یہ خوش نظری خوش نظر آنے کے لئے ہے
اندر کی اداسی کو چھپانے کے لئے ہے
میں ساتھ کسی کے بھی سہی ، پاس ہوں تیرے
سب دربدری ایک ٹھکانے کے لئے ہے
ٹوٹے ہوئے خوابوں سے اٹھائی ہوئی دیوار
اِک آخری سپنے کو بچانے کے لئے ہے
اس راہ پہ اک عمر گزر آئے تو دیکھا
یہ راہ فقط لوٹ کے جانے کے لئے ہے
رہ رہ کے کوئی خاک اڑا جاتا ہے مجھ میں
کیا دشت ہے اور کیسے دِوانے کے لئے ہے
تجھ کو نہیں معلوم کہ میں جان چکا ہوں
تو ساتھ فقط ساتھ نبھانے کے لئے ہے
تو نسلِ ہوا سے ہے بھلا تجھ کو خبر کیا
وہ دکھ جو چراغوں کے گھرانے کے لئے ہے
سعود عثمانی