سہیلی خبر کچھ نہیں میں کہاں ہوں
میں ہیرا کہ موتی، نہاں ہوں ،عیاں ہوں
میں نس نس میں ٹکرائی ہوں خواہشوں سے
میں گرتا ہوا ایک خالی مکاں ہوں
ہواؤں میں اُڑتی ہوئی ریت ہے وہ
میں بکھری ہوئی پھول کی پتیاں ہوں
بہت خوبصورت ہوئی میری دنیا
جہاں تم ہو آباد میں بھی وہاں ہوں
اٹھاتے نہیں اب تو بچے بھی ان کو
میں ساحل پہ بکھری ہوئی سیپیاں ہوں
کھڑی ہوں ابھی تک مقابل ہوا کے
بڑی مضمحل ہوں، بڑی سخت جاں ہوں
ستاروں سے آنکھیں بھری جا رہی ہیں
تمہی نے کہا تھا کہ میں کہکشاں ہوں
انگوٹھی مری آپ چلتی ہے نیناں
میں خود سے یہ گڑوی بجاتی کہاں ہوں
فرزانہ نیناں