامل ہے
طوفان خیرگی شامل ہے ۔
پاؤں تلے مہندی لگا رہے ہو
کف دست کو سجا رہے ہو
ناکتخدا کی موت پر اشک بہا رہے ہو
جوان موت پر اشک بہا رہے ہو۔
کیوں مہندی لگا رہے ہو؟
کیوں رنگ چڑھا رہے ہو؟
رنگ چڑھ گیا تو
دکھ الجھ جائیں گے
ہمارے سکھ کے ساتھ۔

کھرچ دو اس رنگ حنا کو
ڈال دو خاک اس خون مشتعل پر
زودِ مشتعل پر ۔
ڈال دو خاک
اس خون جاہل اجہل پر
اس احمق الذی، جاہل اجہل پر ۔
جو پروانوں کی طرح مر مٹا ہے
آگ کی لپٹ پر
انقلاب کی دمک پر ۔

بھلا کوئی روتا ہے
کہیں سوگ پڑتا ہے
پروانوں کی موت پر
آشفتہ سروں کی موت پر۔

بھلا پروانوں کا بھی کوئی وارث ہوتا ہے؟

 

سید محمد زاہد

سید محمد زاہد

ڈاکٹر سید محمد زاہد اردو کالم نگار، بلاگر اور افسانہ نگار ہیں۔ ان کا زیادہ تر کام موجودہ مسائل، مذہب، جنس اور طاقت کی سیاست پر مرکوز ہے۔ وہ ایک پریکٹس کرنے والے طبی ڈاکٹر بھی ہیں اور انہوں نے کئی این جی اوز کے ساتھ کام کیا ہے
Loading...
سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button