تمہی تو ہو جو مرے دل کا آئنہ خانہ
سجا کے رکھتی ہو ایسے کہ عکس،رنگ،بہار
ہر ایک سمت نظر میں بکھرتے جاتے ہیں
تمہی تو ہو جو مرے ان خمیدہ ہاتھوں کو
لگا کے رکھتی ہو دل سے کہ جیسے شاخِ گلاب
کہ جیسے پھول کو تتلی کا لمس ملتا ہے
تمہی تو ہو جو ہر اک بے اماں جزیرے پر
ٹھکانے اور سہارے کی طرح ملتی ہو
میں سر اٹھائے جہاں سے گزرتا جاتا ہوں
تمہی تو ہو جو مرے خوشنما گھروندے کو
سنہرے خواب کے ساحل پہ تند لہروں سے
بچا کے رکھتی ہو ایسے کہ میرے گھر کے سوا
حصار اور در و دیوار گھلتے جاتے ہیں
اور اب جو تم بھی نہیں ہو تو میرے چاروں طرف
نہ کوئی عکس،نہ خوشبو، نہ آئنے،نہ بہار
اور اب جو تم بھی نہیں ہو تو یخ ہواؤں میں
میں برگِ زرد کی صورت پناہ ڈھونڈتا ہوں
اور اب جو تم بھی نہیں ہو تو اتنے لوگوں میں
خود اپنے ہاتھ میں تھامے ہوئے ہوں ہاتھ اپنا
اور اب جو تم بھی نہیں ہو تو اس جزیرے پر
کوئی ٹھکانہ نہیں ہے کوئی سہارا نہیں
سمندروں کے ادھر بھی کوئی کنارا نہیں
سعود عثمانی