آپ کا سلاماردو تحاریراردو کالمزاویس خالد

ویلنٹائن ڈے منانے کا بتایا کس نے؟

اویس خالد کا ایک اردو کالم

ویلنٹائن ڈے منانے کا بتایا کس نے؟

دنیا میں بڑی تیزی کے ساتھ معلومات کا تبادلہ ہو رہا ہے ۔ ایک کہی گئی بات دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک چشم زدن میں پہنچ جاتی ہے ۔ انقلاب کی ایک تیز رفتار دوڑ ہے جس میں ہر کوئی دانستہ یا نا دانستہ طور پر شریک ہے ۔ ہم چونکہ الحمداللہ مسلمان ہیں تو ہمارا معاملہ دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والی اقوام سے بہت مختلف ہے ۔ دنیا نت نئے خیالات و معاملات سے دوچار ہے اور نئی سے نئی جدت و ندرت کی قائل ہے لیکن بحیثیت مسلمان ہ میں یہ قطعاً زیب نہیں دیتا کہ ہر آنے والی نئی چیز،رسم یا نظریے کو بنا سوچے سمجھے قبول کر لیں ۔ ہ میں ہر چیز کو اسلام کے نظریاتی اصولوں پرپرکھنا لازم ہے ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ہم ابھی تک اس بات کوہی یقینی نہیں بنا پائے کہ ہمارے ملک میں ہر اس قول و فعل پر غیر مشروط پابندی عائد ہونی چاہیے جو کسی بھی مرحلے میں قرآن و سنت سے ٹکراتا ہو اور نہ ہی ہم ابھی تک اس بات کا تعین کر پائے ہیں کہ ہم نے اپنی آئندہ آنے والی نسل کی تربیت میں کن لوازمات کو ہر ممکن ملحوظ خاطر رکھنا ہے اور اپنی نسل نو کو سکھانا کیا ہے اور بچانا کس سے ہے ۔
مذہبی اور اخلاقی طور پر ہم اتنے کمزور اور بے بس ہو گئے ہیں کہ دنیا کوئی بھی فیشن،کوئی بھی رسم،کسی بھی قسم کی خرافات جاری کرے گی یا کوئی بھی دن منائے گی تو ہم اندھی تقلید کرتے ہوئے ویسا ہی کرنا شروع کر دیں گے ۔ ہ میں کم از کم آئندہ وقت میں زندہ رہنے والی اس معصوم نسل کی تربیت کی اتنی فکرتو ضرور کرنی چاہیے کہ وہ بڑے ہو کر بہترین مسلمان اور محب وطن پاکستانی بن سکیں ۔ اس موضوع پر یہ بات کرنا بالکل فضول ہے کہ ویلنٹائن ڈے ہے کیا بلا،کس نے شروع کیا،کہاں سے آیا،اس کا تاریخی پس منظر کیا ہے،ویلنٹائن نام کس کا تھا ۔ ہ میں بس اتنا سمجھنا اور سمجھانا ہے کہ یہ بے حیائی کا وطیرہ ہے،قوم مسلم کی تباہی ہے،ایسا دن ہے کہ جو ہم کبھی سوچ بھی نہیں سکتے کہ کسی کو جرات دیں کہ وہ اس دن کو ہمارے تقدس والے رشتوں کے ساتھ منائے ۔ سوال یہ ہے کہ یہ آیا کیسے اور ہمارے بچوں تک پہنچا کیسے؟ تو یقینا ایک ہی جواب ہو گا کہ میڈیا کے زریعے آیا ۔ اس کے ساتھ منسوب داستانوں کو ایسے رنگین و رعنابنا کر پیش کیا گیا کہ نوجوان نسل نے بنا سوچے سمجھے اسے قبول کر لیا ۔ اس سے جڑے کرداروں کو محبت کا سفیر اور عشق کا علمبردار اور قومی ہیرو بنا کر ایسے دکھایا گیا کہ ہر کوئی ایسا ہیرو بننے کے لیے تیار ہو گیا ۔
پوچھنا تو یہ ہے کہ جس زریعے سے تشہیر کر کر کے اس بے حیائی کو عام کرنے کی کوشش کی توکیا اس کو روکا کسی نے نہیں -اس کو روکنا ذمہ داری کس کی تھی؟ یہ معاشرہ نوجوان نسل کی جیسی تربیت کر رہا ہے ان میں سے ہم کیسے کسی دیدہ ور کے پیدا ہونے کی امید کر سکتے ہیں ؟ میں تو اپنے بچوں کو آقا کریم ﷺ کا عاشق بنانا تھا مگر ہم ترقی کی دوڑ میں سب بھول گئے اور ہمارے بچے سنت مصطفی ﷺ سے غافل ہو کر انگریزی طرز معاشرت کے دلدادہ ہو گئے ۔ ہ میں تو اپنے بچوں کو صحابہ کادیوانہ بنانا تھا اور ان کی جرات و بہادری و جانثاری کے ایمان افروز واقعات سنانے تھے مگر ہم نے غفلت برتی اور وہ گویّوں اور رقاصاءوں کے گن گانے لگے ۔ ہ میں تو اپنے بچوں کو غازی علم دین شہید کے عشق کی داستان سنانی تھی مگر ہم چپ رہے اور غیروں نے ہمارے بچوں کو ویلنٹائن ڈے پر لگا دیا ۔ ہ میں تو اپنے بچوں کو محمد بن قاسم کے بارے میں بتانا تھا مگر ہم خاموش رہے اور کافروں نے ہمارے بچوں کے سامنے بھیم سنگھ کواچھائی کا ہیرو بنا کر دکھا دیا ۔ ہ میں تو سلطان ٹیپو کے چرچے کرنے چاہیے تھے مگر ہم نے چپ سادھ لی اور ہمارے بچوں نے کامیابی کا راز میر جعفر اور میر صادق جیسے غداروں میں ڈھونڈنا شروع کر دیا ۔ مغرب کی غلیظ فضاءوں سے آنے والی بد بو نے ہمارے ساری نفاست کو معیوب بنا دیا ہے ۔ ہم نے اگر اپنے بچوں کو غزوات پڑھائے اور سکھائے ہوتے تو وہ کبھی فلمی دنیا کی جھوٹی لڑائیوں پر نہ مرتے ۔ آج اگر ہم نے نبی پاک ﷺ کے عشق کو دین و دنیا کی کامیابی بتایا ہوتا تو ہمارے بچے بھی عاشق رسول ﷺ ہوتے ۔ آج اگر ہم نے صحابہ اکرام  کی قربانیوں کی لازوال تاریخ پڑھائی ہوتی تو وہی ہمارے بچوں کے آئیڈیل ہوتے ۔ آج اگر ہم نے اسلامی تاریخ کے سپہ سالاروں کے حالات زندگی کو نصاب کا حصہ بنایا ہوتا تو وہی ہمارے بچوں کے حقیقی ہیرو ہوتے مگر افسوس کہ حالت یہ ہے ہم نے کوئی اچھی بات بھی کرنی ہوتی ہے تو حوالے کے طور پر قرآن و حدیث کے بجائے ٹالسٹائی،شیکسپئیر،ٹینی سن اور برنارڈ شاہ یا پھر بل گیٹس کی باتیں سنا کر اپنے علم کا رعب جھاڑتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں ۔ پھر کیا سوچیں کہ ویلنٹائن کہاں سے آ گیا ۔ ہم اپنے بچوں کی جیسی تربیت کریں گے وہ ویسا ہی رویہ معاشرے میں روا رکھیں گے ۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہر قسم کی فحاشی اور بے حیائی کے اڈوں سمیت تمام اقدامات کی بیخ کنی ہونی چاہیے ۔ کسی کی جرات نہیں ہونی چاہیے کہ وہ اسلام کے نام پر بنائے گئے ملک میں ایسے سامان کی خرید و فروخت کرے جس کو ہماری شریعت نے حرام قرار دیا ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

Back to top button