آپ کا سلاماردو تحاریراردو کالمزاسلامی گوشہاویس خالد

احترام رمضان

اویس خالد کا ایک اردو کالم

احترام رمضان

خدائے بزرگ و برتر کا شکرِبے حساب ہے کہ ایک ہی دفعہ گذرنے والی اس حیاتِ عارضی میں ایک مرتبہ پھرماہِ رمضان المبارک اپنے تمام فیوض و برکات سمیٹے ہوئے ہماری زندگیوں میں مہمان بن کر آ گیا ہے۔اب اس مہمان کی خاطر داری اور قدر ہمارے نیک اعمال پر موقوف ہے۔ اس ماہ مقدس کی فضیلت و عظمت سے مسلمان قوم کا بچہ بچہ آشنا ہے۔ہم سب جانتے ہیں کہ ہر طرف نیکیوں کے انبار لگ جائیں گے۔ایک ایک نیک عمل کاثواب کئی کئی گنا بڑھا دیا جائے گا۔ابلیس پابند سلاسل ہوجائے گا۔نیکی کرنے میں اس کی طرف سے کوئی رکاوٹ نہیں آئے گی،ہاں مگر اس نے جو گیارہ ماہ ہمیں جھوٹ کی مشق کرائی ہے،بھر بھر کے غفلت کے جام پلائے ہیں،طمع کے بیج ہمارے دلوں میں بوکر لالچ کی شجر کاری کی ہے جس پر ہوس کے بد بودار پھول کھلے ہیں اور حرص کے گلے سڑے پھل لگے ہیں،عیاری و مکاری کا جو سبق ہمیں پڑھایا ہے۔انا کے بتوں کی تعمیر سے ہمارے دلوں کی حرمت بگاڑ کرجواسے داغدار کیا ہے،وہ ضرور آڑے آئے گی،جس کا حل صرف اور صرف توبہ اور خلوص نیت ہے۔پچھلے کچھ عرصے سے پوری قوم جدیدیت کے نام پر خرافات کے سمندر میں غرق ہے۔ اگرچہ پہلے پہل ایجاداتوں ا ور دریافتوں کی یوں فراوانی نہیں تھی لیکن ایمان کی مضبوطی تھی۔شعائر اسلام کی حرمت کا پاس تھا۔مخصوص مقدس ایام میں ایک روحانی و نورانی ماحول بن جاتا تھا۔ہر کوئی عبادت و ریاضت میں مشغول و منہمک نظر آتا تھا۔بڑوں کی ذمہ داری تھی کہ چھوٹوں میں جذبہ ایمانی بیدار کریں،انہیں اسلامی طرزِ حیات سے آگاہی دیں۔انہیں اسلامی تعلیمات سے روشناس کریں۔عبادات کی پہچان کرائیں۔ایک ماحول کی سحر خیزی تھی جو سب کو مسجدوں کی طرف کھینچے لیے جاتی تھی۔ لیکن تعجب ہے کہ انسان کو جیسے جیسے ترقی کرنی چاہیے تھی ویسے ویسے اس کی عاجزی میں اضافہ ہونا چاہیے تھا کیوں کہ فطرت کے ہر راز کھلنے سے پروردگار کی صفاتِ اقدس کا ہی ادراک ہوتا ہے۔لیکن معاملہ الٹ ہوتا چلا گیا۔ہم اتنے بہادر ہو گئے کہ آپس میں مذاق کرتے کرتے شعائر اسلام کابھی مذاق اڑانے لگے اور ہمیں اس کا احساس تک نہ رہا۔ پروردگار نے وقت کی جو بہترین تقسیم کی ہے اس کے مطابق کچھ سالو ں سے روزے گرمیوں میں آ رہے ہیں اور ابھی چند سال اور آئیں گے۔موسم کی شدت کا رونا روتے ہوئے،روزوں کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے ان پیغامات کی بھرمار دکھائی دے گی۔یہ اسلام دشمن عناصر جو اسلام کی دشمنی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے،وہ ہراُس موقعہ کی تاک میں ہوتے ہیں جہاں وہ اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ کر سکیں اورموقعہ ملتے ہی ایسے تمام فورم فورا متحرک ہو جاتے ہیں۔اور انتہائی شرم کی بات یہ ہے کہ ہم جانے انجانے میں ان کے مشن کی تکمیل میں ان کا ہاتھ بٹا رہے ہوتے ہیں۔ان کے بنائے گئے توہین و تضحیک آمیز پیغامات کو اپنے ذوق کی تسکین کی خاطرچند لمحوں کی مسکراہٹ کے لیے آگے پھیلاتے ہیں اور یہ تک نہیں سوچتے کہ اپنے ہی دین کے ساتھ مذاق کر کے عذاب الہی کو دعوت دے رہے ہیں۔بڑے وثوق سے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ آج تک ہم میں سے جس جس نے جو جو بھی اچھا یا برا پیغام پھیلایا،وہ ہمیں قطعا یاد نہیں ہے۔ان سب باتوں کا سرور وقتی تھا لیکن وہ سب مواد ہمیشہ کے لیے ہمارے اعمال کا حصہ بن چکا ہے اور حصہ بنا رہے گاچہ جائے کہ برے اعمال پرہم ندامت اختیار کرتے ہوئے خالق سے توبہ نہ کر لیں۔ کیا ہمیں علم نہیں کہ روزہ وہ واحد عبادت ہے جس کے بارے میں خود پروردگار نے ارشاد فرمایا کہ یہ میرے لیے ہے اور میں خود اس کی جزا دوں گا۔قابل تفکر بات یہ ہے کہ باقی عبادات بھی تو اس پاک ذات کے لیے ہی ہیں لیکن روزے کے ضمن میں خاص طور پر یہ فرمایا کہ یہ میرے لیے ہے۔اسی سے اس کی اہمیت و عظمت کا اندازہ کیجیے۔پہلے کی طرح اب بھی توہین آمیز تصاویر اور لطائف کا اک سیلاب آئے گا۔خدارا ایسے مواد کو آگے پھیلانے کی بجائے اس کو روکیں تا کہ اس گناہ میں آپ شریک نہ ہوں بلکہ اس برائی کے سد باب کرنے جیسے نیک عمل میں آپ کا حصہ ہو۔ جو آپ کو ایسا پیغام بھیجے اپنے اس دوست یا رشتہ دار کو سمجھا کر اس سے سچی ہمدردی کریں تا کہ وہ بھی گناہوں کی بنتی ہوئی اس زنجیر سے باہر نکل آئے۔روزہ سفر اور بیماری کی حالت میں گنجایش دیتا ہے،بصورت دیگر بغیر کسی شرعی عذر کے اس کو ترک مت کریں۔حکومت کی لگائی گئی پابندیوں سے ذیادہ ہمیں اپنے پروردگار کا خوف ہونا چاہیے۔رمضان المبارک کے تمام فیوض و برکات اس ماہ مقدس کا احترام کرنے سے ہی حاصل ہو سکتے ہیں۔نفلی عبادات میں کمی بیشی ہو تو ہو مگر فرائض کا خاص اہتمام فرمانا چاہیے۔ غلط دیکھنے، غلط سننے اور غلط کہنے سے خود کو محفوظ رکھنے کی مشق کرنی چاہیے۔ تاجر حضرات کوبھی خیال کرنا چاہیے کہ نیکیوں کی صورت میں ملا ہوا منافع اس دنیا کے مال و دولت کی شکل میں ملے منافع سے ہزار ہا گنا بہتر اور افضل ہے۔خیرات و صدقات کے حوالے سے ریاکاری سے بچنا چاہیے۔سیاسی افطاریاں کرنے اور کرانے سے پرہیز کرنا چاہیے۔سوشل میڈیا پر وقت گذارتے ہوئے بزعم خود اپنے آپ کو حالت عبادت میں سمجھنے اور خود کو دھوکا دینے کی بجائے عملی بنیادوں پر عبادات کا اہتمام کریں توکہیں بہتر ہو گا۔ تھوڑا عمل ہو لیکن خلوص نیت کے ساتھ ہو تو وہ بڑے بڑے اعمال پر بھاری ہو جاتا ہے۔ عمل کی توفیق کے واسطے دل و جاں سے دعا ہے۔

بقول راقم:
بخشش کرانے دوستو! رمضان آ گیا
رب سے ملانے دوستو! رمضان آ گیا

اویس خالد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button