اردو افسانےاردو تحاریرعلامہ راشد الخیری

سارس کی تارک الوطنی

علامہ راشد الخیری کا ایک اردو افسانہ

ارتشی کے وسیع میدان میں چاندنی رات آدھی سے زیادہ گزر چکی تھی اور دامن کوہ میں خاموش چشمہ کے کنارے ایک سارس کا جوڑا تارک الوطن ہونے کی تیاریاں کر رہا تھا۔ گو ان کے دماغ (یعنی احساس انسانی کا مرکز) اس قوت سے محروم تھے جو اس قصد کے نقائص و تکالیف ان کی آنکھوں کے سامنے پیش کردیتی، تاہم وطن کی مفارقت کا اثر ان کے اعضائے جسمانی، ان کی حرکات سکنات سے ظاہر تھا۔ دونوں خموشی کے ساتھ کھڑے پہاڑ کی بلند چوٹیوں کو حسرت کے ساتھ دیکھ رہے تھے۔ آبشار بلندی سے گرتے تھے اور اس بھولی بھالی مخلوق کی قوت سامعہ ہوا کے تیز جھونکوں کی بدولت معمول سے زیادہ کام کر رہی تھی۔ دو ڈیڑھ گھنٹہ تک یہ جوڑا قدرت کی اس دلچسپی اور وطن کے در و دیوار کو غور سے دیکھتا رہا، آخر چاند کی روشنی کا انحطاط سارس کی توجہ میں خلل انداز ہوا اور وہ آتش فشاں پہاڑ جو قمر چہار دہم کے اندر صاف و روشن نظر آرہے تھے، دھندلے دکھائی دینے لگے۔
زمین اپنے محور کے گرد چکر کھاتی ہوئی رات کو کنارِ صبح تک لے آئی۔ شیر اور چیتے جن کی دھاڑوں نے تمام جنگل سر پر اٹھا رکھا تھا، اپنے اپنے غاروں میں جانے شروع ہوگئے اور کسی خوش الحان پرند نے تاڑ کے درخت پر سے صبح صادق کا مژدہ سنایا۔
ایک خاص خیال میں اس قدر دیر تک متوجہ رہنے پر بھی نر کی قوت متخیلہ کچھ زیادہ کار آمد نہ ہوئی۔ وہ سوچ نہ سکا کہ غربت میں کیا کیا مصیبتیں پیش آئیں گی اور کیسی کیسی دقتیں اٹھانی پڑیں گی۔ چاند کی روشنی لمحہ بہ لمحہ پھیکی پڑ رہی تھی۔ سارس نے دفعتاً اپنا منہ مادہ کی طرف کیا، اس کے کندھوں پر اپنی گردن رکھی، اس کے کامنی پروں کو جو فاختائی مائل تھے آنکھوں سے لگایا اور اس طرح جذبات قلب پورے کرکے کہنے لگا: “چل چل پیاری مادہ! ایسے میں اڑ چلیں۔ ٹھنڈے ٹھنڈے بہت دور نکل جائیں گے ورنہ مشرقی شہسوار تختِ آسمان پر جلوہ گر ہو جائے گا اور پھر تیرے نازک بازو شاید گرم ہوا کا مقابلہ آسانی سے نہ کرسکیں۔ اٹھ اٹھ من موہنی مادہ چل کھڑی ہو، میری زندگی کی تمام خوشیاں تیرے ان چمکدار پروں میں پوشیدہ ہیں۔ تیرا یہ حسن دلفریب میری زندگی برقرار رکھنے اور مجھ کو ہمیشہ کامیاب بنانے کے لیے کافی ہے”۔
چونکہ سارس اپنے سفر کا ارادہ، اپنی تارک الوطنی کا قصد شام ہی سے ظاہر کر چکا تھا، اس لیے مادہ نے اپنے گلابی مائل سرخ رخسار قریب لاکر پہلے سچی محبت کا جواب دیا اور پھر اس طرح مخاطب ہوئی:
“مجھ کو حکم کی تعمیل میں عذر نہیں مگر کیا کروں قدرت نے میری سرشت میں یہ مادہ ودیعت کیا ہے کہ مرغزار کے پتے پتے کی جدائی، جہاں مَیں چھوٹی سے بڑی ہوئی، محسوس کروں۔ پہاڑ کی چوٹیاں اُس وقت سے میرے سامنے ہیں جب سے میری آنکھ کھلی، آبشاروں کی آوازیں اس وقت سے میرے کانوں میں ہیں جب سے میں ان کو سننے کے قابل ہوئی۔ یہ درختوں کے پتے اور کنار نہر کے خودرو پھول جو ہمیشہ سے میری آنکھوں میں بسے ہوئے ہیں، ان کا فراق مجھے سخت تکلیف دہ ہوگا۔ اُس پار پہنچ کر نئی زمین ہوگی، نیا آسمان، نیا دانہ، نیا پانی؛ مگر یہ سرزمین جس کے چپے چپے اور کونے کونے پر میرے قدم چلے ہیں، مجھ سے چھوٹ جائے گی؛ اور یہ ہوا جس نے مجھ کو تھپک تھپک کر لوریاں دی ہیں مجھ سے کوسوں دور ہوجائے گی۔ آخر مجھے معلوم تو ہو وہ کیا چیز ہے جس نے تم کو ایسا دل برداشتہ کیا کہ وطن جیسی چیز کو عمر بھر کے لیے خیر باد کہتے ہو؟”
سارس: میں نہیں چاہتا کہ ایسی جگہ زندگی بسر کروں جہاں بے وفا اور خود غرض انسان کا گزر ہو سکے۔ مجھے اندیشہ ہے کہ ایسی نفس پرور مخلوق کے خیالات سے متاثر ہو کر میری آئندہ نسل برباد ہو جائے گی۔
مادہ: تم مجھ کو اجازت دو تو میں اس قدر عرض کرنے کی جرأت کروں کہ ہمارا اس حد تک انسان سے نفرت کرنا ایک قسم کی محسن کشی ہے جو ہمارا شیوہ نہیں۔ دنیا بالکل اجاڑ ہوتی، ہم ہی جیسے کائیں کائیں کرنے والے چاروں طرف آباد ہوتے، کائنات کی کل ہستی یہ ہوتی کہ لنگوروں کی چھلانگیں، چیلوں کی چل ، ہرن چکائے، بارہ سنگے، سانپ، مچھلی، کینچوے، کچھوے وغیرہ وغیرہ۔
قدرت کو ضرورت تھی ایک ایسی مخلوق کی جو نظام عالم کی داد دے اور صنعتِ دنیا کو دیکھ کر صناع حقیقی کے کمال کا اعتراف کرے۔ پس انسان کی خلقت ضرورت ہے قدرت کی اور یہ اسی مخلوق کا کام تھا کہ اپنی محنت اور عقل کی بدولت پہاڑوں سے چشمے بہا دیے اور آسمان پر بے پر و بال اس طرح پہنچا کہ چاند تاروں کی حقیقت معلوم کرلی۔ کیا آپ کو اس سے انکار ہے کہ یہ طرح طرح کے میوے، یہ ہرے بھرے کھیت، یہ لہلہاتے ہوئے درخت جن سے ہمارے گرد و پیش کی زمین مالامال ہے، ہم کو محض انسان کی سعی سے میسر ہوئے؛ ورنہ پہاڑوں کے سنگریزے ہماری خوراک ہوتی اور کوہ آتش فشاں کا ملغوبہ ہمارا پانی۔
ایسی اچھی اور کارآمد مخلوق جس کی محنت سے ہم ہر طرح مستفید ہوں، اس قدر نفرت کی مُستوجب نہیں۔
سارس: مگر انسان جیسی دغاباز شے جو تیری نگاہ میں اشرف اور میری رائے میں ارذل ہے، ہرگز پسند کے قابل نہیں۔ اس کی سرشت میں دھوکا، اس کی طینت میں دغا اور اس کی گھٹی میں خود غرضی پڑی ہوئی ہے۔ افسوس میں نے صبح ہی صبح ایک نہایت منحوس چیز کا نام لیا، انسان! کیسا انسان؟ دغا باز مکار! جس کی محبت جھوٹی ،جس کی باتیں بناوٹی، جس کا دل ظلمت کدہ، سچا احساس اس سے کوسوں دور اور اچھے خیال اس سے میلوں پرے۔ دیکھ وہ سورج کی کرنیں پہاڑ کی چوٹیوں پر پڑنے لگیں۔ اب ہمارا یہاں بیٹھنا ٹھیک نہیں۔ افسوس آج کا سفر ملتوی ہوا، چل پہاڑ پر چل اور حیاتِ انسانی کی کیفیت مجھ سے سن۔
آٹھ دس برس کا عرصہ ہوا، میں بچہ ہی سا تھا۔ ایک رات جبکہ چاندنی چاروں طرف چھٹکی ہوئی تھی، میرے باپ نے باہر نکل کر دیکھا؛ درختوں کے پتوں اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر ایک نور سا برس رہا تھا۔ پیاری بی بی! تجھے کبھی پردیس جانے کا اتفاق نہیں ہوا۔ اگر راستہ میں میرا قدیمی مکان پڑا تو میں تجھے دکھاؤں گا کہ وہ کیسا پرفضا مقام ہے۔ دامن کوہ سے چشموں کا اترا اترا کر اور مچل مچل کر چلنا تجھ کو بتا دے گا کہ فطرت نے میری پرورش کے واسطے کیسی دلفریب اور دلچسپ جگہ انتخاب کی تھی۔ ہاں تو شبِ ماہ اپنا بناؤ سنگھار کیے پردۂ دنیا پر جلوہ گر تھی، والد مرحوم کا دل سیر کو چاہا۔ مجھے اور میری ماں کو ساتھ لیا اور ہم تینوں ہوا میں اڑے۔ تاروں نے بساطِ فلک کو جبینِ عروس بنا رکھا تھا۔ ہم کو کسی خاص جگہ پر جانا مقصود نہ تھا، ہوا کے جھونکوں نے پورب کی طرف دھکیل دیا اور ہم چاندنی کا لطف اٹھاتے اسی طرف کو روانہ ہو گئے۔
رات اٹھلا اٹھلا کے اپنا رستہ طے کر رہی تھی۔ ہم جزیرہ ارسیوان میں پہنچے تو ہمارا گزر قصر سلطانی پر ہوا۔ دیکھتے کیا ہیں کہ شہزادہ الیاس بھی ہماری طرح شب ماہ کا لطف اٹھا رہا ہے اور اس کی معشوقہ برابر میں بیٹھی ٹھنک ٹھنک کر باتیں کر رہی ہے۔ الیاس ٹکٹکی باندھے اس کی صورت دیکھ رہا تھا۔ کچھ عجب قسم کی محبت اُس کی آنکھوں سے ٹپک رہی تھی۔ چونکہ محبت کا وہ مادہ ہمارے دماغ اور جمال سے ارفع و اعلیٰ ہے، میں اس کی صراحت سے مجبور ہوں۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ شہزادی کی ایک ایک ادا الیاس کا کلیجہ مجروح کر رہی ہے۔ وہ دیوانہ وار شہزادی پر نثار ہو رہا تھا، کبھی اس کے نازک ہاتھ اپنی آنکھوں پر رکھتا تھا، کبھی آراستہ و پیراستہ زلف کو سونگھ کر جھومتا ، کچھ دیر تک تو اس طرح قلب مضطرب کو تسکین دی اور پھر بیتاب ہو کر کہنے لگا: “سلطنت کا لطف بھی اسی وقت تک ہے جب تک کہ تو میری آنکھوں کے سامنے ہو، ورنہ شہزادی تمام سامان عیش ہیچ ہے۔ لا گل اندام! اپنے پیارے ہاتھوں سے ایک جام تو دے”۔
شاید عورت کی فطرت ہی میں یہ داخل ہوگا کہ شہزادی الیاس کو اس قدر والہ و شیدا دیکھ کر بے انتہا خوش ہوئی۔ اس کے حسن کی چمک پہلے سے دوچند ہو گئی، گلاب سے رخساروں میں سرخی جھلکنے لگی اور ہونٹوں پر مسکراہٹ آ گئی۔ چاہتی تھی کہ آگے بڑھ کر شیشہ و ساغر اٹھائے، الیاس نے اس کا ہاتھ پکڑا اور کہنے لگا: “ان ہاتھوں کو اس قسم کی تکلیف دینا منشائے قدرت کے خلاف ہے”۔ یہ کہہ کر شہزادہ الیاس نے جام بلوریں آگے رکھا، شہزادی ساغر تیار کر رہی تھی کہ اتفاق سے شیشہ ٹوٹا اور کلائی بالکل لہو لہان ہو گئی۔ اس وقت الیاس کی بے چینی بیان نہیں ہوسکتی۔ آنکھ سے آنسو نکل پڑے، رومال بھگو کر کلائی پر باندھا اور کہنے لگا: “اس خون کا ہر قطرہ میرے کلیجہ سے نکل رہا ہے۔ کاش میرا پورا ہاتھ کٹ جاتا، میں مر جاتا، شہید ہو جاتا مگر میری وجہ سے اس سرخ وسفید کلائی کو یہ اذیت نہ ہوتی”۔
شہزادہ یہیں تک پہنچا تھا کہ میری ماں اپنے خاصۂ فطرت کے موافق والد مرحوم کی طرف متوجہ ہوئی اور کہنے لگی: “سچ یہ ہے، انسان سے زیادہ محبت کی قدر کوئی مخلوق نہیں کر سکتی”۔ یہ کہہ کر وہ اور اس کے پیچھے پیچھے ہم باپ بیٹے اڑے اور اپنے گھر کو واپس آئے۔
مجھے ٹھیک یاد نہیں کہ اس واقعہ کے کتنے روز بعد ایک روز میں سمتِ مشرق سے آرہا تھا، رستہ میں جزیرہ ارسیوان پڑا، میرے دل نے گوارا نہ کیا کہ شہزادی کو جس کے ساتھ مجھے اس رات اتنی ہمدردی ہو گئی تھی، بغیر دیکھے چلا جاؤں؛ چنانچہ میں قصر سلطانی پر ٹھٹکا۔ دوپہر کا سنسان وقت تھا اور گرمی نہایت شدت سے پڑ رہی تھی، دیکھتا کیا ہوں کہ الیاس غمگین و محزون پڑا رو رہا ہے دفعتاً ایک شخص آیا اور خط دے کر چلا گیا۔ مجھے سخت تعجب تھا کہ الیاس نے سیکڑوں مرتبہ وہ خط کھولا، پڑھا اور سر آنکھوں پر رکھا۔ آخر بآواز بلند کہنے لگا: “ظالم اب تک اسی ہٹ پر قائم ہے کہ شہزادی کی زندگی میں مجھ سے کسی تعلق کی امید بالکل فضول۔ خیر یہ کیا بڑی بات ہے، لاؤ آج اس قضیہ کا بھی فیصلہ کردوں”۔ یہ کہہ کر الیاس اندر گیا اور ایک خنجر آبدار لے کر باہر نکلا۔ اس کی دھار دیکھی اور کمر میں لگا کر اس کمرہ میں آیا جو میری آنکھوں کے سامنے تھا۔ آہ پیاری مادہ! آگے بیان کرتے ہوئے کلیجہ کٹتا ہے، وہی شہزادی جو کسی وقت الیاس کے دل پر اچھی طرح قابض اور تمام سلطنت کی مالک تھی، سر پر ہاتھ رکھے بیٹھی تھی اور آنکھ سے ٹپ ٹپ آنسو گر رہے تھے۔ الیاس کی صورت دیکھتے ہی شہزادی گھبرا کر اٹھی۔ گو وہ بالکل ساکت کھڑی تھی مگر سر سے پا تک ایک نا امیدی کی تصویر تھی۔ اس کی بڑی اور رسیلی آنکھیں جو اس وقت گلابی ہو گئی تھیں، بہ حسرت و یاس الیاس کے چہرے پر تھیں اور اس کے تکلیف دہ خیالات کی پریشانی کا اظہار اس کی صورت سے ظاہر تھا۔ نرم اور نازک رخسار گلاب کی پتیوں کی طرح آفات ناگہانی سے مرجھا چکے تھے اور وہ دل جس میں کبھی عشرت و شادمانی کا راج تھا، اس وقت مصائب کی پوٹ بنا ہوا تھا۔
پہلو میں ننھا سا دل رکھنے والی مادہ! مجھے اندیشہ ہے اب واقعات تجھ کو رُلا نہ دیں۔ جس وقت سفاک الیاس نے کمر سے خنجر نکالا، اس کی چمک دیکھ کر شہزادی سہم گئی، اوسان جاتے رہے، تھر تھر کانپنے لگی۔ الیاس آگے بڑھا،شہزادی کا ہاتھ پکڑ کر گھسیٹا اور کہا تیرا جام عمر لبریز ہوچکا۔ یہ خنجر تیرا کام تمام کر دے گا۔ ادھر آ اور مرنے کے واسطے تیار ہو۔

 

علامہ راشد الخیری

سائٹ ایڈمن

’’سلام اردو ‘‘،ادب ،معاشرت اور مذہب کے حوالے سے ایک بہترین ویب پیج ہے ،جہاں آپ کو کلاسک سے لے جدیدادب کا اعلیٰ ترین انتخاب پڑھنے کو ملے گا ،ساتھ ہی خصوصی گوشے اور ادبی تقریبات سے لے کر تحقیق وتنقید،تبصرے اور تجزیے کا عمیق مطالعہ ملے گا ۔ جہاں معاشرتی مسائل کو لے کر سنجیدہ گفتگو ملے گی ۔ جہاں بِنا کسی مسلکی تعصب اور فرقہ وارنہ کج بحثی کے بجائے علمی سطح پر مذہبی تجزیوں سے بہترین رہنمائی حاصل ہوگی ۔ تو آئیے اپنی تخلیقات سے سلام اردوکے ویب پیج کوسجائیے اور معاشرے میں پھیلی بے چینی اور انتشار کو دورکیجیے کہ معاشرے کو جہالت کی تاریکی سے نکالنا ہی سب سے افضل ترین جہاد ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button