- Advertisement -

والد صاحب

اردو افسانہ از سعادت حسن منٹو

والد صاحب

توفیق جب شام کو کلب میں آیا تو پریشان سا تھا۔ دوبار ہارنے کے بعد اس نے جمیل سے کہا۔

’’لو بھئی میں چلا۔ ‘‘

جمیل نے توفیق کے گورے چٹے چہرے کی طرف غور سے دیکھا اور کہا۔

’’اتنی جلدی؟‘‘

ریاض نے تاش کی گڈی کے دو حصے کرکے انھیں بڑے ماہر انداز میں پھینٹنا شروع کیا۔ اسکی نگاہیں تاش کے پھڑپھڑاتے پتوں پر تھیں۔ لیکن روئے سخن توفیق کی طرف تھا۔ توفی، آج تم پریشان ہو۔ خلاف معمول اوپر تلے دوبار ہارے ہو۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آج شام کو ہسپتال میں نرس مارگرٹ نے تمہارے رومانس کو پوٹاسیم برومائڈ پلادیا۔ ‘‘

جمیل نے ایک بار پھر غور سے توفیق کے چہرے کی طرف دیکھا۔

’’کیوں توفی آج ٹمپریچر کیسا رہا؟‘‘

نصیر اپنی کرسی پر سے اٹھا۔ توفیق کی انگلیوں میں پھنسا ہوا سگریٹ نکالا۔ اور زور کا کش لے کر کہنے لگا سب بکواس ہے۔ توفی نے آج تک جتنے رومانس لڑائے ہیں۔ سب بکواس تھے۔ یہ نرس مارگرٹ کا قصہ تو بالکل من گھڑت ہے۔ مری کی ٹھنڈی ہواؤں سے یہاں لاہور کی گرمیوں میں آنے کے باعث سرسام ہو گیا ہے۔ ‘‘

توفیق اٹھ کھڑا ہوا

’’بکو نہیں‘‘

نصیر ہنسا

’’اگر نہیں ہوا تو آج کل میں ہو جائے گا۔ بتاؤ تمہارے ابا کب تک ہسپتال میں رہیں گے۔ ‘‘

یہ کہہ کر وہ توفیق کی کرسی پر بیٹھ گیا۔ توفیق نے اپنے کلف لگے ململ کے کرتے کی ڈھیلی آستینوں کو اوپر چڑھا دیا اور جمیل کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا

’’چلو چلیں۔ میری طبیعت یہاں گھبرا رہی ہے۔ ‘‘

جمیل اٹھا

’’بھئی توفی، تم کوئی بات چھپا رہے ہو۔ ضرور کوئی گڑ بڑ ہوئی ہے۔ ‘‘

’’گڑ بڑ کچھ نہیں۔ نصیر کی بکواس سے کون ہے جس کی طبیعت نہیں گھبراتی۔ توفیق نے جیب سے باجا نکالا اور منہ کے ساتھ لگا کر بجانا شروع کردیا۔ نصیر نے اپنی ٹانگیں میز پر پھیلا دیں اور زور سے کہا

’’بکواس ہے۔ سب بکواس ہے۔ یہ دھن جو تم بجا رہے ہو رشید عطرے کی ہے۔ اور رشید عطرے کی کوئی دھن سن کر آج تک کوئی اینگلو انڈین یا کرسیچن نرس بے ہوش نہیں ہوئی۔ بہتر ہو گا اگر تم رومال پر تھوڑا سا کلوروفام چھڑک کرلے جاؤ۔ ‘‘

ریاض نے تاش کی گڈی رکھ دی اور نصیر کی ٹانگیں ایک طرف ریل دیں۔

’’کچھ بھی ہو۔ لیکن ہم اتنا جانتے ہیں کہ توفی جہاں اپنی گاڑی کا ہارن بجائے تو لڑکیاں سن کر اس پر فریفتہ ہو جاتی ہیں۔ ‘‘

نصیر نے سگریٹ کی گردن ایش ٹرے میں دبائی

’’اور سائیکل کی گھنٹی بجائے تو آسمان سے فرشتے اترنے شروع ہو جاتے ہیں۔ ایک دفعہ اسکی کھانسی کی آواز سن کر باغِ جناح کی ساری بلبلیں اپنی نغمہ سرائی بھول گئی تھیں۔ بڑا ہنگامہ ہو گیا تھا۔ ماسٹر غلام حیدر نے پورا ایک مہینہ ان کو ریہرسل کرائی۔ تب جا کروہ کہیں ٹوں ٹاں کرنے لگیں۔ ‘‘

توفیق کے سوا باقی سب ہنسنے لگے۔ نصیر ذرا سنجیدہ ہو گیا۔ اٹھ کر توفیق کے پاس آگیا۔ اس کے کلف لگے ململ کے کرتے کی ایک شکن درست کی اور کہا۔

’’مذاق برطرف۔ لو اب بتاؤ ہسپتال کی لونڈیا سے تمہارا معاملہ کہاں تک پہنچا؟۔ میں تو سمجھتا ہوں وہیں کا وہیں ہو گا۔ ایک شریف آدمی اپنڈے سائٹس کا آپریشن کرائے پڑا ہے۔ مقررہ اوقات پر یہ تمہاری نرس صاحبہ تشریف لاتی ہیں۔ جناب صرف ایک دفعہ صبح اور ایک دفعہ شام وہاں جاسکتے ہیں۔ مریض، اور وہ بھی قبلہ والد صاحب۔ وہ مریض اپنڈے سائٹس اور تم مریض عشق۔ ‘‘

ریاض نے قریب قریب گا کر کہا۔

’’مریضِ عشق پر رحمت خدا کی۔ ‘‘

نصیر کی رگِ مذاق پھڑک اٹھی۔ اور مریضِ عشق پر جب خدا کی رحمت نازل ہوتی ہے۔ تو وہ بینڈ ماسٹر بن جاتا ہے۔ آج توفی کا منہ باجا بجا رہا ہے۔ خدا کی رحمت شاملِ حل رہی تو کل سیکسو فون بجائے گا۔ آہستہ آہستہ اس کے ساتھ دوسرے مریضانِ عشق شامل ہو جائیں گے۔ پھر یہ براتوں کے ساتھ منہ میں کلارنٹ دبائے فلمی ٹیونیں بجایا کرے گا۔ ہیرا منڈی سے گزرتے ہوئے اس کی کلارنٹ کا منہ اونچا ہو جایا کرے گا۔ گال دھونکنی کی طرح پھولیں گے۔ گلے کی رگیں ابھر آئینگی۔ اور رنڈیاں کوٹھوں پر سے اس پر رحمت خداوندی کے پھول برسائیں گی‘‘

توفیق تنگ آگیا۔ ہاتھ جوڑ کر نصیر سے کہنے لگا

’’خدا کے لیے یہ بھانڈ پنا بند کرو۔ ‘‘

نصیر نے جمیل کی طرف دیکھا

’’لو صاحب ہم بھانڈ ہو گئے۔ دنیا بھر کی نقلیں یہ اتاریں۔ زمانے بھر کی خرافات یہ بکیں۔ اوربھانڈ ہم کہلائیں۔ یہ تو آج انھیں منہ میں گھنگھنیاں ڈالے دیکھ کر میں نے چھیڑ خانی شروع کردی کہ شائد اسی حیلے اُکسیں، منہ سے بولیں۔ سر سے کھیلیں۔ ورنہ جائے استاد خالی است، کجا دام رام کجاٹیں ٹیں‘‘

یہ کہہ کر اس نے توفیق کے کلف لگے ململ کے کُرتے کی شکن درست کی

’’بھئی توفیق ذرا چہکو۔ کیا ہو گیا ہے تمہیں۔ ‘‘

توفیق نے جیب سے سگریٹ کیس نکالا۔ ایک سلگایا اور کش لیتا کرسی پر بیٹھ گیا۔ مپز پر سے تاش کی گڈی اٹھائی اور پیسنیں کھیلنے لگا۔ لیکن نصیر نے لپک کر پتے اٹھالیے۔

’’یہ بڈھے جرنیلوں کا کھیل ہے جو زندگی میں کئی بار اپنی تمام کشتیاں جلا چکے ہوں۔ تم اتنے مایوس کیوں ہو گئے ہو۔ مارگرٹ نہ سہی کوئی اور سہی۔ ‘‘

یہ کہہ کر وہ جمیل اور ریاض سے مخاطب ہوا۔

’’یارو بتاؤ یہ فنالہ کون ہے؟۔ خوبصورت ہے؟۔ چندے آفتاب چندے مہتاب ہے؟۔ پانی پیتی ہے تو گردن میں سے دکھائی دیتا ہے؟‘‘

جمیل توفیق کے پاس بیٹھ گیا، وہ فارسی کا محاورہ ہے۔ لیلی بنظرِ مجنوں باید دید۔ مارگرٹ بنظرِ توئی باید دید، ۔ کیوں توفی؟‘‘

توفیق خاموش رہا۔

’’میں پوچھتا ہوں، خوبصورت ہے؟۔ اس کے بدن سے آنڈوفارم کی بھینی بھینی بو آتی ہے؟۔ اسکی گردن دیکھ کر گردن توڑ بخار ہوتا ہے یا نہیں؟‘‘

نصیر یہ کہتا کہتا میز پر بیٹھ گیا۔

’’مینڈکیوں کو جو زکام ہوتا ہے اس کا علاج تووہ ضرور جانتی ہو گی۔ خدا کے لیے مجھ اس سے ملاؤ۔ ورنہ مجھ پر ہسٹیریا کے دورے پڑنے لگیں گے۔ ‘‘

جمیل نے ریاض کی طرف دیکھا۔

’’ریاض اس کو کئی مرتبہ دیکھ چکا ہے۔ ‘‘

’’ریاض کے دیکھنے سے کیا ہوتا ہے۔ اس کو تو اندھ عورتا ہے۔ ‘‘

نصیر مسکرایا۔

’’جمیل نے پوچھا یہ اندھ عورتا کیا ہے؟‘‘

نصیر نے ریاض کے چشمہ لگے چہرے کو گھور کے دیکھا اور جمیل کو جواب دیا۔

’’جناب یہ ایک بیماری کا نام ہے۔ اس کے مریض عورتوں کو نہیں دیکھ سکتے۔ چاہے اصلی پتھر کا چشمہ لگائیں۔ ‘‘

ریاض مسکرا دیا۔ شاید اسی لیے مجھے مارگرٹ میں وہ حسن نظر نہ آیا۔ جس کی تعریف میں توفی نے زمین و آسمان کے قلابے ملا رکھے تھے۔ توفیق نے اپنا جھکا ہوا سر اٹھا کر ریاض سے صرف اتنا پوچھا

’’کیا وہ حسین نہیں تھی؟‘‘

ریاض نے جواب دیا۔

’’ہرگز نہیں۔ صاف ستھری لڑکی البتہ ضرور ہے۔ ‘‘

’’لانڈری سے تازہ تازہ آئی ہوئی شلوار کی طرح؟

’’نصیر ابھی کچھ اور کہنا چاہتا تھا کہ ریاض بول پڑا۔

’’ہاں یار۔ ایک لڑکی اس نے شلوار قمیض پہنی ہوئی تھی۔ ان کپڑوں میں اچھی لگتی تھی۔ میں اور توفی موٹر میں تھے۔ توفی ڈرائیو کررہا تھا۔ موٹر ہسپتال کے پھاٹک میں داخل ہوئی تو اسٹیئرنگ توفی کے ہاتھوں کے نیچے پھسلا۔ لڑکی دیکھ کر ہمیشہ اسکی یہی کیفیت ہوتی ہے۔ میں نے سامنے دیکھا تو وہ شلوار قمیض پہنے مٹکتی چلی آرہی تھی۔ توفی نے موٹر عین اسکے پاس روکی اور کہا۔ گڈمورننگ۔ وہ مسکرائی۔ لکھنوی انداز سے دایاں ہاتھ ماتھے تک لے گئی۔ اور کہا۔ آداب عرض۔ جیسا لباس ویسی بولی۔ لونڈیا ہے چالاک۔ توفی ابھی کوئی فقرہ موزوں کررہا تھا کہ وہ چھوٹے چھوٹے مگر تیز قدم اٹھاتی آگے بڑھ گئی۔ توفی نے فقرے کو چوڑا اور سینے پر دوہتڑ مار کر کہا۔ مار ڈالا۔ اتنے میں مارگرٹ کا عکس بیک ویو مرر میں نمودار ہوا۔ توفی نے بڑے تھیٹری انداز میں ایک عدد چما اس کی طرف پھینکا اور موٹر اسٹارٹ کردی۔ ‘‘

تمہاری اس گفتگو سے ثابت کیا ہوا؟ نصیر نے اپنے گھنگھریالے بالوں کا ایک گُچھا مروڑتے ہوئے کہا۔ بات یہ ہے کہ جب تک یہ خاکسار بقلمِ خود اس لونڈیا کو نہیں دیکھے گا کچھ بھی ثابت نہیں ہو گا۔ جھوٹ بولوں تو توفی ہی کا منہ کالا ہو۔ ‘‘

توفیق خاموش سگریٹ کے کش لیتا رہا۔ جمیل نے اپنی کرسی ذرا آگے بڑھائی اور ریاض سے پوچھا۔

’’اچھا بھئی یہ بتاؤ توفی نے کبھی اسے موٹر کی سیر نہیں کرائی۔ ‘‘

ریاض نے جواب دیا

’’ایک دفعہ اس نے کہا تھا تو اس سے مجھے یاد نہیں رہا۔ اس نے کیا جواب دیا تھا۔ بات دراصل یہ ہے کہ توفی کو کھل کے بات کرنے کا موقعہ ہی نہیں ملا۔ ٹمپریچر لینے یا ٹیکہ لگانے کے لیے آتی ہے تو باپ کی موجودگی میں یہ اس سے کیا بات کرسکتا ہے۔ پھر بھی اشاروں کنایوں میں کچھ نہ کچھ ہو ہی جاتا ہے۔ میرا خیال ہے یہ ادائیں آج صرف اسی لیے ہیں کہ اس کے ابا جان دو تین دنوں ہسپتال چھوڑنے والے ہیں کیونکہ زخم اب بالکل بھر چکا ہے۔ کیوں توفی؟‘‘

توفیق نے صرف اتنا کہا۔

’’مجھے ستاؤ نہیں یار۔ ‘‘

اور اٹھ کر باہر باغ میں چلا گیا۔ نصیر نے اپنی ٹھوڑی ہاتھ میں پکڑی اور چہرے پر گہری فکر مندی کے نشانات پیدا کرکے کہا۔

’’کہیں لمڈے کو اِسک تو نہیں ہو گیا۔ ‘‘

’’توفی اور عشق۔ دو متضاد چیزیں ہیں۔ ‘‘

ریاض کرسی پرسے اٹھا۔ اور سنجیدگی سے کہنے لگا۔

’’کوئی اور ہی چیز ہوئی ہے جناب کو۔ میرا خیال ہے لاہور میں اس کا جی لگ گیا تھا۔ والد ٹھیک ہو گئے ہیں تو اب اسے واپس مری جانا پڑے گا۔ ‘‘

’’بکواس ہے‘‘

نصیر چلایا

’’کوئی اور ہی بات ہے۔ تم یہاں ٹھہرو۔ میں ابھی دریافت کرکے آتا ہوں۔ ‘‘

نصیر اٹھ کر باہر چلنے لگا تو جمیل نے اس سے پوچھا۔

’’کس سے دریافت کرنے چلے ہو۔ ‘‘

نصیر مسکرایا۔ گھوڑے کے منہ سے۔ انگریزی میں فروم دی ہارسر ماؤتھ‘‘

یہ کہہ کر وہ باہر نکل گیا۔ جمیل نے ریاض کی طرف دیکھا اور سنجیدگی سے پوچھا۔ ہاں بھئی ریاض، یہ سلسلہ کیا ہے۔ توفی ایک دن بہت تعریف کررہا تھا۔ اس مارگرٹ کی۔ کہتا تھا کہ معاملہ پٹا سمجھو۔ کیا یہ ٹھیک ہے؟‘‘

’’ٹھیک ہی ہو گا۔ میرا مطلب ہے ایسا کون سا چتوڑ گڑھ کا قلعہ یہ جو توفی کو سر کرنا ہے۔ ایک دن کورسی ڈور میں کافی میٹھی میٹھی باتیں کررہے تھے؟‘‘

’’کیا؟‘‘

’’میں نے پاکٹ بک میں نوٹ کی ہوئی ہیں۔ کسی روز پڑھ کے تمہیں سناؤں گا‘‘

جمیل کے ہونٹوں پر کھسیانی سی مسکراہٹ پیدا ہوئی۔

’’مذاق کرتے ہویار۔ سناؤ۔ کوئی اور بات سناؤ۔ میرا مطلب ہے، یہ بتاؤ کہ میں کبھی اس نرس کو دیکھ سکتا ہوں۔ ‘‘

’’جب چاہو دیکھ سکتے ہو۔ ہسپتال چلے جاؤ، فیملی وارڈ میں تمہیں نظر آجائے گی۔ لیکن کیا کرو گے دیکھ کہ تمہارا قد بہت چھوٹا ہے۔ وہ تم سے پوری ایک بالشت اونچی ہے۔ ‘‘

اس قد نے مجھے کہیں کا نہیں رکھا۔ بہتیرے علاج کروا چکا ہوں۔ ایک سوئی برابر اونچا نہیں ہوا۔ اچھا، میں نے کہا، ریاض۔ باپ کی موجودگی میں توفی اس سے اشارے بازی کیسے کرتا ہو گا۔ نہیں، لڑکا ہوشیار ہے‘‘

ریاض نے تاش کی گڈی اٹھائی اور پتے پھینٹنے شروع کیے

’’اچھی خاصی مصیبت ہے۔ ہروقت یہی دھڑکا کہ والد دیکھ نہ لے، تاڑ نہ جائے۔ کہتا تھا جونہی ان کی نگاہیں میری طرف اٹھتی تھیں، میں نظریں نیچی کرلیتا تھا۔ جب وہ آتی تھی تو دس پندرہ منٹوں میں غریب کو صرف تین چار موقعے آنکھ لڑانے کو ملتے تھے۔ ‘‘

جمیل نے پوچھا۔

’’ڈی ایس پی ہیں نا توفی کے ابا جان‘‘

’’ہاں بھائی۔ باپ ہونا ہی کافی ہوتا ہے۔ اوپر سے ڈی ایس پی۔ ‘‘

جمیل نے آہ بھری۔

’’میرے تمام رومانس غارت کرنے والے میرے ابا جان ہیں۔ حج سے پہلے ان کی غارت گردی اتنے زوروں پر نہ تھی، پر جب سے آپ خانہ کعبہ سے واپس تشریف لائے ہیں۔ آپ کی غارت گردی عروج پر ہے۔ سوچتا ہوں شادی کرلوں۔ ایک لڑکا پیدا کروں اور بیٹھا اس سے اپنا انتقام لیتا رہوں۔ ‘‘

ریاض مسکرایا۔

’’حج کرنے جاؤ گے؟‘‘

’’ایک نہیں دس دفعہ۔ صاحب زادے کو ساتھ لے کر جاؤں گا۔ ‘‘

یہ کہہ کر اس نے میز پر زور سے مکا مارا۔ آواز کے ساتھ ہی نصیر داخل ہوا۔ ریاض اور جمیل دونوں اسکی طرف غور سے دیکھنے لگے۔ نصیر انتہائی سنجیدگی کے ساتھ کرسی پر بیٹھ گیا۔ جمیل کے دماغ میں کُھد بُد ہونے لگی۔

’’کچھ دریافت کیا؟‘‘

’’سب کچھ‘‘

نصیر کا جواب مختصر تھا۔ ریاض نے پوچھا

’’توفی کہاں ہے؟‘‘

نصیر نے جواب دیا۔

’’چلا گیا ہے‘‘

’’کہاں‘‘

یہ سوال ریاض نے کیا۔

’’واپس مری۔ ‘‘

نصیر کا یہ جواب سن کر ریاض اور جمیل دونوں بیک وقت بولے

’’مری واپس‘‘

’’جی ہاں۔ مری واپس چلا گیا ہے۔ ‘‘

اپنی موٹر میں۔ ہسپتال سے سیدھا یہاں کلب آیا۔ یہاں سے سیدھا مری روانہ ہو گیا ہے۔ نصیر نے ایک ایک لفظ چبا چبا کر ادا کیا۔ جمیل بے چین ہو گیا۔

’’آخر ہوا کیا؟‘‘

نصیر نے جواب دیا۔

’’حادثہ!‘‘

جمیل اور ریاض دونوں بولے

’’کیسا حادثہ؟‘‘

’’بتاتا ہوں‘‘

یہ کہہ کر نصیر نے جیب سے سگریٹ کی ڈبیا نکالی جس میں کوئی سگریٹ نہیں تھا۔ ڈبیا ایک طرف پھینک کر وہ ریاض اور جمیل سے مخاطب ہوا۔

’’معاملہ بہت سنگین ہے؟‘‘

جمیل نے ریاض سے کہا۔

’’میرا خیال ہے توفی پکڑا گیا ہو گا‘‘

ریاض نے کہا

’’معلوم ایسا ہی ہوتا ہے۔ آدمی کب تک کسی کی آنکھوں میں دُھول جھونک سکتا ہے۔ ڈی۔ ایس۔ پی ہے۔ فوراً تاڑ گیا ہو گا۔ لیکن نصیر تم بتاؤ۔ توفی نے تم سے کیا کہا۔ ‘‘

’’بتاتا ہوں۔ ایک سگریٹ دینا جمیل‘‘

جمیل نے اس کو ایک سگریٹ دیا اسے سلگا کر اس نے بات شروع کی، باپ کی موجودگی میں اس کی نرس سے اشارہ بازی ہوتی تھی۔ یہ تم لوگوں کو معلوم ہے۔ یہ سلسلہ اشارے بازی کا بہت دنوں سے جاری تھا۔ توفی اس میں خاصا کامیاب رہا تھا۔ باپ کی موجودگی کے باعث اسے بہت محتاط رہنا پڑتا تھا وہ ذرا گردن گھماتے تو یہ فوراً اپنی آنکھیں نیچی کرلیتا۔ ان دقتوں کے باوجود اس نے لڑکی سے ربط بڑھا ہی لیا۔ اور ڈیوٹی کے روز شام کو وہ اسے ایک مرتبہ سینما بھی لے گیا۔ ‘‘

جمیل گٹکا

’’واہ‘‘

ریاض نے کہا۔

’’مجھ سے اُس نے اس کا ذکر نہیں کیا۔ ‘‘

نصیر نے سگریٹ کا کش لیا۔

’’سینما میں وہ خوب ایک دوسرے کے ساتھ گھل مل گئے۔ نرس کو توفی کا چنچل پنا بہت پسند آیا۔ پرسوں کی ملاقات میں آج کی شام طے ہوئی کہ وہ توفی کے ساتھ دور تک موٹر میں سیر کرنے چلے گی۔ اور توفی اپنی عادت سے مجبور ہو کر اگر کوئی شرارت کرنا چاہے گا تو وہ بُرا نہیں مانے گی۔ ‘‘

جمیل پھر گٹکا

’’واہ‘‘

ریاض نے اسے ٹوکا۔

’’خاموش رہو جمیل۔ ‘‘

نصیر نے سگریٹ کا ایک لمبا کش لیا۔

’’پرسوں کی ملاقات میں جو کچھ طے ہوا تھا، میں آپ کو بتا چکا ہوں۔ توفی بہت خوش تھا۔ اپنے خیال کے مطابق وہ ایک بہت بڑا میدان مارنے والا تھا۔ آج دن بھر وہ اسکیمیں بناتارہا۔ پٹرول کا انتظام اس نے کرلیا۔ کرم الٰہی نے اسے چھ کوپن دے دیے تھے۔ اسی کی پرمٹ پر بیئر کی چھ بوتلیں بھی حاصل کرلی تھیں جو غالباً ابھی تک امتیاز کے فرجڈیئر میں ٹھنڈی ہورہی ہیں۔ توفی کی اسکیم یہ تھی کہ چنیوٹ کے پل تک چلیں گے۔ حسن و عشق کے دریا چناب کی لہریں ہوں گے۔ موسم بھی خوشگوار ہو گا۔ گلاس راستے میں خرید لیں گے۔ ٹھنڈی ٹھنڈی بیئر اڑے گی۔ خوب سرور جمیں گے۔ لیکن۔ ‘‘

یہ کہہ کر نصیر ایک دم خاموش ہو گیا۔ جمیل نے بے چین ہوکر پوچھا۔

’’سارا معاملہ غارت ہو گیا؟‘‘

نصیر نے اثبات میں سرہلایا۔

’’سارا معاملہ غارت ہو گیا۔ ‘‘

جمیل نے اور زیادہ بے چین ہو کر پوچھا۔

’’کیسے؟‘‘

نصیر نے سگریٹ کی گردن ایش ٹرے میں دبائی اور کہا

’’پروگرام یہ تھا کہ وہ شام کو چھ بجے ہسپتال جائے گا۔ گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ اپنے باپ کے پاس بیٹھے گا۔ اس دوران میں جب مارگرٹ آئے تو وہ سیر کی بات پکی کرلے گا۔ بات پکی ہو جائے گی تو وہ سیدھا امتیاز کے ہاں جائے گا۔ کچھ دیر وہاں بیٹھے گا۔ بیئر کی ایک بوتل پیے گا۔ باقی پانچ موٹر میں رکھے اور جو جگہ مقرر ہوئی ہو گی وہاں مارگرٹ سے جا ملے گا۔ دل و دماغ سخت بے چین تھا۔ گھر سے وقت سے کچھ پہلے ہی نکل آیا۔ ہسپتال پہنچا۔ موٹر ایک طرف کھڑی کی۔ و ارڈ کی طرف چلا۔ سیڑھیاں طے کیں اوپر پہنچا۔ کمرے کا دروازہ کھولا تو کیا دیکھتا ہے۔ ‘‘

نصیر ایک دم رک گیا۔ جمیل اور ریاض دونوں بیک وقت بولے

’’کیا دیکھتا ہے۔ ؟‘‘

’’دیکھتا ہے کہ۔ ٹھہرو‘‘

نصیر تھوڑی دیر کے لیے رکا۔

’’میں توفی کے الفاظ میں بیان کرتا ہوں۔ میں نے کمرے کا دروازہ کھولا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ماگرٹ پلنگ پر جُھکی ہوئی ہے اور والد صاحب۔ اور والد صاحب اس کے ہونٹ چوس رہے ہیں۔ ‘‘

جمیل اورریاض قریب قریب اچھل پڑے

’’سچ؟‘‘

نصیر نے جواب دیا۔

’’دروغ برگردنِ راوی‘‘

جمیل جس کے دل و دماغ پر حیرت مسلط تھی بڑبڑایا

’’کمال کردیا۔ ڈی ایس پی صاحب نے۔ ‘‘

ریاض نے نصیر سے پوچھا۔

’’توفی نے کیا کیا؟‘‘

نصیر نے جواب دیا۔

’’آنکھیں نیچی کرلیں اور چلا آیا۔ ‘‘

جمیل، ریاض سے مخاطب ہوا

’’میرے والد صاحب قبلہ کبھی ایسے نظارے کا موقعہ دیں تو مزا آجائے۔ پتہ نہیں توفی کیوں اس قدر پریشان تھا؟‘‘

نصیر نے کہا

’’توفی کی والدہ صاحبہ اُس کے ساتھ تھیں۔ توفی نے مجھ سے کہا میں تو نظریں نیچی کرکے چلایا۔ لیکن امی جان دروازہ کھول کر اندر کمرے میں چلی گئیں۔ جمیل نے پر افسوس لہجے میں کہا۔

’’قبلہ والد صاحب کے ساتھ یہ زیادتی ہوئی‘‘

سعادت حسن منٹو

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
منزہ سیّد کی ایک اردو غزل