وہ دیکھو دسمبر آ چکا ہے
کہر آنسو بن کر
آسمان سے ٹپک رہی ہے
ٹرائے (troy) میں موجود آہوں سسکیوں نے بھیس بدل کر
سموگ کی شکل اپنا لی ہے
سرد ہوا نے
پیلے پتوں کو الٹ پلٹ کر دیکھا ہے
ان کی رگوں میں اترتی پیلاہٹ پر Calypso کے ogygia کا
دہشت زدہ ماتم کنندہ ہے
ٹاہلی کی برہنہ شاخوں پر
نوکیلی آنکھوں کی درزیں ٹھٹھر چکی ہیں
بیری کے پودے پر لگے بیر
ابھی جوبن سے ذرا پرے ہیں
تم اس طرح کرو
کسی زمرد لمحے میں
ہومر کی سی صدا لگا کر
اپنے دامن کو افلاکی تمغوں سے بھر لو
پھر کسی گلی میں کر جا کر Penelope کی مانند
مقابلے کی صدا لگاو
میں جنگی زخموں کے باوجود
وفا کی طاقت سے درست تیر اندازی کروں گا
پھر ہم Eurycleia اور ایتھینا کا شکریہ ادا کر کے
وصال کے نغمہ گنگنائیں گے
اور بہروپ جھٹک کر
کسی Ithaca میں دسمبر کو پھول پہنائیں گے
سمیع اللہ خان