کالندی بڑے فخر سے کہا کرتی تھی کہ تتلی اس کی سب سے اچھی دوست ہے اور جب تتلی بھی یہی دوہراتی تو اس کی آنکھیں فخر سے نم ہوجاتیں۔ صحیح! اس نے بالکل صحیح فیصلہ کیا تھا جو نوکری چھوڑ دی تھی۔ اس کے ساتھ کی زیادہ تر مائیں تو میٹرنٹی لیب کے بعد اپنے بچوں کو ساس، آیا یا کریچ میں چھوڑ کر، نوکریوں پر واپس آگئی تھیں۔ مگر نتیجہ سامنے تھا۔ کسی کی بھی اپنے بچوں کے ساتھ ایسی دوستی نہیں تھی۔
جب تتلی نے بولنا شروع کیا تو کالندی نے کبھی اس سے تتلاکر بات نہیں کی۔ بھلا یہ کیا لاڈ ہوا کہ بچےّ کی زبان خود ہی بگاڑ دو۔ وہ ہمیشہ صاف بھاشا میں اس سے بات کرتی اور دوسروں کو بھی ٹوکتی رہتی۔ اس کا اپنا بچپن لکھنؤ میں گزرا تھا اور اس کی مسلمان دوستوں نے اردو کے لفظوں کا تلفظ، ٹوک ٹوک کر صحیح کروایا تھا۔ اسے آج بھی یاد تھا جب اسے انٹر سکول کویتا پاٹھ میں پہلا انعام ملا تھا تو اس کی تعریف کرتے ہوئے جسٹس علامت اللہ بیگ نے کہا تھا کہ اس کا تلفظ ایسا ہے جیسا کسی اردو فارسی کے عالم کا۔
تتلی کو بھی اس نے شروع سے گلے پر انگلی رکھ کر ’ق‘، ’خ‘، ’غ‘ سکھایا تھا۔ نتیجہ یہ بھی ہوا تھا کہ ’کم بخت‘ اور ’بے غیرت‘ جیسی اردو کی گالیاں تتلی دو سال کی عمر سے دینے لگی تھی۔ لیکن اب اس کا کیا کیا جاسکتا تھا؟ لڑکی کے صحیح تلفظ کے لیے اتنا تو برداشت کرنا ہی پڑے گا۔ جب بڑی ہوگی اور اچھے بُرے کا فرق سمجھے گی تب خود ہی گالیاں دینا چھوڑ دے گی۔
چلنے میں ابھی تتلی ڈگمگاتی تھی کہ کالندی نے اسے کتھک کے توڑے سکھانے شروع کردیے۔ دوستوں، رشتے داروں نے کہا بھی کہ ابھی پیر کمزور ہیں، ان پر بوجھ ڈالنا ٹھیک نہیں لیکن وہ ایک نہ سنتی۔ اس نے خود بچپن سے رقص سیکھا تھا۔ یہ اور بات تھی کہ اس کے شوہر کو اس کا سٹیج پروگرام پسند نہیں تھا۔ پھر تتلی کے ہونے میں وہ بیمار بھی رہی اور جو ڈور ایک بار ہاتھ سے چھوٹ گئی تو پکڑ میں نہیں آئی۔ تتلی سے اس کی یہ باتیں اس کی پیدائش سے پہلے سے ہی ہوتی تھیں۔ اس نے وعدہ کیا تھا تتلی سے کہ اسے کتھک ضرور سکھائے گی۔ شوہر کبھی کبھار کڑواہٹ بھرے لہجے میں پوچھتے بھی — ”اپنا ناچ چھوٹ گیا ہے تو کیا اب بیٹی کو نچوانے کا ارادہ ہے؟“
وہ ہنس کر جواب دیتی — ”ناچ سیکھنا صرف ناچنے کے کام نہیں آتا۔“ شوہر بات نہ سمجھ کر، منہ بناکر کندھے اُچکا دیتا۔ اس کے آگے وہ بھی بات صاف نہیں کرتی۔
توڑے سکھاکر وہ مُدرائیں سکھانے لگی۔ ایک سو بیالیس مُدرائیں خود اس نے کتنی مشکل سے یاد کی تھیں۔ تتلی کو دو مہینے میں یاد ہوگئیں۔ پھر تو جیسے کالندی کو کُھلی چھوٹ مل گئی۔ رسکھان کے سویّوں سے لے کر سورداس کے پدوں تک، کبیر رحیم کے دوہوں سے لے کر خسرو کے انمل بے جوڑ تک، جو بھی اُسے یاد تھا وہ تتلی کو یاد ہونے لگا۔ لمبی لمبی کویتائیں، بڑی بڑی نظمیں، تتلی منٹوں میں یاد کرلیتی اور گھر آئے مہمانوں کو سناکر مُگدھ کردیتی۔
آخر آزمائش کی گھڑی آئی۔ سات سال کی تتلی نے سکول میں ہونے والے کویتا پاٹھ کی پرتی یوگیتا میں دِنکر کی ’رشمی رتھی‘ سے کرن کرشن سنواد سنایا اور پرتھم پُرسکار جیتا۔ اس کے بعد تو لڑکی جیسے بھاگ چھوٹی۔ ہر انگریزی، ہندی کویتا مقابلے میں حصہ لیتی۔ دیر رات تک جاگ کر کالندی کے ساتھ کویتائیں یاد کرتی اور ہمیشہ پرتھم انعام پاکر اس کی محنت وصول کراتی۔ جب تھوڑی اور بڑی ہوئی تو کویتا کے ساتھ ڈیبیٹ میں بھی بھاگ لینے لگی۔ کالندی اس کے ساتھ اخبار پڑھتی، اسے ایڈیٹوریل پڑھنا اور سمجھنا سکھاتی، اس کے لیے الگ الگ طرح کے رسالے خریدتی، کلیسکس چن چن کر اسے دلاتی۔ یاد کیے ہوئے ’ڈکلی میشن‘ وہ ایسے اعتماد سے سناتی کہ سننے والے تعریف کیے بنا نہیں رہ پاتے۔
ایک بار، ’پیرنٹ ٹیچر میٹنگ‘ میں، تتلی کی کلاس ٹیچر نے پوچھا بھی کہ وہ اسے کیسے سکھاتی ہے۔ کالندی چپ رہی۔ انھیں بتاتی بھی کیا؟ کیا وہ سمجھتی کہ بولنے کی لَے، تال اور گیت، رقص کے کارن آئی ہے، انگریزی اور ہندی کا اُچّارن اس لیے ٹھیک ہے کیونکہ اردو کے لفظ سکھائے گئے ہیں، آواز میں اُتار چڑھاؤ اس لیے پیدا کرپاتی ہے کیونکہ سنگیت سیکھ رہی ہے، ہاتھوں اور چہرے کے ہاؤ بھاؤ اسے سننے والوں سے تعلقات قائم کرنے میں مدد کرتے ہیں، یہ ڈرامہ کیمپوں کا یوگدان ہے اور سب سے انت میں لیکن سب سے ضروری، اپنی بات کو خود سمجھنا اور اس پر یقین کرنا، جو کالندی کے ساتھ گھنٹوں بحث کرنے سے اس نے پایا تھا۔ وہ بات بھلا رٹے رٹائے وِچاروں کو مائک پر آکر اُگل دینے میں کہاں ہوسکتی ہے۔
دھیرے دھیرے تتلی کا رُجحان انگریزی کی طرف بڑھتا گیا۔ جب اس نے سینئر سیکنڈری میں تراسی فی صد پانے کے بعد انگریزی آنرس کرنے کی ٹھانی تو سب نے ناک بھوں چڑھائی۔ بھلا انگریزی کا کوئی مستقبل ہے؟ لیکن تتلی ان لڑکیوں میں سے نہیں تھی جو دوسروں کے کہنے میں آکر الٹی طرف بہہ جائے۔ اندر ’انٹرنس ٹیسٹ‘ دے رہی تتلی کا، کالجوں کے باہر، تیز دھوپ میں انتظار کررہی کالندی فخر سے سوچتی کتنی آتما وشواس ہے اس کی لڑکی میں۔ ٹیسٹ کے بعد دونوں ہنس ہنس کر بھیل پوری کھاتیں اور انھیں حیرانی سے تکتے لوگوں کے بارے میں ایک دوسرے کو اشارے کرتیں۔
دلّی یونیورسٹی کے نارتھ کیمپس کے سب سے اچھے کالج میں انگریزی میں داخلہ ہوجانا کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ کالندی کو تو یہی لگ رہا تھا جیسے وہ اپنے کالج کے دن دوبارہ جی رہی ہو۔ اس نے سوچنا شروع کردیا تھا۔ تتلی کے لیے کالج میں پہننے کے کپڑے، جوتے کہاں سے خریدے جائیں، دو تین اچھے بیگ ہونے چاہئیں، کپڑے کے اور شاید کچھ میک اپ بھی۔ آج کل لڑکیاں کالج میں بھی کتنا میک اپ کرکے آتی ہیں۔ اور کتابیں؟ یہ تو وہ بھول ہی گئی! کتابوں میں تو پورا دن لگ جائے گا۔ بھئی صرف کورس کی کتابیں تو نہیں لیں گے نا۔ ادیبوں پر تنقید، مقالے، وستار سبھی شروع سے لے لینا چاہیے تاکہ ٹیوٹوریل لکھنے میں تتلی کو نہ تو مشکل آئے نہ ہی زیادہ وقت لگے۔
کالج کے پہلے دن باہر انتظار کررہی کالندی سے تتلی نے آکر پوچھا تھا — ”ممّا، آپ کتنے روپے میرے اوپر خرچ کریں گی؟ مطلب ابھی کتابوں، کپڑوں وغیرہ کا کیا بجٹ ہے؟“
کالندی نے جب ذرا حیرانی سے وجہ جاننا چاہی تھی تو اس نے جواب دیا تھا — ”نہیں، جتنے بھی آپ نے سوچے ہوں، اس میں سے آدھے تو کل ہی دے دیجیے گا۔ کلاس میٹس سب ایک ساتھ جارہے ہیں کملا نگر کتابیں لینے۔ باقی میں بعد میں لے لوں گی تاکہ دوستوں کے ساتھ کناٹ پلیس چلی جاؤں کپڑوں، چپلوں وغیرہ کے لیے۔“ کالندی چپ رہی۔ کہتی تو تب، جب اس سے پوچھا گیا ہوتا۔ تتلی تو اپنا فیصلہ سنا رہی تھی۔
”اور جانتی ہیں ممّا، کپڑوں کی سب سے اچھی مارکیٹ سروجنی نگر میں ہے۔ میں وہاں کبھی نہیں گئی۔ ایک دوست اُدھر ہی رہتی ہے۔ اس کے ساتھ جاؤں گی۔“
کتابیں لاکر تتلی نے بستر پر پھیلا دیں۔ بہت سی کتابیں، بہت سا پڑھنا۔ کالندی نے ایک دو کتابیں اُٹھاکر کور دیکھتے ہوئے کہا — ”ارے وِجے تندولکر! انڈین لٹریچر میں ہوں گے۔ میں نے ان کے تقریباً سارے ناٹک پڑھے ہیں۔ مجھے بہت پسند ہے۔“
”یہ مزے کے لیے پڑھنا نہیں ہے ممّا، یہ آنرز کی پڑھائی ہے۔“ تتلی ہنس کر بولی۔
کالندی نے ذرا تلخی سے کہا — ”مجھے معلوم ہے تم آنرز کررہی ہو۔“ لیکن طنز تتلی سے ٹکراکر ادھر اُدھر ڈولتا رہا۔ وہ کتابوں پر اپنا نام لکھنے اور انھیں قرینے سے اپنی میز پر لگانے میں مصروف تھی۔
تین مہینے گزر گئے۔ تتلی اپنے کالج کی پڑھائی میں اچھے بُرے پروفیسروں، دلچسپ اور بورنگ دوستوں میں ڈوب گئی۔ سات بجے صبح نکلتی، تقریباً اُتنے ہی بجے رات کو لوٹتی۔ کالندی خود کو سمجھاتی — یہ اس کی دوستی کا امتحان ہے۔ کتنے دوست تو سالوں نہیں ملتے، پھر بھی گہری رفاقت بنی رہتی ہے۔ وقت آئے گا، تتلی لوٹ آئے گی۔
اور کل شام وہ وقت آگیا۔ تتلی بوکھلائی ہوئی کالج سے لوٹی اور کالندی کی کتابیں، تابڑتوڑ نکالنے لگی۔ نکالتی، کھولتی، پنّے پلٹتی اور پٹخ دیتی۔ کالندی ہڑبڑائی ہوئی رسوئی سے نکلی۔
”کیا، بات کیا ہے؟ کیا ڈھونڈ رہی ہو کتابوں میں؟“
”ممّا آپ کے پاس پابلو نیرودا کا ایک سنگرہ تھا نا ۔۔اور ایک برٹولٹ بریخت کا؟“
”ہاں ہے تو مگر ۔۔“
”مجھے ابھی چاہیے“
”کیوں؟ کیا کرنا ہے؟“
”اُف ممّا! کل کالج فیسٹ کے اُدگھاٹن میں دونوں میں سے ایک کی کویتا پڑھنی ہے۔“
”تمہیں!“ کالندی کا دل خوشی کے مارے جھومنے لگا۔ آخر کالج میں بھی اس کے سکھائے ہوئے ہنر کی قدر ہوہی گئی — ”صرف نیرودا اور بریخت کیوں؟ یہ لو نا۔ ’اینتھالوجی آف سوشلسٹ ورس‘ اس میں سے چھوٹی کوئی اچھی سی کویتا“
ڈھونڈتے، پڑھتے دونوں نے ایک نظم چھانٹی۔ تتلی نے اسے ایک کاغذ پر اتار لیا اور من میں کئی بار پڑھ لیا۔ کالندی خوش تھی۔ اطمینان سے اس نے کھانا بنایا، سب کو کھلایا۔ صبح کی چائے کے لیے ٹرے تیار کرکے وہ لائی تو تتلی سوچکی تھی۔ اُسے ذرا چنتا ہوئی۔ یہ کیسے کل اچھی طرح پڑھ پائے گی، ایک بار بھی اس کے سامنے سنائی نہیں! لیکن خیر، اس نے خود کی ڈھارس بندھائی ۔ صبح اُٹھ کر دوچار بار کرلے گی تو ٹھیک رہے گا۔ اب تتلی کوئی بچی تو ہے نہیں۔
صبح تڑکے اٹھ کر اس نے ادرک کی چائے بنائی تاکہ تتلی کا گلا صاف رہے۔ تتلی کو اٹھایا تو وہ جلدی جلدی چائے گلے سے نیچے اتارتی ہوئی بولی — ”ممّا میں پہلے نہا لوں، آج مجھے جلدی ہے۔“
کالندی چائے کے برتن اٹھاتے ہوئے بولی — ”ہاں ہاں، نہا لو تاکہ جلدی تیار ہوکر مجھے ڈھنگ سے وہ نظم سنا سکو۔ ایک بار بھی میرے سامنے پڑھی نہیں تو کیسے اچھی طرح پڑھ پاؤگی۔“
باتھ میں گھستی ہوئی تتلی لاپرواہی سے پلٹی اور بولی — ”آپ کو وقت برباد کرنے کی ضرور نہیں ہے۔ وہ ہماری کرشن مورتی میم ہیں نا، وہ سنیں گی بھی اور جہاں ضرورت ہوگی، ٹھیک بھی کردیں گی۔ اسی لیے تو جلدی جانا ہے۔“ وہ غپ سے اندر چلی گئی اور زور سے شاور چلاکر نہانے لگی۔
کالندی نے سہارے کے لیے کرسی کی پیٹھ پکڑی ،پھر اسی پر بیٹھ گئی۔ کتنی دیر بیٹھی رہی اسے خبر نہیں۔ پھر اُٹھی اور خود سے بولی — ”یہیں تک کی ڈور تھی۔ اب تتلی کو اپنی اڑان اڑنی ہے۔“
”اور تم! تمہارا کیا ہوگا؟“ دل نے پوچھا۔
”میں یہ سوچ کر خوش ہو لوں گی کہ آج اڑان اس کی اپنی سہی، اڑنا تو میں نے ہی اسے سکھایا ہے“۔
ڈاکٹر نور ظہیر