- Advertisement -

ڈائری

ایک اردو افسانہ از محمد الیاس

لاری سے اترا تو برکت کو بڑی شدت سے بھوک محسوس ہونے لگی تھی۔ اس کے آس پاس عقب میں اور سڑک کے پار سامنے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے بہت سے چھوٹے بڑے ریستوران اور ہوٹل تھے جن کے آگے برآمدوں میں چبوتروں پر بہت بڑے بڑے دیگچے سجے ہوئے تھے۔ تنوروں میں سے گرم گرم تازہ نان اور روٹیاں نکال کر ڈھیر کی جا رہی تھیں۔ قطاروں میں ننگ دھڑنگ مرغیاں مرغے لٹکے ہوئے تھے اور بکرے بھی بے حیائی کے سازو و سامان سے لیس آدھے پونے دھڑوں سے الٹی پھانسی جھول رہے تھے۔ برکت کے چہرے کی سیدھ میں دو منزلہ ہوٹل کی چھت پر حکومتی پارٹی کا پرچم لہرا رہا تھا اور جہازی سائز کے سائن بورڈ پر قومی سطح کی ایک قد آور سیاسی شخصیت کی بہت بڑی تصویر الف کھڑی مسکرا رہی تھی۔ شخصیت کا قد اتنا بڑھا دیا گیا کہ بورڈ کی حدود میں سے نکل کر کئی گز اوپر آسمان کی طرف اٹھ گیا تھا۔ تصویر کے قدموں سے لپٹا ہوا جلی حروف میں نعرہ درج تھا۔ ”اس دھرتی کو جنت بنائیں گے ہم۔“
برکت کو بہت سی طعام گاہیں لذتِ کام و دہن کی دعوت دے رہی تھیں لیکن وہ کسی ریستوران میں جانے کا ارادہ نہیں کر سکتا تھا۔ شہر آکر وہ پہلے بھی ایک بار لٹ چکا تھا اس لیے اب دیکھ بھال کر اور اچھی طرح بھاﺅ تاﺅ کر کے کھانے کی کوئی چیز خریدنا چاہتا تھا۔
انسانی اور حیوانی پیشاب سے پوتی ہوئی زمین سے بڑی تیز کھرانڈ نتھنوں میں گھس رہی تھی۔ بدبو کے بڑے دبیز بخارات تالو اور ناک کی نازک جھلی سے چپک کر رہ گئے۔ گھوڑوں کی تازہ اور خشک لِید جا بجا بکھری پڑی تھی۔ فضا میں ڈیزل کا دھواں اور کاربن کے ذرات بھرے پڑے تھے۔ تیز رفتار گاڑی کے گزرنے اور ہوا کے تیز جھونکے سے گرد کے ساتھ خشک لِید اڑنے لگتی تو اس مرکب کا غالب جزو ”بھوسا“ باریک چھائی کی مانند چہروں پر برس جاتا۔ فٹ پاتھ کے ساتھ وسیع رقبے پر پھیلے ہوئے کوڑے کے ڈھیر پر دعوتِ شیراز اڑانے کے لیے کوّﺅں کا پرا اترا پڑا تھا‘ جب کہ بہت سے کُتّے بھی سونگھ سونگھ کر اپنی من پسند غذائیں تلاش کر رہے تھے۔ ان میں سے ایک دم اٹھائے پچھلے دھڑ سے زمین کو تقریباً چُھوتے ہوئے پوری اعصابی قوت صرف کر رہا تھا لیکن فطری ارمان نکلنے کی بجائے آنکھوں کے ڈیلے اُبلنے کو تھے۔
کُوڑے کے اونچے نیچے وسیع سلسلے کی دوسری جانب سے آٹھ دس کم سِن لڑکیاں لڑکے پوشیدہ خزانے کھوجنے کی مہم کا آغاز کر چکے تھے۔ طرح طرح کی بدبوئیں اور سڑاند اٹھائے ہوا کا تیز جھونکا آجانے سے کُوڑے کے ڈھیر پر پڑے پلاسٹک کے تھیلوں کی فصل لہلہانے اور پھڑپھڑانے لگتی‘ جن میں سب سے نمایاں گندے موبل آئل کی تلچھٹ سے بنائے گئے کالے رنگ کے لفافے تھے۔ گاڑیاں تیز رفتاری سے گزرتیں تو سڑک پر بکھرے اور ہر سُو آوارہ اُڑتے ہوئے شاپنگ بیگز کچھ دور تک ان کے تعاقب میں لپکتے جیسے وہ اِس سیاہ رُو ماحول کی نحوست سے نجات کی خاطر فرار چاہتے ہوں۔
کچرے سے لبالب بھرے ٹوٹے پھوٹے ڈرموں کے اردگرد ایسی کھمبیوں کی فصل اُگ آئی تھی‘ جنہیں کھا کر ہر خواہش اور آزار سے چھٹکارا پایا جا سکتا تھا۔ ڈرموں کے حصار میں ایک بلی سہمی بیٹھی تھی۔ قریب ہی اشرف مخلوق کا ایک نمائندہ لباس سے تقریباً بے نیاز تارکول سے بٹی ہوئی رسیوں سے بُنے ٹاٹ پر براجمان اپنے سامنے ایک ڈھیری پر بے حس و حرکت پڑے بہت موٹے تازے چوہے کو گھور رہا تھا۔ چوہے کی بڑی بڑی آنکھیں بندے کو حیرت سے تکے جا رہی تھیں۔ چُوہے اور بندے کی کھال ایک ہی مرکب سے بنی ہوئی لگتی تھی۔ دونوں ایک دوسرے میں کسی قدرِ مشترک کے متلاشی تھے۔ تاہم بندہ اب کسی نعمت کا محتاج نہیں رہا تھا۔ اُس کے سر پر ڈیزل کے دھوئیں سے بنے بالوں کی بہت بڑی جھاڑی نما چھتری سایہ فگن تھی۔ اسی میٹریل سے بنی ہوئی چند چھوٹی بڑی مزید جھاڑیاں بھی اس کے مستقل اور قدرت کے عطا کردہ اثاثے کا حصہ بن چکی تھیں۔ وہ کامل سکون اور سکوت کی تصویر بنا بیٹھا تھا۔ تازہ آثار سے ظاہر تھا کہ نجس مخلوق کے نمائندے سے جو مرحلہ بھرپور اعصابی قوت صرف کرنے کے باوجود طے نہ ہو سکا‘ یہ بندہ بشر اس سے سرخروئی حاصل کر چکا تھا۔ جیسے زمین پر اپنی نیابت کے منصب سے کسی اگلی منزل پر ترقی پا چکا ہو۔ دونوں پاﺅں کے درمیان کثیف سا کیچڑ نما مائع کسی سمت بہہ نکلنے سے عاجز چھپڑی کی صورت اختیار کر گیا تھا۔ پاس ہی سات آٹھ رنگ برنگے ڈسپوزایبل سیفٹی ریزرز‘ پرندے کا بڑا سا پر‘ کالے کیچڑ سے لت پت ایک نکٹائی‘ ایک ٹوٹی ہوئی لڑیوں والا سہرا اور بوسیدہ سنہری ہار‘ چند بال پین‘ عینک کا ایک فریم جس میں بائیں طرف صرف تین چوتھائی شیشہ اٹکا ہوا تھا‘ چھوٹا سا گول آئینہ‘ ٹوٹا ہوا ادھورا فونٹین پین‘ لپ اسٹک‘ بیوٹی کریم اور ٹالکم پاﺅڈر کے خالی کین‘ دیمک زدہ کٹی پھٹی اور کئی طرح کے پرانے اور تازہ دھبوں سے لتھڑی ہوئی ایک نوٹ بک بھی رکھی تھی۔ پلاسٹک سے بنا کھلونا ٹیلیفون اس نے رسّی سے باندھ کر گلے میں ڈال رکھا تھا۔
بندے نے آئینہ اُلٹے ہاتھ میں لیا اور سیدھے سے چہرے کو ڈھکے جھاڑی ٹٹولنے لگا۔ ہونٹ برآمد کر کے آئینے میں سے ملاحظہ کیے اور دوسرے ہی لمحے انہیں لپ سٹک سے رنگنے کی کوشش کرنے لگا۔ چہرے پر ہر سیفٹی کو آزمایا لیکن مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہو سکے۔ ٹالکم پاﺅڈر کے خالی کین سے گردن اور بغلوں میں چھڑکاﺅ کیا۔ میک اپ سے فارغ ہو کر اُس نے پاس پڑی قریباً ایک گز لمبی آہنی تار کے ذریعے کوڑے کے ڈھیر میں سے اخباری کاغذ کی ایک بہت بڑی گیند اُچک لی۔ اسے اطمینان سے کھولا تو چر مر کیے ہوئے اخبار میں سے سوکھے رس برآمد ہوئے‘ جن میں سے ایک بہت بڑا کاکروچ نکل کر بھاگنے لگا تو بندے نے اسے پکڑکر واپس رکھنا چاہا۔ کاکروچ بڑا پھرتیلا ثابت ہوا۔ بندے کی کئی پُرخلوص کوششوں کے باوجود کاکروچ اپنے سابقہ مقام کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوا اور بالآخر کوڑے کے ڈھیر میں غائب ہو گیا۔ اس نے پشیمان ہو کر ماتھے پر ہاتھ مارا۔ جلد ہی سنبھل گیا اور اخبار کو زمین پر پھیلا کر ہاتھوں کی استری سے اس کی سلوٹیں درست کیں۔ یہ ایک قومی روزنامے کا صفحہ¿ اوّل تھا۔ سامنے ہوٹل کی چھت پر ایستادہ بلندیوں کو چُھوتی ہوئی ہنستی مسکراتی شخصیت کا بیان ذیلی شہ سرخی کی صورت میں نمایاں تھا۔ ”ہم اگلی صدی میں بڑے وقار سے داخل ہوں گے۔“ نیچے دائیں جانب تحفظِ ماحولیات کا اشتہار تھا۔ ساتھ ہی تین کالمی سرخی کے تحت ایک خبر تھی۔ ”پرائمری سکول ٹیچر نے قرض اور تنگ دستی سے نجات حاصل کرنے کے لیے اپنی بیوی‘ تین بچوں‘ بیوہ بہن اور ماں کو قتل کر کے خودکشی کر لی۔ مرنے والا ایک نہایت ہی شریف اور شفیق انسان تھا۔ اسے اپنی بیوی بچوں‘ بہن اور ماں سے بڑی محبت تھی۔ اہل محلہ کے تاثرات۔“
اخبار تہ کر کے بندے نے فون کان سے لگایا۔ انگلی سے درجنوں بار کوئی نمبر ڈائل کیا لیکن مطلوبہ رابطہ نہ ہو سکا تو ماتھے پر ہاتھ رکھے کتنی ہی دیر تک ساکت بیٹھا رہا۔ بالآخر اپنے سارے مادی وسائل ایک کالے شاپنگ بیگ میں بھرے، سہرا ماتھے پر سجایا‘ ہار اور نکٹائی گلے میں ڈالی‘ پرندے کا بڑا سا پر اپنے سر پر سایہ فگن چھتری میں اڑس لیا۔ کھڑا ہو کر ٹاٹ کو نچلے دھڑ کے گرد لپیٹا۔ آس پاس چھوٹی مالیت کے کئی کرنسی نوٹ گرے پڑے تھے۔ سیدھے پاﺅں سے جھاڑو کا کام لیا۔ سارے نوٹ چھپڑی میں ڈبو دیے اور کسی اگلی منزل کی جانب گامزن ہو گیا۔
گائے کچرے میں سے پھل اور سبزیاں کھا چکی تو Supplement کے طور پر انواع و اقسام کی تھیلیاں نلکیوں اور سوئیوں سمیت نگلنے لگی‘ جن میں گلوکوز اور توانائی بخش دوائیوں کے تھوڑے بہت محلول بچ رہے تھے۔ گائے نے یکایک جبڑے ساکت کر لیے‘ چند ساعتوں کے لیے کسی مسئلے پر غور کیا‘ پھر نتھنے پُھلا کر فضا میں موجود ہوا ممکنہ حد تک اپنے پیٹ میں بھری اور دوسرے ہی لمحے ایک زوردار چھینک کے انداز میں باہر نکال دی‘ جیسے کسی ٹرالر کے بریکوں نے پریشر ریلیز (Release) کر دیا ہو۔ کُتّوں کو غالباً دھڑکا لگا ہوا تھا کہ گائے ان کا مقدر بھی نگل گئی ہے۔ وہ اُس پر غرائے اور پھر آگے بڑھ کر بھونکے تو گائے سست روی سے ایک طرف کو چل دی۔ ایک کوّا کسی موہوم امید کے سہارے گائے پر سوار ہو کر ہم راہ ہو لیا۔
تتلی اپنے آلودہ پروں کے ساتھ اُڑنے کی ناکام جدوجہد میں مصروف تھی۔ کوڑے کے ڈھیر پر بیٹھا نجس مخلوق کا نمائندہ (بندہ بشر جس پر سبقت لے گیا تھا) بڑی نقاہت اور بے دلی سے تتلی کو دیکھ رہا تھا‘ جو رینگتی ہوئی اس کی جانب بڑھ رہی تھی۔ کیچڑ سے لت پت تتلی کا ایک پر پنجے کی زد میں آکر الگ ہو گیا تو وہ بھمبھیری کی طرح گھومی اور تڑپی۔ تاہم اگلے ہی لمحے شکم رسید ہوئی۔ گویا اپنی جان پر کھیل کر کسی کو کامیابی سے ہم کنار کر گئی۔
ٹکاٹک کی لے پر گُردے کپورے بُھننے‘ کوئلوں پر تکے کباب سِکنے اور مچھلی تلنے کی تیز مصالحے دار مہک فضا میں بسی ہوئی بوجھل کھرانڈ اور سڑاند کے ساتھ گڈ مڈ ہو رہی تھی۔ برکت آہستہ آہستہ تانگوں میں گھرے ایک ٹھیلے کی طرف سرکنے لگا تاکہ وہاں موجود گاہکوں کو لین دین کرتے ہوئے دیکھ سن کر اندازہ کر سکے کہ روٹی کباب کتنے میں بک رہا ہے۔ ٹھیلے والا خاصا صفائی پسند ثابت ہوا۔ ہلکے جھکڑ چل رہے تھے۔ ٹھیلے پر پڑے مال تجارت کا وزن اور حجم بے طرح بڑھنے لگا تو قناعت پسند مالک نیچے جھکا۔ ناک میں پھنسی ہوئی سانس بحال کرنے کے لیے انگلی اور انگوٹھے کا سہارا دیا۔ پھیپھڑوں کا پورا پریشر ریلیز (Release) ہوتے ہی ڈیڑھ دو تولے کا معرکہ سر ہو گیا۔ انگلیاں دھوتی سے صاف کیں۔ ٹھیلے کی نچلی منزل سے ٹین کا ڈبا نکالا اور قریب ہی طغیانی پر آئے ہوئے گندے نالے میں سے بھر بھر کر ٹھیلے کے اردگرد چھڑکاﺅ کرنے لگا۔ غالباً اِس حکمت ِ عملی کے تحت کہ جھکڑ چلنے سے مٹی نہ اُڑے اور گاہک مطمئن رہیں۔ فضا میں پہلے سے موجود کھرانڈ ناک اور منہ ڈھانپ کر کہیں چلتی بنی۔ ڈبّا واپس اصل مقام پر سنبھال کر رکھا۔ ہاتھ دھوتی سے پونچھ ڈالے۔ معمول کے کام میں جتنے سے پہلے اچانک کسی خیال کے تحت واپس پلٹ آیا۔ تیز تیز قدموں سے ٹونٹی کے پاس پہنچا۔ پہلے سے بڑھے ہوئے کئی ہاتھوں کو پچھاڑ کر جلدی جلدی پہونچے بھگوئے اور دھوتی سے پونچھ ڈالے۔ واپس ٹھیلے پر آن کر پروسنے کے عمل میں پوری تندہی سے مشغول ہو گیا۔
برکت کو زیادہ جستجو نہیں کرنا پڑی۔ قیمت کا یقین ہوا تو جھٹ ادائیگی کی اور دو روٹیوں پر دو ہی کباب اور چٹنی ڈلوا کر دور ہٹ گیا۔ پہلے نوالے پر راز کھلا کہ وہ قیمے کے کباب کی بجائے آلو‘ آٹے اور چنے کی دال یا ان سب ماکولات کے آمیزے سے بنی ٹکیاں کھا رہا ہے۔ مکھیوں کو افراتفری پڑی تھی۔ شاید وہ جان گئی تھیں کہ تساہل کی صورت میں ہاتھ پر سجامن وسلویٰ چٹ ہو جائے گا۔ ٹکیاں گرم تھیں۔ مکھیاں لینڈ کرتے ہی ٹیک آف کر جاتیں اور پھر روٹی کے بچھے رن وے پر ٹیکسی کرنے لگتیں۔ چمک دار گہرے Metalic ٹرکوائز بلیو رنگ کی ایک کنگ سائز مکھی بڑی زوردار بھنبھناہٹ کے ساتھ شریک ِدعوت ہوئی لیکن دسترخوان پر گوشت کی بجائے آلو آٹے اور چنے کی دال سے بنی ٹکیہ پاکر دھوکہ دہی کی اس واردات پر بپھر گئی تو مایوس کرنے والے میزبان کا خون چوسنے کے لیے چہرے اور ہاتھوں پر تابڑ توڑ حملے کرنے لگی۔ تناول ماحضر کی تکمیل سے پیشتر فضا میں تیرتے ہوئے کئی طرح کے اجزا خوراک میں شامل ہو چکے تھے۔ خصوصاً باریک Mesh کیا ہوا بھوسا جسے گرم مصالحے کا کوئی جزو تصور کر کے ہم راہ نگل لینے میں ہی عافیت کا پہلو پوشیدہ تھا۔ جملہ اضافوں سمیت سب کچھ نوش جان ہو چکا تو رفاعِ عامہ کے سمبل اور ثبوت کے طور پر نصب سرکاری نل سے بِنا کچھ ادا کیے بہت سا پانی بے دریغ اندر انڈیل لیا۔
مزید ضبط کرنا دشوار ہو رہا تھا۔ ایسے محسوس ہونے لگا جیسے مثانہ پھٹ جائے گا۔ برکت کے چاروں طرف مردوں عورتوں اور بچوں کا ایک جمِ غفیر تھا‘ گویا انسانوں کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہو۔ اس سمندر میں جا بجا رکشوں‘ تانگوں‘ ویگنوں اور بسوں کے جزیرے اور تودے ابھرتے اور سرکتے تیرتے دکھائی دے رہے تھے۔ شور ہنگامہ‘ گرد‘ دھواں‘ پے در پے چیختے ہارن‘ غراتے ہوئے انجن‘ ہاکروں کے نعرے اور خوانچہ فروشوں کی صدائیں بلند ہو رہی تھیں۔ دائیں بائیں آگے پیچھے تیز تیز قدموں سے وہ دور تک گیا لیکن کہیں بھی جائے امان نہ ملی۔ خود کو مزید بھینچنا ممکن نہ رہا۔ پیشتر اس کے کہ کھڑے کھڑے بے اختیار اس سے کچھ سرزد ہو جاتا اور نیابت کا منصب چھن جاتا‘ کہ اچانک اس کی نظر قریب ہی کھڑی ایک لاری کے اگلے پہیے کی طرف اٹھ گئی‘ جس کے ساتھ لگ کر پنجوں کے بل بیٹھا ایک شخص بڑی یک سُوئی سے ٹائر کے نچلے حصے کی گڈیاں دھو رہا تھا۔ یہ حوصلہ افزا منظر دعوت تقلید دینے لگا۔ برکت جھٹ پچھلے ٹائر کے ساتھ لگ کر بیٹھ گیا۔ وہی تیزابی محلول جو کتنی ہی دیر سے دہکتی ہوئی آہنی سلائی کی مانند اس کا اندرون چھید کر راستہ بنانے کے درپے تھے‘ اب نہ جانے کہاں اٹک کر رہ گیا۔
اسی اثنا میں اگلے ٹائر کے ساتھ بیٹھا شخص اٹھ گیا۔ اُس نے آسودہ لہجے میں گیت گنگناتے ہوئے تسلی سے گرہ لگائی۔ موتیوں والے پھندنوں سے مزین آزار بند کے دونوں سرے نیفے میں اس انداز سے اڑس لیے کہ قمیض کے چاک میں سے جھانکتے رہیں۔ شلوار کے بل درست کرتے ہوئے گردن گھما کر اِدھراُدھر دیکھا اور آناً فاناً نعرہ بلند کیا۔ ”آجاﺅ نان سٹاپ! جس جس نے جانا ہے بلو کے گھر۔“ اگلے ہی لمحے اس نے بس کی باڈی پر ایک زوردار ہاتھ مارا اور چیخ کر بولا۔ ”جانے دو استاد جی!“ پہلے سے اسٹارٹ بس کا انجن بڑے زور سے غرایا۔ دھوئیں کے بادل نے برکت کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ وہ ابھی سنبھل ہی نہیں پایا تھا کہ ہجوم اور اس کے مابین حائل دیو قامت لاری کی دیوار غائب ہو گئی۔ ”جنگلی“ اور ”جانور“ کے القابات سے نوازا جا چکا تو ایک رحم دل نے اسے نجات کا راستہ بتا دیا۔
برکت سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ فرڈی اتنی آسانی سے مل جائے گا۔ شہر آنے سے پیشتر اُسے اتنا ہی علم تھا کہ فرڈی جنرل بس اسٹینڈ سے ملحقہ کچی آبادی میں رہائش پذیر ہے اور بڑی عیش و عشرت کی زندگی بسر کر رہا ہے۔ ویگن سٹینڈ کے عین درمیان تنگ سے گندے نالے پر دو اڑھائی فٹ چوڑا‘ تقریباً تین فٹ لمبا اور بمشکل ساڑھے پانچ فٹ اونچا کریٹوں کی پھٹیوں سے بنا کیبن رکھا ہوا تھا‘ جس کے چاروں طرف موٹے حروف میں لکھ رکھا تھا۔ ”فلش سسٹم‘ چھوٹا بڑا پیشاب دو روپے میں۔“ دروازے پر یہ عبارت نمایاں طور پر لکھی ہوئی تھی۔ ”رقم پیشگی ادا کریں۔“ نکلتے ہوئے قد کے حامل حاجت مند کو سر جھکا کر اندر داخل ہونا پڑتا تھا۔ باہر والوں کو کھلی آنکھوں سے بند کیبن کے اندر کا منظر دکھائی نہیں دیتا تھا۔ لیکن اندر بیٹھا شخص اگر چاہے تو پھٹیوں کی درزوں میں سے باہر لمحہ بہ لمحہ بدلتی صورتِ حال کا جائزہ لے سکتا تھا۔ تاہم اندر بیٹھنے کا عمل ایک خاص طرح کی حکمت اور احتیاط کا متقاضی تھا‘ وگرنہ کمر یا گھٹنوں کے دباﺅ سے کیبن کی کوئی ایک آدھ چوبی پھٹی اکھڑ بھی سکتی تھی۔ دن کے اوقات میں اندرون کیبن جھٹ پٹے کا سا سماں ہوتا۔ جب کہ رات کی تاریکی میں انسان کی جبلت ہی اس کی رہنمائی کر سکتی تھی۔
فرڈی یقینا ایک زیرک منتظم تھا۔ برکت کے لیے وہ پہلے دن نجات دہندہ ثابت ہوا اور تاحال اسی طرح حسنِ سلوک سے پیش آ رہا تھا۔ حاجت مندوں سے اس کا رویہ سخت اور روکھا سا تھا۔ باہر آنے میں اگر کسی کو ذرا دیر ہو جاتی تو وہ کیبن کی دیوار کو بلا جھجک جھنجھنا دیتا۔ دن بھر اُس پر دو دو روپے کی برسات ہوتی رہتی۔ حاجت مندوں کی قطار لگ جاتی تو فرڈی گردن اکڑائے کیبن کے ساتھ پڑے بینچ پر بیٹھا نوٹوں کے مڑے تڑے کنارے سیدھے کر کے تھتھیاں بناتا رہتا۔ بنچ پر نمدا بچھا رکھا تھا۔ کاروبار کے معاملے میں ذرا سی غفلت کا بھی روادار نہیں تھا۔ وہاں ہی بیٹھے بیٹھے کھانا کھا لیتا اور قریباً ہر دو گھنٹے بعد چائے نوش کرتا۔ سگریٹ بھی ایسے پیتا جن کی دُم پیلے رنگ کی ہوتی۔ برکت اُس کی کامیاب زندگی اور مستحکم مالی حیثیت پر حیرت زدہ تھا۔ شام کے بعد فرڈی گرم حمام پر غسل کرتا اور پتلون پہن کر نکل آتا۔ رات کی شفٹ کا چارج لینے کے لیے پَیٹی کنٹریکٹر پہنچ جاتا تو فرڈی اُس سے ڈیڑھ سو روپے پیشگی وصول کر کے جیب میں ڈالتا اور موٹرسائیکل پر سوار ہو کر نکل جاتا۔ برکت جان گیا تھا کہ فرڈی اپنی بیوی کو ہم راہ لے کر سیر کرتا ہے۔ دونوں تکے کباب کھاتے ہےں اور فلم بھی دیکھتے ہےں۔
برکت قسمت آزمانے کے لیے شہر آیا تھا۔ وہ اپنے ممبر صاحب سے بھی ملا تھا کہ کسی روزگار پر لگانے کی درخواست کر سکے۔ اپنے ممبر صاحب نے کام دلوانے سے انکار نہیں کیا تھا لیکن شرط عائد کر دی کہ برکت خود کوئی کام تلاش کر کے انہیں بتائے تاکہ وہ سفارش کر کے یا دباﺅ ڈال کر اسے روزگار پر لگاسکیں۔ زیادہ تر لوگ ممبر صاحب کو برے بھلے الزامات اور القابات سے نوازتے رہتے لیکن برکت کو اِس سے کوئی غرض نہیں تھی۔ وہ اس کی پوری برادری کے اپنے ممبر صاحب تھے‘ جنہیں یہ سب لوگ ہر مرتبہ ووٹ دیا کرتے۔ فرڈی بھی ممبر صاحب کے سخت خلاف تھا اور برکت کے ہونٹوں پر اس کا ذکر آتے ہی بگڑ کر کہتا۔ ”اس کی…. مت نام لیا کرو اس…. کا۔“ برکت کو فرڈی نے ہی بتایا تھا کہ ممبر کا حلقہ شہر کے مضافات سے شروع ہو کر بہت دور دور تک پھیلا ہوا ہے جس میں یہ لاری اڈہ اور برکت کا گاﺅں بھی شامل ہے۔ بقول فرڈی‘ خود اُس نے اور کچی آبادی کے پیشتر لوگوں نے ممبر صاحب کو کبھی ووٹ نہیں دیے۔
کام کی تلاش میں برکت دن بھر مارا مارا پھرتا لیکن کسی مناسب روزگار کا حصول ممکن نہ ہو سکا۔ فرڈی کا سہارا غنیمت تھا۔ اسی نے برکت کو ترغیب دی کہ وہ اڈے پر ناریل بیچے۔ تربیت دینے کے لیے فرڈی نے گلا پھاڑ پھاڑ کر نعرے لگائے۔ ”اے کچی گری اے۔“ لیکن برکت اس بزنس میں بری طرح ناکام ہوا۔ آواز اُس کے حلق میں خودکشی کر لیتی۔ اکثر کسی نہ کسی راہ گیر کا دھکا لگ جاتا اور کبھی وہ خود ٹکرا جاتا۔ زمین پر بکھرے ناریل کے ٹکڑے اکٹھے کر کے ٹونٹی پر دھو لیتا اور ٹرے میں پھر سے سجا کر بینچ کے نیچے یا کیبن کی چھت پر رکھ دیتا اور اپنی سانسیں اور حوصلہ بحال کرنے کے لیے دیر تک بیٹھا رہتا۔ برکت کے خیال میں فرڈی والا کاروبار ہی درحقیقت آسان ترین اور پسندیدہ تھا‘ جس میں روپیہ ازخود دوڑتا ہوا چلا آتا اور مالک کو بذات خود کچھ بھی نہیں کرنا پڑتا تھا۔ فرڈی اب برکت کو ایک آدھ گھنٹے کے لیے ٹِھیّے پر چھوڑ کر کسی کام سے چلا بھی جایا کرتا تھا۔ اُس کو صبح کی چائے اور دو وقت کا کھانا مل جاتا تھا۔ اس کے علاوہ کیبن کے قریب برآمدے میں رات بسر کرنے کی سہولت اور تحفظ بھی حاصل تھا۔
رمضان شریف کا آغاز ہونے پر فرڈی کی کمائی میں مزید اضافہ ہو گیا۔ کئی لوگ صرف سگریٹ پھونکنے کے لیے کیبن میں گھستے۔ فرڈی کے دل میں روزہ خوروں کے لیے ذرا بھی نرم گوشہ نہیں تھا۔ وہ قدرے دھیمی آواز میں بغیر لگی لپٹی کے بات کیا کرتا: ”سگریٹ پینے کا ایک روپیہ اضافی دینا پڑے گا۔“ چونکہ کئی لوگ دوہرا تہرا استفادہ کر لیتے لیکن فرڈی اپنے کاروباری معاملات میں بڑا بدلحاظ تھا اور کیبن ویسے بھی ایک طرح کا نشریاتی ادارہ ہی تھا‘ جس میں کچھ بھی پوشیدہ رکھ لینا ممکن نہ تھا۔
برکت مایوس ہو گیا تو فرڈی نے رات کی شفٹ چلانے والے کو فارغ کر دیا اور انہی شرائط پر کام اس کے حوالے کر دیا۔ ڈیڑھ سو روپے فرڈی کو ادا کرنے کے باوجود قریباً سو سوا سو برکت کے حصے میں آجاتے۔ آمدنی معقول تھی لیکن دن بھر سونے کے لیے مناسب ٹھکانا نہ ہونے کی وجہ سے وہ بہت جلد تھک گیا۔ فرڈی اس کا دور پار کا رشتہ دار تھا۔ برکت کو اپنی بے سروسامانی کے مقابلے میں اُس کی مستحکم مالی حالت پر پہلے رشک آیا کرتا تھا لیکن اب اندر ہی اندر حسد کی آگ میں سلگنے لگا۔ دل میں خواہش بیدار ہوئی کہ کاش ایسا ہی ایک کیبن اِس کا اپنا ہو تو ساری کمائی جیب میں جائے۔
عید منائی جا چکی تھی۔ کوڑے کا ڈھیر ایک طویل و عریض اور بلند و بالا پہاڑی سلسلے کا روپ اختیار کر گیا۔ رنگ برنگی جھنڈیاں اور خیر مقدمی نعروں سے لبریز بینر ابھی آویزاں تھے۔ ”معزز کرم فرماﺅں اور اہلِ وطن کو عید مبارک۔“ بندہ اپنے جسم پر گڈی کاغذ کی رنگ برنگی جھنڈیاں لپیٹے اور سرین کے تین چوتھائی حصہ پر تارکول سے بنے ٹاٹ کو اُڑسے ایک ایک بینر کے سامنے رکتا۔ چند لمحے زیر لب کچھ بڑبڑاتا اور سیدھے ہاتھ کو ڈگڈگی بجانے کے انداز میں ایک آدھ بار حرکت دے کر آگے نکل جاتا۔ چائے خانے کے مالک نے اُس شخص کو خوش آمدید کہا اور چائے کا کپ پیش کیا مگر اس نے انکار میں سر کو جنبش دی۔ چائے والے نے حسب ِمعمول مسکرا کر اخبار دیا تو وہ لے کر زمین پر بیٹھ گیا۔ پہلا اور آخری صفحہ بچھا دیا۔ سربراہان اور قائدین کی جانب سے تہنیت کے پرخلوص پیغامات اور چند ایسی سرخیاں نمایاں تھیں۔ ”چاند رات کو میاں بیوی نے اپنے تینوں بچوں کو ہلاک کر کے خودکشی کر لی۔ عید کے دن ایک باپ نے دل برداشتہ ہو کر پل پر سے دریا میں چھلانگ لگا دی۔ ریلنگ کے پاس متوفی کے جوتے پڑے تھے اور قمیض سے کاغذ برآمد ہوا‘ جس میں لکھا تھا کہ وہ اپنے بچوں کے لیے عید پر نئے کپڑے اور جوتے نہیں خرید سکا۔ چار بچوں کی ماں نے خود کو زندہ جلا ڈالا۔ ایک اٹھائیس سالہ ایم اے پاس بے روزگار نوجوان نے ریلوے لائن پر لیٹ کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا۔ اُس کا سر کٹ کر دھڑ سے الگ ہو گیا۔ جیب سے دو رقعے برآمد ہوئے۔ ماں اور محبوبہ کے نام کہ دونوں اسے معاف کر دیں۔“ بندہ ریسیور کان سے لگائے ڈائل پر ڈائل کیے جا رہا تھا۔
ایک روز باتوں ہی باتوں میں برکت نے فرڈی سے پوچھ لیا کہ اگر ایک کی بجائے دو کیبن ہو جائیں تو اُس کی آمدن میں کیا کمی ہو جائے گی؟ فرڈی نے بتایا کہ بیس بھی ہوں تو کم ہےں۔ اصل مسئلہ جگہ اور منظوری حاصل کرنا ہے۔ یعنی کسی بڑے کو قائل کرنا۔ تاہم سرکار کو خیال آجائے تو کیا خبر ٹھیکا کسے ملے؟ فرڈی نے مزید بتایا کہ پیسے والے اور سفید پوش محض اس غرض سے اچھے ہوٹلوں میں گھس جاتے ہےں جہاں وہ دو روپے کی بجائے سو پچاس روپے خرچ کر دیتے ہےں۔ بہت سے ریلوے اسٹیشن چلے جاتے ہےں۔ جب کہ غریب غربا اِدھراُدھر کونوں کھدروں میں خوار ہوتے ہوئے مقامی لوگوں کی گالیاں سنتے ہےں۔
اڈے پر ایک کیبن نما بیت الخلا بنانے کے لیے اجازت حاصل کرنے کے سوال پر ممبر صاحب نے برکت سے کہا۔ ”اوئے احمق انسان! خواہ مخواہ قرض سر پر نہ چڑھا لینا‘ لوگ سارا دن کوئی یہی کام تو نہیں کرتے پھرتے۔ ایسا نہ ہو کہ بجائے کچھ کمانے کے ہاتھ ملتے رہ جاﺅ۔“ برکت نے موقع پر موجود طلب و رسد کی اصل صورتِ حال سے آگاہ کرنے کے ساتھ ساتھ فرڈی کی کمائی کے اعداد و شمار بتائے تو ممبر صاحب دنگ رہ گئے۔ فرڈی اور اُس کے سارے خاندان کو ممبر صاحب اچھی طرح جانتے تھے۔ انہوں نے اُسے دوچار ننگی گالیاں بکیں اور ملاقات کا وقت ختم ہونے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ متعلقہ حکام سے بات کریں گے۔
عوامی بیت الخلاﺅں کی منظوری مل گئی۔ پندرہ مردوں اور دس خواتین کے لیے۔ تعمیر کے مراحل بڑی تیزی سے طے ہونے لگے۔ منصوبے کی تکمیل تک اپنے ممبر صاحب بڑی تندہی سے خود نگرانی کرتے رہے۔ فرڈی کا کیبن پہلے ہی روز ناجائز تجاوز قرار دے کر گرا دیا گیا۔ فرڈی ڈھنڈورا پیٹتا پھرا کہ ممبر نے اندر خانے تعمیراتی کام کا ٹھیکا لے رکھا ہے اور پانچ ہزار روپے فی ٹائیلٹ کے حساب سے رشوت لے کر ایک دلال کے ذریعے بکنگ کر رہا ہے۔ فرڈی دہائی دیتا رہا لیکن کسی کے کان پر جوں نہ رینگی۔ لوگ خوش تھے کہ چلو کسی نہ کسی طرح ایک بنیادی سہولت مہیا ہو گئی۔ فائدہ خواہ کالا چور اٹھائے‘ ان کی بلا سے۔
فرڈی نینڈ دن بھر کسی کام کی تلاش میں سرگرداں رہتا۔ اُس نے دلال سے مل کر پانچ کی بجائے سات آٹھ ہزار روپے کی پیش کش کر دی تاکہ کم از کم ایک لیٹرین حصے آجائے لیکن دلال نے کئی روز کے بعد ٹکا سا جواب دے دیا تو معلوم ہوا کہ ممبر نے مضبوط مالی حیثیت کی حامل واحد پارٹی کا معاہدہ لمبی مدت کے لیے کروا دیا ہے اور خوب موٹی رقم وصول کی ہے۔ برکت مسیح مایوس ہو کر گاﺅں واپس جا چکا تھا۔ نو تعمیر شدہ بیت الخلاﺅں پر نرخ نامہ آویزاں ہو گیا۔ ”چھوٹا ایک اور بڑا دو روپے میں۔“
افتتاح کے موقع پر دکانداروں نے ممبر صاحب کی خوب پذیرائی کی اور گلے میں ہار ڈالے۔ پریس والوں نے عظیم عوامی منصوبے اور ممبر صاحب کی تصویریں بنائیں۔ وہاں پہلے ہی خاصا ہجوم تھا‘ اس لیے چھوٹے موٹے جلسے کی سی صورت بن گئی۔ ممبر صاحب بڑے فخر سے تقریر کرنے لگے۔ ”مجھے رفاہِ عامہ کے کام کر کے روحانی خوشی نصیب ہوتی ہے۔ میرے بھائیو! میں بڑا حساس شخص ہوں۔ یہ میرا حلقہ¿ نیابت ہے۔ مجھ سے آپ لوگو ںکی تکلیف دیکھی نہیں جاتی تھی۔ اس لیے میں نے ذاتی دلچسپی لے کر اپنی نگرانی میں یہ منصوبہ پایہ¿ تکمیل تک پہنچایا۔“ ممبر صاحب نے ہوٹل کی طرف اشارہ کیا‘ جس کی چھت پر قد آور سیاسی شخصیت لبوں پر دل آویز مسکراہٹ لیے بڑی بلندی سے نیچے حشرات الارض کی طرح موجود خلقت کو دیکھ رہی تھی‘ اور کہا۔ ”ہم اپنے اس عظیم قائد کی قیادت میں ملک کی تقدیر بدل ڈالنے کی قسم کھائے بیٹھے ہےں اور اس شہر کو پیرس بنانے کا عزم کیے ہوئے ہےں۔“
ہجوم سے ذرا پرے قدرت کے عطا کردہ کشنز (Cushions) کے بل بیٹھا بندہ بشر بڑی توجہ سے تقریر سن رہا تھا۔ اُس کی دونوں ٹانگیں ادھ کھلے چاقو کا روپ اختیار کیے ہوئے تھیں۔ پاس ہی کالے شاپنگ بیگ میں محفوظ قیمتی اثاثہ پڑا تھا۔ اُس نے کسی کو بھی بلو کے گھر جانے کی دعوت نہیں دی‘ تاہم اپنی ایڑیوں کے قریب چھپڑی لگا رکھی تھی۔ جانے کس بات پر بے چین ہوا‘ اٹھا تو جھٹ ٹیلی فون کان سے لگا لیا اور نمبر ڈائل کیا۔ اگلے ہی لمحے چونک کر آسمان کی طرف دیکھا اور سر کی ہلکی جنبش کے ساتھ بڑے پرجوش انداز میں بڑبڑانے لگا۔ گویا رابطہ ہو گیا ہو البتہ رازداری پیش نظر ہو۔ لیکن جلد ہی انتہائی مایوسی کے عالم میں گردن جھکا لی۔ ریسیورہاتھ میں سے چھوٹ کر پیٹ پر لٹکی جھاڑی میں الجھ چکا تھا۔ چند ساعتوں کے لیے ماتھے پر ہاتھ رکھے کچھ سوچتا رہا اور پھر شاید کسی نتیجے پر پہنچ کر ٹوٹا ہوا فونٹین پین اور ڈائری نکال لی۔ ڈائری کا کوئی ایک ورق بھی خالی نہیں بچا تھا۔ تاہم اُس نے ناک پر عینک جمائی اور چھپڑی میں ڈوبے لگا لگا کر عصرِ حاضر پر اپنے تاثرات درج کرنے میں منہمک ہو گیا۔

محمد الیاس

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
ایک اردو افسانہ از محمد الیاس