دھوپ اور میں
یہاں دیر سے
یونہی چُپ
اوندھے لیٹے ہوئے
کہ اچانک ہوا اپنے ہاتھوں پہ
لائی ہے مانوس دستک
مہکتا ہوا دھیما لہجہ
بس اِک آن میں کھل اُٹھے
پھول سے خواب
خالی نگاہوں میں
اُترے ہیں رنگین منظر
کھنکتی ہوئی
ایک مدھم ہنسی
دل مرا رقص کرنے لگا
دل مرا رقص کرنے لگا
اور میں نے کہا
آج تو چھو ہی لوں گی
بہت نرم لفظوں میں
بہتے ہوئے ایک احساس کو
میں نے چاہا
بڑھی میں
مگر کچھ نہ تھا
گلناز کوثر