شو شو
گھر میں بڑی چہل پہل تھی۔ تمام کمرے لڑکے لڑکیوں، بچے بچیوں اور عورتوں سے بھرے تھے۔ اور وہ شور برپا ہو رہا تھا۔ کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ اگر اس کمرے میں دو تین بچے اپنی ماؤں سے لپٹے دودھ پینے کے لیے بلبلا رہے ہیں۔ تو دوسرے کمرے میں چھوٹی چھوٹی لڑکیاں ڈھولکی سے بے سُری تانیں اڑا رہی ہیں۔ نہ تال کی خبر ہے نہ لَے کی۔ بس گائے جا رہی ہیں۔ نیچے ڈیوڑھی سے لے کر بالائی منزل کے شہ نشینوں تک مکان مہمانوں سے کھچا کھچ بھرا تھا۔کیوں نہ ہو۔ ایک مکان میں دو بیاہ رچے تھے۔ میرے دونوں بھائی اپنی چاند سی دلہنیں بیاہ کر لائے تھے۔ رات کے گیارہ بجے کے لگ بھگ دونوں ڈولیاں آئیں۔ اور گلی میں اس قدر شور برپا ہوا کہ الامان مگر وہ نظارہ بڑا روح افزا تھا۔ جب گلی کی سب شوخ و شنگ لڑکیاں باہر نکل آئیں۔ اور تیتریوں کی طرح ادھر اُدھر پھڑپھڑانے لگیں۔ ساڑھیوں کی ریشمی سرسراہٹ۔ کلف لگی شلواروں کی کھڑکھڑاہٹ اور چوڑیوں کی کھنکھناہٹ ہوا میں تیرنے لگی۔ تمتماتے ہوئے مکھڑوں پر بار بار گرتی ہوئی لٹیں۔ ننھے ننھے سینوں پر زور دے کر نکالی ہوئی بلند آوازیں اونچی ایڑی کے بوٹوں پر تھرکتی ہوئی ٹانگیں لچکتی ہوئی انگلیاں، دھڑکتے ہوئے لہجے، پھڑکتی ہوئیں رگیں۔ اور پھر ان الّہڑ لڑکیوں کی آپس کی سرگوشیاں!…… یہ سب کچھ دیکھ کر ایسا لگتا تھا کہ گلی کے پتھریلے فرش پر حُسن و شباب اپنے قلم سے معانی لکھ رہا ہے! عباس میرے پاس کھڑا تھا۔ ہم دونوں عورتوں کے ہجوم میں گھرے ہوئے تھے دفعتہ عباس نے گلی کے نکڑ پر نظریں گاڑ کر کہا۔ ’’شو شو کہاں ہے؟‘‘ میں نے جواب دیا۔ ’’مجھے اس وقت تمہارے سوال کا جواب دینے کی فرصت نہیں ہے۔‘‘ میں اس ہجوم میں اس بھونرے کے مانند کھڑا تھا۔ جو پھولوں بھری کیاری دیکھ کر یہ فیصلہ نہیں کر سکتا کہ کس پھول پر بیٹھے۔ عباس نے رونی آواز میں کہا۔ ’’وہ نہیں آئی!‘‘ ’’تو کیا ہوا…… باقی تو سب موجود ہیں …..ارے……. دیکھو تو وہ نیلی ساڑھی میں کون ہے؟…… شو شو۔‘‘ میں نے عباس کا ہاتھ دبایا۔ عباس نے غور سے دیکھا۔ نیلی ساڑھی میں……. یہ کہہ کر اس نے اپنے مخصوص انداز میں میری طرف قہر آلود نگاہوں سے دیکھ کر کہا۔ ’’علاج کراؤ اپنی آنکھوں کا…… چغد کہیں کے، یہ شوشو ہے؟‘‘ ’’کیوں وہ نہیں ہے کیا؟‘‘ میں نے پھر نیلی ساڑھی کی طرف غور سے دیکھا اور ایسا کرتے ہوئے میری نگاہیں ایکا ایکی اس لڑکی کی نگاہوں سے ٹکرائیں کچھ اس طور پر کہ اس کو ایک دھکا سا لگا۔ وہ سنبھلی اور فوراً منہ سے لال جِیب نکال کر میرا منہ چڑایا۔ اپنی سہیلی کے کان میں کچھ کہا……..اس سہیلی نے کنکھیوں سے میری طرف دیکھا…….. میرے ماتھے پر پسینہ آ گیا۔ عباس نے جو اپنا اطمینان کرنے کے لیے ایک بار پھر اس کی طرف دیکھ رہا تھا بلند آواز میں کہا۔ ’’بخدا تم اس کی توہین کر رہے ہو……. گدھے کہیں کے…… عورت کے معاملے میں نرے احمق ہو……. کاٹھ کی کوئی پتلی نیلے رنگ میں لپیٹ لپاٹ کر تمہارے سامنے رکھ دی جائے۔ تم اسی کی بلائیں لینا شروع کر دو گے۔‘‘ یہ الفاظ اتنی اونچی آواز میں ادا کیے گئے تھے کہ اس نیلی ساڑھی والی نے سُن لیے جب وہ ہمارے پاس سے گزرنے لگی تو خود بخود ٹھٹک گئی۔ ایک لحظے کے لیے اس کے قدم رُکے۔ گویا ہم میں سے کسی نے اس کو مخاطب کیا ہے۔ پھر فوراً اس کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ اور اس احساس کی پیدا کی ہوئی خفت دور کرنے کے لیے اُس نے یونہی پیچھے مُڑ کر دیکھا۔ اور کہا۔ ’’ارے…… امینہ تو کہاں اُڑ گئی؟‘‘! مجھے موقع ملا۔ میں جھٹ سے عباس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ اور اسے اچھی طرح دبا کر اس سے کہا۔ ’’آپ سے مل کر بہت خوشی حاصل ہوئی۔ مگر میرا نام محمد امین ہے…. مجھے نیل کنٹھ بھی کہتے ہیں!‘‘ جل ہی تو گئی۔ مگر ہم زیرِ لب مُسکراتے آگے بڑھ گئے۔ چند ہی قدم چلے ہوں گے کہ عباس نے اضطراب بھرے لہجے میں کہا۔ ’’شو شو ابھی تک نہیں آئی۔‘‘ ’’تو میں کیا کروں…… میرے سر پر نمدہ باندھ دیجیے۔ تو میں ابھی سرکار کے لیے اُسے تلاش کرکے لے آتا ہوں…….. آخر یہ کیا حماقت ہے بھئی۔ تم تماشا بھی دیکھنے دو گے یا کہ نہیں؟……. اور پھر جناب یہ تو بتائیے۔ اگر وہ یہاں موجود بھی ہو تو آپ اس سے ملاقات کیونکر کر سکتے ہیں……. آپ کوئی امریکی ناول نہیں پڑھ رہے۔ کوئی خواب تو نہیں دیکھ رہے! عباس میری بات فوراً سمجھ گیا۔ وہ اتنا بے وقوف نہیں تھا۔ چنانچہ ہم دونوں آہستہ آہستہ قدم اٹھائے گلی سے نکل کر بازار میں چلے گئے۔ موڑ پر رام بھروسے پنواڑی کی دکان کُھلی تھی۔ جو بجلی کے قمقمے کے نیچے سرجھکائے اُونگھ رہا تھا۔ ہم نے اس سے دو پان بنوائے اور وہیں بازار میں کرسیوں پر بیٹھ کر باتیں کرنے میں مشغول ہو گئے۔ دیر تک ہم ہندوستان میں مرد عورت کے درمیان جو اجنبیت چلی آ رہی ہے۔ اس کے بارے میں گفتگو کرتے رہے۔ جب ایک بج گیا تو عباس جمائی لے کر اُٹھا اور کہنے لگا۔ بھئی اب نیند آ رہی ہے…… اس حسرت کو ساتھ لیے جا رہا ہوں کہ شو شو کو نہ دیکھ سکا۔ سچ کہتا ہوں امین وہ لڑکی……. میں اب تمہیں کیا بتاؤں کہ وہ کیا ہے؟‘‘ عباس نے اپنے گھر کا رخ کیا اور میں نے اپنے گھر کا۔ راستے میں سوچتا رہا کہ عباس نے شو شو جیسی معمولی لڑکی میں ایسی کونسی غیر معمولی چیز دیکھی ہے جو ہر وقت اسی کا ذکر کرتا رہتا ہے۔ عباس کے مذاق کے متعلق میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ بڑا اونچا ہے۔ مگر یہاں اسے کیا ہو گیا تھا؟…….. شو شو…. شوشو….. ارے یہ کیا؟……. دو تین بار اس کا نام میری زبان پر آیا۔ تو میں نے یوں محسوس کیا کہ پیپر منٹ کی گولیاں چُوس رہا ہوں…….. شو شو……… ایک دو مرتبہ آپ بھی اسے دوہرایئے۔ ذرا جلدی جلدی….. کیا آپ کو لذّت محسوس ہوئی؟…….. ضرور ہوئی ہو گی مگر کیوں؟……… سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ میں عباس کی محبوبہ شو شو کے بارے میں خوامخواہ کیوں غور کرنے لگاہوں؟ اس میں ایسی کوئی چیز ہے ہی نہیں جو غیر افروز ہو مگر……. مگر……. یہ شو شو نام میں دلچسپی ضرور تھی۔ اور کیا کہا تھا میں نے لذت بھی!‘‘ شو شو میں بانجو کے تھرکتے ہوئے تاروں کی جھنکار سی پائی جاتی ہے۔ آپ یہ نام پکارئیے تو ایسا معلوم ہو گا کہ آپ نے کسی ساز کے تنے ہوئے تاروں پر زور سے گز پھیر دیا ہے۔ شو شو…….. سو شیلا کا دوسرا نام ہے۔ یعنی اس کی بگڑی ہوئی شکل مگر اس کے باوجود اس میں کتنی موسیقی ہے…….. سو شیلا…….. شو شو……… شوشو…….. سو شیلا……… غلط……. سو شیلا میں شوشو کی سی موسیقیت ہر گز نہیں ہو سکتی! فرنگی شاعر بائرن شکیل تھا۔ مگر اس میں وہ کون سی شے تھی۔ جو عورتوں کے سینے میں ہیجان برپا کر دیتی تھی؟……. اُس کا لنگڑا کر چلنا۔ گریٹا گاریو قطعاً خوش شکل نہیں ہے۔ مگر اس میں کون سی چیز ہے جو فلمی تماشائیوں پر جادو کا کام کرتی ہے؟…… اُس کا ذرا بگڑے ہوئے انگریزی لہجے میں باتیں کرنا……یہ کیا بات ہے کہ بعض اوقات اچھی بھلی شے کو بگاڑنے سے اُس میں حسن پیدا ہو جاتا ہے؟…….. سوشیلا پندرہ برس کی ایک معمولی لڑکی ہے۔ جو ہمارے پڑوس میں رہتی ہے۔ اس عمر میں ان تمام چیزوں کی مالک ہے۔ جو عام نوجوانوں کے سینے میں ہلچل پیدا کرنے کے لیے کافی ہوتی ہیں۔ مگر عباس کی نظروں میں یہ کوئی خوبی نہ تھی۔ عام نوجوانوں کی طرح عباس کا دل گھاس کی پتی کے مانند نہیں تھا۔ جو ہوا کے ہلکے سے جھونکے کے ساتھ ہی کانپنا شروع کر دیتی ہے…… خدا جانے وہ اس کی کس ادا پر مرتا تھا۔ جو میرے ذہن سے بالا تر تھی۔ میں نے سوشیلا کی شکل وصورت اور اس کی صناعانہ قدروقیمت کے متعلق کبھی غور نہیں کیا تھا۔ مگر نہ جانے میں اُس روز اس کے متعلق کیوں سوچتا رہا۔ بار بار وہ میرے ذہن میں آ رہی تھی۔ اور ہر بار میں سوشیلا کو چھوڑ کر اس کے مختصر نام شوشو کی موسیقی میں گم ہو جاتا تھا۔ انہی خیالات میں غرق گلی کے موڑ پر پہنچ گیا۔ اور مجھے اس چیز کا احساس اس وقت ہوا جب میں نے دفعتہ وہاں کی فضا کو غیر معمولی طور پر خاموش پایا۔ مکان میری نظروں کے سامنے تھا۔ اس کے باہر گلی کی دیوار کے ساتھ ایک برقی قمقمہ لٹک رہا تھا۔ جس کی چوندھیا دینے والی روشنی ساری گلی میں بکھری ہوئی تھی……. مجھے اس قمقمے کے ’’تجرد‘‘ پر بڑا ترس آیا۔ گلی بالکل سنسان تھی۔ اور وہ قمقمہ متحیّر معلوم ہوتا تھا۔ گھر میں داخل ہُوا۔ تو وہاں بھی خاموشی تھی۔ البتہ کبھی کبھار کسی بچے کے رونے کی لرزاں صدا اور پھر ساتھ ہی اس کی ماں کی خواب آلود آواز سنائی دیتی تھی۔ ڈیوڑھی کے ساتھ والا کمرہ کھول کر میں صوفے پر بیٹھ گیا۔ پاس ہی تپائی پر ’’رومان‘‘ پڑا تھا۔ اُس کو اٹھا کرمیں نے ورق گردانی شروع کی۔ ورق الٹتے الٹتے اختر کی غزل پر نظریں جم گئیں۔ مطلع کس قدر حسین تھا۔ نہ بھولے گا ترا راتوں کو شرماتے ہُوئے آنا رسیلی انکھڑیوں سے نیند برساتے ہُوئے آنا مجھے نیند آ گئی۔ کلاک کی طرف دیکھا۔ تو چھوٹی سوئی دو کے ہندسے کے پاس پہنچ چکی تھی۔ اور اس کا اعلان کرنے کے لیے الارم میں ارتعاش پیدا ہو رہا تھا….. ٹن نن نن……. ٹن نن نن……. ن! دو بج گئے……. میں اُٹھا اور سونے کے ارادے سے سیڑھیاں طے کرکے اپنی خوابگاہ میں پہنچا۔ بہار کے دن تھے۔ اور موسم خنک۔ میری خوابگاہ کی ایک کھڑکی باہر کی گلی میں کھلتی ہے۔ جس کے پیازی رنگ کے ریشمی پردے میں ہوا کے ہلکے ہلکے جھونکے بڑی پیاری لہریں پیدا کر رہے تھے۔ میں نے شب خوابی کا لباس پہنا اور سبز رنگ کا قمقمہ روشن کرکے بستر پر لیٹ گیا۔ میری پلکیں آپس میں ملنے لگیں۔ ایسا محسوس ہونے لگا کہ میں دُھنکی ہوئی روئی کے بہت بڑے انبار میں دھنسا جا رہا ہوں۔ نیند اور بیداری کے درمیان ایک لحظہ باقی رہ گیا تھا کہ اچانک میرے کانوں میں کسی کے بولنے کی گنگناہٹ آئی۔ اس پر ملتی ہوئی پلکیں کھل گئیں۔ اور میں نے غنودگی دُور کرتے ہُوئے غور سے سننا شروع کیا۔ ساتھ والے کمرے میں کوئی بول رہا تھا۔ یکایک کسی کی دلکش ہنسی کی ترنم آواز بلند ہوئی۔ اور پھلجھڑی کے نورانی تاروں کے مانند پُرسکوت فضا میں بکھر گئی۔ میں بستر پر سے اُٹھا اور دروازے کے ساتھ کان لگا کر کھڑا ہو گیا۔ ’’دونوں دُلہنیں ماشاء اللہ بڑی خوبصورت ہیں۔‘‘ ’’چندے آفتاب چندے ماہتاب‘‘ غالباً دو لڑکیاں آپس میں باتیں کر رہی تھیں۔ ان کے موضوع نے میری دلچسپی کو بڑھا دیا۔ اور میں نے زیادہ غور سے سُننا شروع کیا۔ ’’تِلّے والی سُرخ ساڑھی میں نرگس کتنی بھلی معلوم ہوتی تھی….. گورے گورے گالوں پر بکھری ہوئی مقیش…….. جی چاہتا تھا۔ بڑھ کر بلائیں لے لوں۔‘‘ ’’بچاری سمٹی جا رہی تھی۔‘‘ ’’سر تو اٹھایا ہی نہیں اُس نے….. پر….. ‘‘ ’’پر یہ شرم و حیا کب تک رہے گی…… آج رات….. ‘‘ ’’آج رات…..! ’’اُوئی اللہ….. تو کیسی باتیں کر رہی ہے شوشو۔ اس کے ساتھ ہی کپڑے کی سرسراہٹ سُنائی دی۔ میرے جسم میں بجلی سی دوڑ گئی…… شوشو…….. تو ان میں سے ایک سوشیلا بھی تھی۔ میری دلچسپی اور بھی بڑھ گئی اور میں نے دروازے میں کوئی دراڑ تلاش کرنا شروع کی۔ کہ ان کی گفتگو کے ساتھ ساتھ ان کو دیکھ بھی سکوں۔ ایک کواڑ کے نچلے تختے سے چھوٹی سی گانٹھ نکل گئی تھی۔ اور اس طرح چونی کے برابر سوراخ پیدا ہو گیا تھا۔ گھٹنوں کے بل بیٹھ کر میں نے اس پر آنکھ جما دی۔ شو شو قالین پر بیٹھی بسکٹی رنگ کی ساڑھی سے اپنی ننگی پنڈلی کو ڈھانک رہی تھی۔ اس کے پاس عفّت شرمائی ہوئی سی گاؤ تکیے پر دونوں کہنیاں ٹیکے لیٹی تھی۔ ’’اس وقت اُن گوری چٹی دلہنوں پر کیا بیت رہی ہو گی؟‘‘ شوشو یہ کہہ کر رُک گئی اور اپنی آواز دبا کر اُس نے عفّت کی چوڑیوں کو چھیڑ کر ان میں کھنکھناہٹ پیداکرتے ہوئے کہا۔ ’’ذرا سوچو تو؟‘‘ عفت کے گال ایک لمحے کے لیے تھرتھرائے۔’’کیسی بہکی بہکی باتیں کر رہی ہو شوشو۔‘‘ ’’جی ہاں…… گویا ان باتوں سے دلچسپی نہیں میری بنّو کو۔ بس میں ہو تو ابھی سے ابھی اپنی شادی رچالو۔‘‘ عفّت نے سوشیلا کی بات کاٹ دی۔ ’’پر یہ دلہنوں کو کہاں لے گئے ہیں شوشو؟‘‘ ’’کہاں لے گئے ہیں‘‘؟ شوشو مسکرائی۔ ’’سمندر کی تہ میں جہاں جل پریوں کا راج ہے….. کوہ قاف کے غاروں میں جہاں سینگوں والے جنّ رہتے ہیں…..‘‘ چند لمحات کے لیے ایک پُر اسرار سکوت طاری رہا۔ اس کے بعد شوشو پھر بولی۔ ’’کہاں لے گئے ہیں؟…… لے گئے ہونگے اپنے اپنے کمروں میں!‘‘ ’’بیچاریوں کو نیند کیسے آئے گی؟‘‘ ایک لڑکی نے جو ابھی تک خاموش بیٹھی تھی اور جس کا نام میں نہیں جانتا تھا۔ اپنا اندیشہ ظاہر کیا۔ شوشو کہنے لگی۔’’بے چاریاں!…… کوئی ذرا ان کے دل سے جا کر پوچھے کہ ان کی آنکھیں اس رت جگے کے لیے کتنی بے قرار تھیں؟‘‘ ’’تو بہت خوش ہوں گی؟‘‘ ’’اور کیا؟‘‘ ’’پر میں نے یہ سُنا ہے کہ یہ لوگ بہت ستایا کرتے ہیں؟‘‘ عفّت سوشیلا کے پاس سرک آئی۔ ’’میں پوچھتی ہوں‘‘ تمہیں اندیشہ کس بات کا ہو رہا ہے؟…… جب تمہارے وہ ستانے لگیں گے تو نہ ستانے دینا انھیں…… ہاتھ پیر باندھ دینا اُن کے……. ابھی سے فکر میں کیوں گھلی جا رہی ہو۔‘‘ ’’ہائیں ہائیں۔‘‘ عفّت نے تیزی سے کہا۔ ’’تم کیسی باتیں کر رہی ہو شوشو۔ دیکھو تو میرا دل کتنے زور سے دھڑکنے لگا ہے‘‘!؟ عفّت نے سوشیلا کا ہاتھ اٹھا کر دل کے مقام پر رکھ دیا۔ ’’کیوں؟‘‘ شوشو نے عفّت کے دل کی دھڑکنیں غور سے سُنیں۔ اور بڑے پُر اسرار لہجے میں کہا۔ ’’جانتی ہوں کیا کہہ رہا ہے؟‘‘ عفت نے جواب دیا۔ ’’نہیں تو؟‘‘ ’’یہ کہتا ہے عفت بانو غزنوی دُلہن بننا چاہتی ہے!……‘‘ ’’ہٹاؤ جی، لاج تو نہیں آتی تمہیں۔ ’’عفت نے مسکرا کر کروٹ بدلی۔‘‘ دل اپنا چاہتا ہے تمہارا اور خواہ مخواہ یہ سب کچھ میرے سر منڈھ رہی ہو۔‘‘ پھر یکا یک اُٹھ کھڑی ہوئی۔ اور سوشیلا سے پوچھنے لگی۔‘‘ ہاں، یہ تو بتاؤ شوشو تم بھلا کیسے آدمی سے شادی کرنا پسند کرو گی؟…… میرے سر کی قسم، سچ سچ بتاؤ۔ مجھی کو ہائے ہائے کرو۔ اگر جھوٹ بولو!‘‘ میں کیوں بتاؤں۔‘‘ یہ کہہ کر سوشیلا نے تیزی سے اپنے سر کو حرکت دی۔ اور اس کا چہرہ (جو میری) نگاہوں سے پوشیدہ تھا، سامنے آگیا، میں نے غور سے دیکھا وہ مجھے بے حد حسین معلوم ہوئی۔ آنکھیں مست تھیں۔ اور ہونٹ تلوار کے تازہ زخم کے مانند کھلے ہُوئے تھے۔ سرکے چند پریشان بال برقی روشنی سے منّور فضا میں ناچ رہے تھے۔ چہرے کا گندمی رنگ نکھرا ہُوا تھا۔ اور سینہ پر سے ساڑھی کا پلّو نیچے ڈھلک گیا تھا۔ ہولے ہولے دھڑک رہا تھا۔ چوڑے ماتھے پر سرخ بندیا بڑی پیاری معلوم ہوتی تھی۔ عفّت نے اصرار کیا۔ ’’تمہیں میرے سر کی قسم بتاؤ؟‘‘ شوشو نے کہا۔ ’’پہلے تم بتاؤ۔‘‘ ’’تو سنو، مگر کسی سے کہو گی تو نہیں۔‘‘ یہ کہہ کر عفّت کچھ شرما سی گئی۔ میں چاہتی ہوں…… میں چاہتی ہوں کہ میری شادی ایک ایسے نوجوان سے ہو……. ایسے….. ‘‘ شوشو بولی۔ ’’توبہ اب کہہ بھی دو۔‘‘ عفّت نے پیشانی پر سے بال ہٹائے اور کہا‘‘۔ ایسے نوجوان سے ہو جس کا قد لمبا ہو جسم بڑے بھائی کی طرح سڈول ہو۔ انگلینڈ ریٹرنڈ ہو۔ انگریزی فرفر بولتا ہو…… رنگ گورا اور نقش تیکھے ہوں۔ موٹر چلانا جانتا ہو۔ اور بیڈمنٹن بھی کھیلتا ہو۔‘‘ شوشو نے پوچھا۔ ’’بس کہہ چکیں؟‘‘ ’’ہاں عفّت نے نیم وا لبوں سے سوشیلا کی طرف غور سے دیکھنا شروع کیا۔ ’’میری دعا ہے کہ پرماتما تمہیں ایسا ہی پتی عطا فرمائیں‘‘۔ سوشیلا کا چہرہ بڑا سنجیدہ تھا۔ اور لہجہ ایسا تھا۔ جیسے مندر میں کوئی مقدس منتر پڑھ رہی ہے۔ وہ لڑکی جو گفتگو میں بہت کم حصّہ لیتی تھی۔ بولی ’’عفّت! اب شوشو کی باری ہے۔‘‘ عفّت جو شوشو کی ساڑھی کا ایک کنارہ پکڑ کر اپنی انگلی کے گرد لپیٹ رہی تھی کہنے لگی۔ ’’بھئی اب تم بتاؤ ہم نے تو اپنے دل کی بات تم سے کہہ دی۔‘‘ شوشو نے جواب دیا۔ ’’سُن کے کیا کرو گی؟….. میرے خیالات تم سے بالکل مختلف ہیں۔‘‘ ’’مختلف ہوں یا ملتے ہوں۔ پر ہم سُنے بغیر تمہیں نہیں چھوڑیں گے۔‘‘ ’’میں……… ‘‘ سوشیلا نے چھت کی طرف دیکھا۔ اور کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد کہنے لگی۔ ’’میں…….. پر تم مذاق اڑاؤ گی عفّت!‘‘ ’’ارے…… تم سناؤ تو؟‘‘ سوشیلا نے ایک آہ بھری۔ ’’میرے سپنے عجیب و غریب ہیں عفّت‘‘…… یہ میرے دماغ میں صابن کے رنگ برنگے بلبلوں کی طرح پیدا ہوتے ہیں۔ اور آنکھوں کے سامنے ناچ کر غائب ہو جاتے ہیں….. میں سوچتی ہوں…….. اور پھر سوچتی ہُوں کہ میں کیوں سوچا کرتی ہوں۔ انسان جو کچھ چاہتا ہے۔ اگر ہو جایا کرے تو کتنی اچھی بات ہے….. لیکن پھر زندگی میں کیا رہ جائے گا…… خواہشیں اور تمنائیں کہاں سے پیدا ہوں گی……. ہم جس طرح جی رہے ہیں ٹھیک ہے….. جانتی ہوں کہ جو کچھ مانگ رہی ہوں۔ نہیں ملے گا۔ مگر دل میں مانگ تو رہے گی…… کیا زندہ رہنے کے لیے یہی کافی نہیں؟‘‘ عفّت اور دوسری لڑکی خاموش بیٹھی تھیں۔ شوشو نے پھر کہنا شروع کیا۔ ’’میں اپنا جیون ساتھی ایک ایسے نوجوان کو بنانا چاہتی ہوں۔ جو صرف عمر کے لحاظ سے ہی جوان نہ ہو، بلکہ اُس کا دل، اس کا دماغ…… اُس کا رؤاں رؤاں جوان ہو….. وہ شاعر ہو…….. میں شکل و صورت کی قائل نہیں…… مجھے شاعر چاہیے جو میری محبت میں گرفتار ہو کر سرتاپا محبت بن جائے۔ جس کو میری ہر بات میں حُسن نظر آئے…… جس کے ہر شعر میں میری اور صرف میری تصویر ہو……. جو میری محبت کی گہرائیوں میں گُم ہو جائے……. میں اسے ان تمام چیزوں کے بدلے میں اپنی نسوانیت کا وہ تخفہ دوں گی۔ جو آج تک کوئی عورت نہیں دے سکی۔‘‘ وہ خاموش ہو گئی۔ عفّت حیرت کے مارے اُس کا منہ تکنے لگی۔ اس کے چہرے سے معلوم ہوتا تھا۔ کہ وہ سوشیلا کی گفتگو کا کوئی مطلب نہیں سمجھ سکی۔ میں خود متحیّر تھا۔ کہ پندرہ سولہ برس کی اس دُبلی پتلی لڑکی کے سینے میں کیسے کیسے خیالات کروٹیں لے رہے ہیں۔ اس کا ایک ایک لفظ دماغ میں گونج رہا تھا۔ ’’اگر وہ مجھے نظر آ جائے‘‘ یہ کہہ کر سوشیلا آگے بڑھی اور عفت کے چہرے کو اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر کہنے لگی۔’’تو میں اس کے استقبال کے لیے بڑھوں اور اس کے ہونٹوں پر وہ بوسہ دوں۔ جو ایک زمانے سے میرے ہونٹوں کے نیچے جل رہا ہے۔‘‘ اور شوشو نے عفّت کے حیرت سے کھلے ہوئے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ جما دیے……. اور دیر تک ان کو جمائے رکھا۔ تعجب ہے کہ عفّت بالکل ساکت بیٹھی رہی۔ اور معترض نہ ہوئی۔ جب دونوں کے لب ایک مدھّم آواز کے جُدا ہُوئے اور ان کے چہرے مجھے نظر آئے۔ تو ایک عجیب و غریب نظارہ دیکھنے میں آیا۔ جس کو الفاظ بیان ہی نہیں کر سکتے۔ عفّت اُس شہد کی مکھی کی طرح مسرور متعجب معلوم ہوتی تھی جس نے پہلی مرتبہ پھول کی نازک پتیوں پر بیٹھ کر اس کا رس چوسنے کی لذت محسوس کی ہو….. اور سوشیلا….. وہ اور زیادہ پر اسرار ہو گئی تھی۔ ’’آؤ اب سوئیں۔‘‘ یہ خواب آلود اور دھیمی آواز عفت کی تھی۔ اس کے ساتھ ہی کپڑوں کی سرسراہٹ بھی سنائی دی اور میں خیالات کے گہرے سمندر میں غوطہ لگا گیا۔ گندمی رنگ کی ننھی سی گڑیا، اپنے چھوٹے سے دماغ میں کیسے کیسے انوکھے خیالات کی پرورش کر رہی تھی…… اور وہ کون سا تحفہ اپنے دامنِ نسوانیت میں چھپائے بیٹھی تھی۔ جو آج تک کوئی عورت مرد کو پیش نہیں کر سکی؟…… میں نے سوراخ میں سے دیکھا۔ شوشو۔ اور عفت دونوں ایک دوسری کے گلے میں باہیں ڈالے سو رہی تھیں۔ شوشو کے چہرے پر بال بکھرے ہُوئے تھے۔ اور اس کے سانس سے ان میں خفیف سا ارتعاش پیدا ہو رہا تھا۔ وہ کس قدر تروتازہ معلوم ہوتی تھی…… واقعی وہ اس قابل تھی کہ اس پر شعر کہے جائیں….. لیکن عباس تو شاعر نہیں تھا؟……. پھر پھر…..!
سعادت حسن منٹو