اردو تحاریراردو کالمز

ٹیکنالوجی کی مدد سے اردو ادب کی تدریس

ساجد حمید کا ایک کالم

موجودہ دور کو جدید دور کہاجاتا ہے۔ اس دور جدید میں سائنس و ٹیکنالوجی ترقی کی راہ میں ایک اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ ٹیکنالوجی (Techno+logy) لفظ انگریزی میں یونانی زبان سے آیا ہے، جس کے معنی کسی فن یا تکنیک کا منظم مطالعہ کے ہیں۔ ٹیکنالوجی کی تعریف یوں کی جا سکتی ہے کہ یہ کسی میکانیکی علم یا کسی فن کا توصیفی مطالعہ ہے۔ ٹیکنالوجی علم سائنس اور انجینیرنگ دونوں کا احاطہ کرتی ہے۔

اکیسویں صدی میں جدید ٹیکنالوجی زندگی کے ہر شعبہ میں داخل ہو گئی ہے اور ٹیکنالوجی کا استعمال اپنے کام کو بہتر بنانے میں لازمی تصور کیا جارہا ہے۔ آج کا دور انفارمیشن کا دور ہے۔ جہاں علمی معیشت کا تصور حقیقت کا روپ دھار چکا ہے اور مربوط دنیا میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کلیدی کردار ادا کر رہی ہے۔ اس دور میں انٹرنیٹ کی موجودگی قوموں، اداروں اور افراد کے لیے یکساں اہمیت کی حامل ہے۔ نت نئے رجحانات کے جنم لینے سے معیاری اداروں کے ذریعہ آئی ٹی کی تعلیم فراہم کرنے کی ضرورت روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔

جدید ترین ٹیکنالوجی کو جب ہم اردو ادب کے نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں تو ٹیکنالوجی اردو ادب سے ہم آہنگ ہے۔ اکثر اردو زبان کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ اردو زبان مر رہی ہے اور اس کی ترقی ممکن نہیں ہے۔ اردو زبان ختم ہورہی ہے اور اس کا مستقبل روشن نہیں ہے۔ ایک تازہ ترین رپورٹ کے مطابق دنیا میں انگریزی کے بعد جس زبان نے وسیع تر علاقوں میں ہجرت کی ہے، وہ اردو زبان ہے، یعنی عالمی سطح پر اردو کو اس اعتبار سے دوسرا مقام حاصل ہے۔

انٹرنیٹ نے زندگی کے ہر شعبہ کو متاثر کیا ہے۔ جس کی وجہ سے انسانی معاشرے میں ابلاغ کے ایک بالکل نئے باب کا اضافہ ہوا ہے۔ ابلاغ کے اس نئے زاویہ سے دنیا کے ایک کنارے پر بیٹھا شخص دنیا کے دوسرے کنارے پر رہنے والے شخص سے ہم کلام ہونے لگا ہے۔

اس طرح سے ٹیکنالوجی کی اس انقلابی دنیا کو سائبر اسپیس کا نام دیا گیا ہے۔ زبان اور ادب کا تعلق اسی معاشرے سے ہے اور ان پر بھی اس تبدیلی کا موجودہ دور میں ویسا ہی اثر ہوا ہے جیسا کہ زندگی کے دوسرے شعبوں پر ہوا ہے۔

ادب نے جب ڈیجیٹل اوتار لیا اور برقی تاروں اور مصنوعی سیاروں کے ذریعے دور دراز کا سفر طے کرتے ہوئے اپنی ایک الگ ڈیجیٹل دنیا تشکیل دی تو اسے ادبی سائبر اسپیس کا نام دیا گیا۔ آج جبکہ جدید ٹیکنالوجی نے گلوبل گاؤں اور آفاقی سماج کی بنیاد ڈالی ہے تو ادب اس سے کیسے الگ رہ سکتا ہے۔ ادب بھی برقی لہروں کے ساتھ دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک سفر طے کر رہا ہے۔ ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ اردو ادب جدید ترین رجحانات کو اپنانے کی اپنی قدیم ترین روایت پرقائم رہے اور جدید ٹیکنالوجی کو اپنے وسیع دامن میں جگہ دے۔ کیونکہ اب مسئلہ یہ نہیں کہ ہمارے اندر اس سے ہم آہنگ ہونے کی صلاحیت ہے یا نہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ اردو ادب کو اپنے قارئین تک پہنچانے کے وسائل کا از سر نو جائزہ لیا جائے۔ اس کے لیے ضروی ہے کہ اس معاشرے کو سمجھنا جس میں ہم رہ رہے ہیں۔

عہد حاضر کو ہم تشہیری، برقی یا ڈیجیٹل دور کہہ سکتے ہیں۔ اس دور میں وہی قومیں، نسلیں اور وہی تہذیب و تمدن ترقی کریں گے جو وقت کے تقاضے اور مطالبات کو اپنائیں گے۔ اس لیے ضرورت نہ صرف کمپیوٹر ٹیکنالوجی کو اپنے نصاب تعلیم کا حصہ بنانے بلکہ اسے ایک سبجیکٹ کی حیثیت دینے کی ہے۔ کیونکہ یہ آج کے دور کی بڑی ضرورت ہے اور اردو زبان و ادب کو فروغ دینے میں اس کا بہت بڑا کردار ہو سکتا ہے۔

جدید دور میں تعلیمی مواد کے لیے آڈیو، ویڈیو اور ڈیجیٹل مصنوعات، تعلیمی ویب سائٹس اور ابتدائی تعلیم میں ریڈیو اور ٹیلی وژن کا استعمال ہورہا ہے۔ روزانہ کی بنیاد پراسباق نشر کیے جاتے ہیں۔ خاص موضوعات پر مخصوص لیولز کی نشان دہی کرتے ہوئے مخصوص لیولز پر ٹیچرز کی مدد فراہم کرنے والے ریڈیو اور ٹیلی وژن اسباق سے تدریس کے معیار میں اضافہ اور درس و تدریس میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

آج اس بات کی ضرورت ہے کہ مروجہ تدریسی نظام میں وقتاً فوقتاً جدید تکنیکی و تخلیقی تبدیلیاں عمل میں لائی جائیں تا کہ اساتذہ اپنے کام و پیشہ سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ ساتھ زمانے کی رفتار کا ساتھ بھی دے سکیں۔

ادب کی درس و تدریس پر جدید تحقیقات کی روشنی میں گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ خاص طور پر اساتذہ جو تدریس، معلومات اور ترسیل کے اہم ستون مانے جاتے ہیں، آج جدید معلومات سے تدریس و سائنس سے ہم آہنگ ہو کر ” اکتساب برائے تدریس ” Learn to Teach, Teach to Learn ( سیکھو سکھانے کے لیے اور سکھاؤ سیکھنے کے لیے ) کے نظریہ پر عمل پیرا ہیں۔

درس و تدریس کو موثر و مفید بنانے کے لیے چند ایسے شعبہ جات ہیں جن پر خاص توجہ مرکوز کرنے کی اشد ضرورت ہے تا کہ ایک ایسا نظام تشکیل دیا جاسکے جو موجودہ نظام کو موثر، مربوط اور منظم بنا سکے۔تدریس کا دائرہ کار نہایت وسیع ہے۔ جس میں موثر تدریس کے لیے بہترین طریقہ ہائے تدریس سے آگاہی، تعلیمی منصوبہ بندی، مضمون اور سبق کی منصوبہ بندی، منظم انداز میں منصوبہ پر عمل پیرائی، طلبہ کے رویوں اور برتاؤ میں بہتری کے لیے خاص حکمت عملی کو اختیار کرنا، طلبہ کی ترقی کی مناسب جانچ و نگرانی کے لیے تعین قدر (امتحان) پر عالمانہ عبور، پیشہ وارانہ صلاحیتوں میں اضافہ اور بہتری کے لیے سعی و جستجو وغیرہ جیسے عناصر شامل ہیں۔

ادب میں بہتر درس و تدریس کے ذرائع جیسے ای کلاس روم، اسمارٹ کلاس، اوور ہیڈ پروجیکٹر، کمپیوٹر، سی ڈی، ٹیبلیٹ، لیپ ٹاپ وغیرہ شامل ہیں۔ جن کی مدد سے عصر حاضر کا استاد اردو ادب کی تدریس کو بہتر بناسکتا ہے۔

ساجد حمید

ایم فل اردو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button