یہ تو آگ ہے
کسی بھید والی
سنہری مٹی کو گوندھتا تھا وہ عرش پر
کسی آب آئنہ دار سے۔
کوئی مٹی لایا تھا چاو سے
کوئی پانی لایا تھا چاہ سے۔
وہ مجسمے میں جو روح بھرنے لگا
تو ہونٹ پگھل گئے
تو وہ اپنی بولی میں بول اٹھا
___یہ تو آگ ہے !
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ تو زمہریر کا دور تھا
کہیں گرتی برف رواج تھی
کہیں زرد کہر کا طور تھا۔
یہ جو اگلووں کے مکین ہیں، یہ بتائیں گے
کہ سفید رنگ کے اور بھی کئی رنگ ہیں
کہ گلیشئر کے حسب کئی ہیں تو کہر کے ہیں کئی نسب۔
کئی برفباد کے سلسلے
کئی شجرے اگتے ہیں دھند کے، جمے آسماں کی زمین سے۔
وہ تو زمہریر کا دور تھا
کئی رنگ و نسل کی برف گرتی تھی بام سے۔
کبھی صبح چڑھتی تھی ملگجی
کبھی رات ہوتی تھی شام سے۔
سبھی استخواں تھے جمے ہوئے
سبھی مغز بھربھری برف تھے۔
وہ جو بات مغز سخن میں تھی
تھی قلم قلم جمی تختیوں پہ لکھی ہوئی۔
گھنے انجماد میں لفظ تھے
کہ جمے جمے سبھی حرف تھے۔
تھا ہر ایک منطقہ باردہ۔
وہ جو منطقہ تھا شمال میں،
وہاں سرد کرنوں کی برفشار تھی کام میں۔
وہ جو منطقہ تھا جنوب کا،
وہاں شب کی سرد جمی سیاہی دوام میں۔
کسی چرم کی کسی کینچلی کو اتار کر
کسی غار میں
بھرا برف زاد ہتھیلیوں کے عیار میں
بھری برف زادی کے نرم لمس کو تولتا
تو شرارے اڑ کے جمے اندھیرے کو کاٹتے
تو وہ اپنی بولی میں بولتا
_____ یہ تو آگ ہے!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی ریگزار تھا آسماں سے ملا ہوا
جہاں مشرکین شگاف سے
دھلے تازہ تازہ گلاب سا کوئی طشت چڑھتا تھا صبح کو
بڑی تمکنت سے، جمال سے۔
تو سفر کی سمفنی
بجتی رہتی تھی گھنٹیوں کے وفور میں
بڑی برہمی سے، جلال سے۔
وہی طشت نصف نہار میں
تپے دشت میں کبھی ریگ باد رگیدتا
کہیں گرد باد اچھالتا
تو چڑھی دوپہر میں شل دماغ سفر کے تارے کو ڈھونڈتا۔
ذرا جا کے گرد جو بیٹھتی
تو لٹا پٹا ہوا بد حواس مسافروں کا وہ قافلہ
جو کھڑا تھا آتش زیر پا
بھری سرخ آنکھوں سے سوچتا
کہ یہ دشت نار سعیر ہے
یہ لرزتی ریگ رواں نظر کا فریب ہے
یہ تو آگ پانی کا کھیل ہے۔
لٹا ساربان
فلک پہ چلتے سنہرے شعلے کے نرم گولے کو دیکھتا
تو وہ اپنی بولی میں بولتا
_____یہ تو آگ ہے!!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہیں کوہ میں
کئی سال پہنے ہوئے، جوالا مکھی دراز تھا
خواب میں۔
تھی زمیں پہ چادر احمریں
تو بدن پہ لپٹا ہوا دھوئیں کا لحاف تھا۔
وہ اٹھا پگھل کے
خود اپنے آپ کو، اپنے آپ پہ موڑتا
بھنچی سرخ مٹھی کی پشت سے
جمے نرم پشتے کو توڑتا۔
تھا ہوا میں رنگ اچھالتا
تو لرزتے کوہ کی گم ڈھلان پہ دوڑتا۔
کھڑی سرد فصل اجاڑتا
سر آتشیں، گڑے سنگ خارا پہ پھوڑتا۔
ذرا دور بھاگتے زرد لوگوں کی بھیڑ تھی
کوئی مڑ کے دیکھتا بہتی آتشیں گرد کو
تو وہ اپنی بولی میں بولتا
____یہ تو آگ ہے !!!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہیں جمتی
اور
کہیں پگھلتی زمین پر
یہ تو بکھری بکھری سی، جستہ جستہ سی آگ تھی
کہیں ریگ میں، کہیں سنگ میں
کہیں چلتی باد سموم میں۔
کہیں جسم کے کسی روپ میں
تو کہیں رکی ہوئی دھوپ میں۔
وہ جو آگ تھی وہ تو آسماں میں رکی ہوئی تھی شروع سے
کہ ہمیشگی کی طرح
یہ آگ بھی دیوتاوں کی سلطنت کی رہین تھی۔
وہ جو آسمان کا چور تھا
وہ لرزتا شعلہ چرا کے لایا زمین پر۔
تھا زمیں پہ اڑ کے اترتے چور کے دائیں ہاتھ میں مشعلہ
جو بھڑک کے جلتا
کہ اس کے جسم میں زرد رنگ کا کانچ تھا۔
کوئی خیرہ کرتی سی روشنی تھی
پرے دھکیلتی آنچ تھی
جسے برف زادوں کا اک ہجوم تھا سرد آنکھوں سے دیکھتا۔
یہ تو آدمی کی سرشت ہے
وہ ہمیشہ چیزوں کو چھو کے دیکھنا چاہتا ہے وثوق سے۔
یہ سرشت کتنی عجیب ہے
کہ نظارہ تشنہ ہےاور آنکھ غریب ہے۔
وہ ہمیشہ چیزوں کو چھو کے دیکھنا چاہتا ہے قریب سے
وہ ہوا ہو، چاہے صدا ہو، چاہے خدا ہو
چاہے وہ آگ ہو۔
سو کسی نے شعلے کو اپنی پوروں سے چکھ لیا
تو جلی ہتھیلی جھٹک کے خوف سے کھول اٹھا
تو وہ اپنی بولی میں بول اٹھا
______ یہ تو آگ ہے!!!!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہی آگ ہے
جو زمیں پہ آئی تو ایسے پھیلی
کہ پھیلتی ہی چلی گئی۔
کہیں مطبخوں میں مچل رہی ہے قرار سے
کہیں معبدوں میں بھڑک رہی ہے شرار سے۔
وہ جو خاک ہو کے بکھر گئے تھے قبیح جنگ عظیم میں
کبھی مل گئے تو بتائیں گے
کہ فلک سے آگ شعائیں اوڑھ کے آئی تھی۔
اسی ثانیے کو ثبات تھا
کہ بدن سے کھال تو استخواں سے تھی چھال اڑی۔
کوئی آگ تھی !
پھٹے سرخ لحم چچوڑتی
کھڑی ریڑھ سیڑھی کو کاٹتی
جلی ہڈیوں کو بھنبھوڑتی
تو سلگتے شکموں کو اور سینوں کو پھاڑتی
تو سروں کے کاسوں کو توڑتی۔
مگر اس قیامت شعلہ بار میں ربط تھا
کہ بدن تو خاک ہوئے، ہوا میں بکھر گئے
مگر ایک ایک بدن کا سایہ تو ایکس رے کی طرح
زمین پہ ثبت تھا۔
یہی آگ تھی جو سفر میں ہے
کہیں دل کے خانوں میں دفن ہے
کہیں التہاب جگر میں ہے۔
یہ تو آگ ہے !
یہ فلک کی چیز تھی
آج دھرتی کا بھاگ ہے
_____ یہ تو آگ ہے!!!!!!
وحید احمد