- Advertisement -

شکرانہ

مریم تسلیم کیانی کا ایک افسانہ

رات کے تین بج رہے تھے ۔ سفینہ حسب عادت اپنا جی بہلا رہی تھی ۔ کبھی اپنا موبائل چیک کرتی اور کبھی ٹی وی پر چینلز بدلتی رہتی کبھی بیڈ روم میں ٹہلتی ،الماری کھول کے اپنے جہیز اور بری کے مہنگے بھاری کام والے جوڑے دیکھتی جن کو ابھی اس نے پہنا بھی نہ تھا، کبھی اپنی جیولری سیٹ کرتی اور کبھی ڈریسر پر رکھے میک اپ کے سامان کو سیٹ کرتی مگر اس کا دل کسی بھی چیز سے نہیں بہل رہا تھا ۔۔ تھک کر وہ بیڈ پر تکیوں کے سہارے بیٹھ گئی ۔ پیلے لیمپ کی روشنی میں اپنے برابر لیٹے ہوئے فراز سے اسے شدید کوفت ہورہی تھی ۔ فراز کا منہ حسب عادت کھلا ہوا تھا اور وہ عجیب انداز سے خراٹے لے رہا تھا ۔۔ منہ کھلا ہونے کی وجہ سے اس کی رال بہہ کے اس کے تکیے کو بھگو رہی تھی ۔۔ جس میں سے بھپکے بھی اٹھ رہے تھے ۔۔ اس کے موٹے موٹے نتھنے گرم گرم ہوا پھینک رہے تھے . فراز کا منہ سفینہ کی ہی سمت تھا ،وہ بدبو دار بھپکے اس کی طرف آنے والی ہوا میں شامل ہو کے اس کے جی کو مزید مکدر کر رہے تھے ۔ اسے یہ سوچ کے گھن آرہی تھی کہ یہ شخص جو ابھی اس کے لبوں کو زبردستی چوم کے سورہا ہے ، اس شخص کا نطفہ وہ اپنے پیٹ میں پچھلے چار ماہ سے پال رہی ہے ۔۔
اس کی دیرینہ خواہش تھی کہ شادی کے بہت عرصے بعد ، اللہ کے سامنے گڑگڑانے اور منتیں مانگنے کے بعد اس کے ہاں بچہ ہو ۔۔
وہ شادی سے پہلے ہی یہ عجیب سی خواہش رکھتی تھی کہ وہ اپنی تمام تجربے کار شادی شدہ سہیلیوں اور رشتے دار خواتین سے مشورے مانگے گی ،سب سے پوچھے گی کہ بچہ کیسے ٹھہرتا ہے پھران کے بتائے گئے تمام ٹوٹکے آزمائے گی ۔ اپنے شوہر کو بچے سے رغبت دلائے گی اور پھر اپنے شوہر کی منتیں بھی کرے گی ، اسے بھی سمجھائے گی کہ وہ اپنا علاج تو کروا کے دیکھے ، شاید اس میں ہی کمی ہو ۔۔۔
مگر فراز میں تو ہر طرح کی زیادتی نکلی ۔ وہ بے حد سمجھ دار تھا۔ اسے شادی کے بعد کسی سے کوئی مشورہ لینے کی نوبت نہ آئی ۔ ۔ فراز ہر کام میں مشاق نکلا ۔ ہنی مون پر ہی فراز نے اسے سمجھا دیا تھا کہ پہلا بچہ جلدی ہونا چاہیئے اور خبردار بھی کیا تھا کہ کبھی مانع حمل کی کوئی دوا استعمال نہ کرنا ۔ وہ بہت نقصان دہ ہوتی ہیں ۔۔ پندرہ دن کے ہنی مون سے واپسی پر اس کا جی متلانے لگا تھا ۔ ایک ماہ بعد پوزیٹیو رپورٹ نے بتادیا کہ فراز نے کیا گل کھلایا تھا ۔۔
ساس نے رپورٹ دیکھ کر باقاعدہ منہ بنایا کہ ابھی گھر کے کام میں بھی ٹھیک سے ہاتھ نہ لگا ہے اور یہ مصیبت پال لی ۔۔۔ نند اور جیٹھانی نے بھی مذاق اڑایا ۔” بڑی جلدی تھی ۔۔ “
وہ نہ چاہتے ہو ئے بھی رات بھر سوچتی رہتی تھی ۔۔
سوچتے سوچتے صبح ہوجاتی ۔۔۔ تب وہ سر درد ، پیٹ درد، کمر درد وغیرہ کا بہانہ کر کے سوتی رہتی ۔۔۔
فراز نے اسے حاملہ کرنے کے بعد کبھی صبح اپنے لیے ناشتہ بنانے کے لیے نہیں جگایا ۔۔۔ بلکہ اس کے آرام میں خلل پیدا نہ کرنے کی غرض سے وہ اپنے کپڑے اور دفتر جانے کی تیاری دوسرے کمرے میں جاکے کرتا ۔۔ کھڑکی کے پردے بھی دبیز کروا دیئے تاکہ دھوپ کی وجہ سے اس کی صبح کی نیند خراب نہ ہو ۔۔ اپنی ماں کی شکایت پر بھی اس نے خود ہی وضاحت دی کہ وہ ساری رات جاگتی ہے اس کی روٹین بدل چکی ہے اور اکثر عورتوں کے ساتھ پریگنسی میں ایسا ہی ہوتا ہے ۔ آپ اسے کچھ نہ کہیئے گا ۔ اسے فراز کی ان ہی باتوں پر غصہ آتا تھا کہ وہ اسے شکایت کا کوئی موقع ہی نہیں دیتا تھا ۔۔
ادھر وہ کچھ کھانے کی فرمائش کرتی ادھر وہ پوری کردیتا ۔۔ آدھی رات میں بھی اس نے فرمائش کر کے دیکھ لی ۔۔ وہ سوچتی کہ پتا نہیں وہ اس کی کسی بات پر جھنجلاتا کیوں نہیں ۔۔۔
اس کی شادی شدہ بہنوں اور سہیلیوں کے پاس اپنے شوہر کے مظالم کی کتنی دلچسپ باتیں ہوتی تھی ۔۔
سب مل کر اپنے شوہروں کی برائیاں کرتی ۔ ان کے ظلم کی قصے بتاتی اور پھر ایک دوسرے کو تسلیاں دیتیں ۔
آپس میں ہنسی مذاق کرکے ایک دوسرے کی جی بہلاتی۔۔
اپنے بچوں کو بلا وجہ ڈانٹتی اور کہتی کہ اولاد کس کی ہے آخر جائے گی نا اپنے کمینے باپ پر ۔۔
ایک سہیلی کا تکیہ کلام بھی اسے بہت اچھا لگتا تھا ۔۔ جو اکثر اپنے بچے کو کہتی ۔ ۔۔
” ڈھیٹ نسلی!! خبیث کی اولاد ۔۔”
اس کا بھی دل چاہتا کہ اپنے شوہر کو ایسے ہی ِِاِن ڈائریکٹ گالیاں دے ۔۔۔
اپنے برابر میں سکون سے سوتے ہوئے فراز کو دیکھ کے اُس کا دل خواہ مخواہ اداس ہوجاتا تھا ۔۔۔ وہ اسے پیار سے پکارتا تو اس کے حلق میں کرواہٹ اتر جاتی ۔۔ وہ اس کا خراب موڈ دیکھ کے خود ہی سمجھ جاتا تھا ۔۔۔
“اچھا چھوڑو آج موڈ نہیں ہے تو ۔۔۔۔ میں زبردستی کرنا نہیں پسند کرتا ۔۔۔ “
وہ اسے صرف چھو کے فلائنگ کِس کرتا ۔ وہ حیران ہو کے اسے دیکھتی ۔۔۔ اور سوچتی ۔ ‘ایک میری سہیلی کا شوہر تھا جو اسے کسی حال میں نہیں چھوڑتا تھا ۔۔۔ ایک یہ بے حس انسان ہے ۔۔۔ اسے تو پروا ہی نہیں ہے ۔۔۔ ‘
فراز اسے اپنی طرف سے بہت خوش رکھتا تھا ۔۔ اکثر اپنے دوستوں کے دلچسپ قصے اسے سناتا ۔ اپنے دفتر باتیں بتاتا ۔۔ ہر وہ بات کرتا جس کے لیے ایک عورت ترستی ہے. .
سفینہ بے دلی سے مہینے کاٹ رہی تھی ۔۔۔ پیٹ پھول پھول کے گپا ہوئے جا رہا تھا ۔۔ اس سے اپنے بدہیبت جسم کو آئینے میں دیکھا بھی نہیں جاتا ۔
اس کی ایک سہیلی نے بتایا تھا کہ اس کے حمل والے دنوں اس کے شوہر کا کسی دوسری عورت سے افیئر ہوگیا تھا ۔۔
” یار میں تو اپنے حال سے بے حال تھی میاں پر توجہ ہی نہ دے پارہی تھی ۔۔ وہ تو کمینگی کی انتہا کو پہنچ گیا ۔۔ اس کے ساتھ حرام کاری کرنے لگا تھا ۔۔ میں بھی سوچتی کہ میرے پاس آکے ٹھنڈا کیوں ہو جاتا ہے ۔۔۔ “
اس کی دوسری سہیلی نے ہمدردی کی ۔ ” ہائے سچی یہ حرامی مرد بھی کتے سے بدتر ہوتے ہیں ایک تو ان کی خود کی نسل آگے بڑھانے کے لیے عورت بوجھ لادتی ہے اور ان کی رال ادھر ادھر ٹپکتی رہتی ہے ۔۔ “
“تو سنا سفینہ ۔۔ تیرا تو اب ساتواں مہینہ لگا ہے نا ؟ “
” ہاں ۔۔۔ ساتواں ہے مگر میرا پیٹ تو دیکھو اب کیا اس سے بھی بڑا ہوگا ؟؟! ” اس نے ہمدردی لینے کی خاطر پوچھا ۔۔ تو وہ سب ہنسنے لگیں . ہاں ۔۔۔ ساتواں ہے مگر میرا پیٹ تو دیکھو اب کیا اس سے بھی بڑا ہوگا ؟؟! ” اس نے ہمدردی لینے کی خاطر پوچھا ۔۔ تو وہ سب ہنسنے لگیں ۔۔
” او پاگلوٹ ۔۔ ابھی تو پورا ڈھول بنے گا ۔۔ تو دیکھتی تو جا ۔۔ ہاہاہاہا ۔۔ “
” یار یہ مرد کتنے فائدے میں رہتے ہیں ان کو نہ تکلیف نہ احساس ، بس پکایا پکایا مال مل جاتا ہے اور اتراتے کتنا ہیں اپنی اولاد کو دیکھ کے ۔۔۔ اپنی مردانگی کے ثبوت کو کیسے فخر سے پالتے ہیں ۔۔ اور جس نے نو ماہ اپنا فیگر خراب کر کے اسے پیدا کیا ۔۔ اس عورت کو بس پھرسے رگڑنے کا سامان بنا لیتے ہیں ۔۔۔ “
” ہاں یار سب سے بڑا عذاب تو عورت جھیلتی ہے ۔۔ واقعی ۔۔ “
“تو سنا تیرا شوہر تو ٹھیک ہے نا تیرے ساتھ ۔۔ “
“ہاں ٹھیک ہے ۔۔ ” سفینہ کو اپنی آواز بے جان سی لگی ۔۔ وہ اسے نظر انداز کر کے پھر کسی کی برائیوں میں لگ گئیں ۔۔
فراز اس کے ساتھ اس قدر رحم دلی سے پیش آتا تھا کہ کبھی کبھی اسے لگتا جیسے یہ سب ایک ڈرامہ ہو ۔۔ وہ کہیں نیچے بیٹھی ہوتی تو سب کے سامنے اس کا ہاتھ پکڑ کے اسے اٹھاتا ۔ اس کو انار کا جوس روز اپنے سامنے پلاتا ۔۔ اس کی دوا کا وقت یاد دلانے کے لیے اسے کال کرتا ۔۔ اسے لانگ ڈرائیو پر لے جاتا ۔ شاپنگ کرواتا ۔۔ اسے فلمز دکھاتا ۔۔ بار بار پوچھتا کہ تم کو کچھ چاہیئے تو بتاو ۔۔۔
اسے پتا نہیں کیا چاہیئے تھا ۔۔
وہ بظاہر اطمینان سے ہنس دیتی مگر دل کی دنیا میں عجیب اتھل پتھل رہتی ۔.
فراز اس کے پیٹ کے اندر ہوتی ہلچل سے کھیل رہا تھا ۔ پیار سے سہلا رہا تھا ۔۔۔ اور بچوں کی طرح خوش ہورہا تھا ۔۔ “یہ دیکھو میرا بچہ مجھ سے ہاتھ ملا رہا ہے ۔۔ یہ اس کا ہاتھ ہے نا ۔۔ ” مجھے کیا معلوم ۔۔ مجھے تو درد ہورہا ہے ۔ اس اچھل کود سے ۔۔ یہ اتنا بے چین کیوں ہے ۔ “اس نے بے زاری سے کہا ۔
” اسے دنیا میں آنے کی جلدی ہے ۔ میرا پیارا بچہ ۔ تھینک یو میری جان تم نے میری اتنی بڑی خواہش پوری کردی ۔ مجھے بہت شوق تھا باپ بننے کا ۔۔۔ آئی لو یو ۔۔ ” وہ اس کے پھولے پیٹ کو چومنے لگا ۔۔ پھر اوپر آکے اسے پیار کیا ۔۔ حسب معمول اس کا جی متلانے لگا ۔۔ اپنے ہونٹوں کو بھینچ کے اسے پرے ہٹایا ۔۔
“میرا موبائل چارج نہیں ، ذرا اپنا موبائل دینا ۔۔ “
فراز اسے موبائل دے کے ٹی وی دیکھنے لگا ۔۔
فراز کی کسی عورت سے ایس ایم ایس پر باتیں چل رہی تھیں ۔۔
جیسے ہی سفینہ نے موبائل لیا اس پر میسج ملا ۔۔۔ ” بس کچھ دیر میری جان ابھی ابھی گھر پہنچی ہوں ۔۔ جلدی رابطہ کروں گی ۔ جب تک اپنی بیوی کو خوش رکھو ۔۔لو یو آلویز “
” فراز!! ” وہ دہاڑی ۔ “یہ کیا ہے !! “
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کی سہیلیوں نے چونک کے ہمدردی کے ساتھ اسے دیکھا ۔۔ ایک دو کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گیئں ۔۔
“دیکھا یہ ہوتا ہے ان حرامی مردوں کے اچھے سلوک کے پیچھے ۔۔ “
“او مائی گاڈ !! “
“اس قدر بد معاشی ۔۔ افف “
میں تو پہلے ہی جانتی تھی یار اسے جلدی حاملہ کرکے ادھر ادھر منہ مارتا ہوگا ۔۔”
اور یہ بے چاری ۔۔ اس کا گند اٹھا ئے اس کی نسل آگے بڑھانے کے لیے اپنی زندگی داو پر لگا ئے ہوئے ہے ۔۔ اور وہ کتا اپنی گرل فرینڈ بنائے بیٹھا مزے لوٹ رہا ہے زندگی کے ۔۔ ہائے ہائے میری دوست تو پریشان نہ ہو ۔۔ ہم سب اسی جہنم میں رہنے پر مجبور ہیں یار ۔۔”
“ہاں اور کر بھی کیاسکتے ہیں ہم ۔۔ آخر یہ معاشرہ ہی ان حرامیوں کا ہے ۔۔ “
“مگر تیرا شوہر ایسا لگتا تو نہیں ۔سب کے سامنے کیسا جورو کا غلام بنا رہتا ہے میں تو اپنے میاں کو تیرے میاں کی مثال دیتی تھی. . ۔۔” “اب پتا چلا ۔ افف کیسا لگتا ہے ۔۔ ان مردو ں کی بے وفائی کرنے سے بڑا کوئی عذاب نہیں ۔۔۔، “
سفینہ سب کی مشترکہ ہمدردی سمیٹتی رہی. . مگر اپنی نظریں جھکا لیں ۔۔

گھر آتے آتے اپنی سہیلیوں کی باتوں سے وہ نہال ہوچکی تھی ۔۔ ایک عجیب سا اطمینان اس کو اپنے اندر اترتا ہوا محسوس ہورہا تھا ۔۔۔۔
اب وہ اپنی سہیلیوں کی نظر میں مظلوم تھی !
فراز کی وہ دوست دفتر میں ڈارلنگ مشہور تھی اور فراز اس کے قصے اکثر اسے سنایا کرتا تھا ۔۔
” اس کی تو عادت ہے سب کو لویو ۔۔لویو ۔۔ کہنے کی ۔۔” اس کی دہاڑ پر فراز نے سکون سے جواب دیا تھا ۔

مریم تسلیم کیانی

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
پطرس بخاری کی اردو مزاحیہ تحریر