سماں غروب کا دل میں رہا ابھرتے ہوئے
خیال خاک میں ملنے کا تھا سنورتے ہوئے
زمیں اداس ہے اور آسماں پہ خندہ کناں
گزر رہے ہیں ستارے اداس کرتے ہوئے
بکھر گیا تو مجھے کوئی غم نہیں اس کا
کہ راز مجھ پہ کئی وا ہوئے بکھرتے ہوئے
فسردہ اتنی ہے اس بار رہ گزار خیال
خرام یار جھجکتا ہے گل کترتے ہوئے
مجھے بھی اپنا دل رفتہ یاد آتا ہے
کبھی کبھی کسی بازار سے گزرتے ہوئے
زمانہ لب پہ یہ انگشت رکھ کے کہتا ہے
کہ درد دل نہ کہو اور کہو تو ڈرتے ہوئے
لبوں سے نیم تبسم بھی اٹھ گیا خورشیدؔ
اداسیوں کا مداوا تلاش کرتے ہوئے
خورشید رضوی