ضبط گریہ میں بھی گریہ تو کیا ہے میں نے

مقصود وفا کی ایک اردو غزل

ضبط گریہ میں بھی گریہ تو کیا ہے میں نے

چپ رہا ہوں پہ تماشا تو کیا ہے میں نے

اب اڑاؤں گا اسے تیرے فلک پر اک دن

اپنی مٹی کو اکٹھا تو کیا ہے میں نے

دیکھیے کس کے خد و خال نظر آتے ہیں

ایک دیوار کو شیشہ تو کیا ہے میں نے

اب میں کچھ اور بنوں ایسی بیابانی میں

ٹوٹ جانے کا ارادہ تو کیا ہے میں نے

کھل کے میں وصل کی باتیں نہیں کرتا پھر بھی

باتوں باتوں میں تقاضا تو کیا ہے میں نے

پیار کی حد ہی نہیں کوئی یہ مانا لیکن

جتنا ہو سکتا ہے اتنا تو کیا ہے میں نے

شاید آ جائے خبر اپنے علاوہ ہوں کہاں

خود کو تنہائی میں تنہا تو کیا ہے میں نے

مجھ میں تشکیک بھی سر اپنا اٹھا سکتی ہے

اے خدا تجھ پہ بھروسہ تو کیا ہے میں نے

جانے اب کون گلی میں کہیں نکلوں جا کر

ایک ویرانے میں رستہ تو کیا ہے میں نے

وہ کہیں ہے کہ نہیں ہے مجھے معلوم نہیں

اپنے ہونے کا اشارہ تو کیا ہے میں نے

اب فقط آخری عشق آخری مقصود وفاؔ

آخری عشق کہ پہلا تو کیا ہے میں نے

 

مقصود وفاؔ

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.