“شعور نوحہ کناں ہوا ہے”
اندھیرا اُوڑھے اجل زمیں پر برس رہی ہے
اُداس آنکھوں میں زندگی اب ترس رہی ہے
حیات اب شام غم کے نوحے سنا رہی ہے
کہ سانس سینے میں آکے کب سے رُکی ہوئی ہے
وہ جس کےدامن میں سسکیوں کے نحیف لمحے
اُسی کے ہاتھوں میں یاس بن کے تڑپ رہے ہیں
یہ کون ہے جو دعاکی گھڑیوں میں خوف باندھے
ہوا کے ہاتھوں سے زہر بن کر پھسل گیا ہے
چہار سُو اب یہ وحشتوں کافُسوں ہے طاری
کہ جنگلوں میں دھمال اُوڑھے یہ زندگی ہے
ثمینہ گُل