آپ کا سلامابصار فاطمہاردو افسانےاردو تحاریر

جذبات کے اظہار

افسانے کی حقیقی لڑکی از ابصار فاطمہ سے اقتباس

اسے یونہی خیال آیا کہ دادی کو تو ویسے بھی نفیس آنٹی پسند نہیں تھیں۔
اس کی ان کے پاس ایک بہت مضبوط وجہ تھی وہ یہ کہ وہ باہر مردوں کے ساتھ کام کر کے پیسے کماتی ہیں۔ دادی کے مطابق عزت دار عورت بھوکی مرجاتی ہے مگر خود کو مردوں میں لے جاکر ذلیل نہیں کرتی۔ ان کے خیال میں باہر نکل کر کام کرنے والی عورتیں صرف مردوں سے بات کرنے کے شوق میں گھر سے باہر نکلتی ہیں۔ بسمہ بھی دادی کی باتوں پہ آنکھیں بند کرکے یقین کرتی تھی مگر اس کے باوجود نفیس آنٹی سے مل کر اسے ہمیشہ بہت اچھا لگتا تھا۔ وہ ہمیشہ فائزہ سے بہت نرم لہجے میں بات کرتی تھیں دادی کے بقول اسی نرمی نے فائزہ کو بگاڑ دیا ہے لڑکیوں والی حیا شرم تو ہے ہی نہیں اس میں بے نتھا بیل بن گئی ہے۔ جبکہ امی کا خیال تھا کہ یہ صرف دکھاوا اور منافقت ہے ہر ماں اپنی اولاد سے ایسے ہی بات کرتی جیسے امی کرتی ہیں کچھ مائیں دوسروں کے سامنے منافقت دکھاتی ہیں جو امی کو نہیں آتی کرنی۔
پہلے کبھی اس نے ان باتوں پہ غور ہی نہیں کیا بس جو اور جیسا دادی اور امی نے کہہ دیا اس نے مان لیا۔ اب اسے حیرت ہورہی تھی کہ وہی باتیں الگ زاویئے سے نظر آرہی تھیں جن پہلووں پہ اس نے کبھی غور نہیں کیا آج اسے اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ بھی سامنے کی ہی باتیں تھیں جنہیں وہ نظر انداز کرتی رہی۔ اس نے نفیس آنٹی کو کبھی برقعہ پہنے نہیں دیکھا جس پہ امی اور دادی دوسری محلے کی عورتوں کے ساتھ ان مل کے خوب باتیں بھی بناتی تھیں مگر محلے کے تقاریب میں نفیس آنٹی کا لباس امی اور ان دوسری تمام عورتوں سے زیادہ شائستہ ہی ہوا کرتا۔ وہ امی کی طرح خوبصورت نہیں تھیں مگر ان کی خود اعتمادی ان کی کم صورتی پہ حاوی رہتی۔ جبکہ امی کی کوشش ہوتی کہ جب وہ خوبصورت ہیں تو ہر تقریب میں وہی چمکتی نظر آئیں۔ ہر تقریب میں جاتے ہوئے انہیں لگتا کہ آج تو ان کی تیاری نفیس آنٹی کو جلا دے گی مگر کبھی ایسا نہیں ہوا۔ پتا نہیں کیسا مقابلہ تھا یہ یک طرفہ۔ امی کا وزن عمر کے ساتھ بڑھ رہا تھا مگر ان کی کوشش ہوتی کہ کپڑوں کا ناپ وہی پرانا رہے وہ پڑوس کی عورتوں میں بیٹھ کے فخر سے کہتی تھیں کہ بچے جوان ہوگئے مگر ان کا اور ان کی بڑی بیٹی کے کپڑوں کا ایک ناپ ہے۔ جو فرق نفیس آنٹی اور امی کی ڈریسنگ میں تھا وہی اس کی اور فائزہ کی ڈریسنگ میں تھا۔ ویسے فائزہ ہر جگہ سادہ دوپٹہ اوڑھ کے جاتی وہ بھی کبھی سر پہ کبھی گلے میں مگر ہمیشہ سادے کپڑے ہوتے چاہے کوئی تقریب ہی کیوں نا ہومگر بسمہ کو امی باہر جاتے میں بار بار ٹوک کے دوپٹہ اور اسکارف سر پہ رہنے کی تاکید کرتیں مگر شادیوں میں کبھی اسکارف نہیں پہننے دیتی تھیں۔ پچھلی ایک دو شادیوں میں تو پارلر سے ہیئر اسٹائل بھی بنوایا تھا۔
بسمہ سوچے جارہی تھی اور سوچیں تھیں کہ ختم ہی نہیں ہورہی تھیں۔ بس گل بانو کی طرف دھیان جا بھی رہا تھا تو وہ خود سے جھٹک دیتی تھی۔ رات کے کھانے تک اسے اپنی طبیعت کافی بہتر محسوس ہونے لگی تھی۔ مگر اب بھی چلتے میں یا کوئی کام کرنے میں ہاتھ کانپتے محسوس ہورہے تھے۔ مگر کھانا کھا کے وہ برتن دھونے کھڑی ہوگئی دماغ پہ ایک دھن سی سوار ہوگئی تھی کہ دادی اور امی کو دکھانا ہے کہ وہ نا تو کمزور ہے نا بے حس۔ برتن دھوتے میں دو بار وہ تھک کر بیٹھ گئی مگر تھوڑا سستا کر دوبارہ کام میں لگ گئی اور برتن پورے کر کے ہی چھوڑے۔ آہستہ آہستہ صبح کے لیئے یونیفارم پہ استری کی۔ یہ سب کر کے ہی اتنی تھکن ہوگئی کہ وہ بستر پہ لیٹتے ہی سو گئی۔
اگلی صبح سے سب پہلے جیسا روٹین تھا۔ وہ فائزہ سے گل بانو کے بارے میں بات ہی نہیں کر رہی تھی۔ وہ میاں بیوی کے رشتے کی نزاکت اور رومانویت برقرار رکھنا چاہتی اسے ڈر تھا کہ اس نے تفصیل سے بات کی تو یہ سب ختم ہوجائے گا وہ چاہتی تھی کہ دادی کی بات کامطلب وہ رہے جو وہ سمجھنا چاہتی ہے وہ نا ہو جو نفیس آنٹی نے بتایا۔ یہ کوئی اتنی سی بات نہیں تھی اس کے تصورات کی افسانوی دنیا کا دارومدار اسی نازک رومانوی تعلق پہ تھا۔ وہ جو کچھ یہ سب تصور کرتے ہوئے محسوس کرتی وہ سب سے منفرد تھا وہ اس احساس کو کھونا نہیں چاہتی تھی۔ دن رات تیزی سے گزرتے جارہے تھے میٹرک کا سال پورا ہورہا تھا۔ امی اب ہر چھوٹی بڑی تقریب میں اسے تیار کروا کر لے جاتیں اور ہر خاتون سے اس کا تعارف کرواتیں اور یہ بتانا نہ بھولتیں کہ بڑی دونوں بیٹیاں بیاہ دی ہیں اور بسمہ بھی میٹرک کرنے والی ہے بس جیسے ہی کوئی شریف خاندان ملا اس کے فرض سے بھی سبکدوش ہونا ہے۔ اس سب کے دوران پتا نہیں کیوں ناچاہتے ہوئے بھی بسمہ کا جسم کچھ سیکنڈز کے لیئے ٹھنڈا پڑ جاتا اور سانس رکتی محسوس ہوتی۔
اسے پتا بھی نہیں چلا کہ کب اس کے دل میں خوف بیٹھ گیا
سوتے میں عجیب سے خواب آتے کبھی وہ دیکھتی کہ وہ دلہن بنی ہوئی ہے اور فائزہ کہہ رہی ہوتی زبردستی کی شادی رومینٹک ہوتی ہے کیا؟ کبھی دادی کہہ رہی ہوتیں کہ ظالم نے وہ حال کیا تین دن اسپتال میں رہ کر آئی کبھی امی کہہ رہی ہوتیں اچھا ہوا بچی اپنے گھر کی ہوگئی۔ کبھی گل بانو نظر آتی مگر اسے لگتا کہ وہ گل بانو نہیں بسمہ خود ہے۔ کبھی گل بانو کی شکل بشرہ آپی سے ملنے لگتی۔
اس کے دل میں یہ خیال جڑ پکڑنے لگا کہ گھر والے شادی کرائیں گے تو اس کا بھی گل بانو جیسا حال ہوگا اور گھر والوں کو کوئی فکر نہیں ہوگی۔ اس کے دل و دماغ میں جنگ سے چھڑ گئی تھی۔ ایک طرف بچپن سے سیکھی ہوئی اقدار اور ایک طرف اس کا خوف جو اسے غیر منطقی لگ رہا تھا مگر پھر بھی وہ اس سے پیچھا نہیں چھڑا پارہی تھی۔ اسے پتا تھا کہ وہ اچھی بیٹی ہے اور والدین کی نافرمانی کبھی نہیں کرے گی مگر اسے یہ بھی لگتا تھا کہ گھر والوں نے زبردستی شادی کردی تو خوف سے اس کا دل رک جائے گا۔ گھر پہ شادی کی بات نکلتی تو وہ الجھنے لگتی۔ ایک دو دفعہ تو اس نے کہہ بھی دیا کہ امی مجھے ابھی شادی نہیں کرنی آپ لوگوں کے پاس رہنا ہے آپ کا اور ابو کا خیال رکھنا ہے۔
دوسری طرف اسکول جاتی تو جان بوجھ کر اسلم کے سامنے جاتی وہ اب چاہنے لگی تھی کہ اسلم اس سے کچھ کہے کسی طرح اسے اس ذہنی اذیت سے نکال لے۔ اس ماحول سے دور لے جائے۔ کبھی کبھی وہ سوچتی اسلم نہیں تو ارمغان ہی سہی۔ مگر زبردستی کی شادی نا ہو۔ پھر خود ہی خیال جھٹک دیتی، اتنی عام سی صورت والے بندے کے ساتھ پوری زندگی گزارنا اسے بہت مشکل لگتا تھا۔
جیسے جیسے سال ختم ہورہا تھا اس کی ٹینشن برھتی جارہی تھی اسلم کچھ کہتا نہیں تھا جبکہ اس کےانداز سے ہی ظاہر تھا کہ وہ بھی بسمہ کو پسند کرتا ہے۔ دوسری طرف گھر میں دولہا ڈھنڈائی کی مہم زور پکڑتی جارہی تھی۔ ایک دو دفعہ اس نے آگے پڑھنے کا بہانہ بھی کیا جسے سختی سے رد کردیا گیا۔ بقول دادی جب اگلے گھر جاکر چولہا چوکی کرنی ہے تو پیسا ضائع کرنے کا کیا فائدہ۔ ویسے بھی باپ بیچارا تین تین دفعہ جہیز جمع کرکے آدھا ہوگیا۔ تجھے کیا پتا بے بیاہی بیٹی کیسے سل جیسی ہوتی ہے ماں باپ کے سینے پہ۔ ساتھ ہی یہ طعنہ بھی ملتا کہ دماغ آسمان پہ پہنچ گئے ہیں تعلیم حاصل کر کے۔
اسے کبھی بھی اس طعنے کی وجہ سمجھ نہیں آتی تھی۔ اسے دن میں کئی بار دادی ابو امی برے بھیا سے یہ طعنہ یا اس سے ملتا جلتا طعنہ سننے کو ملتا ہی رہتا کہ وہ سست ہے، فضول خرچ ہے، بڑوں کا ادب لحاظ نہیں ہے یا اس کا دماغ آسمان پہ ہے وغیرہ اور وہ ہر دفعہ ہر طعنے کے بعد خود کو اور محدود کر لیتی۔ کپڑے عموما امی کی پسند سے آتے تھے روز کا جیب خرچ بیس روپے ملتا تھا جو کہ اسد کو 100 روپے ملتا تھا اور فرمائش پہ ہفتے میں دو تین بار زیادہ بھی مل جاتا کیونکہ وہ لڑکا ہےاور دوستوں کے ساتھ ادھر ادھر جاتا ہے تو خرچہ کرنا ہی پڑتا ہے۔
امی ہر تقریب میں بسمہ کے لیئے چمکیلے سوٹ کے ساتھ سیل سے چمکیلی سینڈل لے آتی تھیں مگر اسکول کے جوتے کب کے خراب ہورہے تھے وہ اگر کہتی بھی تھی کہ تلا گھس گیا ہے اور پیر میں تکلیف کرتا ہے تو کوئی نا کوئی دماغ آسمان پہ ہونے کا تاریخی جملہ بول دیتا اور وہ چپ ہوجاتی۔ بھیا کے پرانے جوتوں میں سے اندر کا تلا نکال کر کئی بار بدل چکی تھی۔
جنوری شروع ہوتے ہی فائنل ایگزامز؟اور فئیرویل کی تیاریاں ایک ساتھ شروع ہوگئیں۔ فائزہ کو تو کوئی ٹینشن نہیں تھی اس کا کہنا تھا کہ اس کے پاس کافی کپڑے پڑے ہیں اور بسمہ کو پتا تھا کہ ہمیشہ کی طرح اس کے کپڑے سادہ مگر جاذب نظر ہونگے بسمہ کو اپنے کپڑوں کی فکر تھی۔ جو چمکیلے کپڑے وہ نجی تقاریب میں پہن کر جاتی تھی اگر وہ اسکول میں پہن کر آجاتی تو دوسری لڑکیوں نے بہت مذاق اڑانا تھا۔ اور اسلم کیا سوچتا کہ اسے کوئی دریسنگ سینس ہی نہیں۔ اس نے عید پہ ملی ہوئی عیدی بھی بچا کے رکھی تکہ اپنی پسند کے کپڑے لے سکے۔ اب ساری ٹینشن امی سے اجازت لینے کی تھی۔ بہت سوچ سمجھ کر اس نے آہستہ آہستہ فئیرویل کی تیاریوں کا تذکرہ امی کے سامنے کرنا شروع کردیا۔ اسے پتا تھا امی زیادہ غور سے نہیں سنیں گی اس لیئے بار بار ایک جیسی باتیں دہراتی کہ کوئی بات تو ذہن میں رہ جائے گی۔ ایک دفعہ تو امی نے چڑکر کہہ دیا کہ بسمہ اجکل تم بہت دماغ کھانے لگی ہو لڑکیوں کی ہر وقت کی چیں چیں اچھی نہیں لگتی۔ کبھی وہ بتاتی کے آج ٹیچرز کے لیئے ٹائٹل نکالے کبھی یہ کہ کلاس کی دوسری لڑکیاں اپنے کپڑے دکھانے لائی تھیں اور کبھی بتاتی کہ لڑکوں نے اتنا شور مچایا کہ کوئی تیاری ہی نہیں کرنے دی۔ پھر ایک دن باتوں باتوں میں بات کو بہت سرسری سا بنا کر کہا
"امی آج ٹیچر کہہ رہی تھیں کہ آپ سب گھر کے کپڑوں میں آیئے گا۔ کلاس کی لڑکیاں بھی پوچھ رہی تھیں تم کیا پہنو گی۔” پھر خود ہی کہنے لگی
"امی میں سوچ رہی ہوں آپ نیئے سیزن کے لیئے جو کپڑے بنوائیں گی میں اس میں سے ایک رکھ لوں گی ۔ ایک بار فئیر ویل میں پہن کر گھر میں استعمال ہوجائے گا۔ اب فضول میں خرچہ کرنے کا کیا فائدہ؟”
امی حسب عادت جواب دیئے بغیر کام میں لگی رہیں۔
"امی بتائیں نا یہ ٹھیک رہے گا؟” اس نے اپنی عادت کے برخلاف اصرار کیا۔
"اف ہاں بھئی جو مرضی آئے کرو میرا دماغ نا کھاو”
وہ ایکدم ایکسائٹڈ ہوگئی۔
"امی میں ایک سوٹ فائزہ سے منگا لیتی ہوں وہ کوئی سادہ سا سوٹ لا دے گی کاٹن کا اوور نا لگے نا اسکول کے فنکشن میں۔ میں اسے کہوں گی سیل سے لے لے تھوڑے سے پیسے پڑے ہیں میرے پاس۔”
امی نے بےدھیانی میں سر ہلا دیا اور بسمہ خوشی خوشی اٹھ گئی۔
اگلے دن اسکول میں اس نے فائزہ کو پیسے دیئے اور پہلے سے سوچے ہوئے رنگ بھی بتا دیئے۔ اسے پتا تھا کہ اس کی اجلی رنگت پہ لال اور کالا رنگ بہت کھلتا ہے اور کالا رنگ دادی اور امی کو بہت دبتا ہوا اور سوگوار لگتا ہے تو انہیں کپڑے فینسی بھی نہیں لگیں گے۔ اس نے ساڑھے تین ہزار نکال کے فائزہ کو دیئے۔ فائزہ اتنے سارے پیسے دیکھ کر حیران سی ہوگئی۔
"بسمہ اتنے مہنگے کپڑے منگائے گی تو؟ میرے جیسے کپڑے بنوانے ہیں تو، وہ تو آرام سے ہزار پندرہ سو میں بن جائیں گے اور سستے بھی نہیں لگیں گے۔”
"نہیں فائزہ سستا سوٹ سستا ہی ہوتا ہے تو بس اچھا سا سوٹ لے آ میرے لیئے۔ پہلی بار تو اپنی پسند کے کپڑے منگوارہی ہوں”
"بسمہ تو ہزار بار اپنی پسند کے کپڑے پہن مگر مجھے پتا ہے کہ تو اتنا خرچہ کیوں کر رہی ہے؟”
اس نے ساڑھے تین ہزار نکال کے فائزہ کو دیئے۔ فائزہ اتنے سارے پیسے دیکھ کر حیران سی ہوگئی۔
"بسمہ اتنے مہنگے کپڑے منگائے گی تو؟ میرے جیسے کپڑے بنوانے ہیں تو، وہ تو آرام سے ہزار پندرہ سو میں بن جائیں گے اور سستے بھی نہیں لگیں گے۔”
"نہیں فائزہ سستا سوٹ سستا ہی ہوتا ہے تو بس اچھا سا سوٹ لے آ میرے لیئے۔ پہلی بار تو اپنی پسند کے کپڑے منگوارہی ہوں”
"بسمہ تو ہزار بار اپنی پسند کے کپڑے پہن مگر مجھے پتا ہے کہ تو اتنا خرچہ کیوں کر رہی ہے؟”
"کیا مطلب تجھے پتا ہے؟ سب ہی لڑکیاں کر رہی ہیں خرچہ میں کوئی انوکھی تو نہیں ہوں؟”
"ہاں اور وہ سب لڑکوں کو متاثر کرنے کی کوشش میں ہیں۔ تو ایسی کب سے ہوگئی۔ تجھے کیا لگتا ہے مجھے پتا نہیں چلے گا کہ تو بات مجھ سے کر رہی ہوتی ہے مگر تیری نظریں اور دھیان کہیں اور ہوتا ہے۔ اسلم کے اردگرد آتے ہی تو اوور ری ایکٹ کرنا شروع کردیتی ہے۔ دیکھ بسمہ کسی کو پسند کرنا بری بات نہیں مگر جو طریقہ تو استعمال کرنا چاہ رہی ہے یہ غلط ہے۔ تونے بھی اس کی صرف شکل کو اہمیت دی اور اسے بھی صرف اپنی شکل کی بنیاد پہ متوجہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ کوئی دل کا رشتہ تو نا ہوا”
"فائزہ بور نہیں کر سوٹ لانا ہے تو بتا نہیں تو میں امبرین یا مریم سے کہہ دیتی ہوں”
"بھاڑ میں جا تو لانے سے کس نے منع کیا ہے مگر بسمہ خدا کے لیئے خود کو نمائش کی چیز نہیں بنا۔”
"یعنی تیرے علاوہ سب لڑکیاں اپنی نمائش لگاتی ہیں۔ بس توبڑی خودار کی بچی ہے”
فائزہ کے چہرے کا رنگ ایک لمحے کے لیئے بدلا تو بسمہ کو احساس ہوا کہ وہ جذبات میں بات غلط طریقے سے کہہ گئی۔
"اگر تو سچ سننا چاہتی ہے تو ہاں بالکل یہی بات ہے کسی لڑکی کے اچھے کپڑے پہننابری بات نہیں مگر کسی اور کے لیئے اپنی پسند اور اصولوں کے خلاف جاکر خود کو سجانا یا چھپانا تاکہ وہ آپ کو پسند کرسکے یہ اپنی ہی بے عزتی ہے۔ بسمہ تو قابل احترام ہے کیونکہ تو اچھی ہے تیرے کپڑے نہیں۔ تو جو پہنے گی بسمہ ہی رہے گی ذہین، ہمدرد اور حساس بسمہ اگر تو صرف شکل کو اہمیت دینے والی ہوتی تو ہم دوست نا ہوتے۔ بسمہ اپنے گھر والوں کے بنائے سطحی معیار سے نکل”
"یہی تو کرنے کی کوشش کر رہی ہوں فائزہ مجھے خوف آنے لگا ہے اپنے گھر کی گھٹن سے میری ماں نے ویسے ہی میری نمائش لگائی ہوئی ہے ایک بار بس ایک بار میں یہ سب اپنی مرضی سے اپنے لیئے کرنا چاہتی ہوں مجھے زبردستی کی شادی نہیں کرنی اور اس کے لیئے میں کچھ بھی کرنے کو تیار ہوں۔”
جذبات سے بسمہ کی آنکھیں اور چہرہ سرخ ہو گیا۔
"ٹھیک ہے لا دوں گی مگر جو کر سوچ سمجھ کے کر”
فائزہ نے پیسے بیگ میں رکھ لیئے۔ دو دن بعد اس کی پسند کا ریڈ اور بلیک ڈزائنر اسٹائل کا سوٹ اس کے پاس تھا۔
فئیرویل والے دن وہ صبح سے بے چین تھی۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ صبح 6 بجے ہی تیار ہو کر اسکول پہنچ جائے مگر فئیرویل کی وجہ سے اسکول جانے کا ٹائم 11 بجے دوپہر کا تھا۔ وہ کوئی بدمزگی نہیں چاہتی تھی اسی لیئے سب کچھ بیگ میں ڈال لیا تھا

اس کے باوجود دادی سے منہ ماری ہوگئی۔ اس نے خود کو تسلی بھی دی مگر موڈ خراب ہی رہا اسکول پہنچنے تک۔ اسکول پہنچ کے وہ فورا اپنی کلاس میں آگئیں جہاں عموما لڑکیاں اپنی تیاری مکمل کر رہی تھیں۔ بسمہ نے کھلے بالوں پہ برش پھیرا اور لپ شائنر اور پروفیوم لگا کر اپنی تیاری کو فائنل ٹچ دیا۔ اسے یقین تھا کہ ایک تو آج اس کی تیاری کی وجہ سے اور موقع ایسا تھا کہ اسلم ضرور اظہار کردے گا۔ اب اسے انتظار تھا کہ اسلم کب آئے۔ وہ فائزہ کے ساتھ اسکول کے آڈیٹوریم میں آگئی جہاں فئیرویل کی تیاریاں ہورہی تھیں۔ ڈراموں اور مختلف پرفارمنس میں حصہ لینے والوں کو اسٹیج کے پیچھے بلایا جارہا تھا۔ فائزہ اور بسمہ آگے جانے لگیں رستے میں اسے اسلم دوستوں کے ساتھ کھڑا نظر آیا اس کی توجہ دوسری طرف کھڑی لڑکیوں کی طرف تھی۔ بسمہ کو عجیب بھی لگا اور برا بھی جیسے اسلم اس کی ملکیت ہو۔ پاس سے گزرنے پہ اسلم کی توجہ بسمہ کی طرف ہوئی تو بسمہ نے بھی اسے بھرپور نظروں سے دیکھا آج اس نے نظریں چرانے کی کوشش نہیں کی۔ وہ فائزہ اور اپنی باقی دوستوں کے ساتھ تھوڑا ہی آگے والی رو کی سیٹس پہ بیٹھ گئی۔
انہیں بیٹھے پانچ منٹ ہی ہوئے ہونگے کہ آٹھویں کلاس کی عمارہ ان کے پاس آئی
"بسمہ باجی ٹیچر اسد کو بلوا رہی ہیں آپ نے دیکھا ہے ابھی تھوڑی دیر پہلے یہیں تھا؟”
"نہیں تو میں نے تو نہیں دیکھا مجھ سے پہلے ہی آیا تھا، اسکول آنے کے بعد میں نے نہیں دیکھا۔ کیوں کیا ہوا؟”
"اس کے پاس حمزہ کا نمبر ہے۔ حمزہ نہیں آیا ابھی تک اور شروع کی کمپئیرنگ اسی نے کرنی ہے ٹیچرنے کہا ہے اسد سے کہو اسے کال کر کے پوچھے کہ کتنی دیر میں آئے گا۔”
"حمزہ کونسا؟ گل بانو کا کزن؟” عمارہ نے ہاں میں سر ہلا دیا۔ "چلو مجھے نظر آیا اسد تو ٹیچر کے پاس بھیج دیتی ہوں۔”
عمارہ کے جانے کے بعد وہ سب پھر اپنی باتوں میں لگ گئیں بسمہ کو رہ رہ کر یہ خیال آرہا تھا کہ اگر وہ ایسے ہی دوستوں کے ساتھ بیٹھی رہی تو اسلم سے بات کیسے ہوگی۔ بہت سوچنے کے بعد وہ پانی پینے کے بہانے سے اٹھی۔ آڈیٹوریم کے دونوں اطراف میں باہر کی طرف برآمدے میں دو دو الیکٹرک کولر لگے ہوئے تھے۔ بسمہ جان بوجھ کے اسلم کے پاس سے ہوکر اس کولر کی طرف گئی جو دور ہونے کی وجہ سے خالی ہوتا تھا۔ آڈیٹوریم سے نکلتے ہوئے اس نے دیکھا کہ اسلم بھی دوستوں سے الگ ہو کر اسی سمت آنے لگا۔ بسمہ کولر کے پاس جاکر پانی نکالنے لگی جیسے اس نے نوٹ ہی نہیں کیا کہ اسلم پیچھے آیا ہے۔ وہ آہستہ آہستہ پانی پینے لگی اسلم نے بھی آکر پانی نکالا مگر اس کے انداز سے لگ رہا تھا کہ وہ کچھ کہنا چاہ رہا ہے۔ ایک گھونٹ پی کر رک گیا۔ پھر کہا۔
"بسمہ آپ برا نا مانیں تو ایک بات کہوں؟ ”
"جی بولیں”
"آپ پلیز برا نہیں مانیئے گا مگر۔۔۔۔”وہ کچھ رکا آپ پلیز دوپٹہ سرپہ اوڑھ لیں”
"جی کیا مطلب”
بسمہ کچھ غیر متوقع بات پہ حیران ہوگئی۔
"وہ اصل میں آپ کے بال بہت خوبصورت ہیں لڑکے انہیں دیکھ رہے ہیں مجھے اچھا نہیں لگ رہا”
بسمہ کو اس کا کئیر کرنا بہت اچھا لگا وہ بلاوجہ ہی شوخ ہوگئی۔
"آپ کیا سب لڑکیوں کو دوپٹے پہنواتے پھرتے ہیں۔”
"سب کو نہیں بس کسی اسپیشل کو۔” اسلم نے اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ کہا اس کا ڈمپل دیکھ کر بسمہ کا دل پھر بے قابو ہونے لگا۔ اسلم اپنا گلاس رکھ کر آگے بڑھ گیا پھر کچھ آگے جاکر رکا اور مڑ کے بولا۔
"اگر ممکن ہو تو پروگرام شروع ہونے کے بعد کلاس میں آیئے گا اپنی، آپ سے ضروری بات کرنی ہے۔” یہ کہہ کر تیزی سے اندر آڈیٹوریم میں چلا گیا۔
بسمہ بھی جلدی سے گلاس رکھ کے واپس دوستوں کے پاس آکر بیٹھ گئی۔ فئیرویل شروع ہونے کا ٹائم تو ہوگیا تھا مگر شروع نہیں ہوا تھا پتا نہیں کیا مسئلہ تھا۔ خیر کوئی آدھا پون گھنٹہ گزرنے کے بعد پروگرام اسٹارٹ ہوا مگر عمارہ کے کہنے کے برعکس حمزہ کی بجائے کوئی اور لڑکا کمپئیرنگ کے لیئے آیا تھا۔ بسمہ کو یاد تو آیا کہ عمارہ نے حمزہ کا بتایا تھا مگر زیادہ دھیان نہیں دیا اس کا دھیان صرف اس بات پہ تھا کہ کب اسے موقع ملے اور وہ کلاس میں جائے۔ آخر حمد نعت گزرنے کے بعد پہلا اسکٹ شروع ہوا اور سب کے توجہ مکمل اسٹیج کی طرف ہوگئی اس نے نوٹ کیا کہ پیچھے کی سیٹس سے اسلم اٹھ کر جان بوجھ کے اس کے سامنے کے دروازے سے باہر نکل گیا۔ بسمہ نے دو منٹ صبر کیا پھر فائزہ کے کان میں بتایا کہ اسے باتھروم جانا ہے فائزہ نے ساتھ چلنے کا کہا مگر وہ اسے تسلی دے کر اٹھ گئی کہ وہ خود ہو کر آجائے گی۔
وہ بہت محتاط ہوکر کلاس کی طرف چل پڑی سارا اسکول سنسان پڑا تھا کلاس میں پہنچی تو اسلم وہاں پہلے سے موجود تھا۔ اسے دیکھ کے وہ ایک دم اس کی طرف آیا۔
"تھینک یو سو مچ بسمہ مجھے یقین تھا تم ضرور آو گی۔ اتنی طاقت تو ہے میرے جذبوں میں”
بسمہ کا دل پہلے ہی بہت تیز دھڑک رہا تھا اس کے اتنے اچانک جذبات کے اظہار پہ دھڑکن اور بڑھ گئی۔ اسلم نے آہستہ سے اس کا ہاتھ تھام لیا۔

ابصار فاطمہ

ابصار فاطمہ

ابصار فاطمہ سندھ کے شہر سکھر کی رہائشی ہیں۔ان کا تعلق بنیادی طور پہ شعبہء نفسیات سے ہے۔اس کے ساتھ ساتھ ناول وافسانہ نگار بھی ہیں اور وقتاً فوقتاً نفسیات سے آگاہی کے لیے ٹریننگز بھی دیتی ہیں۔اردو میں سائنس کی ترویج کے سب سے بڑے سوشل پلیٹ فارم ”سائنس کی دنیا“ سے بھی منسلک ہیں جو کہ ان کو الفاظ کی دنیا میں لانے کا بنیادی محرک ہے۔
Loading...
سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button