- Advertisement -

پرواز کے بعد

قرةالعین حیدر کا ایک اردو افسانہ

پرواز کے بعد
جیسے کہیں خواب میں جنجررا جرزیا ڈائنا ڈربن کی آواز میں’’ سان فرینڈ وویلی‘‘ کا نغمہ گایا جارہا ہو اورپھر ایک دم سے آنکھ کھل جائے۔ یعنی وہ کچھ ایسا سا تھا جیسے مائیکل اینجلو نے ایک تصویر کو مکمل کرتے کرتے اُکتا کر یوں ہی چھوڑ دیا ہو اور خود کسی زیادہ دلچسپ موڈل کی طرف متوجہ ہوگیا ہو، لیکن پھر بھی اس کی سنجیدہ سی ہنسی کہہ رہی تھی کہ بھئی میں ایسا ہوں کہ دنیا کے سارے مصور اور سارے سنگ تراش اپنی پوری کوشش کے باوجود مجھ جیسا شاہکار نہیں بنا سکتے۔ چپکے چپکے مسکرائے جاؤ بے وقوفو! شاید تمہیں بعد میں افسوس کرنا پڑے۔ گرمی زیادہ ہوتی جارہی تھی۔ پام کے پتوں پر جو مالی نے اوپر سے پانی گرایا تھا تو گرد کہیں کہیں سے دھل گئی تھی اور کہیں کہیں اسی طرح باقی تھی۔ اور بھیگتی ہوئی رات کوشش کر رہی تھی کہ کچھ رومینٹک سی بن جائے۔ وہ برفیلی لڑکی‘ جو ہمیشہ سفید غرارے اور سفید دو پٹے میں اپنے آپ کو سب سے بلند اور الگ سا محسوس کروانے پر مجبور کرتی تھی‘ بہت خاموشی سے ہکسلے کی ایک کتاب ’’ پوائنٹ کاؤنٹر پوائنٹ‘‘ پڑھے جارہی تھی جس کے ایک لفظ کا مطلب بھی اس کی سمجھ میں نہ ٹھنس سکا تھا۔ وہ لیمپ کی سفید روشنی میں اتنی زرد اور غمگین نظر آرہی تھی جیسے اس کے برگنڈی کیوٹکس کی ساری شیشیاں فرش پر گر کے ٹوٹ گئی ہوں یا اس کے فیڈو کو سخت زکام ہوگیا ہو___ اور لگ رہا تھا جیسے ایک چھوٹے سے گلیشیر پر آفتاب کی کرنیں بکھر رہی ہیں۔ چنانچہ اس دوسری آتشیں لڑکی نے، جو سینئر بی۔ ایس۔ سی کی طالب علم ہونے کی وجہ سے زیادہ پریکٹیکل تھی اور جو اس وقت برآمدے کے سبز جنگلے پر بیٹھی گملے میں سے ایک شاخ توڑ کر اس کی کمپاؤنڈ اور ڈبل کمپاؤنڈ پتیوں کے مطالعے میں مصروف تھی، اس برفیلی لڑکی کو یہ رائے دی تھی کہ اگر گرمی زیادہ ہے تو ’’ پوائنٹ کاؤنٹر پوائنٹ‘‘ پڑھنے کے بجائے سو جاؤ یا پھر نئے ریفریجریٹر میں ٹھنس کر بیٹھ جاؤ، اس کا اثر دماغ کے لیے مفید ہوگا۔ لیکن چونکہ یہ تجویز قطعی نا قابلِ عمل تھی اور کوئی دوسرا مشورہ اس سائنس کے طالب علم کے ذہن میں اس وقت نہیں آرہا تھا ۔ اس لیے وہ برفیلی لڑکی رخشندہ سلطانہ اسی طرح ہکسلے سے دماغ لڑاتی رہی۔ اور وہ آتشیں لڑکی شاہندہ بانو پیر ہلا ہلا کر ایک گیت گانے لگی جو اس نے فرسٹ اسٹینڈرڈ میں سیکھا تھا اور جس کا مطلب تھا کہ جب شاہ جارج کے سرخ لباس والے سپاہیوں کے گھوڑوں کے ٹاپوں کی آواز باز گشت ہماری پرانی اسکاٹسز پہاڑیوں کے سنّاٹے میں ڈوب جائے گی اور اپریل کے مہتاب کا طلائی بجرا موسم بہار کے آسمانوں کی نیلی لہروں میں تیرتا ہوا تمہارے باورچی خانے کی چمنی کے اوپر پہنچ جائے گا اس وقت تم وادی کے نشیب میں میرے گھوڑے کے ہنہنانے کی آواز سنو گی۔ اے سرائے کے مالک کی سیاہ آنکھوں اور سرخ لبوں والی بیٹی! لیکن رات خاصی گرم ہوتی جارہی تھی اور ماہم کا ایک کونہ ، جو سمندر میں دور تک نکلا چلا گیا تھا، اس پر ناریل کے جھنڈ کے پیچھے سے چاند طلوع ہو رہا تھا۔ اور دور ایک جزیرے پر ایستادہ پرانے کیتھیڈرل میں گھنٹے کی گونج اور دعائے نیم شبی کی لہریں لرزاں تھیں۔ اور اس وقت مائیکل اینجلو کے ادھورے سے شاہکار جم کو ایک بڑی عجیب سی ناقابلِ تشریح کوفت اورالجھن سی محسوس ہو رہی تھی جس کا تجزیہ وہ کسی طرح بھی نہ کرسکتا تھا___ حالانکہ وہ مطمئن تھا کہ ایسے حادثے وہاں تقریباً روز شام کو ہوجاتے ہیں___ پھر بھی وہ یک لخت بہت پریشان سا ہوگیا تھا۔ کیونکہ آج دوپہر اس کو بہت تلخی سے یہ احساس ہوا تھا کہ وہ مغرور‘ پھولے پھولے بالوں والی برفیلی سی لڑکی، جوہر وقت اپنے مجسموں پر جھکی رہتی ہے، اوروں سے کس قدر زیادہ مختلف ہے۔ جب اس نے اس چھوٹے سے قدوالی لڑکی سے، جس کی چھوٹی سی ناک پر بے اختیار پیار آجاتا تھا اورجسے وہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد احتیاط سے پاؤڈر کر لیتی تھی اور جس کی بڑے سے گھیر کی زرد ٹوپی پر گہرے سبز شنائل کی ٹہنیوں سیبندھے ہوئے چیری کے مصنوعی شگوفے سج رہے تھے، بے حد اخلاق کے لہجے میں پوچھا تھا کہ میرے ساتھ شام کو کھانا کھانے چلو گی تو اس نے جواب دیا تھا: ’’ ہاں چلو۔‘‘ اور پھر وہ اس کے ساتھ ہلکے پھلکے قدموں سے زینہ طے کر نیچے سڑک پر آگئی تھی۔ اور بس اسٹینڈ کی طرف بڑھتے ہوئے اس چھوٹی سی لڑکی نے جس کی طرح کی لڑکیاں اپالو بندر یا کناٹ پلیس میں تیزی سے اِدھر اُدھر جاتی نظر آتی ہیں، اس سے پوچھا تھا: ’’ تم نے اسکول کب سے جوائن کیا ہے؟‘‘ ’’ ابھی ایک ٹرم بھی پوری نہیں ہوئی۔‘‘ اور نام کیا ہے تمہارا؟‘‘ ’’ مگ ___ میگڈیلین ڈی کوڈرا۔‘‘ ’’ اور تمہارا ؟‘‘ ’’ جم ___ جمال ___ جمال انور___ جو تم پسند کرو۔‘‘ اور پھر وہ دونوں بس اسٹیشن کے مجمع میں رل مل گئے تھے۔ اوران کے جانے کے بعد برفیلی لڑکی اپنے بال پیچھے کو سمیٹ کر اپنے دن بھر کے کام کو غور سے دیکھتی ہوئی اپنی کار کے انتظارمیں کلاس روم کی کھڑکی میں آکر کھڑی ہوگئی۔ اور وہ پیاری سی ناک والی مگ روز، شام کی طرح، خدا وند خدا کی کنواری ماں کی تصویر کے آگے شمع روشن کرتے ہوئے سوچ رہی تھی کہ مجسموںمیں اگر احساس زندگی پیدا ہوجائے تو بڑی مصیبت ہوتی ہے۔ اور پھر بھلا نتائج پرکون غور کرتا پھرے۔ طوفانی لہروں کا ایک ریلا جو ساحلوں سے ٹکراتا پھر رہا تھا سیاہ آنکھوں والا فن کار کی گرم سانسوں نے اس سرد اور بے روح مجسمے میں جان ڈال دی تھی۔ گلیشیا کی طرح___ لیکن یہ بہت پرانی بات تھی۔ کاش کارل مسل ٹوکے نیچے اس سے کبھی نہ ملتا۔ بیگ، جس نے اپنی عمران سرد مجسموں کی معیت میں گزار دی تھی جو اس کے چھوٹے سے قصبے کی خانقاہ کے بھورے پتھروں والے اندھیرے ہال اور دوسرے کمروں میں پھیلے پڑے تھے۔ برسوں سے ایک ہی طرح سینٹ اگنس، سینٹ فرانسس اور سینٹ جارج___ زندگی منجمد پتھروں کا ایک ڈھیر تھی اور پیدا ہونے کے جرم کی پاداش‘ Ave Maria کی خوابیدہ موسیقی کی کتاب کا نیلا ربن___ پر بہت پرانی بات تھی یہ۔ پھر اس کی آنکھیں نیوریلجیا کے شدید درد سے بند ہونے لگیں اور وہ اپنے ننھے سے سفید پلنگ پر گر گئی۔ کارل اور اس کا گتار، کارل کی رابرٹ ٹیلر جیسی ناک جس پر ایک شام روشن ایرانی نے غصے میں آکرایک مکہ رسید کیا تھا۔ روشن ایرانی اور اعظم مسعود اور آفتاب، جم کے وہ تین بوہیمین قسم کے دوست جو دن بھر برٹش نیوز ایجنسی میں کام کرنے کے بعد شام کو پیانوبجا بجا کر شور مچایا کرتے تھے۔ پھر گیٹ وے آف انڈیا کی محرابوں کے وہ اندھیرے سائے، وہ ہسپانوی سرینیڈ۔ کلاس میں وہ برفیلی لڑکی ایک آدھ بار بے پرواہی سے نظر اٹھا کر اُسے دیکھتی اور پھر بڑی مصروفیت سے مجسمے پر جھک کر اس کے پیر تراشنے لگتی اور مائیکل اینجلو کے شاہکار کے اووے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ بکھر کے رہ جاتی۔ اور مئی کی بہت سی راتیں اسی طرح گزر گئیں۔ بولیوار کے درختوں کے سائے میں، کھلے آسمان اور چمکتے ستاروں کے نیچے ، موسم گرما کا جشن منانے والے رخشندہ کو وہ سارے پرانے گیت یاد دلائے دے رہے تھے جن کی دھنیں سنتے ہی اس کا دل ڈوب سا جاتا تھا۔ ٹارا لارا___ ٹارا لارا جون پیل ___ روزماری___ گڈ نائٹ مائی لو___ مرایا ایلینیا ___ چاندنی میں ڈوبے ہوئے سمندری ریت کے ٹھنڈے ٹیلوں پر سے دوسرے ساتھیوں کے گیتوں کی آوازیں آرہی تھیں۔ ریت پر ٹہلتے ٹہلتے تھک کر رخشندہ کہنے لگی: ’’برج ماتا کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ ہم سب ایک دوسرے کو غمگین بنائے بغیر زندگی گزار سکیں اور سارے کام ہمیشہ ٹھیک ٹھیک ہوا کریں۔ دنیا کے یہ عقل مند لوگ___‘‘ رات خاموش ہوتی جارہی تھی۔ برج کو اس سمے خیال آیا کہ اس نے ایک فلم میں، شاید ’’بلڈ اینڈ سینڈ‘‘ میں، ایک بے حد پیارا جملہ سنا تھا جو اس کو اب تک یاد تھا: "Madam, walking along in life with you has been a gracious time” رخشندہ اس کے ساتھ آہستہ آسہتہ چل رہی تھی اور ان کے قدموں کے نشان ریت پر ان کے پیچھے پیچھے بنتے جارہے تھے اور بحیرۂ عرب کی نیلی نیلی ٹھنڈی موجیں ان کی جانب بڑھ رہی تھیں۔ رخشندہ رانی ، چاند ہنس رہا ہے، تم بھی مسکرا دو___ اوہ انکل ٹوبی___ تم اتنے اچھے سے ہو۔ میں سچ مچ بے انتہا بے وقوف ہوگئی ہوں۔ کیونکہ اس نے سنا تھا کہ اس کا ہونے والا منگیتر بمبئی اسکول آف اکنومکس سے ڈگری لینے کے بعد گھر واپس جانے کے بجائے یہاں صرف اس لیے رہتا ہے کیونکہ یہاں اس کی ایک کیپ موجود ہے اور وہ ڈرنک بھی کرتا ہے۔ اور موسم گرما کی چاندنی راتوں میں اپنے بوہیمین دوستوں کے ساتھ اپنی سرخ گرجتی ہوئی کار میں ورسووا اور جو ہو کی سڑکوں پر مارا مارا پھرتا ہے___ اور آتشیں لڑکی نے چلا کر کہا تھا: اوہ تم کیسی پاگل ہو۔ اوہ خدا___ اوہ خدا___ وہ کیسے دن تھے___ وہ کیا زمانہ تھا۔ انیس بیس سے لے کر چوبیس پچیس سال تک کی وہ عمریں___ ذرا ذرا سی بات، معمولی سے واقعات، جذبات کی لہریں، بڑی زبردست ٹریجڈی یا کامیڈی یا میلو ڈراما معلوم ہوتی تھیں۔ وہ چاروں دوست ایک دوسرے کے خیالات و افکار، دکھ سکھ اور محبتوںکے شریک۔ مہینے کے آخر میں رومن رولاں یا شا کی کتابیں خریدنے کے لیے اپنا فاؤنٹین پن بیچنے کو تیار۔ مگ کی حفاظت اور عزت کی خاطر کارل کی دل کش ناک پر مکہ رسید کرنے کو مستعد۔ شام کو مادرِ مقدس کی تصویر کے سامنے شمع جلانے کے بعد مگ ان کے لیے چاء تیار کرتی۔ ان کے اوربہت سے دوست آتے اور وہ سب دیوان پر‘ صوفے پر‘ قالینوں پر بیٹھ کر مصری تمباکو کا دھواں اڑاتے ہوئے جانے کیا کیا باتیں کرتے رہتے___ لمبی لمبی بحثیں اور تنقیدیں جن کو وہ بالکل نہ سمجھ سکتی۔ آسکر وائلڈ کی زندگی ، ڈی۔ ایچ۔ لارنس، لیگی وزارتوں کی چپقلش، ریڈاسٹار اور رشیا، بنگال، خدا اور مذہب___ اور اکثر وہ جوش میں آکر ایسی ایسی باتیں کہہ جاتے کہ وہ خوف سے لرز اٹھتی اور مریم کی طرف عفو طلب نگاہیں اٹھا دیتی۔ پھر کوئی چیز ان کی مرضی کے خلاف ہوجاتی تو وہ اسے ڈانٹ دیتے تھے۔ مہینہ ختم ہونے سے بہت پہلے اگر پٹرول کے کوپن تمام ہوجائے یا بار بار ری ٹیچنگ کرنے پر بھی کوئی تصویر درست نہ ہوسکتی یا فلیٹ کا کرایہ ادا کرنے سے قبل ہی پکنکوں اور سنیما کے ٹکٹوں پر سارا روپیہ ختم ہوجاتا تو وہ چاروں فوراً اپنے آپ کو wrecks of life سمجھنے پرمستعد ہوجاتے اوریہ سوچ سوچ کر خوش ہوتے کہ وہ فن کار ہیں اس لیے زندگی کے ان زبردست مصائب میں گرفتار ہیں___ اور مگ کو ان کے بچپن پر پیار آجاتا۔ ___ او میگڈ لین___ او موسم گل کے نیلے پرندو___ بحیرۂ عرب سے اٹھنے والے بھاری بھاری بادل 23 کالج روڈ، ماٹنگا کے اس فلیٹ کی جانب اڑتے چلے آرہے تھے جس کے نیچے ایک سیاہ بیوک آکر رکی۔ اور زینے طے کرنے کے بعد دروازے پر پہنچ کر کسی نے زور سے گھنٹی بجائی اور چمکیلے پتھروں سے سجی ہوئی دو شان دار خواتین اندر آکر صوفے پر اس طرح بیٹھ گئیں گویا ایسا کرنے کا انہیں پورا پورا حق حاصل تھا۔ تین دوست گھبرا کر تعظیماً اٹھ کھڑے ہوئے۔ اور پھرکمرے میں ایک عجیب حساس سی خاموشی طاری ہوگئی۔ کھڑکیوں کے باہر بادل آہستہ آہستہ گرج رہے تھے۔ ’’آپ جمال انور احمد کے دوست ہیں نا؟‘‘ اس خاتون نے ، جس کے اونچے اونچے ہالی ووڈ اسٹائل کے بال تھے، ساری کے آنچل کو بازو پر لپیٹتے ہوئے گہری آواز میں پوچھا۔ وہی ڈرامہ شروع ہونے والا تھا جو ایسے موقعوں پر آج تک ہزاروں مرتبہ کھیلا جاچکا ہے۔ ’’ وہ عورت کون ہے جس کے ساتھ وہ یہاں رہتا ہے ؟ ‘‘ دوسری‘ زیادہ فربہ خاتون نے سوال کیا۔ عورت ___ انہوں نے مگ کو ایک پیاری سی، معصوم سی، رنگین تصویر کے سوائے اور کسی زاویۂ نظر سے کبھی دیکھا ہی نہیں تھا۔ عورت___ اس کے لیے بڑا بھونڈا لفظ تھا ___ وہ تو یاسمین کی کلیوں کا خواب تھی۔ بس وہ سوچنے لگے کہ ان شہزادیوں جیسی عالی شان خواتین سے کن الفاظ میں اور کس طریقے سے بات کریں۔ پہلی کم عمر خاتون نے یہ خیال کر کے کہ شاید یہ جرنلسٹ اور فن کار ضرورت سے زیادہ حساس ہوتے ہیں ذرا نرمی سے پوچھا۔ ’’ میرا مطلب ہے کہ وہ خاتون کون ہیں اور یہاں کب سے…‘‘ مگ کے لیے ’’خاتون‘‘ کا لفظ بھی بڑا عجیب سا معلوم ہوا۔ مگ توبس مگ تھی۔ یاسمین کی ایک بڑی سی کلی۔ ’’ آپ انہیں جانتے ہیں؟ ‘‘ ’’ جی ہاں‘ بہت اچھی طرح سے ۔‘‘ ’’ معلوم ہوا ہے کہ ایک مس میگڈلین ڈی کورڈا___‘‘ ’’ جی___ جی ہاں درست بالکل___ جی___ ‘‘ وہ تینوں ایک دم پھر پریشان ہوگئے۔ معاف فرمائیے گا یہ___ یہ ہم کو نہیں معلوم ۔‘‘ ’’ خوب ___ اور انہیں آپ اچھی طرح سے جانتے ہیں۔‘‘ ’’ کیا یہ لڑکی کسی باعزت طبقے سے تعلق رکھتی ہے۔‘‘ دوسری خاتون نے بزرگانہ بلندی سے کہا۔ باعزت طبقہ___ مگ کے متعلق یہ ایک نیا انکشاف تھا جو پہلے ان کے دماغ میں کبھی نہ آیا تھا۔ ان تینوںمیں سے ایک چپکے سے دیوان پر سے اٹھ کر پچھلے دروازے سے باہر نکل گیا۔ ’’باعزت___ ار___ دیکھیے اس لفظ کو مختلف معنوںمیں لیا جاسکتا ہے ___ خصوصاً اس شہر کی سوسائٹی میں___ یعنی کہ ___ ار___ ‘‘ اعظم مسعود سینٹ زیویر میں لاجک کا بہت اچھا طالب علم رہ چکا تھا۔ دل میں اس نے کہا کہ کم بخت جم کا بچہ خود تو غائب ہوگیا اورہم اس مصیبت میں پھنس گئے۔ آنے دو گدھے کو۔ زینے کی طرف کا دروازہ آہستہ سے کھلا اور وہ اندر آئی۔ اور اس نے ان معزز مہمانوں کو ایک لحظے کے لیے غور سے دیکھا۔ اور ذرا پیچھے کو ہٹ گئی۔ ’’ آپ مس ڈی کورڈا ہیں؟ میرا مطلب ہے___ معاف کیجئے گا ہم آپ کے گھرمیں اس طرح بلا اجازت اور بغیر اطلاع آگئے لیکن___‘‘ ’’ ماؤموزیل آپ غلطی پر ہیں۔ یہ میرا گھر نہیں ہے۔ میرے پاس فرسٹ فلور پر صرف ایک کمرہ ہے۔ میں ان لوگوں کے لیے چاء اور کھانا تیار کرنے یہاں آئی ہوں۔‘‘ اور ان دونوں اونچی خواتین نے اپنی بلندی پر سے جھک کر دیکھا کہ وہ محض ایک سفید فام باورچن ہے___ یعنی یہ بڑی بڑی آنکھوں والی بھولی سی لڑکی___ اسی کی طرح کی دوسری سفید فام یہودی اور اینگلو انڈین لڑکیوں میں سے ایک___ اُف۔ نفرت کی پوٹ۔ گفتگو بہت طول کھینچ رہی تھی۔ بڑی خاتون نے صوفے پر سے اٹھتے ہوئے کہا: ’’ دیکھو لڑکی___ کیا تم میرے لڑکے کو پسند کرتی ہو؟‘‘ کیسا بے وقوفی کا سوال تھا۔ اس نے سوچا ، بھلا جم کو کون پسند نہیں کرے گا۔ اس نے اپنی بڑی بڑی آنکھیں بے ساختگی سے اوپر اٹھا کر پوچھا: ’’ کیا جم خود آپ کو پسندنہیں؟‘‘ ’’___ اوہ___ لیکن میری بچی جم تو خود میرا اپنا لڑکاہے۔‘‘ کمرے میں پھر وہی عجیب سا سکوت چھا گیا۔ ’’ اور مجھے پتا چلا ہے کہ میرا لڑکا تم سے شادی کرنے کو بھی تیار ہے___ جانتی ہو اس کے کیا معنی ہیں___ اور اس کا نتیجہ کیا ہوگا؟‘‘ اوہ ___ او خدا___ اب تو یہ سب کچھ برداشت سے قطعی باہر تھا___ روشن ایرانی بلّی کی طرح کشن ایک طرف پھینک کر دیوان پر سے کھڑا ہوگیا اور مگ کا ہاتھ پکڑ کر اسے گھسیٹتا ہوا دوسرے کمرے میں چلا گیا۔ جیسے قیمتی چمکیلے پتھروں میں سجی ہوئی ساڑھے تین سو اونچی اونچی باعزت خواتین چاروں طرف سے مگ پر حملہ کرنے والی تھیں۔ ہوا کے زور سے دروازوں کے پٹ بند ہوگئے۔ باہر بارش کے پہلے قطرے کھڑکی کے شیشیوں سے ٹکرا رہے تھے۔ ___ تم خوب صورت تصویریں بنا کر ان میں رنگ بھر دو اور وہ ہمیشہ ان تصویروں کی اصلیت کا یقین کرتی رہے گی۔ تمہارا کام صرف یہی ہے کہ اس سے خوش نما‘ خوش گوار ستاروں کی باتیں کرتے رہو۔ اس کی ماں نے اسے بچپن میں بتایا تھا کہ شیطان کی اتنی لمبی دم ہے، اتنے بڑے سرخ کان ہیں‘ ایسے نوکیلے سینگ ہیں۔ وہ بہت ہی برا ہے اور دنیا جب بہت ہی بری جگہ بن گئی تو ایک طوفان آیا اور نوح‘ جو ایک بہت عمدہ انسان تھا، اپنے باعزت خاندان سمیت بچ رہا___ اور پھر ابراہیم اور سلیمان اور داؤد اورموسیٰ___ جوسب ایک سے ایک اچھے لوگ تھے___ دنیا کو ٹھیک کرنے کے لیے آئے۔ خود خدا کو زمین پر آکر جھیل کی سطح پر چلنا پڑا___ وہ ان سب باتوں پر یقین رکھتی ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے چھوٹے بچے اپنے نرسری کے قصوں اور پیٹرپین اور اسنووائٹ کی کہانیوں کو سچ سمجھتے ہیں۔ لیکن بچّے بڑے ہوجاتے ہیں۔ اور ان کے ہاتھ سے زیتون کی ڈالیاں اور للی کے پھول چھین کر انہیں چپکے سے کانٹوں کا تاج پہنا دیا جاتا ہے اور پھر ساری حقیقت معلوم ہوجاتی ہے۔ تم اس سے وعدہ کرتے ہو کہ آج رات کو سارے چاند ستارے توڑکر اس کے آگے ڈال دو گے۔ لیکن اسی رات کو اولمپس پر رہنے والے خداؤں کی بیویاں اس سے یہ وعدہ بھی چھین لیتی ہیں۔ اور تم ان ٹوٹے ہوئے چاند ستاروں کا سامنا نہیں کرسکتے___ روشن بیٹے ذرا اپنے بلند و مقدس یزداں کو آواز دینا۔ اعظم مسعود نے تھک کر پائپ جلا لیا۔ اور وہ سب خاموش ہوگئے۔ وہ مصور تھے، انگریزی کے عمدہ جرنلسٹ تھے، معاشیات اور ادبیات میں ایم ۔ اے کر چکے تھے، پولکا اور والز خوب کرتے تھے، اور سی۔ سی۔ آئی۔ کے سوئمنگ ٹینک کے کنارے گھنٹوں پڑے رہا کرتے تھے ۔ لیکن میگڈلین اپنا گتار سنبھال کر کارل کے ساتھ اپنی قسمت آزمائی کرنے کہیں اور، کسی دوسرے دیس کو چلی گئی اور وہ اسی طرح دیوار پر پڑے رومن رولاں اورشا کا مطالعہ کرتے رہے۔ ان دونوں نے میٹرو میں نیچے اپنی کرسیوں پر بیٹھ کر مرحوم لیزلی ہاورڈ پر افسوس کرنا شروع ہی کیا تھا کہ برابر کی نشست پر سے کسی نے پوچھا : ’’ مادام! یہ سیٹ ریزرو تونہیں؟ ‘‘ ’’ جی نہیں۔‘‘ رخشندہ نے ادھر دیکھے بغیر جواب دیا اور پھر برج کے ساتھ باتوں میں مصروف ہوگئی۔ نو وارد نے کرسی پر بیٹھ کر سگریٹ جلاتے ہوئے پھر پوچھا: ما دام! دھواں آپ کو ناگوارتو نہیں گزرے گا۔‘‘ ’’ جی نہیں۔‘‘ اب کے سگریٹ لائٹر کی روشنی میں رخشندہ نے اس کی طرف نظر کی اور اسے لگا جیسے سارا میٹرو ڈائنامیٹ سے اڑ کر دور فضاؤں میں لڑھکتا جا رہا ہے۔ اور برج لال کھڑے ہوکر ڈریس سرکل میں جانے کے لیے شاہندہ اور شیاملا کا انتظار کرنے لگا___ ’’ رشی رانی جلدی اٹھو۔‘‘ مجمع زیادہ ہوتا جارہا تھا۔ وہ تیزی سے گینگ وے کو پار کر کے زینے پر چڑھنے لگے۔ وہ شخص اپنی نشست پر بیٹھا دوسری طرف دیکھتا رہا۔ فلم شروع ہوچکا تھا۔ پردے پر برٹش مووی ٹون نیوز کی تصویریں کو ندنے لگیں۔ ’’ اوہ برج ماما جلدی اوپر چڑھیے۔‘‘ رخشندہ کی برفیلی پیشانی پر پانی کے ننھے منے قطرے نہ جانے کہاں سے آگئے۔ برج نے اس کا سفید ہاتھ پکڑ کر اسے سب سے اوپر سیڑھی پرکھینچ لیا اور وہ مجمعے کے ریلے کے ساتھ ایک جھونک سے اس کے اوپر گرسی گئی۔ وہ اندھیرے میں شیاملا اور شاہندہ کے پاس جاکر بیٹھ گئے۔ اس نے اپنا ہاتھ آہستہ سے چھڑایا۔ وہ دیر تک اتنی سی بات کو سوچتی رہی۔ پھر اس کا جی چاہا کہ ایک زبردست زلزلے میں یہ سارا میٹرو ٹوٹ کر گرجائے اور برج اسے اپنے بازوؤں میں اٹھا کر کہیںدور بھاگ جائے___ گرتے پہاڑوں اور ٹوٹتی چٹانوں اور شور مچاتے ہوئے انسانوں سے بچاکر بہت دور___ اور پھر وہ ___ وہ دوسرا شخص___ وہ مائیکل اینجلو کا شاہکار ___ نیچے بیٹھا تھا___ چندمنٹ قبل اس کے بہت نزدیک___ اور پھر دوسری رات کو آتشیں لڑکی نے اسے تاج میں دیکھا اور اس کا جی چاہا کہ ایک تیز آگ میں اسے جلا کر راکھ کر ڈالے، اس کی بکھری ہوئی مسکراہٹ کو، اس کے الجھے الجھے بالوں کو___ وہ اس صوفے پر بیٹھ آئی تھی، اس گیلری میں سے گزری تھی، ان کشنوں کو چھو چکی تھی جن پر وہ اپنے دوستوں کے ساتھ اپنی شامیں گذار چکا تھا۔ جب کہ وہ دوسری برفیلی رخشندہ خاموشی اور سکون سے ہکسلے اور بیورلی نکلسن پڑھتی رہی تھی۔ ’’ مس ڈی کورڈا کیسی ہیں؟‘‘ اس نے پوچھا، حالانکہ اسے معلوم تھا کہ وہ جاچکی ہے۔ ’’ اچھی ہیں۔ شکریہ ! ‘‘ اس نے اسی سکون سے جواب دیا۔ ’’ آپ میرے ساتھ ایک راؤنڈ لیں گی؟‘‘ ’’ آئیے___‘‘ اس نے کہا ۔ کیونکہ وہ ہمیشہ بہت پریکٹیکل رہتی تھی___ اور جمال کو تعجب ہوا کہ وہ آسانی سے اس کے ساتھ فلور پرکیسے آگئی۔ پھر اسے ایسا محسوس ہوا جیسے وہ رمباکی موومنٹ کے ساتھ ساتھ آگ کے شعلوں میں گھوم رہا ہے۔ اسے سرد چھینٹوں کی ضرورت تھی لیکن شعلے بہت اونچے اٹھتے جارہے تھے۔ رقص ہوتا رہا۔ کلارنٹ پر ایک نغمہ پوری تیزی سے بج رہا تھا۔ اس کی تھکی ہوئی نظریں خود بخود پلائی ووڈ کی ان دیواروں کی طرف اٹھ گئیں جن کے دروازوں پر گہرے سبز پردے پڑے تھے اور جن کے سامنے فرن کی ڈالیاںبرقی پنکھوںکی ہوامیں آہستہ آہستہ ہل رہی تھیں۔ سارے ریڈیو اسٹیشن آدھی رات کا گجر بجا چکے تھے۔ باغ کی پتیاں اور سمندر کی لہریں خوابستان کے جادو میں ڈوبتی جارہی تھیں۔ کسی نے بڑی پیاری آواز میں کہا: ’’ میں آسکتا ہوں؟‘‘ وہ جو اب تک برآمدے میں آرام کرسی پر لیٹی ’’ پوائنٹ کاؤنٹر پوائٹ‘‘ ختم کرنے کی کوشش کر رہی تھی، اپنا برف جیسا لباس سمیٹ کر جنگلے پر جھک گئی۔ ’’ کون ہے؟‘‘ اس نے ذرا گھبرا کر برساتی کی طرف دیکھا۔ ’’ اگر آپ کہیں گی تو میں ابھی ابھی فوراً واپس چلا جاؤں ۔‘‘ اس کا بات کرنے کا انداز بے حد دل کش تھا۔ وہ اور زیادہ پریشان ہوگئی___ ’’ ماہم سے باندرہ کا قریب ترین راستہ___‘‘ ’’ جی نہیں۔ میں راستے کی تلاش میں آپ سے مدد کی درخواست نہیں کر رہا___‘‘ ’’ ___ تو کیا ___ کیا پٹرول ختم ہوگیا ہے؟‘‘ ’’ جی نہیں میرے پاس ڈھیروں گیلنوں پٹرول موجود ہے۔‘‘ ’’ پھر ___ پھر___ آپ کیا چاہتے ہیں؟‘‘ ’’ میں! کچھ بھی نہیں___ میں سامنے سے گزر رہا تھا، آپ کو بادام کی شاخوں میں سے برآمدے میں بیٹھا دیکھا تو بس چلا آیا اندر___ جاؤں واپس؟‘‘ ’’ اوہ گوش___ آپ نے اتنی دور سے مجھے کیسے دیکھ لیا۔ مشاہدہ بہت تیز ہے۔‘‘ ’’ جی ہاں، مشاہدے کا میں ماہر ہوں۔ بہت عمدہ عادت ہے یہ۔ زندگی بہت دلچسپ ہوجاتی ہے اس سے ایسی ایسی چیزیں نظر آجاتی ہیں۔ اور اجازت دیجیے انگریزی میں کہوں کہ ہم ایسی چیزوں کی روح میں گھس سکتے ہیں جن کو دیکھنے کی بظاہر کوئی خاص ضرورت نہیں___ سگریٹ پی لوں؟ شکریہ ___ ‘‘ ’’ نہ جانے آپ کیا باتیں کر رہے ہیں۔ خصوصاً جب کہ آپ مجھے قطعی جانتے بھی نہیں۔ بہت دلچسپ اور عقل مند معلوم ہوتے ہیں آپ___‘‘ ’’ جی ہاں شکر ہے ۔ غالباً آپ پہلی خوب صورت لڑکی ہیں جس نے ایک عقل مند لڑکے کے سامنے یہ اقرار کیا ہے۔ ورنہ عموماً مجھے آپ جیسی لڑکیوں سے یہ شکایت رہتی ہے کہ وہ اپنی عقل کے مقابلے میں کسی کو کچھ سمجھتی ہی نہیں۔ ’’ بیٹھ جائیے، اس آرام کرسی پر ___ مگر کیسی عجیب بات ہے کہ ہم ایک دوسرے کے لیے بالکل اجنبی ہیں۔ اور اس وقت، اس گرم رات میں، بادام کی شاخوں کی سرسراہٹ کے نیچے اس طرح باتیںکر رہے ہیں جیسے ہمیشہ سے ایک دوسرے کو جانتے ہیں___ نا؟‘‘ ’’ جی ہاں___ بہت عجیب___ دنیا میں بہت سی باتیں حد سے زیادہ عجیب ہوتی ہیں جن کا بالکل آپ کو احساس نہیں ہوتا___ ار___ دیکھیے لڑکیوں میں ہیرو ورشپ کا مادہ ایک بڑی سخت کمزوری ہے___‘‘ ’’ ہیرو ورشپ ؟ ‘‘ ’’ جی___ اس وقت آپ مجھے بس چپکے چپکے ایڈمائر کیے جارہی ہیں حالانکہ ابھی چند لمحے قبل جب آپ تصور میں جم کے ساتھ مسوری میں سیب کے درختوں کے نیچے بیٹھتی تھیں تو میرے دخل در معقولات پر آپ کو زوروں کا غصہ آگیا تھا۔ ٹھیک ہے نا؟‘‘ ’’ سیب کے درخت ؟ ‘‘ ’’ جی ہاں۔ سیب کے درخت!‘‘ ’’ مجھے یقین ہے کہ ___‘‘ ’’ جی___ کہ رات گرم ہے اور چاند کے جادو کا اثر شاید مجھ پر بھی ہوگیا ہے۔ اسی لیے میں اپنے بستر پر آرام کرنے کے بجائے ماہیم کی خاموش سڑکوں پر مارے مارے پھر کر خوب صورت لڑکیوں کے بنگلوں میں گھس کے ان سے الٹی الٹی باتیں کرنے کا عادی ہوگیا ہوں___‘‘ ’’ اوہ گوش ___! ‘‘ ’’ دیکھیے شاید آپ نے شمال کے برفانی کوہستانوں میں خوابیدہ کسی کانونٹ میں اب تک اپنی عمر گزاری ہے۔ کم از کم آپ نے سینٹ زیویرز میں تو کبھی نہیں پڑھا۔‘‘ ’’ آپ نے یہ کیسے اندازہ لگایا؟‘‘ ’’ کیوں کہ آپ بات بات پر اوہ گوش کہہ کر خدا کی مدد چاہتی ہیں حالاں کہ میں آپ کو___ یقین دلاتا ہوں کہ ایسی خوش گوار رات میں خدا کو ہماری باتوں پر غور کرنے یا ان میں مداخلت کرنے کی قطعی ضروری یا فرصت نہیں۔ اوریہ بھی کہ سینٹ زیویرز کی لڑکیاں زیادہ تیزاور صاف گو ہوتی ہیں___ آپ جے۔ جے۔ اسکول میں ہیں نا؟‘‘ وہ اسی طرح سگریٹ کے حلقے بنا کر کہتا رہا: ’’ دلچسپ خیال ہے ۔ سیب کے درختوں کے جھنڈ میں ملکہ پکھراج کے ریکارڈ بج رہے ہوں یا کوئی درگا میں گار ہا ہو: سکھی موری روم جھم، سکھی موری روم جھم بدروا___ پسند ہے درگا کا خیال ___ دیوی بھجو درگا بھوانی___‘‘ ’’ لیکن کم از کم مجھے اپنا نام تو بتادیجئے___‘‘ ’’ میرا نام___ برج راج بہادروارشنے ___ جمال انور ___ روشن ایرانی___ جو چاہو سمجھ لو___ ادھر دیکھو___ میں تمہارا خواب ہوں اور تم چاندنی اور پھولوں کا گیت___ پر مجھ میں اور ان لہروںمیں، جو تمہارے برآمدے سے ٹکرا کر واپس چلی جاتی ہیں، ایک چھوٹا سا فرق ہے۔ یہ دنیا سے بغاوت کرنا چاہتی ہیں اور کچھ نہیں کر پاتیں۔ میں دنیا سے بغاوت نہیں کرتا لیکن چاندنی رات میں تمہارے جنگلے پر آکر بیٹھ جاتا ہوں۔ اور پھر یہ لہریں ساحل کو چھوڑ کر دور سمندر کی گہرائیوں میں جا کر کھو جاتی ہیں۔ سیب کے باغ میں چپکے سے خزاں گھس آتی ہے۔ بادام کی کلیاں اور سبز پتّے خشک ہوکرپریشان ہوجاتے ہیں۔ اور ملکہ پکھراج کے ریکارڈ اور تان پورے کے تارٹوٹ جاتے ہیں ایک دن___ اور آخر میں نیلے پروں والی چڑیاں خزاں زدہ شاخوں پر سے اپنے پر پھیلا کر بہار کے تعاقب میں دور جنوب کے ہرے مرغزاروں کی جانب اڑ جاتی ہیں___ جب خواب پچھلی رات کی چاندنی کی طرح پھیکے پڑنے لگتے ہیں اس وقت کی بے کیفی اور الجھن کا خیال کرو۔ سچ مچ کی مسرت تم کہیں بھی نہیں پاسکتیں رخشندہ بانو۔ شاید تم سوچ رہی ہو کہ اگر میگڈیلن تمہیں مل جائے توتم اپنی برفانی بلندی پر سے اس سے کہو: کارل ریوبن کے ساتھ کہیں بہت دور چلی جا اے بے حقیقت لڑکی___ اس کا گتار اور تیری آواز___ یہی تیرا بہترین راستہ ہے۔ برج راج بہادر سے تم کہو: انکل ٹوبی آپ میری دوست شیاملا کے ایک خوب صورت اور ڈیشنگ سے ماموں ہیں جواپنی سیاہ ڈی۔ کے۔ ڈبلو۔ خوب تیز چلاتے ہیں اور بس___ آپ بھی تشریف لے جائیے۔ کیونکہ مسوری میں ہنی مون کے لیے سوائے میں ایک پورا سوٹ رزرو کرا لیا گیا ہے جس کے پیچھے سیب کے درختوں کا جھنڈ___‘‘ ’’ اوہ!‘‘ ’’ اب تمہیں نیند آرہی ہے۔ اگر تم مجھے یاد کرو گی تو میں پھر کسی ایسی ہی چاندنی رات میں الٰہ دین کے دیو کی طرح تمہارے خواب میں آجاؤں گا۔ شب بخیر رخشندہ سلطانہ۔‘‘ وہ اطمینان سے جنگلے پر سے کود کر باغ کے اندھیرے میں اتر گیا اور پھر اس کے قدموں کی چاپ سنسان سڑک کی خاموشی میں کھو گئی۔ ’’ مہربانی سے ادھر ہی رہیے آپ___‘‘ ___ اور جم کو جواب تک یہ سوچ رہا تھا___ جانے کیا سوچ رہا تھا ___ جانے کیا سوچ رہا تھا۔ ایسا معلوم ہوا برف کے سارے پہاڑ اور ساری چٹانیں ٹوٹ ٹوٹ کر نیچے گر پڑی ہیں اور ان کے بوجھ میں دب کر وہ بے تحاشا خوب صورتی اور نفاست سے سجا ہوا کمرہ نیچے گرتا چلا جارہا ہے۔ وہ سنگھار میز کے اسٹول پر بیٹھی ایک کتاب کی ورق گردانی کرتی رہی اور وہ اس کے پاس آکر بیٹھ گیا___ وہ جو ___ وہ جو___ او خدا___ ’’ یہ مت سمجھو کہ میں fusses کر رہی ہوں۔ مجھے تم سے نفرت ہے۔ شدید نفرت!‘‘یا اللہ ___ اسے تعجب ہو رہا تھا کہ اسے اب تک رونا کیوں نہ آیا۔ نہ معلوم اسے کیا ہوگیا تھا۔ میرا بے چاری بچی۔ ہنی مون ختم ہوتے ہی سائیکلوا نالسٹ سے اس کا علاج کرواؤں گا۔ لیکن وہ خاموش رہا۔ ’’ اچھا کم از کم تم تو سوجاؤ۔ بہت تھک گئی ہوگی۔‘‘ تھوڑی دیر بعد اس نے کہا اور وہ مخالفت کے بغیر ضدی بچے کی طرح مسہری پر گر گئی۔ وہ ٹہلتا رہا۔ اس رات اس نے سگرٹوں کا سارا ڈبہ ختم کردیا۔ تکیوں میں منہ چھپا کر اس نے اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیے۔ اس نے سنا جیسے کہیں بہت دور سے آواز آ رہی تھی۔ جم دریچے میں کھڑا کہہ رہا تھا: ’’ اس کا انجام تم نے کیا سوچا ہے؟‘‘ قانونی علاحدگی ___ اس نے اپنے آپ کو کہتے پایا۔ پھر وہ سوگئی۔ جیسے اس نے دن بھر روتے روتے گزارا___ اور بمباری یا زلزلے سے گری ہوئی عمارت کے ملبے سے نکلے ہوئے کسی زخم خوردہ انسان کی طرح وہ اس کے چہرے کو غور سے دیکھنے لگا___ بالوںکی ایک لٹ اس کی برف جیسی پیشانی پر آگری تھی۔ اس کا جی چاہا کہ وہ جھک کراس لٹ کو وہاں سے ہٹا دے لیکن وہ ایسا نہ کرسکا___ یہ اس کی بیوی تھی، رخشندہ___ خدایا___ اور وہ خود جم تھا___ جمال انور___ مائیکل اینجلو کا شاہکار___ او بلند و برتر خدا‘ کیا ہم سب پاگل ہیں۔ خواب گاہ کا تیز لیمپ رخشندہ پر اپنی کرنیں پھینکتا رہا___ اس نے سبز روشنی جلائے بغیر اپنے آپ کو صوفے پر ڈال دیا۔ پھر وہ چار دوست خاموشی سے زینے پر سے اتر کے اس کار کی سمت بڑھے جو گیٹ وے کے اندھیرے سائے میں کھڑی تھی۔ اس پاگل کردینے والی موسیقی کی گونج گیلریوں، اسٹالوں اور سمندری ہواؤں میں اب تک لرزاں تھی۔ ماڈام میگڈلین ریوبن جوفٹ لائٹ کی تیز کرنوں میں نہاتی ہوئی گارہی تھی۔ اور کارل ریوبن جو پیانو پر بیٹھا تھا اور ہال جو الٹرا فیشن ایبل لوگوں سے پٹا پڑا تھا___ اور___ انہوں نے سنا کہ کارل ریوبن اور مادام ریوبن اپنے آرکیسٹرا کے ساتھ جہاں جاتے ہیں شہرت اور عزت ان کے قدموں پر جھک جاتی ہے۔ شمال کے سارے بڑے بڑے فیشن ایبل شہروں میں ان کے کونسرٹ ہوچکے ہیں۔ ریڈیومیں ان کے پروگرام رکھے جاتے ہیں۔ اتحادی فوجوں کو محظوظ کرنے کے لیے ان کو خاص طور سے مدعو کیا جاتا ہے۔ مادام ریوبن ‘ جوسیاہ یا نقرائی شام کے لباس میں چمکیلے پتھروں سے سجی ہوئی، خاموشی سے اپنے جیون ساتھی کے ہاتھ کا سہارا لے کر اسٹیج پر آتی ہے اور پھر ساری دنیا پاگل ہوجاتی ہے اس کے نغموں سے ___ اور انہیں تیزاب کی سی تلخی اور تیزی کے ساتھ یاد آیا ۔ کارل کہا کرتا تھا: میرے ساتھ چلو مگ تمہیں بلبلوں اور کوئلوں کی ملکہ بنا دوں گا۔ میگڈلین___ میگڈلین___ میری سینوریتا۔ گوا کی کالی راتیں تمہیں پکار کر واپس بلا رہی ہیں۔ راتوں کو تمہارے بالوں میں ستارے سجا کریںگے اورمہتاب کے مغنّی کا گتار بجتا رہے گا___ تم ___ مگ ___ سرخ ہونٹوںوالی چوہیا___ تمہاری نیور یلجیا کی شکایت ہمیشہ کے لیے دور ہوجائے گی۔ تم میری آنکھوںسے دیکھو گی،میرے کانوں سے سنو گی، میرے جادو سے رقص کرو گی اور ساری کائنات مدہوش ہوکر ہمارے ساتھ ناچنے لگے گی۔ بے وقوف لڑکی جوان چار سر پھرے ہندوستانی لڑکوں کے لیے کرافر مارکیٹ سے مچھلی کے ڈبے خرید کر لاتی ہو اور ان کی چائے کی پیالیاں صاف کر تی ہو۔ رب یہودہ کی قسم اس بھورے بالوں والی گلہری میں ذرا بھی عقل نہیں! پھر انہوں نے سنا اتحادی فوجوں کو محظوظ کرنے والی ایک پارٹی کے ہم راہ مشرقِ وسطیٰ جاتے ہوئے جہاز پر ایک حادثے کی وجہ سے مسٹرکارل ریوبن کا انتقال ہوگیا اور خوب صورت اور غمگین مادام ریوبن پارٹی سے علاحدہ ہو کر اپنے وطن واپس چلی گئیں۔ اور ایک نیلگوں صبح گوا کے ایک چھوٹے سے ہرے بھرے قصبے کے پرانے اور بھورے پتھروں والے کیتھیڈرل میں جب ماس ختم ہونے کے بعد فادر فرانسیکو نے قربان گاہ کے دریچے کے سامنے کا پردہ برابرکیا تو ان کی پیشانی پر اوربڑی بڑی نیلی آنکھوں میں ایک ملکوتی مسرت اور اطمینان کی روشنی چمک رہی تھی۔ کیونکہ ایک بھٹکی ہوئی روح آخر اپنے چرواہے کے پاس پہنچ چکی تھی___ ’’ خدا وندِ خدا کی رحمت ہو اس پر، وہ یسوع کی دلہن بن گئی___‘‘ دعا کے آخری الفاظ بھورے پتھروں والے ہال کے منجمد سناٹے میں ڈوب گئے اور فادر ڈائیگو آرگن بند کر کے سیڑھیوں سے نیچے اتر آئے ۔ باہر آسمان کے نیچے بہت سے ٹوٹے ہوئے نیلے پر ہوا میں تیرتے پھر رہے تھے۔ اور ایسی ہی ایک نیلگوں شام کے اندھیرے میں، جب کہ تاج کی ایک گالانائٹ کے اختتام پر گیٹ وے، برساتی اور گیلریوں میں مجمع کم ہوتا جا رہا تھا، موٹریں اسٹارٹ ہوچکی تھیں اور اکّا دکّا لوگ سیڑھیوں اور سڑک کے کنارے سگریٹ جلانے اوراپنے دوستوں کو شب بخیر کہنے کے لیے رکے ہوئے تھے ان چار دوستوںنے اپنے پائپوں کی راکھ جھٹکی اور ان کی سرخ کارڈھلوان پر بہنے لگی۔ رات گرم تھی اور ورسوا اور جو ہو کی خاموش سڑکیں ان کا انتظار کر رہی تھیں۔

قرةالعین حیدر

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
قرةالعین حیدر کا ایک اردو افسانہ