آپ کا سلاماردو تحاریراردو کالمز

شوہر کی ایکسپائیری عمر کیا ہے؟

سید زاہد کا ایک کالم

سوال پوچھا گیا تھاکہ
”شوہر کی ایکسپائیری عمر کیا ہے جس کے بعد بیوی دوسری شادی کاسوچے؟“
فیمینزم کی تحاریک کے آگے بڑھنے کے ساتھ ہی مرد کو اس جیسے کئی سوالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
اس سوال کے جواب میں اکثر خواتین کا کہنا تھا کہ انہیں شوہر ایکسپائیر ہی ملتا ہے۔
بہت سے مردوں کے خیالات تھے کہ بیوی جب چاہے اسے ایکسپائیر کر دے، یا پھر ایکسپائیر کہہ دے۔

اس کے برعکس صدیوں سے نسل ِ انسانی نے اس نظریہ کی آبیاری کی ہے کہ مرد کی کوئی ایکسپائیری عمر نہیں ہوتی۔ یہ چٹان کی مانند اٹل اور مضبوط چیز ہے۔

مرد اور عورت کے درمیاں ہمیشہ جنسی محبت قائم رہی ہے۔ اس محبت میں میاں بیوی، محب و محبوب، یار دوست اورعاشق و معشوق یا یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ غالب و مغلوب دُکھ سکھ، ہمدردی و دل لگی اور کلفت و فرحت میں جوانی سے بڑھاپا اور موت تک کا سفر ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر کرتے ہیں۔

جوانی کی سیڑھی چڑھتے ہی مرد یہ خواہش کرتے ہیں کہ ان کی ایک شریک حیات ہو۔ یہ خواہش معاشی استحکام اور بڑھتی عمر کے ساتھ مزید پروان چڑھتی ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ خوشی و شادمانی اور رنج و اَلم میں اس کی ایک ساتھی ہو۔ یہ تعلق اس کی فطری مردانگی کو بھی جلا بخشتا ہے اور معاشرہ میں اسے ایک معزز رتبہ حاصل کرنے میں مددگار ہوتا ہے۔

ہندوستان کا عظیم مہاراجہ بھوج جو بہادری و طاقت میں رستم، عدل و انصاف میں نو شیرواں اور خیرات و دان پن میں اپنے دور کا حاتم تھا، بکرم اجیت کے ‘سنگھاسن بتیسی’ پر جلوہ افروز ہونے کے لیے پاؤں رکھنے لگتا ہے تو تخت کے گرد موجود راجہ بکرم کی بے جان اپسرائیں اس کا ٹھٹھا اڑانا شروع کر دیتی ہیں۔ پتلیوں کو زندہ ہوتے دیکھ کر وہ خوف و دہشت سے گھبراتا نہیں بلکہ غصے سے چِلا اُٹھتا ہے۔ ‘رتن منجری’ نامی پتلی راجہ بکرم اجیت کی قصیدہ خوانی کرتے ہوئے کہتی ہے ”تم بہت بڑے راجہ ہو لیکن شان و شوکت میں میرے راجہ کے عشر عشیر بھی نہیں ،اس لیے تم اس قابل نہیں کہ جس سنگھاسن پر میرا راجہ بیٹھتا تھا اس پر قدم بھی رکھ سکو۔“

راجہ بھوج جواباً اپنی خوبیاں بیان کرتے ہوئے پوچھتا ہے ”تم کس بات پہ ہنسیں، تم نے کیا دیکھا؟ کیا میں راجہ کا بیٹا نہیں، کیا میں قوم کا چھتری نہیں، یا دریا دل نہیں؟ کیا دوسرے راجہ میرے ماتحت نہیں؟ کیا میں صاحب ِ علم و فضل نہیں، یا تدبر و سیاست کے اصولوں سے ناواقف ہوں؟ اور بہت سی خوبیاں بیان کرتے وقت وہ یہ بتانا بھی ضروری سمجھتا ہے “کیا میں نامرد ہوں یا میری رانیوں میں کوئی پدمنی نہیں؟“

پدمنی ہر مرد کی ضرورت ہے۔ ہر مرد یہ چاہتا ہے کہ اس کی ایک شریک حیات ہو، بچے ہوں جن کے ساتھ وہ اپنا غم غلط کرسکے اور سب مل کر ایک دوسرے کی دلجوئی کرسکیں۔

فیمینزم کی تحریک نے پدرسری معاشرے میں عورت پر ڈھائے جانے والے مظالم کا ذمہ دار مرد کو قرار دیتے ہوئے اسے نشانہ بنالیا ہے۔ یہ نہیں سوچا کہ ان مظالم میں مرد کا ہاتھ تو شامل رہا ہی ہے لیکن ان کی اصل وجہ طاقت کا عدم توازن تھا۔ اس نا انصافی کا مرد بھی شکار ہوا ہے اور یہ ناانصافی اب بھی جاری ہے۔

مرد اور عورت کے مابین صدیوں سے قائم تعلق کو اب دشمنی میں تبدیل کیا جارہے۔ آج کا مرد اس معاملہ میں اب خوف زدہ اور مضطرب و بے چین ہے۔

کل میں کلینک پر بیٹھا تو پہلا مریض ہی ڈرا ہوا، سہما ہوا ملا۔ شادی کو آٹھ ماہ ہوئے تھے۔ بیگم حاملہ نہیں ہو رہی تھی۔ خاوند دور دراز کے شہر میں مزدوری کرتا تھا۔ مہینے میں کچھ دن ہی ان کا ملاپ ہوتا تھا۔ عورت کی ماں الزام لگا رہی تھی کہ لڑکے کا پانی بہت پتلا ہے اور اس میں جراثیم کی تعداد کم ہے۔ میں نے پوچھا ٹیسٹ کروائے بغیر تمہیں کیسے پتا چلا؟ کہنے لگی ”میرا باپ حکیم تھا۔ میں مرد کی نبض دیکھ کر جان جاتی ہوں۔“

یہ مرد جو اس مشکل دور میں روزی روٹی کی فکر میں الجھا ہوا ہے، سر جھکائے شرمندہ بیٹھا تھا۔ وہ اب اپنی بیوی کی بےوقوفی یا یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ چالاکی کی وجہ سے مردانگی ایکسپائر کروا کر نامردی کا طعنہ سن رہا تھا۔

آج کی عورت بھی بھولی بھالی نہیں۔ کھیل کھیلنا جانتی ہے۔ وہ مرد کو معاشی اور جذباتی چنگل میں پھنسا کر اس پر غیر ضروری بوجھ لاد رہی ہے۔ صدیوں کے مظالم کا بدلہ موجودہ مرد کو نئے نئے مسائل میں الجھا کر لے رہی ہے۔ اس سے ان کے درمیان فاصلہ بڑھتا جا رہا ہے۔ ان کے درمیان ایک اجنبیت پیدا ہو رہی اور میاں بیوی کے رشتے میں ایک وسیع خلیج حائل ہوتی جا رہی ہے۔ یہ فاصلےمرد کی عمر کو ایکسپائیری کی طرف لے جا رہے ہیں ۔

اہم سوال یہ ہے کہ کیا آج کی عورت تابعدار قسم کا مرد چاہتی ہے؟

تاریخ اس سوال کا جواب نفی میں دیتی ہے۔ جب جب عورت کو اپنا بَر چُننے کا موقع ملا، اس نے ہمیشہ طاقتور اور امیر شخص کو ہی پسند کیا۔ اس کے برعکس مرد ہمیشہ کنیز کی صحبت سے زیادہ لطف اندوز ہوا، بلکہ اس سے بھی آگے بڑھتے ہوئے وہ طوائف کی زلفوں کا اسیر ہو کر خود کو برباد کرنے سے بھی نہیں ہچکچایا۔ کیونکہ زبردست اور حاکم عورت اسے جنسی تسکین نہیں پہنچا سکتی یا کہا جا سکتا ہے اس فعل میں اس کی خواہشات کے مطابق ڈھل کر اسے لطف اندوز نہیں کر سکتی۔ کنیز اور طوائف کی تربیت میں ان باتوں پر دھیان دیا جاتا ہے اور یہ خصوصیات ان میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں۔

واجدہ تبسم کے افسانے ‘اترن’ پر بنائی گئی فلم ‘کاماسترا’ کا مرکزی خیال یہی ہے۔ قدیم یونان کی ‘ہیٹری’ کو جنسی خدمات کی مہارت کے ساتھ اعلیٰ تعلیم بھی دلوائی جاتی تھی۔ وہ موسیقی اور ناچ گانے کے ساتھ عاجزی، خاطر مدارت، تحسین و ستائش، چاپلوسی اور خوشامدکی بھی ماہر ہوتی تھیں۔ ان کی یہی خوبیاں انہیں سمپوزیم میں بھی امراء کی رفاقت بخشتی تھیں ۔

مرد کا یہی جرم ہے کہ اس نے اپنی خواہشات کو طاقتور کےتابع نہیں کیا۔ اس جرم کو تاریخ مردانگی کا نام دیتی ہے۔ اس جرم کی اسے آج سزا مل رہی ہے۔
پوری دنیا میں فیمینزم کی تحاریک کے بعد مرد اپنی مردانگی کو خطرے میں محسوس کرتے ہیں۔ آج کے مرد کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ماضی میں وہ مراعات یافتہ تھا اوراس نے عورتوں پر بہت ظلم کیے ہیں۔ پدرسری معاشرہ کی حکومت میں مرد نے عورت پرجومظالم ڈھائے آج کے مرد سے ان تمام کا جواب مانگا جارہا ہے۔ اسے طعنے دیے جارہے ہیں کہ تمہارا دور ختم ہو گیا ہے اب فرمانبردار بن کر رہو۔ اس کی مردانگی زیر عتاب ہے۔

وہ جھکتا جارہا ہے۔ کنیز کا شعبہ ہی ختم کردیا ۔قحبگی کو قابل نفرت بنا کر خود کو اس سے دور کرنے کے جتن کر رہا ہے۔پھر بھی قابل قبول نہیں۔ بعض مرتبہ تو یوں لگتا ہے کہ مرد اس گناہ کے ساتھ ہی پیدا ہوتا ہے اور اب مردوں کے خدا کو اپنا بیٹا مسیح بنا کر مصلوب کروانا پڑے گا پھر شاید مردوں کے اس گناہ کا کفارہ ادا ہوسکے۔

آئیے تلخی ختم کرنے کے لیے وارث شاہ کے ایک بند سے لطف اندوز ہوں ۔

مینوں بابلے دی سونہہ رانجھنا وے، مرے ماؤں جے تدھ تھیں مکھ موڑاں
تیرے باجھ طعام حرام مینوں، تدھ باجھ نہ نین نہ انگ جوڑاں

خواجہ خضر تے بیٹھ کے قسم کھادھی، تھیواں سور جے پریت دی ریت توڑاں
کوڑھی ہو کے نین پران جاون، تیرے باجھ جے کونت میں ہور لوڑاں

(سونہہ، قسم -تدھ تھیں، تجھ سے- باجھ ، بغیر- تھیواں سور، سور بن جاؤں-توڑاں، توڑنا-نین ، آنکھیں- پران، اعضا- کونت ، خاوند- لوڑاں، ڈھونڈنا)

سید زاہد

سید محمد زاہد

ڈاکٹر سید محمد زاہد اردو کالم نگار، بلاگر اور افسانہ نگار ہیں۔ ان کا زیادہ تر کام موجودہ مسائل، مذہب، جنس اور طاقت کی سیاست پر مرکوز ہے۔ وہ ایک پریکٹس کرنے والے طبی ڈاکٹر بھی ہیں اور انہوں نے کئی این جی اوز کے ساتھ کام کیا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button