پہلے آواز لگائی ہم نے
پھر ہنسی خوب اڑائی ہم نے
اک اذیت میں بسر کی ہے رات
دیکھ کر قبر پہ کائی ہم نے
شور دیوار گرا سکتا تھا
اس لیے چیخ دبائی ہم نے
بےسبب ہاتھ نہیں کاٹے گئے
تیری تصویر بنائی ہم نے
دوسری کال پہ مصروف ملا
جب کبھی کال ملائی ہم نے
یونہی چوپال میں چھائی وحشت
داستاں کب ہے سنائی ہم نے
نیکی دریا میں نہیں پھینکی ہے
دشت میں آپ گنوائی ہم نے
اس اندھیرے میں اجالے کے لیے
پھر سے شمع ہے جلائی ہم نے
زخم دنیا سے چھپایا ارشاد
خود کو بھی دی نہ رسائی ہم نے
ارشاد نیازی