طوائف اور جگر مرادآبادی
حضرت جگر مرادآبادی مستی کے عالم میں کئی کئی مہینوں گھر سے باھر رھتے تھے۔ ایک دن جو بے قراری بڑھی تو اُن کے قدم ایک طوائف کے گھر پہنچ گئے ۔
اُس کا نام روشن فاطمہ تھا۔ حسین، شوخ، چنچل، کمسن۔
“حضور کی تعریف؟ ” اُس نے پوچھا۔
جگر آنکھیں جُھکائے اُس کے سامنے کھڑ ے تھے۔
شاید نگاہ بھر کے اُسے دیکھا تک نہیں تھا۔ جواب
میں دو شعر پڑھ دئیے۔
سراپا آرزو ھوں ،،،، درد ھوں ،،،،، داغِ تمنا ھوں
مجھے دنیا سے کیا مطلب کہ میں آپ اپنی دنیا ھوں
کبھی کیفِ مجسم ھوں، کبھی شوقِ سراپا ھوں
خدا جانے کس کا درد ھوں ،،، کس کی تمنا ھوں
“سبحان اللہ ” طوائف کے منہ سے بے اختیار نکلا۔
بے چارے عاشق معلوم ھوتے ھیں۔
جگر نے پھر ایک شعر پڑھ دیا.
۔ُمجھی میں عشق کا عالم، مجھی میں عشق کی دنیا
نثار اپنے پہ ھو جاؤں اگر سو بار پیدا ھوں“
حضور اس غریب خانے کو کیسے رونق بخشی؟
”کچھ ھمی جانتے ھیں لطف تر ے کوچے کاورنہ
پھرنے کو تو مخلوقِ خدا پھرتی ھے
اس شعر کا سُننا تھا کہ روشن فاطمہ پھڑک گئی،
طوائف تھی، چہرہ شناس تھی، سُخن فہم تھی۔
بار بار اس شعر کو پڑھتی تھی اور داد دیتی تھی۔
“میں اب تک کیوں آپ سے محروم رھی؟ کیا آپ اس شہر کے نہیں ھیں؟ ھیں تو یہاں کب سے ھیں؟ اور
اب تک یہاں کیوں نہیں آئے؟ ”
جگر یہ کہتے ھوئے اُس کے سامنے بیٹھ گئے۔
نہ پوچھ دھر میں کب سے میں اس طرح خانہ خراب ھوں
جو نہ مٹ سکا وہ طلسم ھوں، جو نہ اُٹھ سکا وہ حجاب ھوں”
دیکھئے میں پاگل ھوجاؤں گی۔ اللہ کے واسطے آپ
اپنا نام تو بتائیے آپ ھیں کون ؟
”دیکھا تھا کل جگر کو سرِ راہِ میکدہ
اس درجہ پی گیا تھا کہ نشے میں چُور تھا
وہ پھر بھی نہیں سمجھی۔ شاید اُس نے جگر کا نام
سُنا ھی نہیں تھا یا پھر وہ یہ سمجھی کہ وہ یہاں
کہاں آئیں گے، کوئی اورجگر ھوگا۔اسی وقت ایک
مہمان اور آ گیا۔ یہ جگر کا واقف کارتھا۔ دن کا
وقت تھا اس لیے محفل گرم نہیں ھوئی تھی۔
” جگر صاحب مجھے کسی نے بتایا کہ آپ یہاں آئے ھیں۔”
پھر وہ شخص روشن فاطمہ سے مخاطب ہوا۔
” آپ واقف ھیں ان سے؟ مشہور شاعر جگر مرادابادی ھیں۔”
“آؤ بھئی چلیں میں نے بہت زحمت دے لی انہیں”
جگر نے کہا۔
“ایسے تو نہیں جانے دوں گی۔” روشن فاطمہ نے جگر
کا ہاتھ تھام لیا۔ ” یہ طوائف کا کوٹھا ھے یہاں وہ آتا
ھے جس کی جیب میں مال ھوتا ھے۔”
جگر نے شیروانی کی جیب میں ہاتھ ڈالا اور جتنے
نوٹ ہاتھ میں آئے اُس کے سامنے رکھ دئیے۔
” نہیں حضور قیمت تو گاھک کی حیثیت دیکھ کر
طے ھوتی ھے۔ ایسے نوٹ تو مجھے کوئی بھی جاھل سیٹھ د ے سکتا ھے۔ آپ تو مجھےغزل سُنائیں۔”
” شعر سمجھتی ھو؟ ”
“حضور پہلے سمجھتی ھوں پھر گاتی ھوں۔ ”
ابھی روشن کا جملہ ختم نہیں ھوا تھا کہ جگر کی پُرسوز آواز نے دن کو قیامت کا دن بنا دیا۔
کیا چیز تھی، کیا چیز تھی ظالم کی نظر بھی
اف کر کے وھیں بیٹھ گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ درد جگر بھی
کیا دیکھیں گے ھم جلوہ محبوب کہ ھم سے
دیکھی نہ گئی ۔۔۔۔۔۔ دیکھنے والے کی نظر بھی
واعظ نہ ڈرا مجھ کو ۔۔۔۔۔۔ قیامت کی سحر سے
دیکھی ھے ان آنکھوں نے قیامت کی سحر بھی
اس دل کے تصدق ۔۔۔۔۔۔ جو محبت سے بھرا ھو
اس درد کے صدقے جو اِدھر بھی ھو اُدھر بھی
ھے فیصلۂ عشق جو منظور تو اٹھیئے !!!!!
اغیار بھی موجود ھیں حاضر ھے جگر بھی….