- Advertisement -

رئیس اعظم

کہانی از عصمت چغتائی

ہماری ایک نانی اماں تھیں۔ ویسے نانی اماں تو ہر ایک کی ہوا کرتی ہیں مگر ہماری نانی اماں کا تو بس جواب نہ تھا۔ گھر میں نوکروں کی ریل پیل تھی۔ ہِل کے پانی پینے کی بھی ضرورت نہ تھی اور نانی اماں پانی تو بہت پیتی تھیں مگر ہلنے جلنے سے انہیں انتہائی نفرت تھی۔ وہ عموماً برآمدے میں رہا کرتی تھیں۔ نانیاں عموماًبرآمدوں ہی میں رہنا پسند کرتی ہیں تاکہ آسانی سے کمروں پر بھی نظر رکھ سکیں اور صحن پہ بھی۔ کسی ہوئی نواڑ کی پلنگڑی پر بیٹھی ہوئی وہ تمام نوکروں اور بچوں کی نگہبانی کیا کرتیں۔ ان کی آواز بڑی پاٹ دار تھی کوئی ذرا بھی خلاف قاعدہ بات کرتا تو وہ انتہائی دبنگ آواز میں ڈپٹنے لگتیں۔
"کیوں رے خدائی خوار پھر وہی لچّا پن۔”
پھر اس کے اماں ابا کی طلبی ہوتی۔ جی بھر کے ان کی ٹانگ گھسیٹی جاتی۔ باری باری دونوں کو مجرم ٹھہرایاجاتا۔
غریب ماں باپ اپنی قسمت کے سر الزام تھوپ دیتے۔ یہ سلسلہ اس وقت تک چلتا رہا رہتا جب تک دوسرا مجرم ہاتھ نہ آجاتا اور نانی اماں اس کی مرمت کرنے لگتیں۔

جب کافی بچوں، نوکروں اور ان کے رشتہ داروں کو ڈانٹ چکتیں تو ایک دم تھک کر سو جاتیں اور اتنے خوفناک خراٹے لیتیں کہ درودیوار لرزنے لگتے۔ پھر اچانک آنکھ کھل جاتی اور وہ پ ہلے سے زیادہ چڑچڑی ہوجاتیں۔
ان کی سخت گیری کی وجہ سے ان کا گھر آئینہ کی طرح چمکتا رہتا۔ نوکر نہایت قاعدے کے اور بچے بے حد مہذب اور خاموش طبیعت کے تھے۔ ان کا کتا تک بڑے ہولے سے کبھی جاگ جاتا تو بھونک دیتا۔ ورنہ جیسے ہی نانی اماں کی آنکھ لگتی وہ بھی اونگھ جاتا۔ لوگوں کا کہنا تتھا کہ ان کی مرغیاں اور کبوتر بھی بڑے خاموش طبیعت اور مسکین تھے۔

نانی اماں کے ہاں جتنا سگھڑ اپا اور نفاست تھی اس کے بالکل الٹ ہمارے ہاں اتننا ہی اودھم اور لاابالی پن چھایارہتا تھا۔ اماں کی آواز نانامیاں مرحوم کی طرح نہایت سوئی ہوئی تھی۔ نانی اماں کی پالی ہوئی تھیں، کبھی کسی پر دھونس جمانے میں کامیاب نہ ہوپائیں۔ نہ ان کے نوکر ان کے قابو میں نہ ان کے بچے ان کے بس میں۔ جہاں کے انسان شتر بے مہار ہوں وہاں جانور بھی بدتمیز اور خود سر ہوجاتے ہیں۔ نوکر بیٹھے ہنسی ٹھٹول کیاکرتے، بچے گھمسان مچائے رکھتے اور جانور من مانی کیا کرتے۔

جمعہ کے روز بچوں کو نانی کے سلام کے لئے ان کے ہاں جانا لازمی تھا۔ اس دن اماں ہلکان ہوجاتیں۔ صبح سے بچے مانجھ دھوکر چمکائے جاتے۔ لڑکوں کو اچکن کی ٹوپیاں پہنائی جاتی اور لڑکیوں کی کس کس کے چوٹیاں باندھی جاتیں۔ پھر طرح طرح کی دھمکیاں اوررشوتیں دے کر انہیں بھیجا جاتا۔ نانی اماں کے برآمدے میں پہنچ کر سب باری باری سلام کرتے، مانی ایک ایک کو قریب بلاکر سختی سے معائنہ کرتیں۔ کسی کا بٹن تو نہیں ٹوٹا ہے۔ کانوں کے پیچھے میل کی پٹریاں تو نہیں، ناخن بڑھے ہوئے تو نہیں۔

ہر جمعہ نانی اماں سب کا نام پوچھتیں اور بھول جاتیں، پھر دوسرے جمعہ کو ن ئے سرے سے پوچھتیں۔ اگر کوئی بھی بات خلاف مرضی ہوجاتی تو نانی اماں اس کی کھنچائی شروع کردیتیں۔ سلامی اور معائمہ کے بعد نہایت سلیقہ مند نوکرانیاں سینی میں مٹھائی، دالموٹ اور پھل لے کر آتیں اور نانی اماں اپنے ہاتھ سے سب کو بانٹتیں۔ اگر ایک بھورا بھی کسی سے قالین پر گر جاتا تو قیامت آجاتی۔ فوراً نوکرانیوں کی فوج جھاڑن برش لے کر دوڑی آتی۔ اتنی لے دے مچتی کہ مہمان حواس باختہ ہوکر اور گراتے۔ لڈو ہاتھ سے چھوٹ کر ریزہ ریزہ ہوجاتے۔ انہیں سمیٹنے کی کوشش میں جوتوں سے مسل کر قالین پر پلاسٹر ہوجاتا اور نانی اماں کو دل کا دورہ پڑنے لگتا اور سب وہاں سے لشتم پشتم واپس آجاتے۔

خاصی مزے دار چیزیں کھانے کو ملتیں مگر سر پر ایسی تلوار سی لٹکی رہتی کہ بالکل پتہ نہ چلتا کہ کیا کھارہے ہیں۔ سارا وقت تو احتیاط کرتے گزر جاتا۔مزہ لینے کی مہلت ہی کب ملتی تھی۔ نانی اماں کا سارا خاندان لحاظ کرتا تھا۔ ایک تو اس لئے کہ وہ واقعی سب کی بزرگ تھیں۔ دوسرے نانامیاں مرتے وقت ساری جائداد ان کے نام کر گئے تھے اور وہی سب سیاہ و سفید کی مالک تھیں۔ ان سے کوئی بگاڑ نہیں کرنا چاہتا تھا۔ جب بھی کسی نے چوں چرا کی اور نانی اماں نے دھمکی دی کہ ساری اللہ نام پہ دے دیں گی۔

جائیداد واقعی بہت تھی اور نانی اماں کا فی عمر کو پہنچ گئی تھیں۔ لوگوں کا خیال تھا کہ بس اب آنکھوں کی سوئیاں رہ گئی ہیں اور اب کا جاڑا، برسات یا گرمی نہیں جھیل پائیں گی۔ مگر نانی اماں کتنے سال سے جڑا، گرمی ، برسات مزے سے جھیل رہی تھیں اور قطعی اللہ کو پیاری ہونے کا پروگرام نہ تھا۔ وہ اب بانوے کی تھیں اور آپریشن کے بعد اچھی طرح دیکھنے بھی لگی تھیں۔ ان کے طور طریق دیکھ کر یقین ہوجاتا تھا کہ اتنے ہی سال اور کھینچ جائیں گی۔ ان کے بیٹے بیٹیاں بوڑھے ہورہے تھے۔ کئی تو ان کے ہم عمر لگنے لگے تھے۔ پوتے نواسے خود نانا بنتے جارہے تھے۔ امید پہ دنیا قائم ہے۔ سب اسی لئے ان کی دل جوئی کیاکرتے تھے بلکہ ان کی خاطر مدارات میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کیا کرتے تھے۔ کچھ ایسے بھی تھے جنہوں نے ایک دوسرے کی کاٹ کرنے کے لئے نانی اماں کو بھڑکایا۔ مگر وہ بجائے کھنچنے کے اسی کی طرف جھک جاتیں جس کی ان سے برائی کی جاتی۔ وہ سمجھتی تھیں برائی کی ذمہ داروہ خود ہیں ان کی بے توجہی اور لاپرواہی کی وجہ سے یہ عیب پیدا ہوا ہے ، اور جب وہ کسی کی پرواہ کرنا شروع کرتیں تو ان پر جنون سا طاری ہوجاتا۔ بس پیچھے پڑ جاتیں اس کے۔ راہ راست پر لانے کے لئے وہ پہلے تو وایلا مچاتیں، کوستیں، گالیاں دیتیں۔پھر رشوت سے کام نکالتیں۔ اس طرح بجائے نقصان کے عموماًمجرم کا فائدہ ہوجاتا۔ اس نے قصور نہ بھی کیا ہوتا تو سر جھکاکر رونی صورت بناکر معافی مانگ لیتا۔

تب تو لوگوں کو ترکیب سوجھ گئی۔ باقاعدہ سازش کرکے لوگ ضرورت مند کی برائی کرتے اور نانی اماں چکمہ میں آکر واویلا شروع کردیتیں۔ مثلاً جب ماموں کو ولایت جانے کے لئے روپے کی ضرورت ہوئی تو نانی اماں نے قطعی انکار کردیا۔ سات سمندر پار ہوئے فرنگیوں کے دیس میں وہ ہرگز اپنے دل کے ٹکڑے کو نہیں بھیجیں گی۔ بہت منت سماجت کی ،سمجھایا مگرٹس سے مس نہ ہوئیں۔ پھر کسی کو ترکیب سوجھی چچا جان نے ایک دن نہایت رونی صورت بناکر بڑی راز داری کے انداز میں کہا:
"پھپو سلیم میاں تو ہاتھ سے گئے۔”
"خیر تو ہے بیٹا کیا ہوا۔ کیا گھوڑے پر سے گر پڑا؟”
نانی اماں ماتم کرنے لگیں۔
"کاش گھوڑے پر سے گر جاتا اور اس کی مٹی عزیز ہوجاتی۔”
"ہے ہے تو پھر کیا ہوا؟”
"کیا بتاؤں پھپو، بس جی چاہتا ہے سنکھیا کھاکے سورہوں۔” چچا جان نے خیالی میں آنسو پونچھے۔
"اے لڑکے کچھ مونہہ سے تو پھوٹ کہ بس۔” بڑی منتوں سماجتوں کے بعد کہا کہ سلیم میاں ایک کرسٹانی سے بیاہ کررہے ہیں۔”

"اے تو کیا ہوا کرسٹان تو اہل کتاب ہوتے ہیں ان میں شادی جائز ہے۔”
چچا میاں پر اوس پڑ گئی مگر فوراً بات پلٹ دی۔ "مگر وہ تو شادی شدہ ہے !” چچا میاں نے اڑائی۔
"ہے ہے !”‘ نانی اماں نے چھاتی کوٹ لی۔
” اس کا میاں سلیم کی گردن کاٹنے کو پھررہا ہے۔”اب تو نانی اماں واقعی چونک پڑیں۔
"ہے کون وہ کلمونہی؟”
"کلمونہی نہیں پھپّو گوری بھک ہے۔”
"کسی گورے کی بیوی ہے؟”
"ہاں کپتان ہے، غصہ تو اس کی ناک پر دھرا رہتا ہے۔ جب سے سنا ہے بس پستول تانے گھوم رہا ہے۔”

نانی اماں نے جلدی سے ایک کٹورا ٹھنڈا پانی پیا۔ اور پسینے چھوٹنے لگے۔”اے پروردگار، یا مولی مشکل کشا اب کیا ہوگا۔” بڑی غوروخوض کے بعد چچا میاں نے گھماپھراکر رائے دی کہ سلیم میاں کی جان بچانا چاہتی ہو تو اسے یہاں سے چلتا کرو۔ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔”
نانی اماں نے بہت سمجھایا مگر چچا جان نے سلیم میاں کو پہلے سے پٹی پڑھادی تھی، وہ ولایت جانے پر کسی طرح راضی ہی نہ ہوتے تھے۔
بڑی مشکل سے نانی اماں نے اپنی جان کی قسم دی ، پورے خاندان کو گھسیٹ ڈالا اور سلیم میاں کو ولایت بھیج کرہی دم لیا۔

یہ میں بہت برس کی بات کہہ رہی ہوں۔ اب تو نانی اماں کے دالان میں ہر طرف چمڑے کی کترنیں بکھری رہتی ہیں، اور دھڑا دھڑ رانپی اور ہتھوڑی کی آوازیں گونجا کرتی ہیں۔ مرغیوں نے سب کیاریاں کھود ڈالی ہیں۔ اور نانی اماں کے مٹھن کتے کے مرنے کے بعد سے گلی کے کتوں نے گھر کو کتا کلب بناڈالا ہے۔ نوکر چاکر سب اسی وقت تتّر بتّر ہوگئے تھے جب ایک دن نانی اماں مہترانی پر ڈانٹ پھٹکار کرتے کرتے ایک دن اونگھ گئیں۔
اور پھر خراٹوں سے گھر کی بنیادیں نہیں لرزیں تب سب نے ڈرتے ڈرتے انہیں مغرب کی نماز کے لئے اٹھانا چاہا تو وہ ہمیشہ کے لئے سو چکی تھیں۔

اور نانی اماں کا بڑا سالو ہے کا سیف کھولا گیا تو اس میں سے ایک عدد ٹوٹا ہوا چاندی کا لچھا اور مکان بیچے جانے کے کاغذات نکلے۔ نانی اماں تو کوڑی کوڑی کو محتاج تھیں، جن بیٹوں بیٹیوں کو وہ جدائید اد سے محروم کرنے کی دھمکیاں دیتی تھیں وہ حساب میں الٹ پھیر کرکے انہیں دولت مند بنائے ہوئے تھے۔ سلیم میاں کو تو سرکار سے وظیفہ ملا تھا۔ مگر سب نے یہ جتایا کہ وہ خرچ برداشت کررہی ہیں۔ نانا میاں انہیں کنگال چھوڑ گئے تھے مگر ان کے بچوں نے یہ بات کبھی ان پر ظاہر نہ ہونے دی۔
جب تک نانی اماں جیتی رہیں یہی سمجھتی رہیں وہی ہمارے گھر کی پالن ہار ہیں۔ اسی لئے تو ان کی آواز میں طوفان کی سی کڑک تھی۔

واقعی وہ رئیس اعظم تھیں۔۔ ان کی دولت ان کی پیار کرنے والی اولاد تھی۔

عصمت چغتائی
ماخوذ از رسالہ: ماہنامہ "کھلونا” (دہلی) ، سالنامہ فروری 1973ء

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
شیخ خالد زاہد کا اردو کالم