- Advertisement -

سودا

جتیندر بلّو کا ایک اردو افسانہ

حواس قریب قریب سوچکے تھے لیکن ذہن بیدار تھا۔ مجبور کررہا تھا کہ میں بات کو آگے بڑھاﺅں لیکن میرا اندرون مجھے انتباہ کررہا تھا کہ آگے خطرہ ہے، ایسی ویسی کوئی حرکت مت کر بیٹھنا کہ عمر بھر کے لئے پچھتاوا مقدر بن جائے۔ میں اس تضاد کو بہت قریب سے محسوس کررہا تھا اور شاید یہی وجہ تھی کہ غیر شعوری طور پر میں نے ہاتھ بڑھا کر میز پر دھرا ہوا گلاس اٹھالیا۔ گھونٹ بھرا تو شراب تیز محسوس ہوئی۔ یقینا اس مرتبہ پانی کی آمیزش کم ہوگی۔ کہہ نہیں سکتا کہ یہ فعل مجھ سے سرزد ہوا تھا یا میری میزبان سے۔ میں نے چپکے سے آنکھیں موند لیں اور سر صوفے کی پشت پر ٹیک کر خود میں اُتر گیا۔
”تم کچھ کہتے کہتے اچانک رُک گئے تھے، کیوں؟ کس لئے؟ کوئی خاص وجہ تو ہوگی“ سوالات ترکش سے تیروں کی طرح نکل کر مجھے چھلنی کررہے تھے۔ لیکن میری آنکھوں، ہونٹوں بلکہ پورے بدن میں کوئی جنبش نہ ہوئی اور میں اسی کیفیت کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے اندر کی چند سیڑھیاں مزید اُتر گیا…. کیا دیکھتا ہوں کہ میں ایک انتہائی خوبصورت فلیٹ کے لاﺅنج میں سفید چمڑے کے بہترین صوفے پر بیٹھا سگرٹ کا دھواں ہر سو بکھیر رہا ہوں۔ بیش بہا فرنیچر، آویزاں قیمتی تصویریں، نایاب پینٹنگز، جدید ترین برقی لوازمات۔ ٹی وی، ویڈیو، ہائی فائی، ہیٹر، قالین، رنگین پردے، چھوٹے بڑے کالے تانبے اور پتھر کے قیمتی مجسمے میرے ارد گرد پھیلے ہوئے ہیں۔ میرے بائیں ہاتھ پر دیوار سے لگی تپائی پر ہر قسم کی شراب موجود ہے۔ لاﺅنج میں پھیلی ہوئی مدھم روشنی نے ماحول کو اس قدر رومانی بنا رکھا ہے کہ تمام اشیا مجھے اپنی طرف کھینچ رہی ہیں۔ میں انہیں پسندتو ضرور کرتا ہوں لیکن میرا ان سے گہرا رشتہ نہیں ہوسکا۔
میرے دائیں ہاتھ سے کچھ فاصلے پر کچن ہے جہاں میری محبوبہ کوئی سنجیدہ گیت گنگناتی ہوئی کھانا بنا رہی ہے۔ آرادھنا منگل پرشاد اس دنیا میں مجھ سے پہلے وارد ہوئی ہے لیکن کسی سے پیار ہوجائے تو عمریں بے معنی سی لگا کرتی ہیں، بلکہ اپنی محبوبہ سے اس کی عمر دریافت کرتے وقت آدمی اپنی ہی نظر میں بے وقوف بن جایا کرتا ہے۔ لیکن میں زیادہ تو نہیں، تھوڑا بہت ذہین ضرور ہوں میں نے اس کی صحیح عمر کا پتا اس کے ہاتھوں اور پیروں کی پھولتی دبتی رگوں اور ٹوٹتی جڑتی لکیروں سے لگالیا ہے۔ اگر میں تیس سے تجاوز کرچکا ہوں تو وہ یقینا چالیس سے کچھ فاصلے پر ادھر کھڑی عالم تمام کو جوتی کی نوک پر رکھنے کے لئے آمادہ ہے لیکن کمال یہ ہے کہ اس نے اپنا ہوش ربا بدن اور اس کا ہرانگ اتنی خوبی سے سنبھال رکھا ہے کہ اس کی جھلک پاتے ہی اجنتا ایلورا کی تراشیدہ مورتیاں تصور میں اُبھرنے لگتی ہیں، حتی کہ وہ نیند میں بھی رقصاں رہتی ہیں۔ عمر کا بھید پاکر میں نے آرادھنا کو کسی بھی مقام، کسی بھی موڑ پراحساس نہیں دلایا کہ وہ عمر کے کس دوراہے پر کھڑی ہے، لیکن اس کا زاویہ نظر بڑا مختلف رہا ہے۔ وہ بار ہا مجھے کمزور اور خوشی کے لمحوں میں مرعوب کرنے کے لئے کوشاں رہی ہے کہ اول تو ہماری عمروں میں کوئی فرق نہیں ہے اور اگر ہے بھی تو بمشکل ایک دو ماہ کا ہوگا، ممکن ہے تین چار کا ہو۔ اس سے زیادہ نہیں۔ پہلی مرتبہ جب میں اُسے موسم گرما کی ایک خوش گوار شام کو اپنی کمپنی کار میں لندن سے بائیس میل کی دوری پہ رائے گیٹ نامی شہر میں لے گیا تھا تو وہ میرا مختصر سا فلیٹ اور اس کی آرائش کو دیکھ کر بے پناہ خوش ہوئی تھی۔ اس نے لاﺅنج کے وسط میں کھڑی ہوکر ایک بیلے ڈانسر کے مانند ایک پاﺅں کی ایڑی پر گھوم کر کئی چکر کاٹ ڈالے تھے۔ میں اس کے بدن کی حرکات اور توازن پر حیران تھا۔ لیکن وہ خوشی کے عالم میں برابر چکر کاٹتی جارہی تھی، موسم بڑا سہانا تھا۔ سورج کی نارنجی ٹکیا ابھی پہاڑیوں کی اُوٹ میں غائب بھی نہ ہوئی تھی کہ میں اور وہ ایک دو جے کے بدن سے متعارف ہوئے جارہے تھے، کچھ یوں کہ عالم تمام سے بے خبر وہ مخصوص گوشہ تلاش کررہے تھے جہاں آدم اور حوّا قریب سے ملنے پر مزید قریب ہوجایا کرتے ہیں اور دوسرے کو سمجھنے پر پسندیدگی اپنا رول ادا کرنے لگتی تھی۔ مکمل متعارف ہوجانے پر میں محسوس کررہا تھا کہ اس مختصر سے عرصے میں، میں کچھ ہوش مند، کچھ بالغ، کچھ بوڑھا بھی ہوگیا ہوں۔ جب کہ وہ دھیرے سے گوش گزار ہوئی تھی۔
”جانتے ہو تم سے پیار کرکے میں کیا محسوس کررہی ہوں؟“
”کیا؟“
”اپنی عمر سے دس سال چھوٹی ہوگئی ہوں۔“
”مطلب؟“
”مطلب یہ کہ تمہاری عمر سے دس سال کم۔“
یہ تجربہ ہمارے لئے خوش گوار ثابت ہوا تھا کہ ہم روحانی اعتبار سے مہک اُٹھے تھے۔
کھانے کے سگندھ میرے نتھنوں سے ہو کر میرے پورے نظام میں اُتر گئی ہے۔ جانتا ہوں کہ آج کا Supper ہمیشہ کی طرح آرادھنا نے اتنی محنت، اتنی لگن سے تیار کیا ہوگا کہ اسے دیکھتے ہی ہفتے بھر کا انتظار چٹکیوں میںغائب ہوجائے گا اور میری اشتہا بڑھ جائے گی۔ وہ تقریباً ہر ویک اینڈ پر میرے لئے کبھی اپنے پسندیدہ کبھی میرے فرمایش کردہ کھانے تیار کرتی ہے اورمیں بھی ان کے ساتھ پورا پورا انصاف کرتا ہوں۔ مزے لے لے کر اور انگلیاں چاٹ چاٹ کر کھانوں کا لطف اٹھاتا ہوں۔ لیکن آخری لقمہ حلق سے اتارتے ہی اپنی انگلیاں اس کی طرف بڑھا دیتا ہوں۔ وہ بھی یہی عمل اختیار کرتی ہے۔ پھر ہم انگلیاں اور اُن کے پوروں کو چوستے ہوئے اور انہیں کاٹتے ہوئے اور ان کی لذت کو محسوس کرتے ہوئے خواب گاہ کی طرف بڑھ جاتے ہیں اور وقت کا بہتا دھارا رات کے پچھلے پہر تک ہم سے الگ ہو کر ہمیں پہچاننے سے انکار کردیتا ہے۔
یہ طرز زندگی ہمارے درمیان کئی بدلتے موسموں سے جاری ہے اور ہم اپنی تمام تر محبت اور مخلصانہ جذبات کے ساتھ اپنا اپنا رول ادا کئے جارہے ہیں۔ جانتے ہیں کہ ہمارا جینا مرنا ایک ہوچکا ہے، زندگی کے مسائل بھی مشترک بن چکے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے درمیان ایک تیسرا کردار بھی موجود ہے، جو کچھ فاصلے پر کھڑا ہماری تمام سرگرمیوں کا جائزہ لیتا رہتا ہے۔ اس شخص کے متعلق مجھے کافی دیر کے بعد علم ہوا کہ وہ کون ہے؟ کیا ہے؟ اور ہم سے کیا توقع رکھتا ہے، خاص طور پر آرادھنا سے؟ یوں تو وہ شخص بڑا ہمدرد، بے ضرر اور انسان دوست ہے۔ لیکن کون دعوے سے کہہ سکتا ہے کہ اس کے دل و دماغ کے غیر مرئی گوشوں میں کیا چھپا بیٹھا ہے؟ جانے کب وہ اپنا اصلی چہرہ دکھا کر اپنے دانت دوسرے کے بدن میں پیوست کر ڈالے؟ میرے محتاط رہنے کی وجہ بھی یہی ہے کہ اس کھیل میں اس شرکت سے اتنی گانٹھیں پڑچکی ہیں کہ کوئی راہِ فرار ممکن نہیں۔
اچانک کچن سے آرادھنا ایپرن باندھے ہاتھ میں خالی گلاس تھامے نمودار ہوئی، ایک نظر بڑی چاہت سے مجھے دیکھا، پھر میز سے وائن کی بوتل اُٹھا کر گویا ہوئی:
”تم کہتے کہتے اچانک رُک گئے…. چاہوں گی اپنا دل کھول کر بیان کرو…. کیا معلوم اس پل میری وجہ سے تمہیں پریشانی ہورہی ہو؟“
”ہاں، ہو تو رہی ہے مگر عشق میں خود کو بھی قربان کرنا پڑتا ہے۔“
”تمہارا یہ رویہ مجھے کبھی پسند نہیں آیا۔“
گلاس میں وائن انڈیل کر وہ سیدھا کچن کی طرف بڑھ گئی اور میں ایک اور سیڑھی اُترنے پر مجبور ہوگیا…. کیا دیکھتا ہوں کہ میں لندن کی ایک معروف سالی سٹرفرم کے دفتر میں کھڑا اپنے اطراف تمام سفید چہروں کو دیکھ رہا ہوں۔ سوائے ایک کے۔ وہ عورت نما لڑکی کاﺅنٹر کے پیچھے بیٹھی Receptionist کے فرائض انجام دے رہی ہے۔ رنگ روپ کے اعتبار سے وہ یقینا انڈین ہے۔ سانولا تازہ چہرہ میک اپ سے یکسر پاک، بڑی بڑی پھیلی ہوئی کالی آنکھیں، اسی رنگ کے بال جنہیں بڑی نفاست سے گول جوڑے میں باندھا گیا ہے۔ پیشانی کے عین وسط میں چھوٹی سی سرخ بندیا، بھرا بھرا بدن اپنی طرف کھینچتا ہوا، خاموشی سے باتیں کرتا ہوا۔ اُس کی رنگ دار شخصیت اتنی پُرکشش، اتنی Striking تھی کہ کچھ دیر کے لئے میں بھول ہی بیٹھا وہاں کس غرض سے گیا تھا۔ اپنے سالی سٹر کے متعلق دریافت کرکے قدم اُٹھانے سے پہلے میں نے اُس سے کہا:
”کیا میں تم سے کچھ پوچھ سکتا ہوں؟“
”کیوں نہیں! ضرور پوچھو۔“
”تم انڈیا کے کس علاقے سے تعلق رکھتی ہو؟“
”کہیں سے بھی نہیں۔“
”کیا مطلب؟“
”میں سری نام کی رہنے والی ہوں۔“
میرے کانوں کے علاوہ میری آنکھوں کو بھی اُس کے کہنے پر رتی بھر اعتبار نہ آیا۔ لگا کہ اس نے جان بوجھ کر ایک مختلف لائن اختیار کی ہے۔ میں نے بھی کم و بیش دیسی ہی لائن اپنا کر اسی انداز میں کہا:
”اگر تم سری نام کی رہنے والی ہو تو پھر میں انڈین نہیں، ریڈ انڈین ہوں۔“
”مگر تم ریڈ انڈین نہیں ہوسکتے۔“
”کیوں؟“
”ان کا رنگ گندمی نہیں ہوا کرتا؟“
”۔۔۔ اور سری نام والے ماتھے پر بندیا نہیں لگایا کرتے؟“
”شاید تم ہمارے بیک گراﺅنڈ اور ہمارے کلچر سے واقف نہیں ہو؟“
اس رات میں نے بستر پر ان گنت کروٹیں بدلی تھیں۔ اس لئے نہیں کہ اس عورت نما لڑکی کے فطری حسن اور اس کی ذہانت نے مجھ پر گہرا اثر چھوڑا تھا بلکہ اپنی لاعلمی کے سبب میں اپنی ہی نظر میں بونا بن چکا تھا۔ میں نے سری نام ملک کا نام ضرور سُن رکھا تھا لیکن اس حقیقت سے قطعاً واقف نہ تھا کہ وہ دُنیا کے کس برِ اعظم کے کس خطے میں واقع ہے، وہاں کون سی مخلوق آباد ہے، وہ کون سی زبان بولا کرتی ہے اور ان کی تاریخ ، مذہب اور کلچر کیا ہے؟ لیکن بعد ازاں مجھے اپنے ایک صحافی دوست کے توسط سے علم ہوا کہ سری نام ڈچ کالونی تھی، جو ڈچ گائنا کے نام سے مشہور ہوئی وہ آج بھی لاطینی امریکا کے شمال میں مغرب میں واقع ہے۔ پچھلی صدی میں ہزاروں غریب، غربا ہندوستانی جو اکثر ایک وقت کے کھانے سے بھی محروم رہا کرتے تھے، وہ بہتر زندگی کے لالچ میں وہاں جاکر بس گئے تھے۔ تب سے ان کی نسلیں وہیں آباد ہو کر وہیں کا اٹوٹ حصہ بن چکی ہیں۔ یہ تمام واقعات جان کر مجھے اپنی جہالت کا واقعی احساس ہوا اور ایک مرتبہ پھر میں اپنی ہی نظر میں بونا بن بیٹھا۔
٭٭٭٭٭
ایک ایشائی ریستوران میں ایک بھرپور ملاقات کے دوران جب آرادھنا کو میں نے اپنی کم علمی اور دنیاوی حقائق کے متعلق اپنی بے خبری کا اظہار کیا تو اسے میری معلومات پر افسوس ہوا بولی: ”انڈیا بہت بڑا ملک ہے لیکن وہاں کے باشندوں نے کبھی یہ جاننے کی پروا نہیں کی کہ ان کی دھرتی سے اُٹھے ہوئے ان کے بھائی بند دُنیا میں کہاں کہاں جا کر بس گئے تھے۔“
میں اس کے شکوے کا کیا جواب دے سکتا تھا۔ دم بخود اسے دیکھتا رہا اور وہ مجھے اور بھی اچھی لگنے لگی۔ دفعتاً اس کی گردن ایک شیرنی کی طرح اُونچی ہوگئی۔
”میں نے آج تک تمہارا ملک نہیں دیکھا…. میں تمہاری زبان بھی بول سکتی اور نہ ہی سمجھ سکتی ہوں…. لیکن اتنا ضرور کہوں گی، میں تم سے زیادہ تمہارے کلچر کو سمجھتی ہوں، جانتی ہوں محسوس کرتی ہوں…. وہ پیڑھی در پیڑھی ہمارے ساتھ رہا ہے۔“
”تم ٹھیک کہہ رہی ہو، میرے جرنلسٹ دوست نے مجھے اس حقیقت سے بھی آگاہ کیا تھا کہ تم لوگ کلچر کے اعتبار سے آج بھی پورے انڈین ہو، یقین کرو میں تم پر ناز کرتا ہوں۔“
یہ جملے ادا کرتے وقت میرا ہاتھ خود بہ خود اس کے ہاتھ میں جاکر ٹک گیا۔ وہ ذرا بھی چونکی اور نہ ہی اس نے اپنا ہاتھ کھینچنے کی کوشش کی۔ نرم نظروں سے مجھے دیکھتی رہی۔ پھر میرے اندر اُتر کر بے حد نرم لہجے میں بولی:
”آج کے ڈنر کا شکریہ۔ لیکن چاہوں گی اگلے ہفتے میں تمہیں Entertain کروں؟“
اس نے بیگ میں سے تلاش کے بعد ایک کارڈ نکال کر میری طرف بڑھادیا۔
”میں یہاں رہتی ہوں…. ویک اینڈ پر ضرور آﺅ۔ مجھے خوشی ہوگی۔ میں خاص طور پر تمہارے لئے انڈین کھانا بناﺅں گی۔“
ایک بار تو یقینا میرے اندر تیزی سے یہ جذبہ اُبھرا کہ میں اپنے نصف بہتر کا کارڈ جیب میں ڈال کر مستقبل کی طرف قدم اٹھارہا ہوں۔
آرادھنا جس علاقے میں رہایش پذیر تھی۔ وہ شہر کے امیر ترین علاقوں میں سے ایک تھا۔ اس کے کشادہ فلیٹ میں جدید اشیا کے ساتھ پرانی وضع کا سامان بھی موجود تھا جسے اس نے بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ سجا رکھا تھا۔ بعض نوادر تو ایسے تھے جنہیں دیکھنے کا پہلی بار مجھے شرف حاصل ہوا تھا، ان کے دام بھی آسمان کو چھوتے لگ رہے تھے۔ میں اکثر سوچا کرتا تھا کہ آرادھنا نے جو اپنا معیارِ زندگی بنارکھا ہے، وہ دفتر میں ایک عام کام کرنے والی ملازمہ کی آمدنی سے دور دور تک میل نہیں کھاتا؟ جانے وہ اتنے لمبے چوڑے اخراجات کیوں کر برداشت کرتی ہوگی؟ یہ سوال اکثر مجھے دعوتِ فکر دیا کرتا تھا، لیکن مجھ میں اتنی ہمت نہ تھی کہ میں اس سے کبھی ان خطوط پر گفتگو کرتا کہ وہ تو سراسر اس کا ذاتی معاملہ تھا۔ مجھے تو بس اس کی ذات سے عشق تھا اور وہ بھی دیوانگی کی اُس حد تک کہ دیکھنے سننے والا دُنیا کو میری مثال دیا کرے۔
ایک ویک اینڈ پر میں اس کے دولت کدے پر بیٹھا پی پلا رہا تھا۔ تیسرے کمرے سے ڈچ موسیقی کی کوئی سمفنی فضا میں اپنا سحر قائم کرکے نشے کو دوبالا کررہی تھی۔ میں اس کی لے، گہرائی اور مٹھاس سے لطف اندوز ہورہا تھا۔ لیکن میری نظریں دیوار پر آویزاں پینٹنگز اور کمرے کی ہر چھوٹی بڑی شے کو دیکھ کر کبھی آگے بڑھ جایا کرتی تھیں اور کبھی چھجے کی طرف لوٹ جایا کرتی تھیں۔ اپنے گلاس سے ہلکا سا گھونٹ لے کر وہ بولی:
”تم ضرور سوچتے ہوگے، میں نے اتنی ڈھیر ساری چیزیں کیوں جمع کر رکھی ہیں….؟ چھوٹا سا میوزیم کیوں بنا رکھا ہے؟“
”ہوسکتا ہے یہ تمہارا شوق ہو۔“
”ٹھیک جانا تم نے…. چھوٹی تھی تو کوئی بھی انوکھی شے دیکھ کر اس کی طرف لپکا کرتی تھی۔ پھر اسے سینے سے لگا کر سمجھا کرتی تھی کہ اب میں اس کی مالکن ہوں۔ کوئی اسے مجھ سے واپس نہیں لے سکتا تھا۔ کئی بار ڈیڈی اس کی قیمت چکا دیا کرتے تھے۔ لیکن کئی بار اسے مجھ سے زبردستی چھین کر مقررہ جگہ واپس رکھ دیا کرتے تھے اور میں رودیا کرتی تھی“۔
میری زبان نے حرکت کی۔ ”تمہارے والدین ضرور امیر کبیر رہے ہوں گے؟“
”نہیں ایسا نہیں تھا۔ ہمارا گھر بس کھاتا پیتا تھا۔ بنیادی ضروریات بس ہنس کر پوری ہوجایا کرتی تھیں۔ دیکھا جائے تو صحیح معنوں میں میرے والدین نے ہی غربت سے نجات پائی تھی۔ ورنہ ان کے پُرکھوں نے تو دن رات اپنے ڈچ ماسٹرز کے لئے ہی مزدوری کی۔“
”تمہیں معلوم تو ہوگا کہ تمہارے پُرکھے کہاں سے آئے تھے؟“
اس نے کچھ سوچ کر اور چھت کو ایک نظر دیکھ کر کہا:
”میں بس اتنا جانتی ہوں میرے بزرگوں کے بزرگ چھوٹے ناگپور کے اندرونی علاقوں میں رہا کرتے تھے۔ وہ ذات کے سنتھال تھے….۳۷۸۱ءمیں ہماری برادری کے کئی لوگ ”لالہ رُخ“ جہاز پر سوار ہو کر آئے تھے، پھر سری نام سے کبھی لوٹ کر نہیں گئے۔“
”اچھا۔“
”ہاں…. لیکن میرے والدین نے اولاد کی خاطر اپنی حیثیت سے کہیں بڑھ کر ہماری تعلیم کا خاص خیال رکھا، تاکہ ہم دُنیا کے کسی کونے میں مات نہ کھائیں اور نہ کبھی غربت کا منہ دیکھیں۔“
میں سوچنے لگا کہ ایک بات تو ہم دونوں میں مطابقت رکھتی ہے۔ میرے والدین نے بھی اپنا پیٹ کاٹ کاٹ کر مجھے تعلیم دلوا کر اس قابل بنا ڈالا کہ میں بغیر کسی مشکل کے پردیس میں اپنا ٹھکانا بنانے میں کامیاب ہوگیا۔
”مگر سری نام سے یہاں آکر میرا شوق انگلیوں سے پھسل کر الگ ہی شکل اختیار کربیٹھا؟“
میں چونکا کہ چونکنا ہی میرے لئے وقت کا تقاضہ تھا۔
”دنوں میں وہ جنون کی شکل اختیار کربیٹھا، جب میں یہاں کی اینٹک شاپز میں جانے لگی تھی۔ وہاں کی زیادہ تر چیزیں ایشین کانٹی نینٹ سے تعلق رکھتی تھیں۔ جانے ان میں کیا کشش تھی کہ وہ مجھے اپنی طرف کھینچتی تھیں۔ میں نے کئی بت وہاں سے خریدے۔ اس کو نے میں جو لارڈ بدھا کا کانسی کا بت دھرا ہے اور دوسری طرف مہاویر جین کا۔ میں نے ان ہی دکانوں سے خریدے تھے۔“
”مگر یہ تو کافی مہنگے جان پڑتے ہیں؟“
”ہاں…. ان دنوں میں ایک بیڈسٹر میں رہا کرتی تھی۔ معمولی سی نوکری کیا کرتی تھی…. مگر یقین جانو ہر ہفتے کچھ نہ کچھ رقم بچاکر انہیں خریدنے کے قابل ہوئی تھی۔“
یہ سُن کر اور اس کے موجودہ فلیٹ کی شان بان اور بے نظیر جمع کردہ اشیاءکو دیکھ کر یہ بات میری سمجھ سے بالاتر تھی کہ اس کے مقدر نے کب، کہاں اور کن حالات میں قلابازی کھائی تھی، گو مدت سے میں ان خطوط پر مغز پچی کررہا تھا۔۔ لیکن کوئی بھی معقول جواب مجھ تک نہیں پہنچ پاتا تھا، سوائے اس کے کہ انتظارو کرو۔ ہر شے کا اپنا وقت ہوتا ہے اور صحیح گھڑی آنے پر پسِ پردہ اشیا بھی واضح ہوجاتی ہیں۔ پھر جانے کیا ہوا کہ یک لخت میرے اندر سے آواز آئی کہ صحیح گھڑی آن پہنچی ہے، وقت کی متحرک سوئیاں ٹھیک ہندسے کو چھو رہی ہیں۔ میں کچھ پوچھنا ہی چاہ رہا تھا کہ وہ خود ہی بول اٹھی:
”بہت سے اینٹک ڈیلرز میرے قریبی دوست بن چکے تھے…. کوئی چیز خریدتے وقت وہ مجھے چھوٹ بھی دے دیا کرتے تھے اور میں بے حد خوش ہوا کرتی تھی لیکن جب وہ بھری ہو کوئی جیبوں کے ساتھ میرے بیڈسٹر میں آنے لگے تو دوبارہ میں نے ان سے ملنا پسند نہیں کیا!“
”کیوں؟“
”ان کے جیبیں نوٹوں سے ضرور بھری ہوا کرتی تھیں لیکن ان کے دماغ خالی تھے، بلکہ صاف نہیں تھے۔ وہ مجھ سے جو توقع رکھتے تھے، اس کے لئے میں ہرگز تیار نہ تھی۔“
ایک نظر اسے ہمدردی سے دیکھ کر میں سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ وہ ایک ایسی عورت ہے جس نے لوگوں کو پہچاننے اور سمجھنے میں اپنے شعور سے صحیح کام لیا ہے۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر کافی ٹیبل سے میرا گلاس اٹھالیا۔ ایک دو جان دار گھونٹ لے کر بولی:
”میں اس شخص سے دوبارہ ملنا پسند نہیں کرتی جو عقلی سطح پر سانس نہ بھرتا ہو…. اگر میں نے تمہیں قبول کیا ہے تو اس کی اہم وجہ تمہاری عقلیت پسندی ہے۔ ورنہ تم میرے ہاں کبھی نہ آتے۔“
”اور میںبھی تمہیں دوبارہ ملنا پسند نہ کرتا اگر ہماری Wave Length ایک سی نہ ہوتی۔“
وہ براہ راست میری آنکھوں میں اُترگئی۔ پھر وہ اپنی جگہ سے یوں اُٹھی گویا برقی رو نے اسے چھولیا ہو۔ وہ میرے برابر آکر صوفے پر نیم دراز ہوگئی۔ فخریہ بولی:
” یقین جانو! میں نے اس علاقے سے گزرنا ہی بند کردیا تھا، جہاں اینٹک ڈیلرز کی دکانیں ہوا کرتی تھیں، لیکن ان کے ہاں صدیوں پرانا ایسا ایسا انمول سامان موجود تھا، جو آج بھی دیکھنے میں نہیں آتا۔ اسے دیکھنے کے لئے میری روح ترسا کرتی تھی اور اسے پانے کے لئے میرا تخیل گھوڑے دوڑایا کرتا تھا۔“
اچانک ایک خیال کہیں سے اُڑتا ہوا میرے دماغ میں سماگیا کہ جو عورت میرے بائیں ہاتھ پہ ایک گز کے فاصلے پر براجمان ہے، اس کا پہلے عشق پرانے وقتوں کے برآمد شدہ نوادرات صدیوں پرانی اشیا اور آثارِ قدیمہ سے ہے، میں، میری ذات اور میرا عشق کہیں بہت بعد میںآتے ہیں۔ لیکن وہ اپنی جگہ اہمیت ضرور رکھتے ہیں اور ان کے بنا اس عورت کا گزر بھی نہیں۔
”پھر اچانک میں نے دوسرا علاقہ تلاش کرلیا۔ ایک روز میں بانڈ اسٹریٹ کی ایک گیلری میں کھڑی کسی یونانی بت کو قریب سے دیکھ رہی تھی، جو تین ٹانگوں کی میز پر دھرا تھا۔ وہ میز بھی اپنی جگہ کمال تھی۔ اخروٹ کی لکڑی سے تراشی ہوئی اَن دیکھے نقش و نگار ساتھ لئے ہوئے۔ میں بُت اور میز کو نہایت دلچسپی سے دیکھ رہی تھی کہ میری ملاقات مسٹر نو باڈی سے ہوگئی۔“
”مسٹر نو باڈی؟“
مجھے حیرت زدہ پاکر اس نے ایسا زور دار قہقہہ لگایا کہ خود بہ خود میری نظریں چھت کی طرف اُٹھ گئیں، لیکن چھت برقرار تھی۔ اس نے ایک بار پھر میرا گلاس اٹھاکر چند جان دار گھونٹ بھرے اور گویا ہوئی:
”مسٹر نو باڈی کا خاندانی نام میکسول ہے۔ لیکن انہیں میک کہا کرتی تھی۔ وہ اس گیلری کے مالک ہیں۔ کافی بزرگ ہوچکے ہیں۔ پانچ چھ برس پہلے ان کی عمر ستر سے اوپر تھی۔ اب تم اندازہ لگا سکتے ہو، آج ان کی عمر کیا ہوگی؟“
میرا گلاس ختم ہوچکا تھا، وہ اسے اپنا سمجھ کر پیتی جارہی تھی۔ بھلا مجھے کیا اعتراض ہوسکتا تھا۔ مختلف مشروبات سے بھری ہوئی میز مجھے اپنے پاس بلارہی تھی۔ نیا گلاس تیار کرکے میں نے اس سے پوچھا:
”یہ میز وہ تو نہیں جو تم نے مسٹر میکسول کی گیلری میں دیکھی تھی؟“
وہ صوفے سے اچھل پڑی۔ بازو وا کئے میری طرف بڑھی اور مجھ سے دیوانہ وار لپٹ کر بولی:
”تمہیں پسند کرنے کی وجہ بھی یہی ہے، تم ہر بات کی نبض کو محسوس کرتے ہو…. جانتے ہو۔ یہ میز تمہارے ملک کے صوبہ راجستھان کے بیکانیر سے یہاں آئی ہے۔ تمہارے کئی راجوں مہاراجوں اور نوابوں کے فرنیچر یہاں عام بکا کرتے ہیں۔ خریدنا چاہوگے؟“
”یہ میدان تمہارا ہے، میرا نہیں۔۔۔۔ میرا تعلق تو محض تم سے، تمہاری ذات سے ہے، تمہارے شوق سے بالکل نہیں۔“
اس کے لبوں پر وہی دلکش تبسم ابھر آیا تھا جسے دیکھ کر میری آتما کو ٹھنڈک میسر ہوا کرتی تھی اور میں خود کو اس کے مزید قریب پایا کرتا تھا۔
”میں بہت جلد تمہیں میکسول سے ملانا چاہوں گی۔“
”کیوں….؟ کس خوشی میں؟“
”اس لئے کہ میں چاہتی ہوں تم میرے بزرگ سے ملو۔ بڑے زندہ دل آدمی ہیں وہ۔“
اس شام پہلی بار میکسول سے میرا غائبانہ تعارف ہوا اور اس سے ملنے کے لئے میری خواہش جاگ اٹھی۔
٭٭٭٭٭
ایک ویک اینڈ کی صبح ہم کافی دیر سے بیدار ہوئے لیکن سورج پھر بھی لا پتا تھا۔ وہ گلابی جاڑوں کے نیم خنک بادلوں کے پیچھے روپوش تھا۔ اس دوپہر کو ہمیں شہر باتھ ایک اینٹک میلے میں جانا تھا۔ وہاں رومن ایمپائر کے بعض برآمد شدہ نوادرات برائے نمائش پیش کئے جارہے تھے۔ کچھ ہی دیر میں میری کمپنی کار موٹروے پر بھیانک رفتار کے ساتھ جائے مقصود کی طرف بڑھ رہی تھی۔ لیکن کار آرادھنا چلارہی تھی اور میں اس کے برابر بیٹھا باہر کے مناظر دیکھ رہا تھا۔ آرادھنا نے ہمیشہ کی طرح رفتار مزید بڑھادی…. میں ہمیشہ اسے گاڑی تیز چلانے سے باز رکھا کرتا تھا۔
”اتنی تیز گاڑی کیوں چلایا کرتی ہو! تمہیں ڈر نہیں لگتا؟“
لیکن اس کا نپا تُلا ایک ہی جواب ہوا کرتا تھا:
”کیوں فکر کرتے ہو میرے شیام مراری! ایک دن کو جانا ہی ہے، کیا آگے کیا پیچھے۔ آدمی جائے تو اس رفتار سے کہ دنیا دیکھتی رہ جائے۔“
لیکن اس روز جوں ہی میں نے اپنا مخصوص جملہ دہرایا، اس پل وہ نوے میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گاڑی چلا رہی تھی، لیکن میرا جملہ اس کے کانوںمیں پڑتے ہی چند سنجیدہ لکیریں اس کی پیشانی پر اُبھر آئی تھیں۔ اس نے فوراً بایاں Indicator دبا کر رفتار کم کی، پھر گاڑی کو تیز لین سے درمیانی اور وہاں سے بائیں لین اور انجام کار اسے ہارڈ شولڈر پر لاکر کھڑا کرڈالا۔
”گاڑی کیوں روک دی تم نے؟“
”گاڑی تم چلاﺅ، میں نہیں چلاﺅں گی۔“
”میرا کہا بُرا لگا تمہیں؟“
”نہیں یہ بات نہیں۔“
”تو پھر؟“
”کل تک موت سے آنکھیں چار کرتے وقت میں ذرا بھی نہیں ڈرا کرتی تھی، لیکن آج مجھے کسی اور کے لئے زندہ رہنا ہے…. اب میں اس کی جان خطرے میں نہیں ڈال سکتی۔“
میں سمجھ کر بھی نہیں سمجھ پارہا تھا کہ وہ کیا کہہ رہی ہے اوراس کا اشارہ کس طرف ہے؟ لیکن اس کی آزادانہ آواز بڑی الگ تھی، جو سوالیہ نشان کی صورت اختیار کربیٹھی تھی۔
”تم واقعی Stupid ہو۔ اتنا بھی نہیں سمجھتے کہ میں کیا کہہ رہی ہوں! تم مجھ میں سانس لینے لگے ہو…. سمجھتے کیوں نہیں ہو؟“
ایسا لگا کہ زمین آسمان زیر و زبر ہوگئے ہیں۔ بازوﺅں میں بھر کر میں نے دیوانہ وار اس کے چہرے کے ہر حصے پر اتنے نشانات چھوڑے کہ اس نے میرے کوٹ کے کالر اوپر کرکے اپنا منہ میری چھاتی میں چھپا ڈالا اور اسے اتنے زور سے کاٹا کہ میری چیخ نکل گئی۔
”آج سے گاڑی تم چلاﺅگے…. مگر دھیان سے“۔
یہ ایک ایسا لمحہ تھا، جب آرادھنا نے مجھ پر حکم صادر کیا تھا اور جسے میں کبھی بھی فراموش نہیں کرپاﺅں گا۔ میرا فوری ردعمل یہ تھا کہ میں، وہ اور سنسار آپس میں یوں گتھ متھ گئے ہیں کہ اس تکون سے ایک زاویہ بھی اگر ادھر اُدھر ہوگیا تو وہ ہمیشہ کے لئے ادھوری رہے گی۔
اس رات آرادھنا اور میں نے ایک دوسرے سے اس قدر ٹوٹ کر پیار کیا کہ آس پڑوس کے لوگ بھی نیند سے بیدار ہو کر ضرور سوچتے ہوں گے کہ ان کے پڑوس میں کس قماش کے لوگ آن بسے ہیں۔ ہم بے پناہ خوش تھے کہ جلد ہی کوئی”تیسرا“ پھول بن کر ہمارے درمیان کھلنے والا ہے، اس کا رنگ روپ بھی وہی ہوگا جو ہم رکھتے ہیں اور جب ہم اس کی انگلی تھام کر ٹاﺅن سینٹر میں سے گزریں گے تو کوئی اسے دوغلا یا مونگرل کہنے کی جرات نہیں کرے گا۔ یہی آرادھنا چاہتی تھی اور یہی میں کہ پردیس میں عمرِ عزیز کے چند سال گزار کر آدمی کا تعلق اپنے رنگ کے ساتھ اتنا گہرا ہوجاتا ہے کہ اسے پانے کی خاطر وہ سمجھوتہ بھی کرتا ہے اور جھوٹ بھی بولتا ہے ورنہ اسے تادمِ آخر تلخ گھونٹ ہی پینے پڑتے ہیں۔
میکسول کے حویلی نما مکان میں جس چیز نے سب سے پہلے مجھے اپنی طرف متوجہ کیا وہ لاﺅنج کے آر پار دروازوں سے دکھائی دیتے ہوئے اونچے اونچے گھنے پیڑ تھے جودریا کے کنارے صدیوں سے کھڑے تھے۔ رواں دواں پانی پر چھوٹی بڑی کشتیاں بہہ رہی تھیں اور ڈوبتے سورج کی سیندوری شعاعیں پانی پر جھلملارہی تھیں۔ عجب دل فریب منظر تھا۔ لاﺅنج ڈیٹور اور وکٹورین عہد کے فرنیچر سے آراستہ تھا۔ دیواروں پر پینٹنگز، تصویریں، غالیچوں کے ٹکڑے، غرض کہ ہر طرف قدیم پرانی وضع کی اشیا بکھری ہوئی تھیں۔ ایک کونے میں پرانی طرز کا پیانو بھی دھرا تھا۔ یہ میوزیم آرادھنا کے میوزیم سے قدرے بڑا تھا اور یہاں کا نمائش کردہ سامان بھی زیادہ بیش بہا تھا۔ کچھ دیر پہلے باوردی بٹلر ہمارے درمیان چائے کا سامان رکھ چکا تھا۔ آرادھنا نے پیالے تیار کرکے ہماری طرف بڑھادیئے اور ہم ادھر اُدھر کی رسمی باتوں کے ساتھ چائے کی چُسکیاں بھی بھرنے لگے۔ میرے حصے میں جو جگہ آئی تھی وہاں سے میں کشتیوں کی آمد و رفت کا نظارہ خوب کرسکتا تھا۔ نظریں وہاں سے ہٹاکر میں نے میکسول کو غور سے دیکھا۔ گورا رنگ، گول چہرے پر گہری لکیریں، چوڑی کاٹھی مگر ساتھ چھوڑتی ہوئی۔ غلافی آنکھیں، مگر لالچ سے بھری ہوئی۔ سر کے پچھلے حصے پہ گول مذہبی ٹوپی، جس کے باعث اس کا گنج قدرے کم نمایاں ہورہا تھا۔ کمر میں ہلکا سا خم اور ہاتھوں میں ہلکا سا رعشہ، یہ اس کا کل حلیہ تھا۔ پیالہ رکھ کر اس مرتبہ اس نے مجھے خرد بینی نظروں سے دیکھا اور پھر آرادھنا سے مخاطب ہوا، جو اس کے بائیں ہاتھ پر بیٹھی اسے شفیق نظروں سے دیکھ رہی تھی۔
”قدرت کے رنگ کتنے نرالے ہیں، ان کو سمجھنا میرے بس سے باہر ہے…. آخر تم کو اپنی پسند کا آدمی مل ہی گیا۔ جیسا تم چاہتی تھیں…. دیکھا جائے تو تمہارا بوائے فرینڈ کتنا خوش نصیب ہے؟“ ملے جُلے قہقہے کا تاثر ہر چہرے پر دیر تک قائم رہا۔
”تم لوگوں نے سوچ سمجھ کر نئی زندگی شروع کی ہے۔ میں بہت خوش ہوں،مگر وقت بڑا بے رحم ہے۔ وہ ہر حال میں ایک سا نہیں رہتا…. کہیں دھوپ کہیں چھاﺅں، کہیں سرد گرم اور جانے کیا کیا۔ موسیٰ بہتر جانتا ہے، مگر تم لوگ کچھ فکر نہ کرنا، جب تک زندہ ہوں۔“
پھر وہ آرادھنا سے مخاطب ہوا۔
”تم کو اس سفر میں کوئی اڑچن، کوئی تکلیف آجائے تو فکر نہ کرنا۔ میں بھی ہوں، میرے دروازے بند نہیں ہوئے۔“
باہر کا دلکش نظارہ یک لخت میرے لئے اپنی کشش کھو بیٹھا۔ میں نے مناسب یہی جانا کہ گفتگو میں شرکت کی جائے، ورنہ ممکن ہے مستقبل قریب میں، میں اپنی ہی نظر میں اجنبی بن جاﺅں اور دیوانوں کی طرح بھٹکتا پھروں۔ میرے خیالات کی رو ابھی جارہی تھی کہ میں نے آرادھنا کو میکسل کے قریب پایا اس نے جھک کر اس کا گال چوم کر کہا:
”میک Enough is Enough تم نے میرے لئے اتنا کیا ہے کہ میں اسے آخری سانس تک نہ بھلا پاﺅں گی۔ تمہارا شکریہ کس ڈھنک سے ادا کروں، میں خود بھی نہیں جانتی۔“
”تم ہمیشہ بے قوفوں کی طرح باتیں کرتی ہو، تمہیں اس طرح سے نہیں سوچنا چاہئے۔ تم جانتی ہو میں تمہارے بارے میں کیا محسوس کرتا ہوں؟“
وہ قدرے جھینپ کر زیرِ لب مسکرا اٹھی۔
”آج میں تمہارے بوائے فرینڈ کی موجودگی میں بھی وہ کہنے سے نہیں ہچکچاﺅں گا…. کیا خیال ہے تمہارا؟“
آرادھنا کی شرماہٹ مزید گہری ہوگئی۔ لیکن اُسے سننے کے لئے میں اندر سے بے چین، قدرے چوکنا ہوگیا۔
”جوانی کے دنوں میں اگر تم مجھے کسی موڑ پر مل گئی ہوتیں تو یہ سب جو آج میں نے حاصل کیا ہے، کمایا ہے، بنایا ہے، وہ سب تمہارا ہوتا…. اور میں آج بھی تم سے اُتنا ہی پیار کرتا جو اس پل محسوس کرتا ہوں۔“
”مسٹر میکسول!“ میں نے اس کی بات کاٹ کر کہا۔ ”اگر ان دنوں میں بھی زندہ ہوتا تو پھر آپ کیا کرتے؟“
قہقہہ ایک مرتبہ پھر اُبھر کے ہر چہرے پر اپنا تاثر چھوڑ گیا۔ میکسول بولا:
”مسٹر شیام! تم واقعی دلچسپ آدمی ہو اور ذہین بھی۔ جیسا سُنا تھا، ویسا پایا۔ چاہوں گا آرا کے ساتھ تم کو بھی ملتا رہوں…. آخری دنوں تک خوب صحبت رہے گی اور وقت بھی اچھا گزرے گا۔ کیا خیال ہے تمہارا؟“
”بھلا مجھے کیا اعتراض ہوسکتا ہے۔“ اب وہ پھل دار درخت بن چکے ہیں۔ کاروبار میں خوب کامیاب ہیں اور زندگی میں خوش ہیں۔“
”تو آپ اپنی ذمہ داریاں نبھا کر فراغت پاچکے ہیں؟“
”بالکل، بلکہ انہیں نبھاتے ہوئے میں نے زندگی کے ایسے ایسے رنگ دیکھے ہیں کہ تم ان کا تصور بھی نہیں کرسکتے….“
”واقعی؟“
”ہاں! بلکہ کل کلاں اگر میں گزر بھی گیا تو مجھے کوئی افسوس نہ ہوگا اور نہ میری فیملی کے کسی فرد کو۔“
”تو گویا آپ ہر شوق پورا کرچکے ہیں؟“
ہاں وہ بھی بھرپور طریقے سے، مگر جانے کیوں آدمی کی عمر جوں جوں بڑھتی جاتی ہے، لوگ باگ دھیرے دھیرے اس سے الگ ہونے لگتے ہیں، اس سے تعلق بھی برائے نام ہی رکھتے ہیں…. اور پھر؟“
میں نے اس کی غلافی آنکھوں میں اترنا چاہا، لیکن وہ فرسودہ صوفے سے اٹھ کر آرادھنا کے برابر کھڑا ہوچکا تھا۔ اپنا بازو اس کے کندھے پر پوری طرح سے پھیلا چکا تھا۔ اس کا بایاں شانہ تھپتھپا کر بولا:
”مگر سچ کہتا ہوں یہ عورت، موسیٰ بہتر جانتا ہے کہ کون سی مٹی سے بنی ہوئی ہے، اس نے مجھے بچالیا۔ اس کے ہوتے ہوئے میں اکیلا نہیں رہتا…. یہ میری بہترین دوست ہے۔“
آرادھنا کی گردن فخر سے اونچی ہوگئی۔ بولی:
”میں تمہاری عزت کرتی ہوں، میک“۔
”ہاں ہاں۔ جانتا ہوں۔“
پھر وہ مجھ سے مخاطب ہوا۔
”یقین کرو اس کی صحبت میں اکیلا پن خود بہ خود دور ہوجاتا ہے۔ کبھی کبھی یہ بھی محسوس ہوتا ہے، میں بڑھاپے میں جوان ہوگیا ہوں۔“
یہ کہہ کر وہ کھل کر ہنس دیا، جس کے کئی معنی پوشیدہ تھے، کئی سوال موجود تھے۔ میں نے آرادھنا کو گہری نظروں سے دیکھنا چاہا۔ وہ آہستہ سے منہ پھیر کر کارنس پر رکھے ہوئے بُت کو دیکھ رہی تھی۔ پھر اس نے آگے بڑھ کر لپک کر اُسے اٹھالیا۔ چھوٹتے ہی بولی:
”یہ تو Eros کا بُت ہے؟“
”پسند آیا؟“
”اسے کون پسند نہیں کرے گا۔ یہ تو کام دیو ہے، عشق کا دیوتا۔“
”ٹھیک کہا تم نے۔ چند ماہ پہلے یہ بُت اولمپس پہاڑ کی کھدائی سے برآمد ہوا ہے۔ مجھ تک حال ہی میں پہنچا ہے۔ تمہارے لئے اس کا Replica بنوارہا ہوں۔“
آرادھنا نے اسے گہری نظر وں سے دیکھا اور اس کی نظریں گہری ہوتی چلی گئیں۔
”اگلے ہفتے تمہارے گھر آﺅں گا تو ساتھ لیتا آﺅں گا۔“
اچانک میرے اندر بہت سی باتیں کھلنا شروع ہوگئی تھیں لیکن پہلی ملاقات کے دوران کوئی اپنی محبوبہ کی موجودگی میں کہاں تک اپنے لب وا کرسکتا ہے؟
میکسول کے بیٹھتے ہی آرادھنا بھی اس کے برابر بیٹھ گئی۔ اس نے اپنا بازو آرادھنا کی گردن میں ڈالے رکھا اور اسے کھینچ کر اپنے ساتھ لگالیا۔ آرادھنا نے کوئی مزاحمت نہ کی۔ میں نے نظریں گھما کر دریا کو دیکھا۔ پانی تھم چکا تھا۔ کشتیاں جانے کہاں غائب ہوگئی تھیں؟ اور میں بے یار و مددگار ہوچکا تھا۔
واپسی پر خاموشی ہمارے درمیان ایک بامعنی کردار کی صورت اختیار کرچکی تھی۔ میں گاڑی ضرور چلا رہا تھا لیکن میرے دماغ میں خیالات کا ہجوم تھا۔ آرادھنا بھی خود میں کھوئی ہوئی ونڈ اسکرین سے کہیں دور دیکھ رہی تھی۔ میں سوچ رہا تھا کہ آدمی کی عمر خواہ کتنی بڑھ جائے، وہ کتنا معمر ہوجائے، وہ اپنی خواہش سے الگ نہیں ہوپاتا۔ حرص اس کی انگلی تھامے رہتی ہے اور اسے پورا کرنے کی خاطر وہ قسم قسم کے حربے استعمال کرتا ہے۔
”کیا سوچ رہے ہو؟“
”تم نے کبھی نہیں بتایا۔ مسٹر میکسول کب سے تمہارے یہاں آرہے ہیں؟“
”کیا تمہیں بتانا ضروری ہے کہ میرا کون کون سا دوست مجھ سے ملنے میرے گھر پر آیا کرتا ہے؟“ اس کے جواب میں منطق تھی، لہٰذا میں خاموش رہا۔
”سمجھنے کی کوشش کیا کرو…. میکسول نیک شخص ہے۔ مجھے پسند کرتے ہیں۔ سوچا انہیں تم سے ملوادوں، بس یہی جذبہ تھا۔“
”تمہارا جذبہ اپنی جگہ خوب ہے، مگر انہیں آج قریب سے دیکھ کر احساس ہوا کہ بڑھاپے میں آدمی کس قدر تنہا ہوجاتاہے؟“
”بالکل ٹھیک کہا تم نے۔“
”کیا تم بھی مدت سے یہی محسوس کررہی ہو؟“
”ہاں! بلکہ یہ کہتے ہوئے مجھے شرم نہ ہوگی۔ جب وہ حد سے زیادہ تنہا ہوجاتے ہیں تو مجھے بلالیتے ہیں یا خود میرے پاس چلے آتے ہیں۔“
گاڑی کی رفتار کم کرکے میں یکسر خاموش ہوگیا۔ کچھ دیر خاموشی کو برداشت کرکے اس نے بیگ میں سے سگریٹ کا پیکٹ نکالا۔ گو وہ سگریٹ شاذ و ناد رہی پیا کرتی تھی۔ لیکن بیگ میں ضرور رکھا کرتی تھی۔ جانے کیوں؟ سگریٹ سلگا کر بولی:
”میں نہیں جانتی تم کیا سوچ رہے ہو؟ پھر کسی کی سوچ پہ کوئی پابندی تو لگائی نہیں جاسکتی ۔ مگر ایک بات دماغ میں ضرور رکھنا۔ جو تعلقات میرے تمہارے ہیں، وہ میرے میک کے ساتھ نہیں ہیں۔“
میرے ہونٹ جوں کے توں رہے۔
”میک بہت بوڑھے ہوچکے ہیں۔ اپنی زندگی میں وہ بہت رنگین مقامات سے گزرے ہیں۔ اب وہ کسی قابل نہیں رہے۔“
لیکن ان کی حرکتوں سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اب بھی جوان ہیں۔“
”نہیں شیام! سمجھنے کی کوشش کرو، ان کے بدن میں خون بس نام ہی کو رہ گیا ہے۔“ اس نے ہمدردی سے کہا۔ پھر قدرے سوچ کر اور اپنا موڈ بدل کر گویا ہوئی:
”ہاں یہ ضرور ہے کہ کبھی ملنے پر وہ میری گردن میں بازو ڈال لیتے ہیں اور کبھی میری کمر میں، کبھی میرے شانوں پر بازو پھیلا کر دریا کے کنارے ٹہلا کرتے ہیں۔ اور کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ ان کے اندر کا جانور جو اب پنچھی بن چکا ہے انہیں چونچیں مارنے لگتا ہے تو وہ کبھی میرا گال چوم لیتے ہیں اور کبھی میرے ماتھے پہ ہونٹ رکھ کر بھول جاتے ہیں کہ انہیں یا مجھے گھر بھی لوٹنا ہے۔“
”ایک بات کہوں؟“
”کھل کر کہو“۔
”آدمی اس عمر کو پہنچ کر شوگر ڈیڈی (Sugar Daddy) کیوں بن جاتا ہے؟“
سوال میرا تھا، لیکن جواب کاانتظار کئے بغیر میں نے یوں ہنسنا شروع کردیا کہ میکسول اور اس کے درمیان جو بھی رشتہ ہے، جو بھی حالات ہیں، وہ مجھ سے ڈھکے چھپے نہیں رہے۔ پہلے تو وہ سخت حیران ہوئی اور پریشان بھی۔ لیکن جلد ہی میرے جان دار قہقہے میں شریک ہوکر میری ذہنی کیفیت کا حصہ بن گئی۔ بولی:
”میں خوش ہوں تم نے ہر بات کو صحیح روشنی میں دیکھا ہے اور سمجھا بھی ہے۔ ورنہ ہمارے درمیان بہت سے اختلافات پیدا ہوسکتے، ہمارے راستے بھی الگ ہوسکتے تھے۔
٭٭٭٭٭
کہہ نہیں سکتا رات کا وہ کون سا پہر تھا جب میں نے ایک چھوٹا سا خواب دیکھا۔ دریا کا کنارہ ہے۔ چڑھتا ہوا پانی ہر سو پھیلا ہوا ہے۔ میں اپنے بچے کے ساتھ کھیل رہا ہوں۔ وہ بھاگتے بھاگتے کہیں پیڑوں میں گم ہوجاتا ہے اور وہاں سے دھواں اُٹھتا دکھائی دیتا ہے۔ میں بدحواس، دیوانہ وار اُسے پکار کر اس کی طرف بڑھتا ہوں۔ لیکن میرے پاﺅں گیلی ریت میں دھنس جاتے ہیں۔ وہ جس قدر آزاد ہونے کی کوشش کرتے ہیں، اسی قدر دھنستے چلے جاتے ہیں۔ میں بحالتِ مجبوری رینگنے لگتا ہوں…. اچانک میرا بچہ مجھے ایک پیڑ کے پیچھے کھڑا دکھائی دیتا ہے لیکن وہ سہما سہما، حیران پریشان اپنی ماں کو دیکھ رہا ہے جو کچھ فاصلے پر میکسول کے کندھے پر سر رکھے ایک پیڑ کے نیچے بیٹھی ہوئی ہے۔ میکسول سفید براق مومی بابا بن چکاہے۔ اس کا چہرہ جھریوں سے اٹا پڑا ہے۔ اس کے منہ میں ایک دانت بھی نہیں رہا۔ وہ بمشکل دیکھ پارہا تھا، لیکن آرادھنا کی کمر پر پھیلے ہوئے بالوں سے ضرور کھیل رہا ہے۔ کبھی انہیں اٹھا کر چومتا ہے اور کبھی انہیں اٹھا کر آنکھوںسے لگا کر سر دھنتا ہے۔ بچہ اپنی ماں کو کسی غیر مرد کے ساتھ دیکھ کر رونے لگتا ہے۔ میں بھی چیخ اٹھتا ہوں اور میری چیخ و پکار میرے بچے کے رونے سے زیادہ وزن رکھتی ہے، لیکن ہمارا رونا دھونا ان پر کوئی اثر نہیں چھوڑتا، بلکہ وہ لاتعلق، خود میں مست، ارد گرد سے بے نیاز دریا کی اترتی چڑھتی طغیانی کو دیکھتے رہتے ہیں۔
میں ہڑبڑا کر بستر سے اٹھ بیٹھا۔ پسینے میں شرابور میں نے آرادھنا کو دیکھا۔ وہ پُرسکون نیند سورہی تھی۔ ہونٹوں پر وہی دلکش لکیر لئے ہوئے جو میرے دل تک اُتر جایا کرتی تھی، لیکن اب وہ مجھے زہر میں بجھی ہوئی لگ رہی تھی۔
میں نے خواب کیا دیکھا، میری کایا ہی پلٹ گئی۔ اس نے مجھے اس درجہ پریشان کیا کہ میں دنوں، ہفتوں آرادھنا کے دولت کدے سے غائب رہا۔ وہ تڑپ اٹھی۔ میں بہانے بناتا رہا۔ وہ آنے والے بچے کا واسطہ دیتی رہی، میں پھر بھی بہانے بنانے سے باز نہ آتا۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہاتھا۔ میری دانست میں ہر شے تھی۔ ایک ہی خیال میرے اندرون تک گھر کر چکاتھا کہ ہمارے درمیان تیسرا آدمی کہاں سے آن کھڑا ہوا ہے؟ اور کون غیرت مند شخص اس کی موجودگی کو برداشت کر پائے گا؟ حالاں کہ کوئی گزرتی رات ایسی نہ تھی، جب میں نے آرادھنا اور اپنے آنے والے بچے کے متعلق سوچا نہ ہو؟ اس کے مستقبل کی فکر نہ کی ہو؟ میں بھی مکمل ہونے کے لئے بے چین تھا کہ اولاد کا منہ دیکھنے پر ہی آدمی کی ”جون“ مکمل ہوا کرتی ہے۔
ایک سرد شام کو میں کافی دیر سے اپنے گھر پہنچا۔ نیچے کار پارک میں آرادھنا کی گاڑی کو وہاں دیکھ کر میرا ماتھا ٹھنک اُٹھا۔ میں سیڑھیاں پھلانگتا ہوا، لفٹ کا سہارا لئے بنا ہانپتا ہوا اپنے فلیٹ پر پہنچ گیا۔ آرادھنا فرش پر بیٹھ، دروازے سے ٹیک لگائے، گردن جھکائے، آنکھیں موندے اُونگھ رہی تھی۔ قریب ہی کوکا کولا کا خالہ ڈبا پڑا تھااور دوسری طرف اس کا دفتری بیگ۔مجھے خود پر غصہ آیا اور اتنی ہی شدت سے آرادھنا پر رحم بھی۔ میں خاموش، بے حس و حرکت کھڑا سوچتا رہا کہ آرادھنا اگر ابتدا میں زیادہ کھل کر سامنے آئی ہوتی تو یہ نوبت کبھی نہ آتی۔ ہم سر جوڑ کر کوئی سبیل نکال لیتے۔ میں نے جھک کر اُسے اٹھانا چاہا اور جب اُسے یقین کامل ہوگیا کہ میں ہی ہوں تو اس نے اپنا بدن ڈھیلا چھوڑڈالا، پھر اپنی بانہیں میری گردن کے اردگرد یوں پھیلادیں، گویا وہ اسی گردن کے لئے پیدا ہوئی ہوں۔ آنکھیں موندے ہی دبے لفظوں میں بولی:
”تم نے ملنا جُلنا اچانک بند کیوں کردیا؟ کوئی وجہ تو ہوگی؟“
”ہاں ہے۔ جلد بات کریں گے۔ اب تم آرام کرو۔ کافی دیر سے انتظار کررہی ہو۔“
اگلے ویک اینڈ پر میں حسبِ وعدہ آرادھنا کی رہائش گاہ پر پہنچ گیا۔ گو دیر سے پہنچاتھا لیکن پہنچ ضرور گیا تھا۔ وہ میری راہ تک کر نا اُمید ہوچکی تھی۔ لیکن جس پل اس نے مجھے فلیٹ میں داخل ہوتے دیکھا تو وہ بے انتہا خوش ہوئی۔ مگر جو اس کے دل و دماغ پر حاوی تھا، اس نے فوراً اُگل ڈالا۔
”میں سمجھ رہی تھی کہ تم آج بھی نہیں آﺅگے۔“
”نہیں آرادھنا ایسا مت کہو۔“ میں نے کندھے سے سفری بیگ اُتار کر کہا۔ ”موٹر وے پر ٹریفک ناقابلِ برداشت ہوتی جارہی ہے۔“
”جب ہی تو بار بار کہتی ہوں ٹرانسفر کروالو! سُکھی رہوگے۔ آنے جانے سے جان چھوٹ جائے گی۔“
صوفے پر بیٹھتے ہوئے میں نے کہا:
”ٹرانسفر کے متعلق میں نے کئی بار سنجیدگی سے سوچا، مگر….؟“
”مگر کیا…. اس صورت میں تم جب چاہو میرے ہاں بے دھڑک آسکتے ہو، ٹھہر سکتے ہو…. چاہو تو تمہاری رہائش کا بندوبست ہونے تک تم میرے مہمان بھی بن سکتے ہو؟“
”لیکن میں کچھ اور ہی سوچ رہا تھا؟“
گہری تحقیقی نظروں سے وہ مجھے دیکھتی ہی چلی گئی۔ میں نے ٹائی اور کوٹ اُتار کر صوفے پر پھینکے اور گلے کا بٹن کھولتے ہوئے سرسری انداز میں کہا:
”میں چاہ رہا تھا ہم شادی کرلیں اور ان تمام جھنجھٹوں سے آزاد ہوجائیں۔“
وہ صوفے سے اُچھل پڑی، کچھ یوں کہ جیسے برقی رَو نے اُسے چھو لیا ہو۔ سیدھی میز کی طرف بڑھی۔ گلاس تیار کئے۔ ایک میری طرف بڑھایا، دوسرا ہونٹوں سے چپکائے اپنی نشست کی طرف بڑھ گئی۔ جان دار گھونٹ بھر کر دو ٹوک لہجے میں بولی:
”شیام! ایک بات اپنے دماغ میں ہمیشہ ڈال کر رکھنا۔ میں کسی بھی صورت میں تم سے شادی نہیں کروں گی۔“
ایسا لگا کہ اس نے اپنا دل کھول کر میرے سامنے رکھ دیا ہے۔ مجھے صدمہ بھی پہنچا۔ لیکن بہت سی باتیں ایسی تھیں، جو اپنے دامن وا کئے میرے اندر پھیلنا شروع ہوگئی تھیں۔ میں نے اس پر گہرا طنز کیا۔
”کیوں بھولتی ہو کہ تم میرے بچے کی ماں بننے والی ہو؟“
”میں اس سے کب انکار کررہی ہوں۔ اس بچے پر تمہارا حق بھی اتنا ہی ہوگا، جتنا میرا، تم جب چاہو اس سے ملنے آسکتے ہو، اسے گھمانے پھرانے باہر لے جاسکتے ہو۔ جب چاہو تو اسے چند روز کے لئے اپنے پاس بھی رکھ سکتے ہو۔ مجھے کوئی اعتراض نہ ہوگا، لیکن شادی۔۔۔؟ نہیں نہیں بالکل نہیں۔ بھول جاﺅ“۔
”میں جانتا تھا تم شادی کے لئے کبھی ہاں نہیں کروگی۔“
”جانتے ہو تو پھر بتاﺅ وجہ کیا ہوسکتی ہے؟“
دلوں کی بات چونکہ بالمشافہ ہورہی تھی، اس لئے کچھ بھی چھپانا حماقت ہوتی۔
”تم ڈرتی ہو کہ شادی کے بعد اپنی آزاد زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھو گی ۔ پھر تمہارے یہاں یہ ڈر بھی موجود ہے کہ تمہیں شوہر کی برتری برداشت کرنی ہوگی جس کے واسطے تم ہرگز تیار نہیں ہو۔“
”وجوہات یہی ہیں یا کوئی اور بھی ہے؟“
”ہاں ہے۔“ میں نے کھچ کر کہا۔
”تو اسے بھی بیان کردو۔ پتا تو چلے کہ میں کہاں کھڑی ہوں؟“
لگا کہ وہ جان بوجھ کر مجھے اُکسا رہی ہے۔ میرا امتحان لے رہی ہے۔ میں طیش میں آگیا۔ اکھڑ کر بولا: ”تم ۔ تم تم کسی بھی قیمت پر خود کو اُس اُس؟“
جملہ ادھورا رہ گیا تھا۔ میں جو کہنا چاہتا تھا، وہ میرے لبوں پر آکر اٹک گیا۔ کوششوں کے باوجود میں اسے آگے نہ بڑھا سکا۔ میرے ہونٹ پھڑپھڑاتے رہے، میرا پارا اُوپر نیچے ہوتا رہا۔ وہ میری کیفیت کو فوراً بھانپ گئی۔ چپکے سے اٹھی اور کچن میں داخل ہوکر دروازہ بھیڑ لیا۔ بس پھر کیا تھا، میں تھا، تین ٹانگوں کی میز تھی اور میرا اندرونی میں تھا۔ مجھے خود پر رہ رہ کر غصہ آرہا تھا کہ میں نے جملہ مکمل کرکے اس کے منہ پر کیوں نہیں دے مارا؟ وہ کون سی مصلحت تھی، جس نے مجھے روکے رکھا؟ کس لالچ نے میرے لبوں پہ تالے ڈال دیے؟ میری ہمت نے میرا ساتھ کیوں نہیں دیا؟ ان سوالات نے مجھے سرتاپا ہلا کر رکھ دیا۔ لیکن اس کے باوجود میں اپنے اندرون کو سمجھا بجھا کر رام کرتا رہا۔ لیکن اس سخت جان پر بیرونی حالات کا دباﺅ اس قدر شدید تھا کہ تمام عناصر گڈ مڈ ہوگئے۔ میں گلاس بدلتا رہا۔ میرے حواس کی شدت کمزور ہوتی چلی گئی اور ایک وقت ایسا آیا کہ وہ قریب قریب سوگئے لیکن ذہن بیدار رہا، محض اس لئے کہ آرادھنا نے کچن سے نمودار ہوکر کچھ پوچھنا چاہا تھا، کچھ جاننا چاہا تھا۔ بعض کا جواب میں نے ایمان داری سے دیا تھا بعض کا گول کرگیا تھا۔
کیا دیکھتا ہوں کہ آرادھنا کب سے میرے روبرو کھڑی ہوئی ہے۔ کمرے کی مدھم روشنی میں اس کی صورت کا ہر نقش واضح ہے۔ آنکھوں میں وہی چاہت، وہی درد مندی، ہونٹوں پر وہی دل فریب مسکراہٹ، وہی اپنائیت، چہرے پر وہی نرمی، وہی سادگی، اُسے دیکھ کر ذرا بھی احساس نہیں ہوتا کہ کچھ دیر پہلے ہمارے درمیان کوئی تکرار، چھوٹی موٹی چپقلش بھی ہوئی تھی۔
”جانتی ہوں میں میری وجہ سے تم پریشان ہو، لیکن میں مجبور ہوں۔“
میں خاموش رہا۔
میں یہ بھی جانتی ہوں تمہارے دل میں کیا تھا، جب تم کہتے کہتے اچانک رُک گئے تھے“۔
میں پھر خاموش رہا۔
”چاہو تو میں تمہارا ادھورا جملہ مکمل کئے دیتی ہوں۔ کیا کہتے ہو؟“
یکبارگی میرے ذہن نے چاہا کہ بات کو آگے بڑھا کر میں اُس سے بھڑ جاﺅں۔ لیکن میرے اندرون نے مجھے روک لیا۔ مجھے خاموش پاکر وہ انتہائی سنجیدہ ہوگئی، گویا ایسی کوئی انوکھی بات کہنے والی ہو، جسے سُن کر میں یقینا چونک اٹھوں گا۔
”میرے پُرکھوں نے اپنے جیون میں اتنی بھوک، اتنی غربت دیکھی تھی کہ میں ان کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی، بلکہ اس تصور سے ہی کانپ اٹھتی ہوں۔ خدا اس دھرتی پر کسی کو غریب نہ بنائے۔ یہی میری دعا ہے۔“
یہ کہہ کر وہ میرے اندر اترتی چلی گئی۔ کچھ یوں کہ میرے اندرون پر اس کا پورا پورا حق ہو۔ یہی عمل میں نے بھی اختیار کیا۔ لگا کہ ہم میلوں دور بیٹھے ہوئے ہیں اور یہ فاصلہ بمشکل ہی مٹ پائے گا۔
”اپنی جوانی میں قدم رکھتے ہی مجھے اپنے تحفظ، اپنی سیکیورٹی کی ضرورت شدت سے ہوئی تھی اپنے رنگ اور اپنی ذات کی وجہ سے۔“
میں سمجھ نہیں پارہا تھا کہ اس بات کا ہمارے ساتھ کیا تعلق ہوسکتا ہے؟
”لاطینی امریکہ میرے رنگ کو سفید لوگ اچھی نظر سے نہیں دیکھتے تھے، بلکہ یہ کہنا زیادہ ٹھیک ہوگا، پورا مغرب اس رنگ کے باشندوں کو ہمیشہ تیسرے درجے کی مخلوق سمجھتا ہے لیکن تمہارے پا س اگر سماجی رتبہ ہو، چار پیسے ہوں تو تمہاری ساکھ قائم رہتی ہے۔“
”شیام! تم میرے عاشق ہو۔ میرے ہونے والے بچے کے باپ بھی۔ تم جب چاہو مجھ سے کنارہ کرسکتے ہو۔ کوئی تمہیں روک نہیں سکتا مگر یاد رکھنا کہ تم مجھ سے بھاگ نہیں پاﺅگے؟“
”کیوں کہ بچے کو باپ کی ضرورت ہوگی؟“
”ہاں یہ سچ ہے اور یہ بھی سچ ہے میں تم سے محبت کرتی ہوں۔“
”جانتا ہوں۔ اس کے علاوہ کچھ کہنا ہے تمہیں؟“
”ہاں!“
”تو پھر بولو؟“
”رہا میکسول تو تم اسے بالکل پسند نہیں کرتے۔ وہ تمہاری سوچ کا کانٹا بنا بیٹھا ہے۔“
اس کا کہنا بالکل صحیح تھا۔ لیکن اس نے وہ نہیں کہا تھا، جو اُسے کہنا چاہئے تھا۔ اس نے میری آنکھوں میں اُتر کر فخریہ کہا:
”اس شخص نے مجھے سماجی رتبہ دیا ہے۔ میرے ذوق اور میرے شوق کو بڑھاوا دیا ہے۔ وہ میرا محافظ ہے۔ میری سیکیورٹی ہے اور میں اس کے بڑھاپے کا واحد سہارا۔“
یکبارگی کمرے کی مدھم روشنی میں اس کا چہرہ گم ہوگیا۔ وہ بے چہرہ ہوتے ہی، اپنی حیثیت کھوبیٹھی، لیکن اسی وقت مجھے اپنے اندر سے اپنی ہی آواز سنائی دی:
”حالات جو بھی رہے ہوں اور اب جو بھی ہوں، انہیں قبول کرلو، ورنہ۔۔۔؟“
میری آواز ہر پل شدت اختیار کرتی چلی گئی۔ پھر ایک پل ایسا بھی آیا کہ اس نے مجھے توڑ پھوڑ ڈالا، کچھ یوں کہ اپنے اندرون سے فرار پانا میرے لئے ناممکن ہوگیا۔۔۔ گلاس میرے سامنے دھرا تھا، سوچا کہ اٹھا کر کسی پینٹنگ پر دے ماروں۔ لیکن میں کچھ نہ کرسکا۔ ہاتھ اٹھا کر اپنا چہرہ ٹٹولا، وہ وہاں نہیں تھا۔ جانے کب وہ مجھ سے الگ ہوچکا تھا؟ یہ احساس پیدا ہوتے ہی میری گردن جھک کر رہ گئی۔ ہم ایک دوسرے کے قریب ضرور بیٹھے ہوئے تھے لیکن بے چہرہ، بے آواز، بے حیثیت۔ خاموشی ہمارے درمیان ایک ایسی زبان میں گفتگو کررہی تھی کہ ہم بہ آسانی اُسے محسوس بھی کررہے تھے اور سمجھ بھی پارہے تھے۔ لیکن ہمارے ہونٹوں پہ مہریں ثبت ہوچکی تھیں۔ وہ کیا سوچ رہی تھی، میں نہیں جانتا۔ میں یقینا سوچ رہا تھا کہ عشق میں گرفتار شخص خود سے الگ ہوکر، اپنی ذات سے اتنا بے گانہ ہوجاتا ہے کہ وہ کسی بھی طور اپنے ساتھی، اپنے ہم سفر سے جدا ہونا پسند نہیں کرتا، بلکہ وہ خود کو اس کی ذات میں سمو کر اپنے وجود کو بھول جانا چاہتا ہے۔
اچانک آرادھنا کے پیروں کی حرکت دیکھ کر میں نے گردن اُٹھائی۔ اس نے میرا گلاس اٹھا کر ایک طرف رکھ دیا۔ جھک کر میرے بالوں میں اپنی انگلیاں پھیریں، پھر میرے چہرے کو پوری قوت کے ساتھ اپنے بدن سے لگالیا اور میری پیشانی چوم کر بولی:
”چلو اٹھو کھانا کھالو۔“
میں واقعی انکار نہ کرسکا

جتیندر بلّو

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
جاوید مہدی کی ایک اردو غزل