- Advertisement -

وقت کی جو پیروں میں بیڑیاں نہیں ہوتیں

ایک اردو غزل از حسن فتحپوری

وقت کی جو پیروں میں بیڑیاں نہیں ہوتیں
آپ سے کبھی اتنی دوریاں نہیں ہوتیں

میں جنوں نوازی سے تنگ آ گیا اے دل
مجھ سے اب گریباں کی دھجیاں نہیں ہوتیں

بحر عشق بس تم سے حوصلے کا طالب ہے
آگ کے سمندر میں کشتیاں نہیں ہوتیں

یہ شجر سیاسی ہیں ان سے چھاوں مت مانگو
ان میں ٹہنیاں تو ہیں، پتیاں نہیں ہوتیں

یہ نہ دیکھ پائیں گے مفلسوں کی مجبوری
اہل زر کی آنکھوں میں پتلیاں نہیں ہوتیں

وقت کی شکایت تو بس وہ وگ کرتے ہیں
نبض وقت پر جنکی انگلیاں نہیں ہوتیں

وہ تو خود زمانے کا اعتماد کھوتے ہیں
بند جن کے ہاتھوں کی مٹھیاں نہیں ہوتیں

جب کوئی مقابل ہو یہ خیال بھی رکھئے
دشمنوں کے ہاتھوں میں چوڑیاں نہیں ہوتیں

بیج بو کے نفرت کے چاہتے ہو ہمدردی
یوں حسن محبت کی کھیتیاں نہیں ہوتیں

حسن فتحپوری

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
ایک اردو غزل از حسن فتحپوری