جو لوگ رہنماؤں کے ہتھے چڑھے رہے
چھوٹی تھی ان سوچ مگر قد بڑے رہے
مجرم نے اپنے جرم کا اقبال کر لیا
اس کے حمایتی تھے جو ضد پر اڑے رہے
اک رہنما نے وعدہ نبھایا نہیں کوئی
پھر بھی یہ لوگ اس کے ہی پیچھے کھڑے رہے
سچ جانتے تو سب ہیں کوئی بولتا نہیں
سو جھوٹ کے نگینے ہی سچ میں جڑے رہے
صد راہے پر نہیں کوئی منزل کا راستا
ایسی زمین ہم کو ملی تھی پڑے رہے
ہر چند کام وہ تو کسی کے نہ آ سکے
پھر بھی زبان خلق پہ کچے گھڑے رہے
آپس میں مل گئے ہیں کئی رہنما عدید
ان کے لیے دو بھائی لڑے تھے لڑے رہے
سید عدید