رکھتی ہے دل میں خود ہی غزل پھول بن کے پاوں
دل کی زمیں پہ پڑتے. ہیں جب اہل فن کے پاوں
مٹی کا تھا خمیر سو مٹی میں مل گئے
وہ لوگ جو زمین پہ رکھتے تھے تن کے پاوں
ممکن ہے اسکے تلوں میں پڑ جایی آبلے
پھولوں پہ پڑ گئے جو کسی گل بدن کے پاوں
گھر مسکرا رہا ہے بہاریں ہیں نور ہے
رحمت ہی لیکے آتے ہیں گھر میں دلہن کے پاوں
پھولوں میں اضطراب ہے کلیوں میں رشک ہے
گلشن میں پڑنے والے ہیں اک سیم تن کے پاوں
کس درجہ سر بلند ہے یہ دیکھئے مگر
یہ بھی تو دیکھئے ہیں کہاں بت شکن کے پاوں
وہ دل کہ جس میں بغض و عداوت کا میل ہے
پڑتے نہیں ہیں اس پہ کبھی اعلیٰ فن کے پاوں
توفیق رب ہے اور دعاؤں کا فیض ہے
پہونچے ہیں جس جگہ پہ سخن میں حسن کے پاوں
حسن فتحپوری