شادی سے پہلے مولوی ابل کے بڑے ٹھاٹھ تھے۔ کھّدر یا لٹھے کی تہبند کی جگہ گلابی رنگ کی سبز دھاری والی ریشمی خوشابی لنگی، دو گھوڑا بوسکی کی قمیص، جس کی آستینوں کی چنٹوں کا شمار سینکڑوں میں پہنچتا تھا۔ اودے رنگ کی مخمل کی واسکٹ جس کی ایک جیب میں قطب نما ہوتا تھا تو دوسری جیب میں نسوارکی نرسئی ڈبیہ ہوتی۔ سر پر بادامی رنگ کی مشہدی لنگی جس میں کلاہ کی مطلاّ چوٹی چمکتی رہتی تھی۔ ہاتھ میں عصا جس پر جگہ جگہ گلٹ کے بند اور پیتل کے کوکے جڑے ہوئے تھے۔ بالوں میں کوئی بڑا کافر تیل جس کی خوشبو گلیوں میں لٹکتی رہ جاتی تھی۔
قدرے اوپر اٹھی ہوئی پتلیوں والی آنکھوں کے پپوٹوں میں سرمہ تو جیسے رچ کر رہ گیا تھا۔ انگلیوں میں حاجیوں کے لائے ہوئے بڑے بڑے نگینوں والی چاندی کی انگشتریاں جو وضو سے پہلے دن میں چار پانچ بار اترتی تھی۔ مگر ان کی ترتیب میں کبھی کوئی فرق نہ دیکھا گیا اور پھر مولوی ابل کی آواز! شکر ہے اللہ تعالیٰ کی بخشی ہوئی یہ نعمت کلام پاک کی تلاوت میں استعمال ہوئی ورنہ اگرمولوی ماہیے کی کلی الاپ دیتا تو گاؤں بھرکی لڑکیوں کو سنبھالنا مشکل ہو جاتا۔ ہر عید پرخطبےکے بعد اس کے سامنے گھر گھر سے جمع کیے ہوئے ڈیڑھ سو روپوں کی پوٹلی چھن سے آکر گرتی تو وہیں نمازیوں کے سامنے چالیس روپے گاؤں کے مسکینوں محتاجوں میں بانٹ دیتا اور ان سے کہتا، مجھے دعائیں نہ دو، اس اللہ جل شانہ کو یاد کرو جو پتھر میں کیڑا پیدا کرتا ہے تو وہیں اسےخوراک بھی پہنچاتا ہے۔ مجھے دعائیں نہ دو، مجھے اس نے کیا نہیں دیا، صحت، اطمینان، بے فکری۔ مجھے اس کی رحمتوں کے خزانے سے اور کچھ نہیں چاہیے۔
لیکن شادی کے بعد اللہ جل شانہ کی رحمتوں نے ایک اور صورت اختیار کر لی۔ مولوی ابل کے یہاں اولاد کا کچھ ایسا تانتا بندھ گیا کہ جب ایک سال اس کی بیوی کے ہاں کوئی اولاد نہ ہوئی تو وہ سیدھا حکیم کے ہاں دوڑا گیا۔ اسے یقین تھا کہ بچہ نہیں ہوا تو زیب ا نساء کے نظام تخلیق میں کوئی گڑبڑ پیدا ہو گئی ہے۔ زیب انساء کے یہاں بچہ نہ ہونا ایسا ہی تھا جیسے پوری رات گزر جانے پر بھی سورج طلوع نہ ہو اور جب اگلے سال سورج طلوع ہوا تو مولوی ابل کے جان میں جان آئی۔ یقیناً اولاد کی افراط خدائےذوالجلال کی رحمتوں میں ایک رحمت تھی مگر مشکل یہ آن پڑی کے ریشمی خوشابی لنگی صافی بن کر رہ گئی ۔ بوسکی کی قمیص برسوں پہلے پوتڑوں کے روپ اختیار کرتی غائب ہو چکی تھی، اور اب اس کی جگہ گاڑھے کےچولے نے لے لی تھی جو کئی بار دھلنے کے باوجود یوں میلا میلاسا لگتا تھا جیسے اسے بنتے وقت جولا ہے نے سوت کے تانے بانے میں تھوڑی سی غلاظت بھی بن ڈالی ہے۔ مطلاّ کلاہ کی داڑھی موچھیں نکل آئی تھیں۔ انگشتریوں کی چاندی اور عصا کا گلٹ لڑکیوں کے بوندوں جھمکوں کی نذر ہو چکا تھا۔
سرخ سرخ پپوٹوں والی آنکھوں میں پتلیاں کچھ اس طرح بہت اوپر اٹھ گئیں تھیں کہ مولوی ابل ہر وقت نزع کے کرب میں گرفتار نظر آتا تھا۔ تابڑ توڑ بہت سے بچوں کے ساتھ زمانے میں بھی تابڑ توڑ تبدیلیاں ہو رہی تھیں۔ مولوی ابل نے اپنی پہلونٹی کی بیٹی مہرالنساء کے لئے جو جوتا ایک روپیے میں خریدا تھا اب وہی جوتا موچی نے اس کی سب سے چھوٹی بیٹی عمدۃ النساء کے لئے چھ روپے میں تیار کیا تھا۔ اور جب مولوی ابل نے شکوہ کیا تو موچی بولا، ’’میں نے تو مولوی جی آپ کی خاطر زیادہ دام نہیں مانگے، کوئی اور ہوتا تو چھ چھوڑ دس مار لیتا۔ چمڑے کو آگ لگ گئی ہے۔ قیمتیں یوں ایک دم زن سے اوپر گئیں ہیں کہ لگتا ہے دنیا بھرکی گائیں بھینسیں کہیں کوہ قاف پر بھیج دی گئ ہیں۔ پونے چھ کی لاگت ہے،ایک چونی کما رہا ہوں، آپ چونی کو بھی جانے دیجیے، اس میں ذرا سا بھی جھوٹ ہو تو ڈوب کر مروں، جنازہ تک نصیب نہ ہو۔‘‘
اگر دعاؤں کے بدلے آسمانوں سے ضروریات زندگی اترنا ممکن ہوتا تو اس روز مولوی ابل خدا سے اپنی عمدہ کے لئے جوتے مانگتا۔ رات کو زیب النساءسے مشورہ کیا اور جب اس نے زبان سے کچھ کہنے کے بجاے لحاف کا ایک کونا اٹھا کر مولوی ابل کو عمدۃا نسا ء کے پاؤں دکھائے تو بچوں کی طرح ایک دم رو دیا۔ اور دوسرے روز صبح کی نماز اور وظائف کے بعد پونے چھ روپے موچی کی نذر کر آیا۔ اور موچی کی دوکان سے اٹھ کر گلی میں آیا تو اللہ جل شانہ کو حاضر ناضر جان کر نسوار سے توبہ کر لی۔
نمازیوں کے تعداد بڑھنےکی بجائے گھٹ رہی تھی اور ضروریات زندگی کی قیمتیں گھٹنےکی بجائے بڑھ رہی تھیں اور پھر اولاد بڑھ رہی تھی اور اولاد کے ساتھ مولوی ابل کے بالوں کی سفیدی بڑھ رہی تھی۔ ادھر مہرالنساء نے چودھویں سال میں قدم رکھا، ادھر مولوی ابل کی یہ حالت ہو گئی کہ رکوع میں گیا ہے تو اٹھنے کا نام نہیں لے رہا۔ سجدے میں پڑا ہے تو بس پڑا ہے۔ ہوشیار مقتدیوں کو وقت پر کھانسی کا دورہ نہ پڑتا تو ممکن ہے مولوی ابل ایک ہی سجدے میں ظہر کوعصر سے ملا دیتا۔ رمضان المبارک میں تراویح پڑھانےکی سعادت حسب دستور اسی کے سپرد ہوئی، مگر وہ مولوی ابوالبرکات جو آیات یا الفاظ کی غلطی تو کیا، کبھی زیر زبرکی غلطی کا بھی مرتکب نہیں ہوا تھا۔ البقرہ سے النساء میں جا نکلا ۔اور سورہ رحمٰن پڑھنا شروع کی تو ایک رکعت ہی میں اسے دو بار پڑھ ڈالا۔ چوہدری فتح داد کرسی نشیں و ممبر ڈسٹرکٹ بورڈ نے جب اسے اس استغراق پر سرزنش کی تو ایک بارتو مولوی ابل کے جی میں آئی کہ پکار اٹھے، ’’آپ کے ہاں تو لونڈوں کی کھیپ ہے نا چوہدری صاحب، آپ کے بھی کوئی بیٹی ہوتی اور اب وہ جوان ہو گئی ہوتی تو میں آپ کو سمجھاتا کہ ایک سورت کو دو بار کیسے پڑھ لیا جاتا ہے۔‘‘
لیکن چودھری فتح دادکی یہ سرزنش زیادہ تر مذہبی نوعیت کی تھی ورنہ یہ چودھری ہی تو تھا جو برسوں سے مولوی ابل کے گھر میں ہر شام کو گھی لگی ایک روٹی اور دال شوربے کا ایک سکورا اس التزام سے بھجواتا تھاکہ جیسے ایک وقت ناغہ ہو گیا تو سورج سوا نیزے پر اتر آئے گا۔ اور حد یہ تھی کے جس روز روٹی یا دال سالن بھجوانے میں ذرا سی دیر ہو جاتی تو چودھری فتح داد بنفس نفیس مولوی ابل سے معافی مانگنے آتا، ’’آج وظیفہ دیرسے پہنچا ہوگا قبلہ! میں اس غفلت کی معافی مانگتا ہوں۔ چودھرائین ذرا بیمار تھی اور کھانا نائن نے تیار کیا، وہ ہ حرام زادی یہ بھول گئی کہ آپ کو یہاں سے وظیفہ وقت پر نہ گیا تو مجھے ایک روزہ رکھ کر کفارہ ادا کرنا ہوگا۔‘‘
یہ’’وظیفے‘‘ مختلف نوعیت کے تھے اور جمعرات کو تو مولوی ابل کے ہاں نہ آٹا گندھتا تھا اور نہ ہنڈیا چڑھتی تھی۔مولوی ابل کے عقیدت مندوں کے ہاں سے ایک درجن کے قریب بڑی جاندار روٹیاں آ جاتی تھیں۔ ادھرزیب النساء نے گھر میں لڑکیوں کو قرآن شریف کا درس دینے کا سلسلہ بیاہ کے تین مہینے بعد ہی شروع کر دیا تھا۔ جمعرات کو ہر لڑکی چھوٹے چھوٹے سے “وظیفوں” پر ذرا ذرا سی شکر رکھ کر لاتی تو زیب النساء کو دو چنگیریں ان کے لئے الگ رکھ دینا پڑتیں۔ اس روز دونوں وقت سب سیر ہو کر کھاتے جو وظیفے باقی بچتے انہیں دھوپ میں سکھا لیا جاتا اور مہینے میں چار بار انہیں گڑ کے شربت میں ابال کر میٹھے ٹکڑے تیار کیے جاتے۔
لیکن مصیبت یہ تھی انسان کو پیٹ بھر نے کے لئے روٹی کے علاوہ پیٹ ڈھانکنے کے لئے کپڑا بھی چاہئے، چودھری فتح داد ہر نئی فصل پر مولوی ابل کو ایک پوشاک بھی پیش کرتا تھا۔ لیکن جب بھی یہ پوشاک گھر میں آئی، ایکا ایکی درزی کی دکان سج گئی۔ زیب النساء، مہرن، زبدہ اور شمسن کو پاس بٹھا کر لٹھے کے تہبند کا تیا پانچا کر کے رکھ دیتی اور یوں ننھوں کے بہت سے چولے نکل آتے۔ ململ کی پگڑی سے بھی کچھ ایسا ہی برتاؤ ہوتا اور یوں چند مہینوں کے لئے مولوی کی اولاد بالکل ننگی ہونے سے بچ جاتی۔
اس دوران میں اگر کسی کی نکاح خوانی کے سلسلے میں، یا نماز جنازہ پڑھانے کےضمن میں چند روپے آنکلتے تو وہ مہرالنساء کے جہیز کی خاطر ٹین کے ایک ڈبے میں رکھ دیے جاتے۔ بچوں کے پیٹ بڑھ رہے تھے اور باقی جسم سکڑ رہا تھا— زیب النساء کے کنگن جو کبھی اس کی سانولی کلائیوں میں گڑے رہتے تھے، اب ذرا سے جھٹکے سے پو ہنچے پر آ جاتے تھے۔ اور اس کی لانبی لانبی پلکوں کے پیچھے جوانی کا بھوبھل سرد راکھ بن چکا تھا، اور جب وہ پلکیں جھپکتی تھی تو اس کے چہرے پر یہ راکھ اڑتی ہوئی معلوم ہوتی تھی۔ خود مولوی ابل زندگی کے ذرا ذرا سے حادثوں کے درمیان بالکل پچی ہو کر رہ گیا تھا۔ انہی دنوں اسے مولوی ابوالبرکات کی بجائے، مولوی ابل کہا جانے لگا تھا۔
کنپٹیوں کے بال تو بالکل سفید ہوچکے تھے اور دانتوں پر مسوڑوں کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی تھی۔ تلاوت کرتے وقت کئی بار دانتوں کی ریخوں میں سیٹیاں بج اٹھتی تھیں مگر آواز کا ٹھاٹھ وہی تھا۔ صحیح مخرج سے نکلے ہوئے حروف یوں بجتے تھے جیسے پیتل کی تھالی پر بلور کی گولیاں گر رہی ہوں۔ البتہ اس آواز میں ایک لرزش ضرور آگئی تھی، جو پرانے نمازیوں کو بہت اجنبی معلوم ہوتی تھی لیکن چودھری فتح داد کو اس ارتعاش کا سبب معلوم تھا، کیوں کہ مولوی ابل اس سے مہرالنساء کے لئے رشتہ ڈھونڈنے کے سلسلے میں بات کر چکا تھا۔
چودھری نے اس مقصد کے لئے سارے گاؤں پر نظریں دوڑائیں تھیں۔ رات کو بستر پر لیٹ کر ایک ایک گھر میں جھانک آیا تھا، اور کئی نوجوان اسے جچے بھی تھے، مگر ساری مشکل یہ تھی کہ مولوی ابل کو سب جانتے تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ مہرالنساء سوکھے ٹکڑوں پرپلی ہے اور سوکھے ٹکڑوں پرپلی ہوئی جوانی میں خون کم ہوتا ہے اورآنسو زیادہ۔ پھر یہ بات بھی ان سے چھپی ہوئی نہیں تھی کہ اب مولوی ابل کو عیدین پر بیس روپے ملتے ہیں جن سے مہرالنساء کا جہیز تو کیا بنا ہوگا، دوسرے نوبچوں کے لئے جوتا ٹوپی بھی شاید ہی مہیا ہو سکے ہوں۔ ایک دو جگہ چودھری نے بات بھی کی مگر مخاطب کچھ یوں تیورا کر پیچھے ہٹے جیسے پھول کی پتیوں میں سے اچانک بھڑ نکل آئی ہو۔
لیکن مولوی ابل اور زیب النساء کی دعائیں رائیگاں نہ گئیں۔ انہی دنوں سابقہ خدا یار اور حال شمیم احمد شہر سے گاؤں اٹھ آیا اور یہاں کپڑے کی چھوٹی سی دکان کھول لی۔ خدا یار ایک حافظ قرآن کا اکلوتا بیٹا تھا۔ والد کے مرنے کے بعد مولوی ابل کے ہاں قرآن مجید حفظ کرنے کی کوشش کرتا رہا اور جب مسیں بھیگنے لگیں تو بوڑھی ماں کو گاؤں میں چھوڑ کر شہر بھاگ گیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ وہ کسی ہیڈ کلرک کے ہاں ملازم ہو گیا ہے۔ اسی ہیڈ کلرک نے کچھ عرصہ کے بعد اسے ایک دکان کے سامنے گز بھر جگہ لے دی، جہاں وہ کٹ پیس بیچتا رہا اور اپنی ماں کو بھی شہر بلا لیا۔ پھر جب اس نے تجارت میں کافی مہارت حاصل کرلی تو خدا یار کی بجائے شمیم احمد نام اختیار کر کے گاؤں آگیا۔ اس نے بڑی منت خوشامد سےمولوی ابل کو مجبور کیا کہ وہی اس کی دکان سے بو ہنی کرے تاکہ تجارت میں برکت ہو اور نقد سودا چلتا رہے۔
اس روز مولوی ابل نے اپنے شاگرد اوراس بوڑھی ماں کا دل رکھنے کے لئے اپنی زندگی کا سب سے بڑا فیصلہ کیا۔ زیب النساء کے پاس گیا۔ ’’عارف کی ماں! شمیم احمد کہتا ہے کہ وہ میری بوہنی سے کارو بار شروع کرے گا۔ تم کہو تو مہرن کے لئے ایک سوٹ کا کپڑا لے لیں، جہیز کے لئے ضرورت تو ہے ہی۔ ویسے سارے گاؤں والوں کے سامنے بوہنی کی رسم ادا ہوگی، اس لئے ذرا سا رعب بھی بیٹھ جائے گا۔ پھر شمیم احمد کا دل رکھنا تو میرا فرض ہے۔ ایک تو پرانا شاگرد ہے، دوسرےحافظ عبدالرحیم مرحوم و مغفور کا نور نظر ہے۔ تیسرے۔۔۔‘‘ مولوی ابل نے رک کراِدھر اُدھر دیکھا اور پھر سر گوشی میں بولا، ’’عارف کی ماں، اللہ جل شانہ کی قسم، مجھے تو ایسا لگ رہا ہے جیسے اللہ جل شانہ نے اسے مہرن ہی کے لئے آسمان پر سے اتارا ہے۔‘‘
اس بات پر زیب النساء کی آنکھوں کی راکھ ایک لمحے کے لیے تو بھو بھل میں بدل گئی، تمہارے منہ میں گھی شکر۔ وہ بولی اور گلے میں لٹکتی ہوئی چابی قمیص کے اندر ہاتھ ڈال کر نکالی، صندوق کھولا اور ٹین کا ڈبہ نکال کر مولوی ابل کے سامنے رکھ دیا۔ ’’خدا تیری زبان مبارک کرے، میں تو جب بھی مہرن کو دیکھتی ہوں ایسا لگتا ہے جیسے پراٹھا توے پر دیر تک پڑے پڑے جلنے لگا ہے!وہ رونے لگی،ساتھ ساتھ مسکراتی بھی رہی،اورجب مہرالنساء کسی کام سے اندر آئی تو فوراً بول اٹھی، ’’بیٹی! باہر دھوپ میں ٹکڑے سوکھ رہے ہیں نا۔ وہاں ہنڈیا الٹ کر رکھ دو، ورنہ سب ٹکڑے کووں میں بٹ جائیں گے۔ جاو میری بیٹی۔۔۔‘‘ اور مہرالنساء کے گالوں کی لالی نے جواب دیا کہ سب سمجھتی ہوں اماں۔ شمیم احمد کی دکان پر ابا میاں میری بوہنی کرنے چلے ہیں۔
مہرالنساء باہر چلی گئی تو مولوی ابل نے ڈبے کیکل متاع تینتالیس روپے نکال کر جیب میں رکھے اور اٹھتے ہوئے بولا، ’’دعا کر، مہرن کی کہیں شادی لگ جائے تو میں پانچ سات برس کے لئے تو پھول کی طرح ہلکا پھلکا ہو جاؤں۔‘‘
زیب النساء آنسو پوچھتی اور مسکراتی رہی اور مولوی ابل شمیم احمد کی دکان کو چل دیا۔ وہاں بہت سے لوگ جمع تھے،جن میں زیادہ تر عورتیں تھیں جو ناکوں اور ہونٹوں پر انگلیاں رکھے یوں کھڑی تھیں جیسے ان کی نظریں رنگ رنگ کے کپڑوں کے ساتھ سل کر رہ گئی ہوں۔ مولوی ابل دکان میں داخل ہوا تو شمیم احمد اس کے قدموں پر بچھ گیا۔ اور جب مولوی نےاپنی خوبصورت آواز میں قرآن شریف کی چند آیات کی تلاوت کی تو ایک سماں بندھ گیا ۔تلاوت کے بعد اس نے ایک کپڑا پسند کیا۔ گلابی رنگ پر نیلے پھول تھے اور نیلے پھولوں میں جگہ جگہ زرد رنگ کے نقطے تھے۔
’’ایک زنانہ سوٹ کا کپڑا کاٹ دو۔‘‘
مولوی ابل نے معمول سے زیادہ بلند آواز میں کہااور ایک نظر ہجوم کو بھی دیکھ لیا۔ شمیم احمد نے گز اٹھا کر بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھی اور سات گز کپڑا ناپا۔ قینچی اٹھا کر ایک بار پھر بسم اللہ پڑھی اور کپڑا کاٹا۔ تہ کیا اور آخری بار بسم اللہ پڑھ کر مولوی ابل کے سامنے یوں رکھ دیا جیسے مفت میں۔۔۔ محض تحفتاً پیش کر رہا ہے۔
’’قیمت ؟‘‘ مولوی ابل نے اب کے حاضرین کی طرف نہیں دیکھا صرف اپنی جیب میں ہاتھ ڈال لیا۔ شمیم احمد مارے احترام کے سمٹنے لگا۔ ایک لمحے تک ہاتھ ملتا رہا، کھنکارا اور بولا، ’’چھ روپے گز کے حساب سے بیالیس روپے ہوئے قبلہ!‘‘
دکان میں سجے ہوئے سب تھان جیسے مولوی ابل کے دماغ پر دھب دھب گرنے لگے۔ بوکھلا کر اس نے جیب سے ہاتھ نکالا اور ایک روپیہ واپس جیب میں رکھ کر باقی رقم شمیم احمد کے سپرد کردی۔عورتوں کی انگلیاں ہونٹوں سے اٹھ کر ناک،اور ناک سے ابھر کر ہوا میں جم کر رہ گئیں۔ مولوی ابل نے کپڑا بغل میں لیا تو شمیم احمد بولا، ’’قبلہ نے بوہنی فرمائی ہے اس لئے میں نے نرخ میں کوئی رعایت نہیں کی۔ میں آپ کا پرانا خادم ہوں، پھر تلافی کردوں گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔‘‘
مولوی ابل کپڑے کو بغل میں لے کر اٹھا تو اس کا جی چاہا کہ شمیم احمد کو کہہ دے، اللہ جل شانہٗ ہی تلافی کرے گا عزیزی شمیم احمد، اس لئے کہ اگر تم نے کپڑا بیچا ہے تو میں نے بھی اپنی بیٹی بیچنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن یہ تو ایک دم سے جیب کے خالی ہو جانے کا غبار تھا، جس پر اٹھتے ہی اٹھتے اس نے قابو پالیا اور بولا، ’’یہ تو تمہارا حق تھا شمیم احمد،یہ بھی کوئی کہنے کی بات تھی! اللہ جل شانہ تمہیں اور تمہارے کاروبار میں برکت دے۔‘‘
’’آمین!‘‘ شمیم احمد نے ہاتھ ملتے ہوئے کہا۔
’’آمین!‘‘ زیب النساء نے کپڑے کی نرمی اور بے قراری اور پھبن کو دیکھ کر مولوی ابل کے ان الفاظ کے جواب میں کہا، اللہ کرے اس کپڑے میں ہماری مہرن کا سہاگ مہکے۔
چند ہی روز بعد ایک شام مولوی ابل کے دروازے کی زنجیر بجی۔ اس وقت آنے والے عموماً چاول یا حلوہ یا کھیر لاتے تھے۔ اس لئے زنجیر کی آواز سنتے ہی چھوٹے بچے ڈیوڑھی کی طرف لپکے، لیکن جانے مولوی ابل کو کیا سوجھی، خلاف معمول کڑک کر بولا، ’’ٹھہرو۔‘‘ بچے رک گئے۔ سب کے چہرے لٹک گئے۔ عمدۃ النساء تو رودی، مگر مولوی ابل ان کو دلاسہ دیے بغیر بڑی بے پروائی سے آگے بڑھا۔ جو نہی ڈیوڑھی کا دروازہ کھولا، خوشبو کا ایک فوارہ سا امڈا اور ساتھ ہی آواز آئی، ’’السلام علیکم قبلہ!‘‘
یہ شمیم احمد تھا۔ مصافحہ کے لئے بڑھا تو لٹھے کا نیا تہبند ٹین کی طرح بج اٹھا اور جب اس نے رک رک کر کہا، ’’آپ کی خدمت میں ایک درخواست لے کر آیا ہوں قبلہ۔ اس لئے آپ کو بے وقت زحمت دی۔‘‘ تو مولوی ابل کو شمیم احمد کی پوشاک سے امڈتی ہوئی مہک کچھ گنگناتی ہوئی محسوس ہوئی۔ یہ درخواست یہاں ڈیوڑھی میں بھی سنی جا سکتی تھی، لیکن مولوی ابل گردن موڑ کر پکارا، میں ابھی آیا عارف کی ماں۔ اور پھر شمیم احمد کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر اس تیزی سے مسجد کی طرف چلا کہ شمیم احمد کو نئے تہبند کا شور و غوغا روکنے کے لئے اسے دوسرے ہاتھ سے گھٹنوں تک اٹھا دینا پڑا۔
دونوں ایک حجرے میں پہنچے تو وہاں چند نمازی آگ جلائے ہارون الرشید کے انصاف کی کہانیاں سن سنا رہے تے۔ دوسرے حجرے میں اندھیرا تھا۔ یہاں عموماً اندھیرا ہی رہتا تھا اور یہ اکتالیس دنوں کی مسلسل چلہ کشی کے لئے مخصوص تھا۔ شمیم احمد کو وہیں چھوڑ کر مولوی ابل پہلے حجرے سے جلتی ہوئی ایک لکڑی اٹھا لایا اور اندھیرے حجرے کے ایک گوشے میں چلا گیا۔ ڈیوٹ پر کڑوے تیل کا چراغ جل اٹھا۔ اس نے واپس جا کر لکڑی کو الاؤ میں پھینکا اور لپک کر شمیم احمد کے پاس آیا۔ شمیم احمد نے ان چند روز میں داڑھی نہیں منڈائی تھی۔ گالوں اور گلے پر نہایت سلیقے سےخط بنے تھے اور داڑھی کے خشخشی بالوں پر عطر حنا دیے کی روشنی میں چمکنے لگا تھا۔
’’کہو۔‘‘ مولوی ابل کچھ اس انداز سے بولا جیسے وہ ابھی ابھی اپنے مہمان کے لئے ایک ایوان کی آرائش و زیبائش سے فارغ ہوا ہے۔ شمیم احمد کی آنکھیں جھک گئیں اور ہونٹ ذرا سا کھل کر کانپنے لگے، پھر اس نے سر اٹھا کر چراغ کی طرف دیکھا جس کی لو بے پناہ دھواں چھوڑ رہی تھی، آگے بڑھ کر اس نے تنکے سے چراغ کی بتی کو کم کیا اور بولا، ’’آپ کی اجازت ہو تو عرض کروں۔‘‘
’’کہو کہو۔‘‘ مولوی ابل نے شمیم احمد کے کندھے کو تھپکا اور پھر چونک کر اس کے دوسرے کندھے پر بھی ہاتھ رکھ دیا۔ شمیم احمد کے کندھے کی ہڈی پر گوشت کی اتنی بڑی گیندیں سی رکھی تھیں۔
’’کہو نا عزیزم۔‘‘
شمیم احمد نے اپنے ہاتھ ملنا شروع کیے۔ ایک لمحے کی خاموشی کے بعد اس نے کوئی چیز بڑی مشکل سے نگلی اور بولا: ’’اصل میں یہ کام تو میری اماں کا تھا۔ انہی کو آپ کی خدمت میں حاضر ہونا چاہئے تھا، مگر پچھلے چند برسوں سے ان کا دل بہت کمزور ہو گیا ہے، بات بات پر رو دیتی ہیں اور برا بھلا کہنے لگتی ہیں،سو میں نے یہی مناسب سمجھا کہ خود ہی حاضر ہو جاؤں۔‘‘
’’تم نے اچھا کیا۔‘‘ مولوی ابل نے بڑی شفقت سے کہا۔
’’میں آپ کا پرانا خادم ہوں۔‘‘ شمیم احمد نے سمٹتے، پھیلتے اور پھر سمٹتے ہوئے کہا، ’’میری درخواست یہ ہے کہ حضور مجھے ہمیشہ کے لیے۔۔۔‘‘ اس نے ایک بار پھر چراغ طرف دیکھا اور نظریں جھکا کر آستین پر سے کوئی خیالی دھبہ اڑا دیا، ’’حضور مجھے ہمیشہ کے لئے اپنی غلامی میں لے لیں۔‘‘ شمیم احمد نے نزع کے سے عالم میں کہا۔
مولوی ابل کاجی چاہا کہ چٹکی بجا دے، رسماً ذرا ہنستے ہوئے بولا، ’’میں تمہارا مطلب نہیں سمجھا شمیم احمد۔‘‘
شمیم نے بڑی حیرت اور دکھ سے مولوی ابل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں۔ آخر یہ کیسے ممکن ہے کہ جس شخص نے قرآن مجید کے کئی مقامات اور فقہ کے بے شمار مشکل مسائل کو آن کی آن میں صاف اور سلیس انداز میں سلجھا دیا وہ غلامی کا مطلب نہیں سمجھا۔ دبی دبی آواز میں جیسے اس نے نزع کی آخری ہچکی لی۔ ’’جی میرا مطلب ہے کہ حضور۔۔۔ حضور مجھے اپنی غلامی میں قبول فرمائیں۔‘‘
اور جیسے اس وضاحت سے مولوی ابل کی تسلی ہو گئی۔ اس نے مزید تشریح طلب کرنے کی ضرورت نہ سمجھی۔ شمیم احمد کچھ دیر تک نظریں جھکائے کھڑا ہاتھ ملتا اور مروڑتا رہا، اور جب مولوی ابل ایک لفظ تک نہ بولا تو اس نے اپنی نظروں کو جیسے دونوں ہاتھوں سے بصد مشکل اٹھا کر بے انتہاء جھجک سے اوپر دیکھا۔ مولوی ابل کی داڑھی پر آنسوؤں کے قطرے رک گئے تھے، شمیم احمد کی داڑھی پر عطر چمک رہا تھا اور مولوی ابل کی داڑھی میں آنسو جگمگا اور تھرتھرا رہے تھے اور چراغ کی لو پھر ڈھیروں دھواں اگلنے لگی تھی۔ مگر اب کے شمیم احمد کو بتی کم کر دینے کا خیال نہ آیا۔ وہ کچھ کہنے کے لئے بے تاب ہو گیا مگر صرف ہونٹو ں کو کھول کر رہ گیا۔
مولوی ابل نےایکا ایکی جیسے کچھ سوچ کر پگڑی کے پلو سے اپنی آنکھیں پونچھیں اورپھربھرائی ہوئی آواز میں بولا، ’’لڑکی تیری کتنی مسکین مخلوق ہے اللہ جل شانہ! کتنی مسکین!‘‘ اس کی آنکھوں سے بہت سے آنسو ایک ساتھ نکلے اور داڑھی کے بالوں نے انہیں پرو لیا، ’’دینے کا مال ہے شمیم احمد! دوں گا۔ کیوں نہیں دوں گا؟ دینا ہی پڑے گی۔ اور پھر تم میرے اپنے عزیز ہو، بھائی حافظ عبدالرحیم مرحوم و مغفور کا بیٹا میرا اپنا بیٹا ہے۔۔۔ آؤ ادھر آؤ۔۔۔‘‘ اور مولوی ابل نے شمیم احمد کو اپنے سینے سے لگا لیا۔
جب وہ واپس گھر میں آیا تو زیب النساء نے چند قدم کے فاصلے پر سے ہی کہہ دیا، ’’کہاں سے آرہے ہو؟عطر کی لپٹیں آنے لگی ہیں۔‘‘
مہر النسا توے پر آخری روٹی ڈالے بیٹھی تھی، بولی، ’’سچ ابا جی،سارا گھر مہک اٹھا ہے۔‘‘
’’کیا بات ہے؟‘‘ زیب النساء نے پوچھا۔
مولوی ابل نے بڑی آسودہ خاطری سے بچوں کی قطار کی طرف دیکھا۔ وہ خالی ہاتھ گھر میں آیا تھا۔ اس لئے سب کے منہ لٹکنے لگے تھے، سب کو ایک ساتھ پیار کرنا مشکل تھا اس لئے بولا، ’’آج میرے سب بچوں کو روٹی کے ساتھ گڑ کا ایک ایک ٹکڑا بھی ملے گا۔‘‘ لٹکے ہوئے چہرے سنبھل اور سنور گئے اور مہرالنساء کی نظریں توے پر گڑ گئیں۔
’’بات سنو عارف کی ماں۔‘‘ مولوی ابل باہر جاتے ہوئے بولا۔
زیب النساء نے سب حالات سن کر کہا، ’’میرے سر پر ہاتھ رکھ کر کہو۔‘‘
مولوی ابل چہکا، ’’اللہ جل شانہ کی قسم کھا کر کہہ رہا ہوں۔ اب تو اپنے سر کی قسم دیتی ہے تو نعوذ باللہ کیا تو اللہ جل شانہ سے بڑی ہے؟ کاش عورت کی عقل یہاں کہیں کھو پڑی کے آس پا س ہوتی۔‘‘ اور اس نے مسکرا کر زیب النساء کے تالو پر ایک چپت جڑ دی۔زیب النساء بچوں کی طرح رونے لگی۔ وہ ان آنسوؤں کا مطلب سمجھتا تھا۔ وہ بھی تو کچھ دیر پہلے ایسے ہی آنسو گرا چکا تھا۔ ایک لمحے کے بعد وہ آگے بڑھا اور زیب النساء کے بھیگے بھیگے گالوں پرا پنی داڑھی رکھ دی۔
’’دعائیں یوں قبول ہوتی ہیں عارف کی ماں۔‘‘ مولوی ابل برسوں کی عبادت و ریاضت کا جلال چہرے پر لا کر بولا، ’’الحمداللہ! یوں سنتا ہے سننے والا یوں دیتا ہے چھپر پھاڑ کر سنتی ہو زیبن۔‘‘ آج مولوی ابل نے سہاگ رات کے بعد شاید پہلی بار زیب النساء کو عارف کی ماں کے بجائے زیبن کہہ کہ پکارا تھا۔
زیب النساء آنکھیں پونچھتے ہوئے بولی، ’’جب شمیم احمد خدا یار تھا، جب وہ لڑکا تھا اور تمہارے پاس پڑھتا تھا تو یوں پھٹی پھٹی نگاہوں سے دیکھتا تھا مہرن کو جیسے۔۔۔ کبھی کبھی تم مجھے دیکھ لیتے ہو۔۔۔ اللہ قسم۔‘‘
اور ابھی میاں بیوی آنسوؤں کو اچھی طرح خشک بھی نہ کر پائے تھے کہ ایک بار پھر دروازے کی زنجیر بجی، بچے ڈیوڑھی کی طرف دوڑے۔
’’ٹھہرو۔‘‘ اب کے مولوی ابل کی آواز میں ڈانٹ تھی۔ ’’میں جاؤں گا۔‘‘ پھر بچوں کے پاس آکر ان کے سروں پر ہاتھ پھیرا اور آہستہ سے بولا، ’’ندیدہ پن بہت برا ہوتا ہے۔ سمجھے؟ ہر آنے والا حلوہ اور چاول دینے نہیں آتا۔ کئی لوگ دوسرے کاموں کے لئے بھی آنکلتے ہیں۔ سمجھے؟ جاؤ۔‘‘ پھر ذرا بلند آواز میں بولا، ’’انہیں باہر سردی میں نہ نکلنے دو مہرن بیٹی، یہی بچے تو میری زندگی کا سرمایہ ہیں۔‘‘
وہ ڈیوڑھی کی طرف بڑھا۔ دروازہ کھولا تو گرم چادر میں لپٹے ہوئے چودھری فتح داد نے ہاتھ بڑھا کر مولوی ابل کو باہر گلی میں گھسیٹ لیا اور چھاتی سے لگا کر بولا، ’’مبارک ہو قبلہ! ہزار بار مبارک ہو، آخر میری کوششیں بیکار نہیں گئیں۔‘‘
اس وقت مولوی ابل کی نظروں میں چودھری فتح داد کے فرشتہ بننے میں پروں کی کمی رہ گئی تھی۔
’’اللہ جل شانہٗ کا شکر اور آپ کا احسان ہے۔‘‘ اس نے چودھری سے بڑے پگھلے ہوئے سیال لہجے میں کہا۔
’’خدا نے مجھے آپ کے سامنے سرخرو فرمادیا۔‘‘ چودھری فتح داد بولا، ’’اب جلدی سے شادی کی تاریخ بھی طے کر لیجئے۔ شمیم احمد اچھا لڑکا ہے، پر آخر جوان لڑکا ہے اور پھر دکاندار ہے۔ دن میں بیسوں عورتیں اس کی دکان پر آتی ہیں، اور آپ جانتے ہی ہیں کہ کیسا ننگا زمانہ آلگا ہے۔ لڑکے لڑکیاں بارود کے گولے ہو رہےہیں۔ کچھ پتہ نہیں چلتا کہ کب پڑے پڑے بھک سے ہو جائیں، شمیم احمد کو میں نے ہی آپ کی خدمت میں بھیجا تھا۔ رسم و رواج کے مطابق اس کی ماں آپ کے گھر میں آتی مگر بڑھیا سٹھیاسی گئی ہے۔ کوئی بات اس کی مرضی کے خلاف ہوتو سات پشتیں توم ڈالتی ہے کم بخت۔ ابھی ابھی شمیم احمد نے آ کر بتایا کہ آپ نے حامی بھر لی ہے۔ میں نے اسے جلدی سے شادی کر لینے پر زور دیا تو بولا کہ آپ ہی قبلہ مولوی صاحب سے تاریخ کا فیصلہ کرادیجئے، سو میں اسی لئے حاضر ہوا۔ آپ کل تک سوچ لیئے اور یہ۔۔۔ یہ ۔۔۔‘‘ چودھری فتح داد نے گرم چادر کے نیچے سے ایک پوٹلی سی نکالی۔ ’’یہ میری بیٹی کو دے دیجئے گا۔‘‘
مولوی ابل نے خاموشی پوٹلی لے لی تو چودھری نے آہستہ سے کہا، ’’اللہ قبول فرمائے۔‘‘
’’آمین۔‘‘ مولوی ابل کے منہ سے عادتاً یہ لفظ نکل گیا۔
مولوی ابل نے اندر آکر پوٹلی کھولی تو ایک بڑے سے ریشمی رومال میں سو کے ایک نوٹ پر سونے کے دو جھمکے رکھے تھے، جن کی بڑے سے بلبلے جتنی کٹوریاں میں جانے نگینے جڑے تھے یا مینا کاری کا کام تھا! زیب النساء کسی اور چیز کی امید میں رومال کو جھاڑ کر چہکی، ’’شمیم احمد نے بھیجے ہیں؟‘‘ اور ابھی مولوی ابل جواب نہیں دینے پایا تھا کہ مہرالنساء بھاگ کر باہر نکل گئی۔
’’ارے!‘‘ مولوی ابل نے حیرت سے زیب النساء کی طرف دیکھا اور پھر دونوں ایک ساتھ بے اختیار ہنس پڑے!
’’سمجھ گئی!‘‘ زیب النساء باہر دیکھتے ہوئے انگشت شہادت کو ناک کی کیلی پر رکھ کر بولی۔
’’تم نے بھی تو منہ بھر کر کہہ دیا۔۔۔ شمیم احمد نے بھیجے ہیں؟‘‘
مولوی ابل نے زندگی میں شاید پہلی بار عورت کی آواز اور انداز کی نقل اتاری، اور بچے جو ابھی تک محض حیرت زدہ تھے محظوظ ہو کر زور زور سے ہنسنے لگے۔ عمدۃ النساء ڈرتے ڈرتے جھمکوں کوچھونے کی کوشش کر رہی تھی۔
’’چودھری فتح داد دے گیا ہے مہرن کے لئے۔‘‘ مولوی ابل نے بری بے پروائی اور رواروی میں راز فاش کیا۔
’’اللہ قبول فرمائے۔‘‘ زیب النساء جیسے اپنی قبر میں سے بولی جس پر نیا نیا غلاف چڑھایا گیا تھا۔
چند ہی روز میں مہرالنساء مایوں بٹھا دی گئی۔ اس کے پیروں میں مہندی تھوپ دی گئی۔ ڈھولک تو خیر نہ بجی، کیوں کہ شادی کا گھر سہی پر آخر مولوی ابو البرکات کا گھر تھا، جس نے حضور پر نور صلعم کی مدینہ میں تشریف آوری پر مدینے کی لڑکیوں کے دفیں بجا بجا کر گانے کے متعلق تو پڑھا تھا مگر ڈھولک کا جواز کہیں موجود نہ تھا اور پنجاب اتنا بدنصیب تھا کہ یہاں اب تک دف کا رواج ہی نہیں چلنے پایا تھا۔ ’’دف ہو تو لاؤ اور بجاؤ اور گاؤ۔ تم ڈھولک لائیں تو میں اسے اٹھا کر چھت پر پھینک دوں گا۔‘‘ مولوی ابل نے میراثنوں کے ہجوم سے ڈانٹ کر کہا تھا۔ آخر گاؤں کی لڑکیا ں مہرالنساء کو اپنے دائرے میں لے کر بیٹھ گئیں اور ڈھولک کے بغیر ہی اپنی سریلی الاپوں سے رات بھر اس کے گرد محبت اور دوستی پھولوں اور پھواروں، ملاقاتوں اور جدائیوں کے طلسمات بنتی رہیں۔
لیکن بھلا شمیم احمد کو ڈھول شہنائی بجوانے اور گولے چھوڑنے سے کون روکتا۔ برات ایسی دھوم سے آئی اور مولوی ابل کی ڈیوڑھی میں وہ ہنگامہ مچا کہ معلوم ہوتا تھا کہ ڈھول کی ہر چوٹ مولوی ابل کے کچے گھروندوے کی بنیادوں پر پڑ رہی ہے۔ یہ دھوم دھڑکا دیکھ کر رات ہی رات مولوی ابل اور زیب النساء نے مکان کے ایک گوشے میں چند سر گوشیاں کیں۔ لڑکیوں کے گیتوں کے درمیان بکسوں کے گھسٹنے، کھلنے اور بند ہونے کی آوازیں رینگتی رہیں، اور جب دوسرے دن صبح کو جہیز کا سامان آنگن اور چھت پر بچھایا گیا تو گاؤں کا گاؤں پہلی نظر میں تو تیورا کر پیچھے ہٹ گیا۔ کپڑے تو خبر بن ہی جاتے ہیں پر یہ سونے کے اتنے بڑے بڑے جھمکے!
’’مولوی کے پاس دست غیب کا تعویذ ہے۔‘‘ کسی نے رائے دی۔
ایک بڑھیا نے ٹھوڑی کی لٹکتی ہوئی جھلی میں انگلی ڈبو کر کہا، ’’کپڑوں کے کئی جوڑے تو ان گنہگار، آنکھوں نے پہچان لئے ہیں، کچھ تو بے چاری مرنے والیوں کے ہیں، کچھ ایسے ہیں جو بی بی زیب النساءکو اپنی شادی پر ملے تھے۔ سگھڑ ہے اس لئے اولاد کے لئے رکھ چھوڑے یہ کنگن اور یہ ناک کی کیل، یہ سب کچھ بی بی ہی کا ہے۔ پر یہ جھمکے؟‘‘ اور اس نے اپنی انگلی کو ٹھوڑی کی جھلی میں سے نکال کر آسمان کی طرف بلند کر دیا۔
مہرالنساء کو ڈولی میں بٹھایا گیا تو اکنیوں اور چھوہاروں کی ایک لہر سی اس پر سے نچھاور ہو گئی۔ گاؤں کے بچے ان پر جھپٹے۔ مولوی کے بچے جو ڈیوڑھی میں ماں باپ کی دیکھا دیکھی رو رہے تھے، ایک دم یوں اچھلے جیسے ان کے قدموں تلے لچک دار کمانیاں بھر آئی ہیں۔ ’’ٹھہرو‘‘ مولوی ابل گرجا۔ کمانیاں دھرتی میں اتر گئیں، بچے جہاں تھے وہیں تھم گئے۔ صرف عارف ایک اکنی کو اپنے پنجے تلے چھپائے کھڑا رہا اور برات کے چلے جانے کے بعد ہی اس کا یہ اثاثہ اس کے پاؤں سے ہاتھ تک کی مسافت طے کر سکا۔
مولوی ابل کچھ دور تک ڈولی کے ساتھ گیا۔ اس کی ناک اور آنکھیں سرخ تھیں مگر ان کے ساتھ چہرے کی زردی ضروری تھی اور مولوی ابل کا چہرہ گلابی ہورہا تھا۔ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے دکھ اور اطمینان نے چہرے کی سر زمین کو اپنے اپنے مظاہروں کےلئے بانٹ لیا ہے۔ ایک موڑ پر جاکر وہ رک گیا اور دور تک ڈولی پر پڑے ہوئے ریشمی پردے کو دیکھتا رہا۔ پھر ایک لمبی گہری سانس لے کر اس نے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو ایک دوسرے میں پھنسا کر چٹخا اور پلٹ کر گھر جانے لگا۔
گلی میں گاؤں کے بچے اب تک اکنیاں اور چھوہارے ڈھونڈ رہے تھے۔ ڈیوڑھی کے دروازے پر کھڑے ہوئے عارف اور دوسرے بچوں نے اپنے ابا کو دیکھا تو ایک آن بھوتوں کی طرح غائب ہو گئے۔ مولوی ابل کے ہونٹوں میں دیر سے جو سوزش اور کھجلی ہورہی تھی وہ مسکراہٹ بن کر نمودار ہوئی اور اس کی آنکھوں تک پھیلی چلی گئی۔ ڈیوڑھی میں داخل ہونے لگا تو اسے دیوار سے لگی ہوئی ایک اکنی چمکتی دکھائی دی۔ لیکن وہ بڑی بے پروائی سے آگے بڑھ گیا۔ زیب النساء شاید کواڑ ہی سے لگی کھڑی تھی۔ مولوی ابل کا ہاتھ پکڑ کر بچوں کی طرح زار زار رونےلگی اور پھر اس کے ساتھ ساتھ چلتی ہوئی جب آنگن میں آئی تو دونوں ہاتھوں سے بڑے سے دائرے بنا کر بولی، ’’ہمارے لئے تو بس یہ قبرستان کا سناٹا چھوڑ گئی ہماری مہرن۔‘‘
’’تمہارا تو دماغ چل گیا۔‘‘ مولوی ابل نے اپنی مسکراہٹ کو اور پھیلایا، ’’مہرن چلی گئی تو کیا زبدہ کو بھی لے گئی؟ اور کیا شمسن بھی اس کے ساتھ چلی گئی؟‘‘ پھر ذرا رک کر بولا؟ ’’عارف میاں! زبدہ کیا کر رہی ہے؟‘‘
’’جی رو رہی ہے۔‘‘ عارف دیوار سے لگے ہوئے بچوں کی قطار میں سے نکل کر بولا۔
’’کہاں؟‘‘ مولوی نے پوچھا۔
’’جی جہاں مہرن آپا مایوں بیٹھی رہیں۔‘‘ عارف بولا۔
’’زبدہ۔‘‘ مولوی ابل پکارا۔ زیب النساء مسلسل روئے جا رہی تھی۔
زبدہ دروازے پر نمودار ہوئی۔ نیا گلابی دوپٹہ آنسوؤں کی نمی کے سبب جگہ جگہ سیاہی مائل سرخ پڑ گیا تھا اور زبدہ نے اپنے جن مہندی رچے ہاتھوں کو صبح اٹھ کر گھی سے چمکایا تھا ان پر جگہ جگہ مٹی جم رہی تھی اور بالوں کی مینڈھیاں اجڑ رہی تھیں اور۔۔۔ مگر مولوی ابل تو زبدہ کو دیکھتے ہی سناٹے میں آگیا تھا، مسکراہٹ ہونٹوں میں سمٹ کر یوں پھڑ پھڑانے لگی تھی جیسے دم توڑ رہی ہے۔ چہرے پر زردی کھنڈ گئی تھی۔ زبدۃ النساء چند قدم پر آکر رک گئی اور سسکیوں میں رونے لگی۔ اور پھر مولوی ابل نے زیب النساء کے ہاتھ کو ہاتھ میں جکڑ لیا اور اسے بے دھنگے پن کھینچ کر آنگن کے ایک گوشے میں لے جا کر یوں بولا جیسے گھر میں آگ لگنے کی اطلاع دے رہا ہے، ’’عارف کی ماں! سنو، یہ زبدہ تو جوان ہو گئی ہے!‘‘
اور زیب النسا آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر زبدہ کی طرف یوں دیکھنے لگی جیسے وہ اب تک والدین کی بے خبری میں مہرن کے عقب میں بیٹھی پلتی بڑھتی رہی تھی۔ کچھ دیر کے بعد مولوی ابل نے بغیر ضرورت کے گلا صاف کیا اور دم بخود زیب النساء کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔ ’’فکر نہ کرو بیوی، اللہ جل شانہٗ کی رحمتوں سے مایوس ہونا کفر ہے۔‘‘ زیب النساء نے مولوی ابل کا ہاتھ کسی قدر سختی سے اپنے کندھے پر سے گرادیا۔ ’’شرم کرو پہلے میرا ہاتھ پکڑے چلے آئے، اب کندھا سہلا رہے ہو۔ جوان جہان بیٹیاں کیا کہیں گی کہ اولاد کے سامنے۔۔۔‘‘ زیب النساء نے فقرہ پورا کرنے کی بجائے اپنا وہی کندھا اچکا دیا۔
مولوی ابل کے ذہن میں ایک خیال آیا۔ پکارا، ’’شمسن!‘‘
شمسن النساء قطار میں سے نکلی ہی تھی کہ مولوی ابل نے جیسے سہارا لینے کی خاطر اپنے عقب میں دیوار کو ٹٹولنے کے لئے ہاتھ ہلایا اور کوئی سہارا نہ پاکر ٹوٹی شاخ کی طرح جھوم سا گیا۔ چلتے ہوئے شمس النساء کے پاؤں کے تلوے ایک دم چپٹے چپٹے زمین پر نہیں لگ جاتے تھے بلکہ اس کے جسم کی طرح اس کے پاؤں میں بھی لہراؤ سا تھا۔ سب سے پہلے ایڑی زمین کو چھوتی تھی پھر تلوے کا خم جھکتا تھا اور اس کے بعد پنجے کی اٹھی ہوئی انگلیاں باری باری جیسے لچک لچک کر دھرتی کو چھوتی تھیں، تب جا کر دوسرا قدم اٹھتا تھا۔
’’کچھ نہیں بیٹی، کچھ نہیں جاؤ۔‘‘ مولوی ابل تیزی سے ڈیوڑھی کی طرف جاتے ہوئے بولا۔
شمس النساء حیران ہو کر اپنی ماں کو دیکھنے لگی۔ اور زیب النساء زار و قطار روتی ہوئی وہیں ڈھیر ہو گئی۔ زبدہ اور شمسن اس کی طرف لپکیں۔ مولی ابل نے باہر جا کر چوروں کی طرح ادھر ادھر دیکھا اور پھر دیوار کے قریب سے چمکتی ہوئی اکنی اٹھا کر اپنی جیب میں ڈال لی۔
گھر میں کل دو ہی بکس تو تھے۔ اب ان میں سے ایک میں سوکھے ٹکڑے رکھے جانے لگے تھے اور دوسرے میں قمرن اور عمدہ کی گڑیاں اور دوسرے ننھوں کی بلور کی گولیاں پڑی رہتی تھیں۔ گاؤں میں لڑکیوں کا پرائمری سکول بھی کھل گیا تھا اس لئے اب کلام پاک کا درس لینے والی لڑکیوں کی تعداد بہت کم رہ گئی تھی، اور اسی لئے سوکھے ٹکڑے اب ہفتے کی بجائے پندرہ روز کے بعد ابالے جانے لگے۔ نمازیوں کو بھی زمانے کی ہوا لگ گئی تھی۔بعض وقت تو مولوی ابل اذان دے کر وہیں بیٹھ جاتا اور جب دیکھتا کہ نمازیوں کے انتظار میں نماز قضا ہورہی ہے تو کچھ یوں کھویا سا اٹھ کر اندر مسجد میں آتا جیسے کوئی بڑا ناگوار فرض ادا کرنے چلا ہے۔
جمعہ پر جب چند کسان جمع ہو جاتے تو بڑی رقت سے خطبہ دیتا۔ اسلام میں نماز کی اہمیت اور علمائے دین کی خدمت کی برکات کا تذکرہ کر تا اور کہتا، ’’تمہیں یاد ہوگا کہ کوئٹے میں زلزلہ آیا تھا! کیوں آیا تھا؟ ترکی میں بھونچال آیا تو کتنے ہی گاؤں کو زمین نگل گئی! کیوں نگل گئی؟ مسلمان ہر جگہ بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح ہو رہے ہیں! کیوں ہو رہے ہیں! کیوں؟ کبھی سوچا ہے تم نے! اور بھلا تم کیوں سوچو، تمہیں تو گندم کے خمار نے دین سے بیگانہ کر رکھا ہے۔ یہ نماز نہ پڑھنے اور علمائے دین کی خدمت نہ کرنے کے نتیجے ہیں۔ یہ قہر الٰہی ہے۔ یہ آثار قیامت ہیں۔ سمجھے؟ اور کیا تم اپنے گاؤں کو بھی زمین کے پیٹ میں اتار دو گے؟ بتاؤ!‘‘
اس قسم کے جذباتی خطبوں کے بعد مقتدیوں میں ذرا سا اضافہ ہوتا اور ایک دو روز تک گھی لگے وظیفے آنے لگتے۔ پھر وہی سناٹا عود کر آتا، جس میں زبدہ کی آنکھیں چمکتیں، شمسن کا جسم لچکتا۔ ٹین کے خالی بکسوں میں سوکھے ٹکڑے اور بچوں کے بلوری بنٹے بجتے اور تالیاں بجاتے اور قمرن کی گڑیاں ننگی ہو ہو کر ایک دوسرے میں گھسی پڑتیں۔
مولوی ابل کے دو ایسے سہارے تھے جوکبھی نہ ٹوٹے، اللہ جل شانہٗ، اور چودھری فتح داد۔ا للہ جل شانہٗ کا یہی کرم کیا کم تھا کہ مولوی ابل اور زیب النساء اب تک زندہ تھے اور اب تک زندہ تھے اور اب تک ان کی ساری اولاد زندہ تھی، اور مہرالنساء کا بیاہ اس ٹھاٹ سے ہوا تھا کہ زبدہ اور شمسن کے لئے رشتے کے پیاموں کا سلسلہ ٹوٹنے میں نہ آتا تھا۔ لیکن مولوی ابل جس شدت سے مہرالنساء کے بر کی تلاش میں سرگرداں رہتا تھا اسی شدت سے وہ زبدۃالنساء اور شمس النساء کے لئے آنے والے پیاموں سے متنفر تھا۔ ابھی تو کل کی بچیاں ہیں بھئی۔ ابھی تو گڑیوں سے کھیلتی ہیں۔ شمسن نے ابھی قرآن مجید بھی ختم نہیں کیا۔ میں ذرا ذرا سی پونی ایسی بچیوں کو کس دل سے اٹھا کر پرائے گھر میں پٹخ آؤں زبان و بان نہیں دوں گا۔ اگلے سال دیکھا جائے گا۔‘‘
’’دیکھا جائے گا۔‘‘ وہ زیب النساء سے زبدہ اور شمسن پر بے تحاشا آئی ہوئی جوانی کی اطلاعیں پا کر کہتا، ’’اللہ تعالیٰ جل شانہٗ رحم فرمائے گا۔ تو کل بڑی چیز ہے عارف کی ماں!کسان جب دھرتی میں بیج بوتا ہے تو اللہ جل شانہٗ پر تو کل کرتا ہے۔ توکل نہ کرے تو بیج وہیں مٹی میں مٹی ہو کر رہ جائے یہی تو کل بیج کو چٹخاتا ہے اور دھرتی کو چیر پودا نکالتا ہے، اور سبز پتیوں کی کوکھ میں بالیوں اور بھٹوں کو پروان چڑھاتا ہے، سمجھیں عارف کی ماں؟‘‘
’’پرکسان بیج تو بوتا ہے!‘‘ زیب النساء بحث کرتی، ’’تم نے کیا کیا ہے؟‘‘
’’الحمداللہ‘‘ مولوی ابل کہتا، ’’میں نے بہت کچھ کیا ہے۔ میں نے ہر نماز کے بعد دعائیں مانگی ہیں؟‘‘ اور زیب النساء لاجواب ہو جاتی۔
دعاؤں کے بعد مولوی ابل کا ذہن چودھری فتح داد کی طرف منتقل ہو جاتا۔ آج کتنے برسوں سے اس خدا ترس انسان نے اس کے گھر میں ہر شام کو وظیفہ بھجوادیا تھا، اور کتنی پابندی سے ہر فصل پر مولوی ابل کو پوشاک پہنائی تھی، اور لطف کی بات یہ ہے کہ دوسروں کی طرح ڈھنڈورا نہیں بیٹا تھا۔ لیکن اب چند روز سے چودھری فتح داد بیمار رہنے لگا تھا۔ ایک بوڑھے نائی نے جوعرصے سے جراحی کا کام کر رہا تھا۔ چودھری کی ریڑھ کی ہڈی پھوڑے کے آس پاس کچھ ایسی نشترزنی کی کہ یہ پھوڑا شام تک سوج کر پھوٹ پڑا اور بہنے لگا۔ ساتھ ہی چودھری کو لرزے کے بخار نے آ لیا اور علاقے کے حکیموں کا تانتا بندھ گیا۔ ان دنوں مولوی ابل کے گھر پر مردنی چھائی رہتی۔ ایک تو مہر النساء سے اس کی ساس کا برتاؤ سوہان روح تھا، اس پر چودھری نہ ہوتا تو آج تک ہم میں سے آدھے آدمی تو فاقوں سے مرگئے ہوتے۔ اللہ جل شانہٗ کے حضور میں اس کی صحت کی دعا کرو بد بختو!‘‘
مولوی ابل ان دنوں ہر روز صبح و شام چودھری فتح داد کے ہاں مزاج پر سی کو جاتا۔ مگر وہاں عیادت کرنے والوں کے ہجوم میں کبھی کوئی گھر کی بات نہ ہو سکی۔ بس اتنا ہوتا کہ مولوی ابل کو دیکھ چودھری تعظیماً اٹھنے کی کوشش کرتا اور پھر کراہ کر اسی طرح منہ کے بل گر جاتا۔ ’’دعا فرمائیے قبلہ۔‘‘ وہ آہستہ سے کہتا اور مولوی ابل آنسو لا کر آسمان کی طرف انگلی اٹھاتا اور کہتا، ’’وہی شافی مطلق آپ کو صحت کلی عطا فر مائے گا۔۔۔‘‘ لیکن ایک روز جب مولوی ابل چودھری کے ہاں گیا تو وہاں سوائے اس کے ایک بیٹے کے اور کوئی نہ تھا۔ چودھری کی طبیعت بھی خلاف معمول سنبھلی ہوئی تھی۔ آج وہ حسب عادت تعظیماً کچھ اٹھا لیکن کراہا نہیں۔ لڑکے کو اشارہ کر کے باہر بھیج دیا اور بولا: ’’بیٹیاں کیسی ہیں قبلہ؟‘‘
’’الحمداللہ۔ اچھی ہیں۔ دعا گو ہیں۔‘‘ مولوی ابل نے جواب دیا۔
’’سنا ہے بہت پیغام آرہے ہیں؟‘‘ چودھری نے پوچھا۔
مولوی ابل ابھی تک یہ سمجھے بیٹھا تھا کہ لڑکیوں کے پیغام طرفین کے درمیان سر بستہ رازوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ جوانی کا ڈنکا پٹتا ہے تو کوئی راز راز نہیں رہتا۔ چونک کر بولا، ’’جی ہاں بہت آرہے ہیں۔‘‘
’’پھر؟ کوئی فیصلہ فرمایا آپ نے؟‘‘ چودھری مسلسل مولوی ابل کی طرف دیکھے جارہا تھا۔
مولوی ابل گھبرا سا گیا۔ کچھ کہنے کے لئے ہونٹ کھولے مگر محسوس کیا کہ اچانک تالو زبان اور حلق خشک ہو گئے ہیں۔ کچھ نگل کر بولا، ’’جی فیصلہ میں کیا کروں۔ یہ تو اللہ جل شانہٗ کرے گا۔ جس خالی ڈھنڈار گھر میں خلال کےلئے تنکا تک نہ ملے وہاں بیٹیوں کے رشتے کون طے کرتا پھرے۔‘‘
’’تو قبلہ کیا میں مر گیا ہوں؟‘‘ چودھری فتح داد کی آواز میں بھراہٹ تھی۔
’’آپ کے دشمن مریں۔‘‘ مولوی ابل فوراً بول اٹھا، ’’آپ اللہ جل شانہٗ کے فضل سے تندرست ہو جائیں تو پھر بیٹھ کر طے کر لیں گے۔‘‘
’’جی ہاں‘‘ چودھری نے ہمدردانہ انداز میں کہا۔ ’’فوراً طے ہونا چاہئے۔ گھر میں جوان لڑکی بیٹھی ہو تو ایک ایک دن ایک ایک صدی بن جاتا ہے، اللہ تعالیٰ سب سامان کر دے گا— وظیفہ تو باقاعدہ پہنچ رہا ہے نا؟‘‘
’’جی ہاں‘‘ مولوی ابل نے جواب دیا ’’باقاعدہ۔‘‘
’’اللہ قبول فرمائے۔‘‘ چودھری فتح داد نے آہستہ سے دعا کی۔
’’آمین۔‘‘ مولوی ابل نے عادتاً اس دعا کی تائید کردی۔ کچھ دیر خاموشی رہی، چودھری ذرا سا کراہا۔ پھر بولا: ’’سنا ہے بیٹی مہرالنساء اور شمیم احمد کی خوب نبھ رہی ہے، پر ساس اس کے پاؤں نہیں ٹکنے دیتی۔‘‘
’’جی ہاں۔‘‘ مولوی ابل نے بڑے دکھ سے کہا، ’’لیکن میں نے کبھی کوئی دخل نہیں دیا۔ بیٹی بیاہ دی جائے تو پرائی ہو جاتی ہے۔‘‘
’’پر ساس سے کیوں نہیں بنتی؟‘‘
’’بس وہی غریبی مفلسی کے طعنے۔ تو کنگلی ہے، تو سوکھے ٹکڑوں پرپلی ہے، تیرے کپڑوں سے کفن کی بو آتی ہے، تو اپنے ساتھ کیا لائی ہے؟ وہی عورتوں کی باتیں۔‘‘
’’ہوں‘‘ چودھری فتح داد کچھ دیر تک سوچتا رہا پھر بولا، ’’بیٹی پرائی نہیں ہو جاتی قبلہ! بیاہ کے بعد تو اس کے حقوق بڑھ جاتے ہیں۔ اب اگر ساس اس قسم کی ہے تو آپ کا فرض ہےکہ اسے ان طعنوں کا موقع ہی نہ دیں۔ وہ بیٹی مہرانساء کو کنگلی کہتی ہے نا؟ اب ہماری بیٹی کے بچہ ہوگا تو اس کے لیے آپ ریشم کے کپڑے اور طلائی ٹوپیاں اور سونے کے گنگھروؤں والے کنگن بھیج دیجئے اور پھر دیکھئے کس طرح بیٹی کا مان بھی بڑھے گا اور بڑھیا کی پلید زبان بھی کٹ جائے گی۔ ٹھیک ہے نا قبلہ؟‘‘
ٹھیک ہے، مولوی ابل نے سوچا۔ بہت حد تک ٹھیک ہے، مگر ایک حد تک محال بھی ہے۔ یہ سب سامان آخر آئے گا کہاں سے؟ اور کیا عارف کی ماں نے آج سے آٹھ مہینے پہلے مہرن کے بارے میں جو انداز لگایا تھا وہ درست تھا؟ اب مولوی ابل کا وہاں دیر تک نچلا بیٹھے رہنا مشکل تھا۔ تو کیا سچ مچ مہرن بیٹی کے بچہ پیدا ہونے والا ہے؟ اس نے تو زیب النساء سے کبھی پوچھا ہی نہ تھا، اور زیب النساء نے بھی حیا کے مارے کبھی کوئی بات نہیں کی تھی۔ اسے معلوم تھا کہ مولوی ابل بیٹیوں کے پیٹوں کو ٹٹولنے پھر نے کے سخت خلاف ہے۔
مولوی ابل ڈیوڑھی ہی سے پکارا، ’’عارف کی ماں!‘‘
زیب النساء بھاگی آئی، ’’خدا خیر کرے کیا ہوا؟ چودھری کیسا ہے؟‘‘
’’اللہ جل شانہٗ رحم فرمائے گا ‘‘ مولوی ابل بولا ’’ عارف کی ماں! سنو مہرن بیٹی کیسی ہے؟‘‘
زیب النساء چونکی، ’’تمہیں کس نے بتایا؟‘‘
’’کب تک ہوگا؟‘‘ مولوی ابل آج تو آپے سے باہر ہو رہے تھا۔
’’بس اللہ چاہے گا تو آج کل میں۔‘‘ زیب النساء جھینپ کر بولی، ’’پر تمہیں کس نے بتایا؟‘‘ مولوی ابل تقریر کے سے انداز میں بولا ’’بس یہی موقع ہے جب ہم مہرن بیٹی کو ساس کے طعنوں تشنعوں سے چھٹکارا لا سکتے ہیں۔ ہم اپنے نواسے نواسی کے لئے بہت سا۔۔۔‘‘
’’اللہ کرے نواسہ ہو۔‘‘ زیب النساء نے مولوی ابل کی بات کاٹ دی۔
’’جو کچھ بھی ہو‘‘ مولوی ابل نے ٹوٹے تار کو جوڑا، ’’ہم بچے کے لئے بہت سا سامان بھیج کر اپنی بیٹی کا مان بھی بڑھائیں گے اور اس بدبخت بڑھیا کی پلید زبان بھی کھینچ لیں گے ہمیشہ کے لئے ٹھیک ہے نا؟‘‘
’’کہنا تو بڑا آسان ہے پر کرو گے کہاں سے؟‘‘ زیب النساء نے پوچھا۔
’’تو کل عارف کی ماں، تو کل۔‘‘ مولوی ابل کے ذہن میں چودھری فتح داد کا میٹھا میٹھا ہمدردانہ لہجہ گھوم رہا تھا۔ ’’اللہ جل شانہٗ پر تکیہ کرو۔‘‘ مولوی ابل کو اس وقت چودھری پر تکیہ تھا۔
شام ہوتے ہی زیب النساء نے برقع اوڑھا، عارف کو ساتھ لیا اور مہر النساء کےہاں چلی گئی۔ رات گئے واپس آئی۔ برقعے کو ایک طرف رکھ کر آہستہ سے بولی ’’جاگ رہے ہو عارف کے ابا؟‘‘
’’ہاں عارف کی ماں۔ کیوں!‘‘ مولوی ابل نے لحاف میں سر نکالا۔
’’بڑی تکلیف میں ہے مہرن بیٹی۔ شمیم احمد رو رہا تھا بے چارہ، شاید کل تک ہو جائے گا۔‘‘ زیب النساء نے بڑی کھنکی ہوئی آواز میں سر گوشی کی۔
’’سچ اماں؟‘‘ زبدہ تڑپ کر بستر پر اٹھ بیٹھی۔
’’ارے!‘‘ مولوی ابل اور زیب النساء حیران رہ گئے اور پھر اس موضوع پر مزید اظہار رائے کیے بغیر سو گئے۔
دوسرے روز بھی کچھ ایسی ہی کیفیت رہی۔ جب بیٹی مارے درد کے چیختی ہے اور ماں باپ مارے خوشی کےپھولے نہیں سماتے۔ اور پھر آدھی رات کو ایک نائن نے ڈیوڑھی کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ مولوی ابل نے لپک کر زنجیر کھولی مہرن کے ہاں بیٹا ہوا تھا، سارا گھر جاگ اٹھا اور جب کافی دیر کے بعد سب اپنی اپنی مسکراہٹیں سمیٹ کر اونگھنے لگے تو مولوی ابل زیب النساء کے پاس آیا، ’’اب کیا ہوگا؟‘‘
’’چودھری کیسا ہے؟‘‘ زیب النساء نے پوچھا
’’اللہ جل شانہٗ ہی رحم فرمائے‘‘ مولوی ابل نے کہا۔
زیب النساء اس کے ساتھ لگ کر بیٹھ گئی۔ ’’طلائی ٹوپیوں اور سونے کے کنگوں کو تو جھونکو بھاڑ میں، میں تو کہتی ہوں اگر ریشم کا ایک ایک چولا چنی ہی بنوا لیں تو ناک رہ جائے کوئی سبیل ہے؟‘‘
’’سبیل؟‘‘ مولوی ابل سوچ میں پڑ گیا اور جب بولا تو اس کی آواز میں غصہ تھا، ’’تمہاری عقل بھی تو ایڑی میں ہے۔ اور جانے وہاں بھی ہے کہ نہیں۔ سات بیٹیاں ہیں اور پہلی ہی بیٹی بیاہ پر کپڑے لتے اور گہنے پاتے یہاں تک کہ انگلیوں کے چھلے بھی جہیز میں دے ڈالے آخر ایک بھوکے مرجھلے امام مسجد کی بیٹی کا بیاہ تھا وہ کوئی نواب زادی تو تھی نہیں کہ کوئی انگلی دھرتا۔ اب ہاتھ بھر لونڈا پیدا ہوا ہے تو اس کے لئے دو ہاتھ کپڑا موجود نہیں اور پوچھتی ہے کوئ سبیل ہے؟نہیں کوئی سبیل، کفن بھی تو نہیں کہ اٹھا کر نواسے کو پہنا دیتا۔‘‘
’’بکنے کیوں لگے؟‘‘ زیب النساء بھی غصے میں بولی، ’’کفن پہنیں اس کے دشمن۔ اللہ وہ سہرے باندھے۔ اب یہ تو مجھ سے نہیں ہوگا کہ خالی ہاتھ مٹکاتی مہرن کے پاس جاؤں اس کی کمینی ساس کے سامنے۔ اور زبانی صدقے قربان ہو کر واپس آجاؤں لعنتوں کی گٹھری اٹھا کر مجھ سے تو یہ نہیں ہوگا، جینا اجیرن ہو جائے گا میری بیٹی کا۔ ساس ناک میں دم کر دے گی۔ آنکھیں نہیں اٹھ سکیں گی کسی کے سامنے، زبدہ اور شمسن کو بھی کوئی نہیں پوچھے گا۔ سب کو پتہ چل جائے گا کہ جو کچھ تھا وہ ایک دم اگل بیٹھے اور اب وہی سوکھے ٹکڑے توڑتے پھرتے ہیں، ساری عمر کنواریاں بیٹھی رہیں گی۔‘‘
’’بیٹھی رہیں۔‘‘ مولوی ابل طیش میں آگیا۔ ’’اب کہو تو سر پھوڑ ڈالوں اپنا، کہہ جو دیا کہ میرے پاس کفن تک نہیں اور تو ریشم کا کپڑا مانگتی ہے؟ کچھ نہیں میرے پاس سمجھیں؟ میرےپاس کچھ بھی نہیں۔‘‘ مولوی ابل باہر نکل گیا۔ زیب النساء کچھ دیر تک اس خیال سےچپ پاپ بیٹھی رہی کہ وہ آنگن میں کچھ دیر ٹہل کر اندر آجائے گا، مگر جب ڈیوڑھی کے دروازے کی زنجیر کھلنے کی آواز آئی تو وہ بلبلا کر رو دی، اور زبدۃالنساء اور شمس النساء تڑپ کر بستروں میں سے نکلیں اور بلکتی ہوئی اپنی ماں سے لپٹ گئیں۔
مولوی ابل سیدھا مسجد میں گیا۔ وضو کرکے دیر تک تہجد پڑھتا رہا۔ پھر صبح کی اذان دے کر کلام پاک کی تلاوت شروع کردی۔ چند نمازی آئے تو جماعت کرائی اور سورج طلوع ہونے پر گھر آیا تو زیب النساء اسی جگہ بیٹھی اپنی سوجی سوجی آنکھوں سے دیوار کو گھورے جارہی تھی، اور زبدہ اور شمسن اس کے پاس گھٹریاں بنی ہوئی پڑی سو رہی تھیں۔ وہ مجرموں کی طرح چپکے سے اپنی چار پائی تک گیا اور یوں بے حس وحرکت بیٹھ گیا جیسے اسے تصویر اتر وانا ہے۔
زیب النساء کی نظریں دیوار سے اتر کر زمین پر جم گئیں۔ مولوی ابل کی نظروں نے ان کا تعاقب کیا مگر مڈبھیڑ نہ ہوسکی۔ پھر جانے اسے کیا خیال آیا کہ اس نے زور کی آہ بھری۔ اب زیب النساء سے نہ رہا گیا، فوراً اس کی طرف دیکھنے لگی۔ مولوی ابل کے ہونٹوں پر مری مری مسکراہٹ نمودار ہوئی اور اس کی آنکھوں نے کہا، ’’ادھر آؤ۔‘‘
زیب النساء اٹھ کر اس کے پاس گئی۔ اب مولوی ابل موم ہوچکا تھا۔
’’کہاں چلے گئے تھے۔‘‘ زیب النساء نے بڑی پیار بھری شکایت کی۔
’’کیوں گئے تھے؟‘‘
’’کیوں جاتے ہیں؟‘‘
’’کچھ سوچا؟’’
’’ہاں‘‘
’’کیا سوچا؟‘‘
’’یہی کہ صبح ہو گئی ہے۔ تمہیں تو ماں ہونے کے سبب رات ہی کو مہرن کے ہاں پہنچ جانا چاہیئے تھے۔ رات کو نہ جا سکیں تو اب اس وقت تو تمہارا جانا بہت ضروری ہے۔‘‘
’’خالی ہاتھ؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’پھر؟‘‘
’’یہی تو سوچ رہا ہوں۔تم نے کیا سوچا؟‘‘
’’یہی۔‘‘
کچھ دیر تک دونوں خاموش بیٹھے رہے۔
’’سنو!‘‘ زیب النساء بولی ’’کہیں سے دس روپے قرضہ مل جائے گا؟‘‘
مولوی ابل نے بھویں اٹھا کر اس کی طرف دیکھا اور دیکھتا رہ گیا۔ پھر ہونٹوں کو سکیڑ کر زمین کو گھورا اور گھٹنوں پر ہاتھ رکھ یوں آہستہ آہستہ اٹھا جیسے کمر ٹوٹی ہوئی ہے۔ تھکےہوئے لہجے میں بولا، ’’ابو البرکات کو کون عقل کا اندھا قرضہ دے گا عارف کی ماں۔ مجھے سب لوگ بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔ سوکھے ٹکڑے پیٹ میں جاکر آنکھوں میں سے جھانکنے لگتے ہیں۔ مجھے تو اندھیرا نظر آتا ہے۔ سوچتا ہوں آج نواسے کے لئے دو گز کپڑا نہ بھیج سکا تو پھر اس گاؤں میں کاہے کو رہوں گا۔‘‘
زیب النساء بڑی مہارت سے امڈے ہوئے آنسو پی گئی۔ بولی، ’’چوہدری کیسا ہے؟‘‘
’’وہیں جاتا ہوں۔‘‘ مولوی ابل نے جماہی لے کر کہا، ’’ذرا سا بھی اچھا ہوات و مہرن کا ضرور پوچھے گا۔ ہو سکتا ہے اللہ جل شانہٗ کوئی سبیل پیدا کردے۔‘‘
مولوی ابل کافی دیر تک واپس نہ آیا۔ زیب النساء نے برقعے کو جھاڑ کر الگنی پر ڈال دیا اور عارف کو منہ ہاتھ دھونے اور تیار ہو جانے کوکہا۔ زبدہ اور شمسن نے ضد کی کہ وہ بھی اپنے بھانجے کو دیکھنے جائیں گی۔’’ابھی ٹھہرو بیٹی!‘‘ زیب النساء یوں آہستہ سے بولی جیسے اس وقت ذرا سی بھی بلند آواز سے بولی تو کوئی چیز چھن سے ٹوٹ رہ جائے گی۔
’’انتظار۔‘‘
’’انتظار۔‘‘
ماں کے تیور دیکھ کر بچے بھی سہمے بیٹھے تھے اور ماں چڑیا کے اڑنے تک سے چونک کر ڈیوڑھی کی طرف دیکھنے لگتی تھی۔ اور پھر ڈیوڑھی کے کواڑ ڈھڑاک سے بج کر کھلے اور مولوی ابل زندگی میں شایدپہلی بار بھاگتا اور ہانپتا ہوا اندر آیا اور چلایا، ’’عارف کی ماں، اے عارف کی ماں۔‘‘
زیب النساء باہر لپکی اور اس کے پیچھے زبدہ شمسن، عارف، قمرن، عمدہ اور دوسرے بچے یوں نکلے جیسے کہ کمرے میں سے کسی بگولے نے انہیں اٹھا کر باہر بکھیر دیا ہے۔ اور مولوی ابل اسی بجتے ہوئے لہجے میں چلایا، ’’مبارک ہو عارف کی ماں! تم نواسے کے چولے کو رو رہی تھیں، اور اللہ جل شانہٗ نے چولے، چنی اور ٹوپی تک کا انتظام فرما دیا۔ جنازے پر کچھ نہیں تو بیس روپے تو ضرور ملیں گے۔ ابھی کچھ دیر تک جنازہ اٹھے گا۔۔۔چودھری فتح داد مر گیا ہے نا۔‘‘
زیب النساء نے اس زور سے اپنی چھاتی پر ہاتھ مارا کہ بچے دہل کر رو دیے۔
اور پھر ایک دم جیسے کسی نے مولوی ابل کو گردن سے دبوچ لیا، اس کی اوپر اٹھی ہوئی پتلیاں بہت اوپر اٹھ گئیں۔ پھر ایک لمحے کے درد ناک سناٹے کے بعد مولوی ابل جو مرد کے چلا چلا کر رونے کو ناجائز اور خلاف شرع قرار دیتا تھا، چلا چلا کر رونے لگا اور بچوں کی طرح پاؤں پٹختا ہوا ڈیوڑھی کےدروازے میں سے نکل کر باہر بھاگ گیا۔
اگلا
اکھاڑہ جم چکا تھا۔ طرفین نے اپنی اپنی ’’چوکیاں‘‘ چن لی تھیں۔ ’’پڑکوڈی‘‘ کے کھلاڑی جسموں پر تیل مل کر بجتے ہوئے ڈھول کے گرد گھوم رہے تھے۔ انہوں نے رنگین لنگوٹیں کس کر باندھ رکھی تھیں۔ ذرا ذرا سے سفید پھین ٹھئے ان کے چپڑے ہوئے لانبے لابنے پٹوں کے نیچے سے گزر کر سر کے دونوں طرف کنول کے پھولوں کے سے طرے بنا رہے تھے۔ وسیع میدان کے چاروں طرف گپوں اور حقوں کے دور چل رہے تھے اور کھلاڑیوں کے ماضی اور مستقبل کو جانچا پرکھا جا رہا تھا۔
احمد ندیم قاسمی