- Advertisement -

زبان کے زخم

ناہید فاطمہ کا ایک اردو کالم

زبان کے زخم

کہتے ہیں زبان اگرچہ تلوار نہیں پرتلوار سے زیادہ تیز ہے. تلوار کا زخم بھر جاتا ہے مگر زبان سے لگایا ہوا زخم کبھی بھی مندمل نہیں ہو سکتا…
اسطرح الفاظ کا وار تلوار سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے…
اور لہجے اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ ہوتے ہیں. آپ میٹھی سے میٹھی بات بھی کڑوا لہجہ میں کہیں گےتو وہ تلوار کے جیسا اثر رکھے گی لیکن اگر بات کڑوی ہے اور میٹھے لہجہ میں کہی گئی ہے تو وہ اتنی تکلیف نہیں دے گی…
میرے خیال میں لہجہ زیادہ matterکرتا ہے….کڑوی سے کڑوی بات بھی ہضم ہو سکتی ہے بھولائی جاسکتی ہے ..مگر لہجہ کبھی نہیں بھولتا …تلوار سے زیادہ زخم دیتا ہے…
اسی لیے تو ہمارے اسلام میں بار بار اخلاق حسنہ کی تلقین کی گئی ہے….
مشہور مقولہ ہے!
پہلے تولو..پھر بولو!
لیکن کچھ لوگ بخیر سوچے سمجھے بول دیتے ہیں وہ یہ بھی نہیں دیکھتے کہ ہماری کہی ہوئی ایک چھوٹی سی بات بھی کسی دوسرے کے لیے کتنی تکلیف دہ ہو سکتی ہے اور نہ وہ لوگ اپنے لہجہ پہ غور کرتے ہیں جو سب سے زیادہ تکلیف دیتا ہے…
اگر بندہ بات کرنے سے پہلے صرف یہ سوچ لے کہ جو بھی بات میں کہنے لگا ہوں..یہی بات کوئی دوسرا مجھ سے اسی لہجہ میں کہے تو وہ میرے لیے کتنی تکلیف دہ ہو گی…جب وہ الفاظ،وہ لہجہ ہم اپنے لیے استعمال نہیں کر سکتے، برداشت نہیں کرسکتے تو کسی دوسرے کے لیے کیںوں؟؟؟
یہ بات بھی ہمیشہ یاد رکھنی چاہئےکہ کسی کا بھی دل دکھانا بہت بڑا گناہ ہے….
میرے اللہ پاک حقوق اللہ تو معاف کر دیں گے لیکن حقوق العباد کبھی معاف نہیں کریں گے جب تک وہ بندہ خود معاف نہ کر دے جس کا آپ نے دل دکھایا ہے.

ناہید فاطمہ

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
شیخ خالد زاہد کا اردو کالم