سر ہمارے یہ جو مقتل کے حوالے ہوئےہیں
جرم اتنا ہے کہ دستار سنبھالے ہوئے ہیں
مختلف کچھ بھی نہیں قیس ترے صحرا میں
ہم نے تو ایسے کئی دشت کھنگالے ہوئے ہیں
شبِ تاریک تو ایسے ہی نہیں ہے روشن
جسم کو راکھ کیا ہے تو اجالے ہوئے ہیں
عشق بھی کرتے ہیں ہم جاں سے ذیادہ اس سے
اور دل میں کئی اندیشے بھی پالے ہوئے ہیں
مل ہی جائے گا ہمیں منزلِ وحشت کا سراغ
اک نئے ڈھنگ سے اب راہ نکالے ہوئے ہیں
آب و دانہ کے لیے غول سے جوبچھڑے تھے
وہ پرندے کسی گرگس کے حوالے ہوئےہیں
وہ کوئی رنگ نہیں سرخئی خوں ہے اسعد
جو ترے پیکرِ تصویر میں ڈھالے ہوئے ہیں