آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
صفیہ صدیقی پر فضہ پروین کا ایک مضمون
سال 2012 میں اردو زبان و ادب کے کئی آفتاب و ماہتاب عدم کی بے کراں وادیوں میں ہمیشہ کے لیے اوجھل ہو گئے۔ علم و ادب کی کہکشاں کی تمام چکا چوند اب ماضی کا قصہ بن گئی ہے۔ اسی سال کے اختتام پر صفیہ صدیقی کی وفات کی خبر ملی۔ اردو زبان و ادب کا وہ ماہتاب جو یکم جنوری 1935 کی صبح نگرام ضلع لکھنو سے طلوع ہوا وہ 28۔ نومبر 2012 کی شام لندن کے افق سے غروب ہو کر دائمی مفارقت دے گیا۔ صفیہ صدیقی کی وفات سے اردو فکشن میں تانیثیت کی ایک دبنگ آواز ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئی۔ ایک بے خوف صدا مہیب سناٹوں کی بھینٹ چڑھ گئی۔ فرشتہ ء اجل نے اس عظیم ادیبہ کے ہاتھ سے قلم چھین لیا جس نے گزشتہ چھ عشروں میں اپنے خون جگر سے گلشن ادب کو سینچا اور لوح جہاں پر اپنا دوام ثبت کر دیا۔ اردو فکشن میں عصری آگہی اور زندگی کی حقیقی معنویت کو اجاگر کرنے میں صفیہ صدیقی کی خدمات تاریخ ادب کا اہم باب ہیں۔ انھوں نے اردو افسانے اور اردو ناول میں خواتین کی زندگی کے مسائل، مصائب اور مشکلات کے بارے میں مثبت شعور و آگہی پروان چڑھانے کی سعی کی۔ ان کی تحریریں قلب اور روح کی ا تھاہ گہرائیوں میں اتر کر فکر و نظر کے نئے دریچے وا کرتی چلی جاتی ہیں۔ صفیہ صدیقی کا اسلوب قارئین نے ہمیشہ بہ نظر تحسین دیکھا اور اس کی بے حد پذیرائی کی۔ صفیہ صدیقی کا تعلق ایک ممتاز علمی، ادبی اور مذہبی خاندان سے تھا۔ نامور ادیب ابن صفی کی اہلیہ اور صفیہ صدیقی سگی بہنیں تھیں۔ وہ احمد صفی کی خالہ تھیں اور نامور ادیب اور شاعر مکین احسن کلیم (مرحوم )صفیہ صدیقی کے بھائی تھے۔ اپنے اس عظیم خاندانی پس منظر پر انھیں بجا طور پر ناز تھا۔ ان کے خاندان کے تمام افراد کو بھی صفیہ صدیقی کی تخلیق ادب میں کامرانیوں پر فخر تھا۔ پاکستان میں خواتین کے حقوق اور ہر شعبہ زندگی میں ان کے لیے ترقی کے مساوی مواقع کے لیے جدو جہد کرنے والی خواتین جن میں حجاب امتیاز علی تاج، فرخندہ لو دھی، فرزانہ ندیم، صفیہ صدیقی، خدیجہ مستور، ہاجرہ مسرور، رضیہ بٹ، پروین شاکر، اختر جمال، فضل بانو، منصورہ احمد، ممتاز شیریں اور ذکیہ بدر شامل تھیں، ان کی خدمات کا ہر سطح پر اعتراف کیا گیا۔ صفیہ صدیقی کی تصانیف کی جس قدر پذیرائی ہوئی وہ اپنی مثال آپ ہے۔ ان کے چار افسانوی مجموعے اور ایک ناول شائع ہوا۔ ان کی تصانیف درج ذیل ہیں :
(1)پہلی نسل کا گناہ(افسانے ) ، (2)چاند کی تلاش (افسانے )، (3)چھوٹی سی بات (افسانے )، (4)بدلتے زمانے (افسانے )
صفیہ صدیقی کے افسانوں میں جنریشن گیپ کے موضوع پر نہایت خلوص اور دردمندی کے ساتھ حقائق کو پیرایۂ اظہار عطا کیا گیا ہے۔ نئی اور پرانی نسل کی سوچ میں جو بعد المشرقین ہے اس کے بارے میں صفیہ صدیقی نے پوری دیانت، دلیری اور حقیقت پسندی سے اپنا ما فی الضمیر بیان کیا ہے۔ انھیں اس بات کا شدید قلق تھا کہ مغربی تہذیب کے زیر اثر نئی نسل اپنے بزرگوں کی وہ قدر و منزلت نہیں کر رہی جس کے وہ بجا طور پر مستحق ہیں۔ ان مغرب زدہ نو جوانوں کو اپنے بزرگوں کی ان قربانیوں کا قطعی طور پر کوئی احساس نہیں جو انھوں نے نئی نسل کو پروان چڑھانے کے لیے دی ہیں۔ صفیہ صدیقی کے افسانوں میں زندگی کے تضادات، معاشرتی ماحول کے ارتعاشات، سماجی زندگی کی شقاوت آمیز نا انصافیاں، عائلی زندگی کی بے اعتدالیاں اور نا ہمواریاں اور خواتین کی مظلومیت کا احوال جس فنی مہارت سے پیش کیا گیا ہے وہ قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے اور اس کے فکر و خیال پر دور رس اثرات مرتب ہو تے ہیں۔ حالات کی اس سے بڑی ستم ظریفی کیا ہو گی کہ وہ بوڑھے جنھوں نے اپنی اولاد کی تعلیم، تربیت اور روزگار کے لیے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیا، جب ضعیفی کو پہنچتے ہیں تو ان کی اولاد ان کی خدمت کے لیے موجود نہیں ہوتی بل کہ وہ کسی دور دراز ملک میں اپنی نئی بستیاں بسا کر مادر وطن کو بھی فراموش کر کے ایام گزشتہ کی کتاب کو طاق نسیاں کی زینت بنا چکی ہو تی ہے۔ مٹی کی محبت تو بزرگوں کے مزاج اور فطرت کا حصہ ہے اور اسی انداز فکر کو نئی نسل نا قابل برداشت سمجھتی ہے۔ چاند کی تلاش کے تمام افسانے سوچ کے مختلف زاویوں کو سامنے لاتے ہیں۔ قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں مہیب سناٹوں، سفاک ظلمتوں اور جان لیوا تنہائیوں کے کرب نے انسانیت کو ناقابل اندمال صدمات سے دو چار کر دیا ہے۔ حالات اس قدر گمبھیر صورت اختیار کرتے چلے جا رہے ہیں کہ پرانی نسل کی امیدوں کی فصل غارت اور صبح و شام کی محنت اکارت چلی جاتی ہے۔ اس لرزہ خیز، اعصاب شکن صورت حال میں پرانی نسل کی نہ تو کوئی امید بر آتی ہے اور نہ ہی اسے اصلاح احوال کی کوئی صورت نظر آتی ہے۔ چاند کی خاطر ضد کرنے والوں کو جلد ہی اپنی غلطی کا احساس ہو جاتا ہے اور وہ بالآخر حالات کے ساتھ سمجھوتہ کرنے میں عافیت محسوس کرتے ہیں۔ ان کے افسانے ’’سمندر رونے لگا ‘‘اور ’’چھوٹی سی بات ‘‘ زندگی کی حقیقی معنویت کا اجاگر کرنے اور تصویر کے تمام پہلوؤں کو سامنے لانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ 1947میں کی جانے والی ہجرت کے موضوع پر اردو فکشن میں قابل قدر تخلیقی کام ہوا ہے۔ وطن اور اہل وطن کے ساتھ قلبی لگاؤ، روحانی وابستگی اور والہانہ محبت صفیہ صدیقی کے اسلوب کا امتیازی وصف ہے۔ صفیہ صدیقی نے اس ہجرت کے حوادث و تجربات کو اپنے افسانوں میں نہایت خوش اسلوبی سے پیش کیا ہے۔ ایک خاندان کی ہجرت کے نتیجے میں اس پر کیا گزری اس کا احوال وہ اپنے افسانے ’’بدلتے زمانے، بکھرتے لوگ ‘‘ میں اس طر ح بیان کرتی ہیں :
’’پاکستان ہی ہمارا دار الامان ہے اللہ اس کو دشمنوں سے محفوظ رکھے۔ خدا جانے تمھارے ابا کہاں ہوں گے ؟میں تین بچوں کے ساتھ ایک نئے مکان میں ان کو کیسے ڈھونڈوں گی ؟
اے اللہ تو ہماری رہبری کر۔ ‘‘
یہی خاندان جب ارض پاکستان پر پہنچ کر اکٹھا ہو جاتا ہے تو حالات ایک بار پھر نیا رخ اختیار کر لیتے ہیں۔ انھیں یوں محسوس ہو ا کہ وہ گجر بجنے سے دھوکا کھا گئے ہیں۔ اجالا اب بھی داغ داغ اور سحر اب بھی شب گزیدہ ہی ہے۔ نیر نگی ء سیاست دوراں کا یہ حال تھا کہ جو لوگ شریک سفر ہی نہ تھے منزلوں پر انھوں نے غاصبانہ طور پر قبضہ کر رکھا ہے۔ ظالم و سفاک، موذی و مکاراستحصالی عناصر کے مکر کی چالوں کے باعث رتیں بے ثمر ہو کر رہ گئی تھیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ عقابوں کے نشیمن جب زاغوں کے تصرف میں آئے تو انھوں نے مجبوروں کے چام کے دام چلائے۔ جس بے حس معاشرے میں جاہل کو اس کی جہالت کا انعام ملنے لگے وہاں مایوسی اور محرومی کے جذبات کو تقویت ملتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ لوگ تلاش رزق میں در بہ در اور خاک بہ سر مارے مارے پھرتے ہیں۔ جبر کے ماحول میں طیور بھی حسین وادیوں اور مرغزاروں سے کوچ کر جاتے ہیں۔ صفیہ صدیقی نے اپنے اس افسانے میں جس خاندان کی ہجرت کے مصائب اور غیر مختتم مسائل کا احوال بیان کیا ہے، وہی خاندان ایک بار پھر بیرون ملک ہجرت پر مجبور ہو جاتا ہے اور وطن میں صرف ضعیف والدین رہ جاتے ہیں۔ اب ان کی جان پہ دوہرا عذاب ہے وہ نا مساعد حالات کو دیکھتے ہیں اس کے بعد ان کے مسموم اثرات کے بارے میں سوچ کر کڑھتے ہیں۔ اس نوعیت کی ہجرت کے شعور اور فکر پر جو اثرات مرتب ہوئے اور اس کے نتیجے میں جو کرب ناک واقعات سامنے آئے ان کا احوال صفیہ صدیقی نے افسانے ’’بدلتے زمانے، بکھرتے لوگ ‘‘ اس طرح بیان کیا ہے۔ اسلوب کی یہ جادو بیانی قاری کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے :
’’اماں کے سب بیٹے سات سمندر پار اور بیٹیاں کب ساتھ رہتی ہیں ؟زاہدہ بیاہ کر سعودی عرب گئی اور حامدہ کراچی میں تھی اب وہ بھی ہجرت کر رہے ہیں اور جانا یا نہ جانا اس کے اختیار میں کب ہے ؟اس کے شوہر کا سارا خاندان کینیڈا چلا گیا اب وہ بھی جا رہا ہے اور کیوں نہ جائے اس کے بھائی تو والدین کو ساتھ لے کر گئے تھے اور ہم نے کیا کیا ؟ہم نے اپنے بوڑھے والدین کو تنہا چھوڑ دیا۔ ‘‘
معاشی نظام کی نوعیت ہی اس قسم کی ہوتی ہے کہ وہ شعور اور فکر کی کایا پلٹ دیتا ہے۔ صفیہ صدیقی کے افسانوں میں غیر منصفانہ معاشی نظام، معاشرتی زندگی کی بے سکونی اور ہوس زر کے مسموم اثرات کے بارے میں ایک واضح انداز فکر دکھائی دیتا ہے۔ انھوں نے اقتضائے وقت کے مطابق سماجی اقدار کو اپنے اسلوب میں نمایاں جگہ دی۔ وہ جنس، جذبات اور حسن و جمال کے موضوعات پر بہت کم توجہ دیتی ہیں اس کے بر عکس ان کی تمام تر توجہ سماج اور معاشرے میں پائی جانے والی بے ہنگم کیفیات، گراں جانیوں، مناقشات اور نا انصافیوں پر مرکوز رہتی ہے۔ ان کے نہاں خانہ ء دل میں مظلوم انسانیت کے دکھوں پر بہنے والے آنسو سمٹ آئے آئے ہیں اور وہ اپنے یہ آنسو الفاظ کے قالب میں ڈھال کر اپنے تمام تجربات و حوادث کو پیرایۂ اظہار عطا کرنے کے قابل ہو جاتی ہیں۔ تلخی ء حا لات کے زہر کو وہ جس شدت کے ساتھ محسوس کرتی ہیں اسے وہ بلا کم و کاست پیش دیتی ہیں۔ الفاظ کو فرغلوں میں لپیٹ کر پیش کرنا انھیں بالکل پسند نہیں۔ وہ جو کچھ دیکھتی ہیں اسے پوری قوت اور شدت کے ساتھ زیب قرطاس کرتی ہیں۔ وہ اپنے فکر و ادراک کی شمعیں فروزاں کر کے سفاک ظلمتوں کو کافور کرنے کی سعی کرتی ہیں۔ اپنی حقیقت نگاری کے اعجاز سے وہ مقدور بھر کوشش کرتی ہیں کہ جس قدر جلد ممکن ہو مظلوم خواتین کو جہد و عمل پر آمادہ کیا جائے۔ صفیہ صدیقی نے تیشہ ء حرف سے فصیل جبر کو منہدم کرنے کی کوشش کی۔ وہ چاہتی تھیں کہ جبر کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے ظالم و سفاک استحصالی عناصر کے چہرے سے نقاب اٹھانے میں تامل نہ کیا جائے۔ زندگی کی درخشاں روایات اور اقدار عالیہ کی پامالی کو دیکھ کر ان کا رویہ جارحانہ ہو جاتا ہے۔ وہ سمجھتی ہیں کہ مقتل وقت میں ان کی سوچ کی حیثیت ایک لہکتی ڈال کی ہے جسے سادیت پسند کبھی برداشت نہیں کر سکتے۔ اس کے با وجود انھوں نے تمام عمر حریت فکر و عمل کو اپنا مطمح نظر بنایا۔ ان کے اسلوب میں حریت فکر، حقیقت نگاری اور فطرت نگاری کی مسحور کن کیفیت دیکھ کر قاری حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔ صفیہ صدیقی کا ناول ’’وادیِ غربت ‘‘معاشرتی زندگی کے مسائل کے حوالے سے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ صفیہ صدیقی نے ادب اور صحافت میں گراں قدر خدمات انجام دیں۔ وہ روزنامہ جنگ سے طویل عرصہ وابستہ رہیں۔ 1982میں انھوں نے روزنامہ جنگ سے اپنی وابستگی ختم کر دی اور اپنا زیادہ وقت مطالعہ اور تخلیق ادب میں صرف کرنے لگیں۔
صفیہ صدیقی ایک نہایت صابر و شاکر خاتون تھیں۔ انکسار، استغنا اور انسانی ہمدردی ان کے مزاج کے نمایاں اوصاف تھے۔ بلا امتیاز تمام انسانیت کے ساتھ وہ اخلاق اور اخلاص پر مبنی درد کا رشتہ استورا کرنے کی حامی تھیں۔ بے لوث محبت، بے باک صداقت، حریت فکر، دردمندی اور وفا داری کے جذبات سے ان کے اسلوب میں نکھار پیدا ہوا۔ وہ اگرچہ طویل عرصے سے اپنے اہل خاندان کے ہمراہ برطانیہ میں مقیم تھیں مگر ارض پاکستان سے وہ ٹوٹ کر محبت کرتی تھیں۔ ان کی تخلیقی تحریروں میں وطن سے دوری کا کرب نمایاں ہے۔ معاشرتی زندگی میں وہ بے حد ملنسار اور خلیق خاتون تھیں۔ وہ سب کی باتیں بڑے تحمل سے سنتیں یہاں تک کہ بعض ناگوار مسائل پر بھی وہ کوئی سخت رد عمل ظاہر نہ کرتیں بل کہ زیر لب مسکرا کر خاموش ہو جاتیں۔ ان کی کم گوئی ان کی بردباری کی عمدہ مثال تھی۔ وہ ہر قسم کی عصبیت کو سخت نا پسند کرتی تھیں اور چاہتی تھیں کہ اخوت کی جہانگیری اور محبت کی فراوانی کو یقینی بنایا جائے۔ علاقائی، لسانی یا فرقہ وارانہ عصبیتوں کو وہ قومی یک جہتی کے لیے برا شگون سمجھتی تھیں۔ لا حاصل اختلافی مباحث کو وقت کے ضیاع سے تعبیر کرتیں لیکن صحت مند تنقید کو وہ تخلیقی عمل کو صحیح سمت عطا کرنے کے لیے نا گزیر قرار دیتی تھیں۔ ان کی محتاط گفتگو اور کم گوئی ان کی پہچان بن گئی تھی۔ جب وہ قلم تھام کر مائل بہ تخلیق ہوتیں تو پھر بے تکان لکھتیں۔ وہ ایک وسیع المطالعہ تخلیق کار تھیں۔ عالمی کلاسیک کا انھوں نے عمیق مطالعہ کر رکھا تھا۔ جدید لسانیات سے بھی انھیں گہری دلچسپی تھی۔ خاص طور پر اردو ادب کی تحریکیں، مارکسیت، نئی تنقید، رومانویت، ساختیات، پس ساختیات، رد تشکیل، جدیدیت اور ما بعد جدیدیت کے بارے میں وہ کامل آگہی رکھتی تھیں۔ انھوں نے ژاک دریدا، سوسئیر، رولاں بارتھ اور فوکو کے نظریات کا مطالعہ کیا۔ یہ بات بڑے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ ان کے اسلوب میں نسائیت کے اثرات کی اساس مغربی افکار نہیں۔ تانیثیت کے بارے میں ان کے دبنگ لہجے کے سوتے اسلام کی آفاقی اور ابد آشنا تعلیمات سے پھوٹتے ہیں۔ تانیثیت کے موضوع پر وہ نہ تو مارکسی فلسفے کی خوشہ چینی کرتی ہیں اور نہ ہی ما بعد جدیدیت پر مبنی افکار سے کوئی اثر قبول کرتی ہیں۔ اردو افسانے میں تانیثیت کا یہ انداز جو ہماری تاریخ، تہذیب، ثقافت اور اقدار و روایات کا آئینہ دار ہے، قارئین کے دلوں کو مسخر کر لیتا ہے۔ اردو افسانے کے ارتقا پر نظر ڈالیں تو یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ افسانے کو تانیثیت کے اعتبار سے حقیقت نگاری کی معراج تک پہنچانے میں جن عظیم تخلیق کاروں نے خو ن جگر دے کر اسے معیار اور وقار کی رفعت سے آشنا کیا ہے ان میں صفیہ صدیقی کا نام بھی شامل ہے۔ فن افسانہ نگاری میں صفیہ صدیقی کے منفرد اسلوب کا کرشمہ دامن دل کھینچتا ہے۔ ان کے اس منفرد اسلوب میں مشرقی تہذیب و ثقافت، سماج و معاشرت اور اقدار و روایات کے تمام پہلو سمٹ آئے ہیں۔ وہ زندگی میں حقیقی معنویت اور مفید مقصدیت کی متمنی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ ادب کے افادی پہلو کو انھوں نے ہمیشہ پیش نظر رکھا۔ ان کے افسانے مفاد پرستوں کے لیے عبرت کے تازیانے ثابت ہوتے ہیں۔ وہ سائنسی انداز فکر اپنا کر حالات کا غیر جانب داری سے تجزیہ کرتی ہیں اور اس طرح ان کا تخلیقی کام ایک تعمیری صورت میں اپنا اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اردو ادب میں اقدار و روایات کی متعدد نئی جہات گزشتہ نصف صدی کے دوران سامنے آئی ہیں، صفیہ صدیقی نے ان اقدار و روایات کو فروغ علم و ادب کے لیے نا گزیر سمجھتے ہوئے ان کی پاسداری پر زور دیا۔ صفیہ صدیقی نے زندگی کی حیات آفریں اقدار کے فروغ کو اپنا نصب العین بنا رکھا تھا۔ ان سے مل کر زندگی کی رعنائیوں کا یقین ہو جاتا اور زندگی سے محبت کے جذبات کو مہمیز کرنے میں مدد ملتی۔ صفیہ صدیقی کے افسانے دنیا بھر کی خواتین کی زندگی کے مسائل کا بالعموم اور مشرقی خواتین کی زندگی کے نشیب و فراز کا بالخصوص احاطہ کرتے ہیں۔ اردو افسانے کے کئی پامال موضوعات مثال کے طور پر جنسی جنون، سستی رومانویت اور جذباتی ہیجانات جو کہ اب کلیشے کی صورت اختیار کر چکے ہیں وہ صفیہ صدیقی کے افسانوں میں کہیں دکھائی نہیں دیتے۔ خواتین میں بیداری اور مقصدیت کو فروغ دینے میں صفیہ صدیقی نے جو اہم کردار ادا کیا وہ انھیں شہرت عام اور بقائے دوام کے دربار میں بلند مقام عطا کرے گا۔ تاریخ ادب ہر دور میں ان کے عظیم نام اور فقید المثال کام کی تعظیم کرے گی۔ جریدہ ء عالم پر صفیہ صدیقی کا نام ہمیشہ ثبت رہے گا۔
تخلیق ادب کے وسیلے سے روح حیات کی تفہیم صفیہ صدیقی کا مطمح نظر تھا۔ تخلیق فن کے لمحوں میں وہ اس مہارت سے اشہب قلم کی جولانیاں دکھاتی ہیں کہ ان کے افسانے پڑھ کر قاری حسن، عشق، عقل اور دل کی اقالیم کی سیر کر لیتا ہے۔ ان کا اسلوب ایک جام جہاں نما ہے جو قطرے میں دجلہ اور جزو میں کل کا منظر سامنے لا کر ید بیضا کا معجزہ دکھاتا ہے۔ بادی النظر میں یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہے کہ دل اور عقل کی استعداد اور دائرہ کار کا جہاں تک تعلق ہے اس میں دل کو زیادہ وسعت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ دل کو ہر معاملے میں برتری اور اولیت حاصل رہی ہے۔ عقل تو محض چراغ راہ ہے جب کہ دل منزل سے آشنا ہے۔ یہ دل ہی ہے جو حسن و جمال کے دلکش، مسحور کن اور قلب و روح کو مسخر کرنے والے نظاروں کی وجدانی کیفیات کا رمز آشنا ہے۔ دل میں درد و غم، محبت و اخوت اور ایثار کے جذبات ر چ بس جاتے ہیں۔ دل کے بارے میں یہ بات مسلمہ ہے کہ دل کبھی کسی مصلحت کے تابع نہیں ہو سکتا۔ حسن جس غیر فانی اور ہمہ گیر وجدان سے متمتع کرتا ہے صرف دل ہی اس کی تفہیم اور تحسین پر قادر ہے۔ صفیہ صدیقی نے دل کی آزادی کو ہمیشہ اہم خیال کیا۔ ان کا افسانہ ’’مکالمہ‘‘ دل اور عقل کی حدود کو سمجھنے میں بے حد معاون ہے۔ عقل نے جب دل کو محبت کی ہلاکت خیزیوں سے متنبہ کیا تو دل نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا:
’’ یہی تو تمھاری غلطی ہے عقل بی بی !محبت میں انجام کی فکر ہو تو محبت تھوڑی ہو تی ہے، وہ تو کارو بار ہو جاتا ہے، پھر ہم کوئی پلاننگ کر کے اور کسی کو منتخب کر کے تھوڑی محبت کرتے ہیں یہ تو ایک غیر ارادی فعل ہے جو ان جانے میں خود بخود سر زد ہو جاتا ہے۔ انسان آہستہ آہستہ ایک ان دیکھے جال میں پھنس کر رہ جاتا ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ اسے اسی میں مزہ آنے لگتا ہے۔ وہ اس جال سے نکلنا بھی نہیں چاہتا خواہ اسے کتنی تکلیف کیوں نہ ہو اور شاید وہ نکل بھی نہیں سکتا۔ ‘‘
صفیہ صدیقی نے واضح کر دیا ہے کہ محبت کوئی لین دین ہر گز نہیں بل کہ یہ تو اپنا سب کچھ محبوب پر وار دینے کا نام ہے۔ یہاں تک کہ دیار عشق کے آبلہ پا مسافر اپنی متاع زیست بھی محبوب کے قدموں میں نچھاور کرنے سے تامل نہیں کرتے۔ عشق پر کسی کا کوئی اختیار ہی نہیں۔ یہ ایک ایسی چنگاری ہے جو کسی معمولی سی بات پر بھڑک اٹھتی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے خرمن جاں، سکون قلب اور راحت و مسرت کو جلا کر راکھ کر دیتی ہے اس راکھ کر کریدنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ محاذ جنگ سے پسپائیوں کے امکانات تو ہوتے ہیں لیکن پیار و محبت کی راہ میں اٹھنے والے قدم کبھی پلٹ نہیں سکتے۔ محبت کے بارے میں اکثر کہا جاتا ہے کہ یہ تو ایک ہاتھ کی تالی ہے۔ محبت کرنے والا ا پنی دھن میں مگن پیہم محبت کیے جاتا ہے اور اسے اس بات کی کوئی پروا نہیں ہوتی کہ اس کے نالوں کا جواب آتا ہے کہ نہیں۔ صفیہ صدیقی کے افسانوں میں کئی علامات ایک نفسیاتی کل کے روپ میں جلوہ گر ہوتی ہیں۔ ان علامات کو لا شعور کی حرکت و حرارت اور قوت و فعالیت کی تشکیل و تفہیم کی کلید سمجھا جاتا ہے۔ محبت میں ہوس کے اسیر لوگوں کو یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ محبت میں تو عاشق سب کچھ گنوا کر صرف اپنے محبوب کی یادوں کے سہارے زندگی کے دن پورے کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ ہجر و فراق کی شام الم میں درد کی ہوا چلتی ہے تو دل و جگر اس کی حدت سے پگھل جاتے ہیں۔ ان تمام مسائل، مصائب اور ابتلا و آزمائش کے با وجود آبلہ پا رہروان دشت وفا ہونٹوں پر صبر کی طمانیت لیے، آنکھوں میں انتظار کی کیفیت سموئے اور چراغ تمنا کو فروزاں رکھے منزلوں کی جستجو جاری رکھتے ہیں۔
صفیہ صدیقی کی وفات ایک بہت بڑ ا ادبی سانحہ ہے۔ دنیا بھر کے اہل قلم نے ان کی وفات پر دلی رنج اور جذبات حزیں کا اظہار کیا ہے۔ اس وقت صفیہ صدیقی کے ساتھ مل کر ادبی کام کرنے والی ان کی دیرینہ رفیق کار محترمہ نجمہ عثمان کی ایک نظم سے ایک اقتباس پیش خدمت ہے جو انھوں نے صفیہ صدیقی کی وفات کے صدمے سے نڈھال ہو کر اشک بار آنکھوں سے لکھی ہے۔ یہ نظم شدت جذبات اور قلبی احسا سات کا اعلیٰ ترین معیار پیش کرتی ہے۔ میری دعا ہے کہ اللہ کریم صفیہ صدیقی کو جوار رحمت میں جگہ دے اور ان کے پس ماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ اس نظم میں صفیہ صدیقی کے تمام مداح اپنے قلبی جذبات کو محسوس کر سکتے ہیں۔
تمھاری یاد میں ہر آنکھ اشک بار ملی تمھارے کمرے کی ہر چیز سوگوار ملی
کتابیں پوچھ رہی ہیں انھیں پڑھے گا کون ہے غم تمھارے فسانوں کو اب لکھے گا کون
تمھاری میز پہ رکھے ہوئے رسالے چپ تمھاری ذات سے وابستہ سب حوالے چپ
عجب اک عالم تنہائی دل پہ طاری ہے گئی ہو آج جو تم کل ہماری باری ہے
فضہ پروین