- Advertisement -

رشتوں کے درمیان

بینا خان کے ناول اب میرے ہو کے رہو سے اقتباس

"پھپو زوار مجھ سے ناراض ہیں”رات کو وہ پھپو سے بولی
” تو بیٹا مناؤ اسے ”
” کیسے؟؟؟”
” مجھے کیا پتا کیسے۔۔۔۔۔ شوہر ہے تمہارا تم جانو” وی اٹھ بیٹھی
” پر پھپو۔۔۔۔”
” بیٹا رشتوں میں زیادہ دن تک دوریاں نہیں آنی چاہئیں ورنہ فاصلے ان رشتوں کے درمیان اپنی جگہ بنا لیتے ہیں ”
” جیسے بھی حالات میں تمہارا نکاح ہوا بہرحال وہ تمہارا شوہر ہے تم سے محبت کرتا ہے اس نے کیا کچھ نہیں کیا تمہارے لیے اب تمہارا فرض بنتا ہے کہ اگر وہ ناراض ہے تو تم اسے مناؤ ”
پھ کافی دیر تک اسے سمجھاتی رہیں اور ٹھان چکی تھی کہ اب وہ اسے منا کے ہی رہے گی اتنے میں گھر کا دروازہ بجا۔
————-
زوار اپنے کمرے میں بیٹھا آرام کر رہا تھا کہ اماں چلی آئیں
” زوار پتر۔۔۔ جا جاکے ڈاکٹرنی کو بلا لا ”
” کیوں خیریت اماں کیا ہوا خیریت تو ہے ”
” بیٹا عمار کی طبیعت بہت خراب ہے صبح سے بخار ہے اسے اور اب تو زیادہ ہی طبیعت خراب ہو گئی ہے اس کی ”
” اوہ۔۔۔۔۔ میں ابھی جاتا ہوں اماں آپ پریشان نہ ہوں ” وہ اٹھا اور انہیں تسلی دیتا چلا گیا
تھوڑی دیر بعد وہ پریشے کے گھر کے باہر کھڑا تھا اس نے دروازہ کھٹکھٹایا
” کون ہے؟؟؟” پریشے کی اندر سے آواز آئی
” میں زوار ” پریشے کا دل بے ترتیب دھڑکا اس نے دروازہ کھولا زوار اندر آیا
” ارے زوار آؤ اندر آؤ” پھپو بولیں وہ پریشے کو نظرانداز کرتا اندر آیا
” جی پھپو کیسی ہیں آپ ”
میں تو ٹھیک ہوں بیٹا اپنی کہو”
” الحمداللٰہ ”
” بیٹھو نہ بیٹا ”
” نہیں پھپو پھر کبھی عمار کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے تو ان کو لینے آیا ہوں اگر آپ اجازت دیں تو” اس نے پریشے کی طرف اشارہ کر کے پھپو سے کہا
” ہاں بیٹا لے جاؤ آخر کو بیوی ہے تمہاری” پھپو نے فوراً اجازت دی
” ان محترمہ سے بھی پوچھ لیں اگر یہ جانا چاہیں میرے ساتھ ”
” میں۔۔۔۔میں آتی ہوں” کہہ کر وہ کمرے میں گئی اور جب آئی تو اس کے ہاتھ میں بوکس تھا اپنے گرد کالی شال لپیٹے وہ بہت پیاری لگ رہی تھی
زوار پھپو سے ملا اور پریشے جو لے کر باہر آیا
” بیٹھو ” زوار نے اس کے لیے فرنٹ ڈور کھولا وہ چپ چاپ بیٹھ گئی
وہ ڈرائیونگ سیٹ پہ آیا اور گاڑی اسٹارٹ کی
پریشے نے اس کی طرف دیکھا وہ خاموشی سے ڈرائیو کررہا تھا ہمت ہی نہیں ہو رہی تھی اس سے بات کرنے کی اب کچھ تو بولنا تھا نا
” عمار کو کیا ہوا ہے ” اس نے پوچھا
” خود جا کے دیکھ لینا ” کہہ کر وہ پھر خاموش ہو گیا
پریشے کو یکدم غصہ آیا
” ہونہہ۔۔۔۔۔ پہلے جب میں بات نہیں کرتی تھی تو وقت بے وقت مجھ سے بات کرنے کی لگی رہتی تھی اور اب جب میں خود کررہی ہوں تو موصوف کے مزاج نہیں مل رہے ” اس نے دل میں سوچا
زوار اس کی حالت کو بخوبی سمجھ رہا تھا پر غصہ تھا کیا وہ اکسکیوز نہیں کرسکتی تھی چلو اکسکیوز نہ سہی محبت کا اظہار ہی کردے
” ہونہہ۔۔۔۔۔ بیٹھی رہے ”
دونوں اپنی جگہ منہ بنا کے بیٹھے تھے
گاڑی حویلی پہنچی پریشے اور زوار گاڑی سے اترے حویلی میں داخل ہوئے تو اماں اور ملک وجاہت چلے آئے
” آئیں ڈاکٹرنی جی آئیں ” وہ اسے لیے عمار کے روم میں گئیں
” اس کو دیکھیں پتا نہیں کیا ہو گیا ہے اسے صبح سے بخار میں تپ رہا ہے ”
” جی میں دیکھتی ہوں آپ تسلی کریں ”
پریشے نے اس کا چیک اپ کیا اور کچھ ضروری دوائیاں اسے لکھ کر دیں
” یہ دوائیاں آپ انہیں ٹائم سے دیجیے گا اور ان کے کھانے کا خاص خیال رکھیں موسمی بخار ہے اور کچھ نہیں” پریشے نے ہدایت کی تو اماں بولیں
” شکریہ بیٹا بہت بہت”
” کوئی بات نہیں یہ تو میرا فرض ہے”
” آپ کے اور بہت سے فرض ہیں وہ بھی یاد کرلیا کریں ” زوار زوار بولا تو اماں کے سامنے یوں بولنے پہ پریشے خجل سی ہو گئی
” اے زوار کیوں میری دھی کو تنگ کر رہا ہے” اماں نے پریشے جو ساتھ لگایا تو پریشے حیرانی سے زوار کو دیکھنے لگی
” حیران ہونے کی ضرورت نہیں میں سب جانتی ہوں میرے زوار کی پسند ہو تم ” اماں نے بھی اس کی حیرانی نوٹ کرلی تھی
” مجھے تو دل و جان سے پسند ہے اپنی نوں ” زوار اسے چھوڑنے کے لیے جا رہا تھا اماں پریشے سے بارتیں کرتے کرتے بولیں زوار نے اس کے لیے گاڑی کا دروازہ کھولا
” پر آپ کی بہو کو آپ کا بیٹا کچھ خاص پسند نہیں ہے” زوار بولا تو پریشے نے سر اٹھا کے اسے دیکھا
” کیوں؟؟؟ کیا کمی ہے میرے پتر میں ”
” نہیں۔۔۔۔۔ نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں ہے ” پریشے بوکھلا گئی اماں ہنس دیں زوار نے گاڑی اسٹارٹ کی پورا راستہ خاموشی سی کٹا زوار منتظر تھا کہ وہ اب تو کچھ بولے گی پر نہیں وہ کچھ نہ بولی زوار چڑ گیا گھر آیا تو وہ گاڑی سے اتری
” آ۔۔آپ نہیں آئیں گے؟؟؟”
” میں کس لیے آؤں”
” ویسے ہی پوچھا ہے میں نے پھپو سے بھی مل لیجیے گا ”
” ٹائم دیکھا ہے تم نے پھپو سو چکی ہوں گی اور اس ٹائم غیر مرد کو اپنے گھر بلا رہی ہو” پریشے نے اس کو حیران نظروں سے دیکھا
” غیر؟؟؟”
” ہاں تو۔۔۔۔۔ میں کیا لگتا ہوں تمہارا” وہ پتا نہیں کیا اس سے بلوانا چاہ رہا تھا
وہ خاموش ہو گئی
” ہونہہ۔۔۔۔۔ میڈم کی زبان ویسے کتنا چلتی ہے اور آج گونگے کا گڑ کھا کے بیٹھی ہے۔۔۔۔۔ کیا ہوتا اگر یہ بول دیتی کہ شوہر ہو میرے ” زوار دل ہی دل میں مخاطب ہوا
اتنے میں پھپو نے دروازہ کھول دیا وہ اندر جانے لگی تو زوار گاڑی زن سے بھگا لے گیا۔
————
اگلے دن زوار کو کسی کام سے شہر جانا پڑا سوچا جانے سے پہلے محترمہ کی شکل ہی دیکھ کے آجائے یہ سوچتے ہی وہ اٹھا اور پریشے کے گھر جانے لگا
دروازہ پریشے نے کھولا زوار کو دیکھتے ہی پریشے کی آنکھوں میں دیپ سے جلنے لگتے تھے وہ اندر آیا
” ارے زوار بیٹا” پھپو اٹھی
"ارے آپ بیٹھیں پھپو” سلام دعا کے بعد پھپو نے اس کی تیاری دیکھتے ہوئے پوچھا
” کہیں جا رہے ہو”
” جی ایک ضروری کام کی وجہ سے شہر جا رہا ہوں سوچا آپ سے مل لوں ”
” یہ تو بہت اچھا کیا ”
” پریشے جا جاکے چائے بناؤ شوہر آیا ہے گھر پہ کوئی فکر ہی نہیں ہے لڑکی کو” پھپو نے اپنے کام میں لگی پریشے کو وہی کھڑے کھڑے جھاڑا وہ ایک فم شرمندہ ہوئی
” جی” کہہ کے وہ کچن میں چلی گئی تھوڑی دیر بعد وہ چائے بنا کے لائی
"چائے ” اس نے آہستگی سے کہا زوار نے چائے کا کپ اٹھایا اور چائے پیتے ہوئے پھپو سے باتیں کرنے لگا زوار نے چائے کا کپ خالی کرکے ٹرے میں رکھا پھپو کسی کام سے اٹھ کے کمرے میں گئیں تو وہ بڑبڑائی
” بندہ دو تعریف کے بول ہی بول دیتا ہے پر نہیں ” زوار نے اس کی بڑبڑاہٹ بخوبی سنی تھی وہ مسکرایا اور اسے تپانے کو بولا
” بندہ تعریف کے قابل ہو تو اگلا تعریف کرتا ہوا بھی اچھا لگتا ہے ” زوار نے کہا
” کیا مطلب ہے آپ کا ہاں۔۔۔۔۔ ”
” مطلب وہی ہے جو آپ سمجھ رہی ہیں اور ہاں میں ایری غیری لڑکیوں سے بات نہیں کرتا ” کہہ کر اس نے بات ہی ختم کردی
” ایری غیری؟؟؟”
” میں۔۔۔۔۔میں ایری غیری ہوں؟؟؟” وہ اس کے سامنے آکے کمر پہ ہاتھ رکھ کے لڑاکا عورتوں کی طرح بولی زوار کو اس کی یہ ادا بہت بھائی وہ کچھ بولنے لگا تھا کہ پھپو چلی آئیں وہ دونوں خاموش ہو گئے۔
———–
شام کے سائے گہرے ہو رہے تھے پریشے کلینک سے اٹھنے لگی ملازمہ اس سے باتیں کررہی تھی کہ ملازمہ باتوں باتوں میں بولی
” اللٰہ زوار سائیں کو بھی زندگی صحت دے سنا ہے ہسپتال میں ہیں ” پریشے ایک دم چونکی
” کیا۔۔۔۔۔ کیا مطلب ”
” وہ۔۔۔۔۔ وہ کیوں کیوں ہیں ہسپتال میں ”
” آپ کو نہیں پتا بی بی جی زوار سائیں کا دوپہر کو بڑا برا ایکسیڈنٹ ہوا ہے جی ان کا ” پریشے کا چہرہ سفید پڑ گیا
” بہت خطرے میں ہیں جی وہ” پریشے ایک دم چئیر پہ بیٹھ گئی ملازمہ نے اسے دیکھا
” بی بی جی آپ ٹھیک تو ہیں ” ملازمہ پریشان ہوئی
” مم۔۔۔۔۔میں ٹھیک ہوں ”
” آپ۔۔۔۔۔ آپ گھر چلیں ”
” نہیں۔۔۔۔۔ مجھے شہر جانا ہے ”
” پر بی بی جی آپ کیسے؟؟؟ ”
” میں نے کہا نا میں نے ہاسپٹل جانا ہے” وہ چیخی آنسو تواتر سے اس کے گالوں پہ گرنے لگے
ملازمہ اسے بہلا کے گھر لے کے گئی پھپو نے اسے دیکھا تو پریشان ہو گئی
” کیا ہو گیا میری بچی کیوں رو رہی ہے” رو رو کے اس کا برا حال ہو گیا تھا
” میں نے ان کے پاس جانا ہے پھپو۔۔۔۔۔ ان کی حالت سریس ہے۔۔۔۔۔”
پھپو نے ملازمہ سے پوچھا تو اس نے ساری بات بتادی
” اوہ میرے خدایا میرا بچہ”
” چپ ہو جا میری بچی۔۔۔۔۔ اسے کچھ نہیں ہوگا ہم۔۔۔۔۔ہم جائیں گے ”
پھپو اسے تسلی دینے لگیں
————-
انہوں نے ملازمہ سے ہوسپٹل کا پتا معلوم کروایا اور جانے کی تیاری کی پریشے نے پھپو کو جانے سے منع کردیا کہ ان کی طبیعت ویسے ہی بہت خراب رہتی تھی
” میں آپ کو فون پہ صورتحال بتاتی رہوں گی آپ کی طبیعت ویسے ہی ٹھیک نہیں رہتی” پریشے نے پھپو کو سمجگیا اور ہسپتال چلی آئی وہ وہاں پہنچی
زوار کی گاڑی ٹرک سے ٹکرائی تھی ہاتھ پاؤں میں فریکچر ہواتھا اورکمر میں گہری چوٹ آئی تھی ٹرک سے ٹکر پہ وہ گاڑسے نکل کے باہر گرا تھا اور سر بری طرح کسی بڑے پتھر سے ٹکرایا تھا جس کی وجہ سے سر میں بھی گہری چوٹ آئی تھی اور اس کی حالت تشویش ناک بتائی جا رہی تھی
ملک وجاہت اپنے جوان بیٹے کی ایسی حالت دیکھ کے بالکل ڈھے گئے تھے وہ چلتی ہوئی ان کے پاس آئی
” بابا سائیں۔۔۔۔۔آپ دعا کریں اللٰہ سے ان کو کچھ نہیں ہو گا” وہ ان تسلی دینے لگی انہوں نے سر اٹھا کے اسے دیکھا تھوڑی دیر بعد وہ ان کے کھانے کے لیے کچھ لے آئی
” بابا سائیں کچھ کھا لیں ایسے تو آپ اپنے بیٹے کا دھیان نہیں رکھ پائیں گے ” وہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد ان سے آکے پوچھتی ان کا دل پریشے کی طرف سے نرم ہونے لگا تھا
شام میں زوار کا آپریشن ہونا تھا وہ کط سے اس کے لیے دعائیں کررہی تھی رو رہی تھی اللٰہ کے سامنے گڑگڑا رہی تھی تھوڑی دیر بعد ڈاکٹر آپریشن تھیٹر سے باہر آئے ملک وجاہت آگے بڑھے پرشے بھی چلی آئی
” ڈاکٹر صاحب ہمارا بیٹا کیسا ہے؟؟؟”
” ملک صاحب۔۔۔۔۔ ملک زوار کے سر کا زخم ٹھیک نہیں ہے ہم نے اپنی پوری کوشش کرلی ہے پر۔۔۔۔۔ کوئی خاص فائدہ نہیں ہے اگر اس کا علاج جلد سے جلد نہ ہوا تو ان کی جان بھی جا سکتی ہے” ڈاکٹر کہہ کر چلا گیا پریشے نے ایک دم اپنے منہ پہ ہاتھ رکھ لیا ملک وجاہت وہاں پڑی چئیر پہ ڈھے گئے۔

بینا خان

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
بینا خان کے ناول اب میرے ہو کے رہو سے…