سُوکھا ہوا دریا ہے نہ مانجھی ہے نہ پتوار
جانا ہے بہت دُور مجھے تنہا مرے یار
اک روز جسے توڑ کے نکلا تھا میں خود سے
ھے میرے تعاقب میں ابھی تک وہی دیوار
کیا روکے گی یہ دنیا ، مرے عشق کا رستہ
کیا کاٹے گی سر کو مرے یہ کاٹھ کی تلوار
ہم اُٹھ کے کدھر جائیں گے معلوم نہیں ہے
اپنی کوئی بستی نہ ٹھکانہ ہے نہ گھر بار
ہے یاد ابھی تک وہ ترے شہر کا منظر !
بارش میں وہ بھیگے ترے قریے ترے رخسار
ہاں روز ہی کرتا ہوں میں خود اپنی تلاوت
ہاں روز ہی وا ہوتا ہے مجھ پر کوئی اسرار
دیتے ہیں گوا ھی یہ کسی اور جہاں کی
یہ مرتے ہوئے جسم یہ مِٹتے ہوئے آثار
ہے آج متین اپنا گزر اُس کی گلی سے
سو خود کو سنوارا ہے دنوں بعد مرے یار
یونس متین