سنت درشن سنگھ مہاراج
حسینؑ درد کو، دل کو، دعا کو کہتے ہیں
حسینؑ اصل میں دینِ خدا کو کہتے ہیں
حسینؑ حوصلۂ انقلاب دیتا ہے
حسینؑ شمع نہیں آفتاب دیتا ہے
حسینؑ لشکرِ باطل کا غم نہیں کرتا
حسینؑ عزم ہے ماتھے کو خم نہیں کرتا
حسین ظلم کے مارے ہوؤں کا ما من ہے
حسینؑ زندگیِ بے سکوں کا مسکن ہے
حسینؑ حسنِ پیمبر ؐ کی ضو کو کہتے ہیں
حسینؑ سینۂ حیدرؑ کی لَو کو کہتے ہیں
حسینؑ سلسلۂ جاوداں ہے رحمت کا
حسینؑ نقطۂ معراج ہے رسالت کا
حسینؑ جذبۂ آزادیِ ہر آدم ہے
حسینؑ حریت، زندگی کا پرچم ہے
حسینؑ عزم کو جب تابناک کرتا ہے
جلا کے خرمن باطل کو خاک کرتا ہے
پیام، رحمتِ حق ہے پیامِ شبیری
ہر ایک پیاسے کو ملتا ہے جامِ شبیری
حسینؑ عزم ہے، نمرود سے بغاوت کا
حسینؑ سے نہ اٹھانا سوال بیعت کا
دلِ حسینؑ کی گرمی سے دل مچلتے ہیں
اِس اک چراغ سے لاکھوں چراغ جلتے ہیں
حسینؑ سعیِ تجلّی میں کامیاب ہوا
لہو میں ڈوب کے ابھرا تو آفتاب ہوا
حسینؑ صبحِ جہاں تاب کی علامت ہے
حسینؑ ہی کو بھلا دیں یہ کیا قیامت ہے
بروزِ حشر نشاطِ دوام بخشے گا
حسینؑ درشنؔ تشنہ کو جام بخشے گا
٭٭٭
پورن سنگھ ہنرؔ
جب لعینوں کے مقابل علی اکبرؑ نکلے
تیر، شمشیرو سناں ، نیزہ و خنجر نکلے
دین کی سمت اندھیروں نے اٹھائے جو قدم
جگمگاتے ہوئے فانوس بہتّر نکلے
بیعتِ فاسق انہیں کیسے گوارا ہوتی
باندھ کر سر پر کفن آلِ پیمبرؐ نکلے
قابلِ دید ہے اولاد پیمبرؐ کا جہاد
فقر و فاقے پہ بھی یہ لوگ تونگر نکلے
لذتِ صبر ہے روکے ہوئے شہہ کو ورنہ
آپ چاہیں تو ہر اک ذرے سے کوثر نکلے
حق ہر اک دور میں باطل پہ رہے گا غالب
چائے کیسا ہی کیوں نہ ستمگر نکلے
فہم و ادراک سے بالا ہے مقام شبیرؑ
غیر ممکن ہے کوئی اس کے برابر نکلے
یاد جس وقت مجھے شہہؑ کی شہادت آئے
اشک بن بن کر میری آنکھ سے گوہر نکلے
منقبت ابنِ علیؑ کی ہے غزل گوئی نہیں
منہ سے ہر لفظ ہنرؔ سوچ سمجھ کر نکلے
٭٭٭
ڈاکٹر ستنام سنگھ خمارؔ
پیاس کا پودا لگایا حکمتِ شبیرؑ نے
اپنی آنکھوں سے دیا پانی اُسے ہمشیرؑ نے
سیدہ کی گود میں جب مسکرایا آفتاب
اک نیا پیکر دیا اسلام کو تنویر نے
لے کے آیا تھا بڑا لشکر تکبر شمر کا
کر دیا گھائل حسینیؑ فکر کی شمشیر نے
کربلا میں سب نے دکھلایا ہنر اپنا مگر
جنگ جیتی مسکرا کر فطرتِ بے شیر نے
ظلمتِ شب کی اداسی میں در شبیرؑ کا
راستہ حر کو دکھایا مشعلِ تقدیر نے
غم کی آتش میں سلگتی زندگی کو اے خمارؔ
عشق کا نغمہ دیا بیمار کی زنجیر نے
٭٭٭
مہندر سنگھ بیدی سحرؔ
گلشنِ صدق و صفا کا لالۂ رنگیں حسینؑ
شمع عالم، مشعلِ دنیا، چراغِ دیں حسینؑ
سر سے پا تک سرخیٔ افسانۂ خونیں حسینؑ
جس پہ شاہوں کی خوشی قربان وہ غمگیں حسینؑ
مطلع نور مہ و پروین ہے پیشانی تری
باج لیتی ہے ہر اک مذہب سے قربانی تری
۔۔۔۔
جادۂ عالم میں ہے رہبر ترا نقشِ قدم
سایۂ دامن ہے تیرا پرورش گاہِ ارم
بادۂ ہستی کا ہے تعبیر تجھ سے کیف و کم
اُٹھ نہیں سکتا تیرے آگے سرِ لوح و قلم
تو نے بخشی ہے وہ رفعت ایک مشتِ خاک کو
جو بایں سر کردگی حاصل نہیں افلاک کو
۔۔۔۔
ہر گلِ رنگین شہید خنجر جور خزاں
ہر دلِ غمگین ہلاک، نشتر آہ و فغاں
جا گزیں ہے اے سحرؔ ہر شے میں وہ سوزِ نہاں
پھول پر شبنم چھڑکتا ہوں تو اُٹھتا ہے دھواں
خنجر آہن گلوئے مرد تشنہ کام ہے
چھٹ نہیں سکتا یہ وہ داغ جبیبِ شام ہے
٭٭٭
سردار پنچھیؔ
دور کر دی سب سیاہی دین کی تصویر سے
خونِ اصغرؑ نے ٹپک کر حرملہ کے تیر سے
دل رہے گا دور جب تک درد کی تاثیر سے
لوگ نا واقف رہیں گے مقصدِ شبیرؑ سے
جھوٹ کے پردے جلے اور سامنے سچ آ گیا
ایک لاوہ ایسا پھوٹا زینبی تقریر سے
چھنچھنانے لگ گئی ہے ہر قدم کی تال پر
جانے عابدؑ نے کہا کیا پاؤں کی زنجیر سے
گنگا جل یا آبِ کوثر سے مقدس ہیں یہ اشک
اپنے اپنے پاپ دھو لو کربلا کے نیر سے
اشک سے محروم آنکھیں لے کے تم تو چل دئیے
اپنا حصہ تو نہ بانٹو درد کی جاگیر سے
کربلا کی ایک زیارت میری قسمت میں بھی ہو
اور پنچھیؔ کچھ نہ چاہوں کاتبِ تقدیر سے
٭٭٭
پرتپال سنگھ بیتابؔ
اک غبار سا ہر سو غم دھواں دھواں اپنا
خوں ہے شہیدوں کا کرب بے کراں اپنا
اور غم زمانے کے دُور دُور رہتے ہیں
اک حسینؑ کا غم ہے جب سے مہرباں اپنا
سامنے کھڑی تھی موت چہرہ چہرہ خنداں تھا
اک یقین محکم تھا حق کا پاسباں اپنا
خون خون سینچا تھا مالیوں نے صحرا کو
پھول پھول کھلتا ہے جب ہی گلستاں اپنا
تشنگی کے صحرا میں تیغ زن رہا جذبہ
غیر تھی زمین بیتابؔ لیکن آسماں اپنا
٭٭٭
امرسنگھ جوشؔ
تا ابد زندہ رہے گا نام تیرا اے حسینؑ
رنگ لائے گا حقیقت نام تیرا اے حسینؑ
پھیلتا ہی جائے گا پیغام تیرا اے حسینؑ
نام لیں گے لوگ صبح و شام تیرا اے حسینؑ
تیرے جیسا اے حقیقت رعبِ سلطانی کہاں
سارے عالم میں بھلا تیری سی قربانی کہاں
۔۔۔
موت پر تیری سب اہلِ جہاں روتے رہے
دہر میں انسان فلک پرقدسیاں روتے رہے
دیکھ کر حالت تیری پیرو جواں روتے رہے
مہربان روتے رہے نا مہرباں روتے رہے
پھیرئے دیدار تیرا روئے نورانی کہاں
سارے عالم میں بھلا تیری سی قربانی کہاں
٭٭٭
چرن سنگھ چرنؔ
لیا خیال کا جب تیرے آسرا میں نے
ہوا یقین کہ منزل کو پا لیا میں نے
خدا کرے کہ مجھے خواب میں حسینؑ ملیں
تمام رات اندھیروں میں کی دعا میں نے
حسینؑ صبر و رضا میں ، مہکتے پھولوں میں
تمہارے حسن کو دیکھا جا بجا میں نے
غمِ حسینؑ میں کھویا رہا ہے دل میرا
تجھے تلاش کیا خاک کربلا میں نے
کھلی جو آنکھ تو زانوئے حر پہ سر تھا چرنؔ
اسی خیال سے پایا ہے مدعا میں نے
٭٭٭
سردار جسونت سنگھ رازؔ
وہ یاد آتے ہی ہو جاتی ہیں آنکھیں اشکبار اب بھی
زمین ہے مضمحل اب بھی ٖفضا ہے لالہ زار اب بھی
تصور میں جب آتے ہیں وہ دو ایثار کے پیکر
دل بے تاب کو آتا نہیں پہروں قرار اب بھی
وہ جن راہوں سے گزرے تھے لئے شوق شہادت کو
انہی راہوں کو تکتی ہے وہ چشم انتظار اب بھی
وہ معصومی کا عالم اور قربانی کا جوش ایسا
کلیجہ سن کے ہو جاتا ہے جس سے تار تار اب بھی
شب تاریک، یخ بستہ ہوائیں ، جبر کی آندھی
لہو مجھ کو رلاتا ہے وہ منظر بار بار اب بھی
وہ اک مدت سے محو خواب عرب میں ہیں لیکن
کئے جاتی ہے سجدے گردشِ لیل و نہار اب بھی
میسر ان کو سرداری ہے تاریخ شہادت میں
ہے اُن کو خون کی سرخی، ہے لالہ پر نکھار اب بھی
٭٭٭
امر جیت ساگرؔ
متاع زیست کو اُس پر نثار کرتے ہیں
نہ ہم سے پوچھئے کس غم سے پیار کرتے ہیں
رگوں میں خون کی گردش ہے اس لئے باقی
کہ اُن کے آنے کا ہم انتظار کرتے ہیں
یہ ریگ زار نہیں آنسوؤں کا دریا ہے
سب اس میں ڈوب کر ہی اس کو پار کرتے ہیں
نجاتِ زیست کی خاطر ہزاروں حر اب بھی
خسینؑ کب سے تیرا انتظار کرتے ہیں
سسکتے پھولوں کی خوشبو سنبھال کر رکھنا
تمہاری نظر ہم اپنی بہار کرتے ہیں
علاج دل کا تبسم نہ کر سکا اپنا
اسی لئے تو تیرے غم سے پیار کرتے ہیں
رواں ہے شام و سحر چشم درد سے ساگرؔ
غمِ حسینؑ سے ہم بھی تو پیار کرتے ہیں
٭٭٭
سردار تلوک سنگھ سیتلؔ
جنگ کے میدان کو جب سرور چلے
ہر طرف بھالے گڑے خنجر چلے
تھا بہتّر کا وہاں پر قافلہ
اشقیا لے کر جہاں لشکر چلے
دھوپ کے صحرا کا منظر الاماں
اوڑھ کر تطہیر کی چادر چلے
اشقیا کے ہوش پل میں اُڑ گئے
ہاں علم عباسؑ جب لے کر چلے
جس طرف افواج ہی افواج تھی
اُس طرف کو پھول سے پیکر چلے
اُف ترس آیا نہ اک معصوم پر
تیر اُف رے حلقِ اصغرؑ پر چلے
پیاس سے لب خشک تھے ہر ایک کے
تشنگی کے دور تک منظر چلے
اُف رے آل مصطفیٰؐ پر یہ ستم
بیڑ یوں میں پھول سا عابد چلے
سن کے سیتلؔ کربلا کا سانحہ
سینکڑوں خنجر میرے دل پر چلے
٭٭٭
سورج سنگھ سورجؔ
(قطعات)
غافل تھا اپنی نیند سے بیدار ہو گیا
آنکھیں کھلی حسینؑ کا دیدار ہو گیا
ایک ایک حرف نور ہے لفظ حسین کا
ایسا حسینؑ جس سے مجھے پیار ہو گیا
٭
سچائیاں حیات کی وہ مانتے نہیں
جینا بھی ایک طرز ہے یہ جانتے نہیں
ایسوں سے ربط و ضبط کو رکھنا فضول ہے
مظلومِ کربلا کو جو پہچانتے نہیں
٭
یہ معجزہ بھی پیاس جہاں کو دکھا گئی
آنکھوں میں آنسوؤں کی سبیلیں لگا گئی
کرب و بلا میں دیکھئے شبیرؑ کی ’’ نہیں ‘‘
ہر دور کے یزید کو جڑ سے مٹا گئی
٭٭٭