- Advertisement -

پڑیئے گر بیمار

مشتاق احمد یوسفی کی مزاحیہ تحریر

پڑیئے گر بیمار

تو کوئی نہ ہو تیمار دار؟ جی نہیں!بھلا کوئی تیمار دار نہ ہو تو بیمار پڑنے سے فائدہ؟ اور اگر مر جائیئے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو؟ توبہ کیجئے! مرنے کا یہ اکل کھرا دقیانوسی انداز مجھے کبھی پسند نہ آیا۔ ہو سکتا ہے غالب کے طرفدار یہ کہیں کہ مغرب کو محض جینے کا قرینہ آتا ہے، مرنے کا سلیقہ نہیں آتا۔ اور سچ پوچھئے تو مرنے کا سلیقہ کچھ مشرق ہی کا حصہ ہے۔ اسی بنا پر غالب کی نفاست پسند طبیعت نے1277ھ میں وبائے عام میں مرنا اپنے لائق نہ سمجھا کہ اس میں ان کی کسر شان تھی۔ حالانکہ اپنی پیشین گوئی کو صحیح ثابت کرنے کی غرض سے وہ اسی سال مرنے کے آرزو مند تھے۔

اس میں شک نہیں کہ ہمارے ہاں با عزت طریقے سے مرنا ایک حادثہ نہیں، ہنر ہے جس کے لئے عمر بھر ریاض کرنا پڑتا ہے اور اللہ اگر توفیق نہ دے تو یہ ہر ایک کے بس کا روگ بھی نہیں۔ بالخصوص پیشہ ور سیاستدان اس کے فنی آداب سے واقف نہیں ہوتے۔ بہت کم لیڈر ایسے گزرے ہیں جنہیں صحیح وقت پر مرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ میرا خیال ہے کہ ہر لیڈر کی زندگی میں خواہ وہ کتنا ہی گیا گزرا کیوں نہ ہو، ایک وقت ضرور آتا ہے جب وہ ذرا جی کڑا کر کے مر جائے یا اپنے سیاسی دشمنوں کو رشوت دے کر اپنے آپ کو شہید کرا لے تو وہ لوگ سال کے سال نہ سہی ہر الیکشن پر ضرور دھوم دھام سے اس کا عرس منایا کریں۔ البتہ دقت یہ ہے کہ اس قسم کی سعادت دوسرے کے زور بازو پر منحصر ہے اور سعدی کہہ گئے ہیں کہ دوسرے کے بل بوتے پر جنت میں جانا عقوبت دوزخ کے برابر ہے۔ پھر اس کا کیا علاج کہ انسان کو موت ہمیشہ قبل از وقت اور شادی بعد از وقت معلوم ہوتی ہے۔

بات کہاں سے کہاں جا پہنچی۔ ورنہ سر دست مجھے ان خوش نصیب جواں مرگوں سے سروکار نہیں جو جینے کے قرینے اور مرنے کے آداب سے واقف ہیں۔ میرا تعلق تو اس مظلوم اکثریت سے ہے جس کو بقول شاعر؛

جینے کی ادا یاد، نہ مرنے کی ادا یاد

چنانچہ اس وقت میں اس بے زبان طبقہ کی ترجمانی کرنا چاہتا ہوں جو اس درمیانی کیفیت سے گزر رہا ہے جو موت اور زندگی دونوں سے زیادہ تکلیف دہ اور صبر آزما ہے، یعنی بیماری! میرا اشارہ اس طبقہ کی طرف ہے جسے سب کچھ اللہ نے دے رکھا ہے صحت کے سوا۔

میں اس جسمانی تکلیف سے بالکل نہیں گھبراتا جو لازمہ علالت ہے۔ اسپرین کی صرف ایک گولی یا مارفیا کا ایک انجکشن اس سے نجات دلانے کے لئے کافی ہے لیکن اس روحانی اذیت کا کوئی علاج نہیں جو عیادت کرنے والوں سے مسلسل پہنچتی رہتی ہے۔ ایک دائمر المرض کی حیثیت سے جو اس درد لا دوا کی لذت سے آشنا ہے، میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ مارفیا کے انجکشن مریض کے بجائے مزاج پرسی کرنے والوں کے لگائے جائیں تو مریض کو بہت جلد سکون آجائے۔

اردو شاعروں کے بیان کو باور کیا جائے تو پچھلے زمانے میں علالت کی غایت ‘تقریب بہر ملاقات ‘کے سوا کچھ نہ تھی۔ محبوب عیادت کے بہانے غیر کے گھر جاتا تھا اور ہر سمجھ دار آدمی اسی امید میں بیمار پڑتا تھا کہ شاید کوئی بھولا بھٹکا مزاج پرسی کو آنکلے۔

علالت بے عیادت جلوہ پیدا کر نہیں سکتی

اس زمانے کے انداز عیادت میں کوئی دل نوازی ہوتو ہو میں تو ان لوگوں میں سے ہو ں جو محض عیادت کے خوف سے تندرست رہنا چاہتے ہیں۔ ایک حساس دائم المرض کے لئے’ مزاج اچھا ہے؟’ ایک رسمی یا دعائیہ جملہ نہیں بلکہ ذاتی حملہ ہے جو ہر بار اسے کمتری میں مبتلا کر دیتا ہے ۔ میں تو آئے دن کی پر سش حال سے اس قدر بے زار ہو چکا ہوں کہ احباب کو آگاہ کر دیا ہے کہ جب تک میں بقلم خود یہ اطلاع نہ دوں کہ آج اچھا ہوں، مجھے حسب معمول بیمار ہی سمجھیں اور مزاج پرسی کر کے شرمندہ ہونے کا موقع نہ دیں۔

سنا ہے شائستہ آدمی کی یہ پہچان ہے کہ اگر آپ اس سے کہیں کہ مجھے فلاں بیماری ہے تو وہ کوئی آزمودہ دوا نہ بتائے۔ شائستگی کا یہ سخت معیار صحیح تسلیم کر لیاجائے تو ہمارے ملک میں سوائے ڈاکٹروں کے کوئی اللہ کا بندہ شائستہ کہلانے کا مستحق نہ نکلنے۔ یقین نہ آئے تو جھوٹ موٹ کسی سے کہہ دیجئے کہ مجھے زکام ہو گیا ہے۔ پھر دیکھئے کیسے کیسے مجرب نسخے،خاندانی چٹکلے اور فقیری ٹوٹکے آپ کو بتائے جاتے ہیں۔ میں آج تک یہ فیصلہ نہ کر سکا کہ اس کی اصلی وجہ طبی معلومات کی زیادتی ہے یا مذاق سلیم کی کمی۔ بہر حال بیمار کو مشورہ دینا ہر تندرست آدمی اپنا خوش گوار فرض سمجھتا ہے اور انصاف کی بات یہ ہے کہ ہمارے یہاں ننانوے فی صد لوگ ایک دوسرے کو مشورے کے علاوہ اور دے بھی کیا سکتے ہیں؟

بعض اوقات احباب اس بات سے بہت آزردہ ہیں کہ میں ان کے مشوروں پر عمل نہیں کرتا۔ حالانکہ ان پر عمل پیرا نہ ہونے کا واحد سبب یہ ہے کہ میں نہیں چاہتا کہ میرا خون کسی عزیز دوست کی گردن پر ہو۔ اس وقت میرا منشا صلاح و مشورہ کے نقصانات گنوانا نہیں (اس لئے کہ میں دماغی صحت کے لے یہ ضروی سمجھتا ہوں کہ انسان کو پابندی سے صحیح غذا اور غلط مشورہ ملتا رہے۔ اسی سے ذہنی توازن قائم رہتا ہے) نہ یہاں ستم ہائے عزیزاں کا شکوہ مقصود ہے۔ مدعا صرف اپنے ان بہی خواہوں کو متعارف کرانا ہے جو میرے مزمن امراض کے اسباب و علل پر غور کرتے اوراپنے مشورے سے وقتاً فوقتاً مجھے مستفید فرماتے رہتے ہیں۔ اگراس غول میں آپ کو کچھ جانی پہچانی صورتیں نظر آئیں تو میری خستگی کی داد دینے کی کوشش نہ کیجئے، آپ خود لائق ہمدردی ہیں۔

سرفہرست ان مزاج پرسی کرنے والوں کے نام ہیں جو مرض تشخیص کرتے ہیں نہ دوا تجویز کرتے ہیں۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ منکسر مزاج ہیں۔ دراصل ان کا تعلق اس مدرسہ فکر سے ہے جس کے نزدیک پرہیز علاج سے بہتر ہے۔ یہ اس شکم آزار عقیدے کے مبلغ و موید ہیں کہ کھانا جتنا پھیکا سیٹھا ہوگا صحت کے لئے اتنا ہی مفید ہوگا۔یہاں یہ بتانا بے محل نہ ہوگا کہ ہمارے ملک میں دواوں کے خواص دریافت کرنے کا بھی یہی معیار ہے جس طرح بعض خوش اعتقاد لوگوں کو ابھی تک یہ خیال ہے کہ ہر بد صورت عورت نیک چلن ہوتی ہے۔ اسی طرح طب قدیم میں ہر کڑوی چیز کو مصفی خون تصور کیا جاتا ہے۔ چنانچہ ہمارے ہاں انگریزی کھانے اور کڑوے قدحے اسی امید میں نوش جان کئے جاتے ہیں۔

اس قبیل کے ہمدردان صحت دو گروہوں میں بٹ جاتے ہیں۔ ایک وہ غذا رسیدہ بزرگ جو کھانے سے علاج کرتے ہیں۔ دوسرے وہ جو علاج اور کھانے دونوں سے پرہیز تجویز فرماتے ہیں۔ پچھلی گرمیوں کا واقعہ ہے کہ میری بائیں آنکھ میں گوہا نجنی نکلی تو ایک نیم جان جوخود کو پورا حکیم سمجھتے ہیں، چھوٹتے ہی بولے، ’’فم معدہ پرورم معلوم ہوتا ہے۔ دونوں وقت مونگ کی دال کھائیے۔ دافع نفخ و محلل ورم ہے۔“

میں نے پوچھا، ”آخر آپ کو میری ذات سے کون سی تکلیف پہنچی جو یہ مشورہ دے رہے ہیں؟“

فرمایا، ”کیا مطلب؟“

عرض کیا، ”دو چار دن مونگ کی دال کھا لیتا ہوں تو اردو شاعری سمجھ میں نہیں آتی اور طبیعت بے تحاشا تجارت کی طرف مائل ہوتی ہے۔ اس صورت میں خدا نخواستہ تندرست ہو بھی گیا تو جی کے کیا کروں گا؟“

بولے،”آپ تجارت کو اتنا حقیر کیوں سمجھتے ہیں؟ انگریز ہندوستان میں داخل ہوا تو اس کے ایک ہاتھ میں تلوار اور دوسرے میں ترازو تھی۔“

گزارش کی،” اور جب وہ گیا تو ایک ہاتھ میں یونین جیک تھا اور دوسری آستین خالی لٹک رہی تھی! “

بات انھیں بہت بری لگی۔ اسلئے مجھے یقین ہو گیا کہ سچ تھی۔ اس کے بعد تعلقات اتنے کشیدہ ہوگئے کہ ہم نے ایک دوسرے کے لطیفوں پر ہنسنا چھوڑ دیا۔ استعارہ و کنایہ بر طرف، میرا اپنا عقیدہ تو یہ ہے کہ جب تک آدمی کو خواص کی غذا ملتی رہے، اسے غذا کے خواص کے بکھیڑے میں پڑنے کی مطلق ضرورت نہیں۔ سچ پوچھیئے تو عمدہ غذا کے بعد کم ازکم مجھے تو بڑا انشراح محسوس ہوتا ہے اور بے اختیار جی چاہتا ہے کہ بڑھ کے ہر راہ گیر کو سینے سے لگالوں۔

دوسرا گروہ قوت ارادی سے دوا اور غذا کا کام لینا چاہتا ہے اور جسمانی عوارض کے علاج معالجہ سے پہلے دماغ کی اصلاح کرنا ضروری سمجھتا ہے۔ یہ حضرات ابتدائے مرض ہی سے دوا کے بجائے دعا کے قائل ہیں اور ان میں بھاری اکثریت ان ستر ےبہتر ے بزرگوں کی ہے جو گھگیا گھگیا کر اپنی درازی عمر کی دعا مانگتے ہیں اور اسی کوعین عبادت سمجھتے ہیں۔ اس روحانی غذا کے لئے میں فی الحال اپنے آپ کو تیار نہیں پاتا۔ مجھے اس پر قطعا ً تعجب نہیں ہوتا کہ ہمارے ملک میں پڑھے لکھے لوگ خونی پیچش کا علاج گنڈے تعویذوں سے کرتے ہیں۔ غصہ اس بات پر آتا ہے کہ وہ واقعی اچھے ہو جاتے ہیں۔

کچھ ایسے عیادت کرنے والے بھی ہیں جن کے انداز پرسش سے ظاہر ہوتا ہے کہ بیماری ایک سنگین جرم ہے اور کسی آسمانی ہدایت کے بموجب اس کی تفتیش پر مامور کئے گئے ہیں۔ پچھلے سال جب انفلوئنزا کی وبا پھیلی اور میں بھی صاحب فراش ہو گیا تو ایک ہمسائے جو کبھی پھٹکتے بھی نہ تھے، کمرہ علالت میں بہ نفس نفیس تشریف لائے اور خوب کرید کرید کرجرح کرتے رہے۔ بالآخر اپنا منہ میرے کان کے قریب کر کے راز دارانہ انداز میں کچھ ایسے نجی سوالات کئے جن کے پوچھنے کا حق میری ناچیز رائے میں بیوی اور منکر نکیر کے علاوہ کسی کو نہیں پہنچتا۔

ایک بزرگوار ہیں جن سے صرف دوران علالت میں ملاقات ہوتی ہے، اس لئے اکثر ہوتی رہتی ہے۔ موصوف آتے ہی برس پڑتے ہیں اور گرجتے ہوئے رخصت ہوتے ہیں۔ پچھلے ہفتے کا ذکر ہے۔ ہلہلا کر بخار چڑھ رہا تھا کہ وہ آدھمکے، کپکپاکر کہنے لگے، ”بیماری آزاری میں بھی بڑی غیریت برتتے ہو، بر خوردار، دو گھنٹے سے ملیریا میں چپ چاپ مبتلا ہو اور مجھے خبر تک نہ کی۔“

بہتیرا جی چاہا کہ اس دفعہ ان سے پوچھ ہی لوں کہ ”قبلہ کونین اگر آپ کو بر وقت اطلاع کرا دیتا تو آپ میرے ملیریا کا کیا بگاڑ لیتے؟“

ان کی زبان اس قینچی کی طرح ہے جو چلتی زیادہ ہے اور کاٹتی کم۔ ڈانٹنے کا انداز ایسا ہے جیسے کوئی کودن لڑکا زور زور سے پہاڑے یاد کر رہا ہو۔ مجھے ان کی ڈانٹ پر ذرا غصہ نہیں آتا۔ کیونکہ اب اس کا مضمون ازبر ہو گیا ہے۔ یوں بھی اس کینڈے کے بزرگوں کی نصیحت میں سے ڈانٹ اور ڈاڑھی کو علیحدہ کر دیا جائے یا بصورت نقص امن ڈانٹ میں ڈنک نکال دیا جائے تو بقیہ بات (اگر کوئی چیز باقی رہتی ہے) نہایت لغو معلوم ہوگی۔

ان کا آنا فرشتہ موت کا آنا ہے۔ مگر مجھے یقین ہے کہ حضرت عزرائیل علیہ السلام روح قبض کرتے وقت اتنی ڈانٹ ڈپٹ نہیں کرتے ہوں گے۔ زکام انہیں نمونیہ کا پیش خیمہ دکھائی دیتا ہے او رخسرہ میں ٹائیفائڈ کے آثار نظر آتے ہیں۔ ان کی عادت ہے کہ جہاں محض سیٹی سے کام چل سکتا ہے وہاں بے دھڑک بگل بجا دیتے ہیں۔ مختصر یہ کہ ایک ہی سانس میں خدا نخواستہ سے انا لللہ تک کی تمام منزلیں طے کرلیتے ہیں۔ ان کی منظوم ڈانٹ کی تمہید کچھ اس قسم کی ہوتی ہے،

میاں! یہ بھی کوئی انداز ہے کہ گھر کے رئیسوں کی طرح نبض پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو۔ بیکاری بیماری کا گھر ہے۔ شاعر نے کیا خوب کہا ہے،

بیمار مباش کچھ کیا کر۔

مصرع کا جواب شعر سے دیتا ہوں،

کمزوری میری صحت بھی، کمزور مری بیماری بھی

اچھا جو ہوا کچھ کر نہ سکا، بیمار ہوا تو مر نہ سکا

یہ سن کر وہ بپھر جاتے ہیں اور اپنے سن و سا ل کی آڑ لے کر کوثر و تسنیم میں دھلی ہوئی زبان میں وہ بے نقط سناتے ہیں کہ زندہ تو در کنا رمردہ بھی ایک دفعہ کفن پھاڑ کر سوال و جواب کے لئے اٹھ بیٹھے۔ تقریر کا لب لباب یہ ہوتا ہے کہ راقم الحروف جان بوجھ کر اپنی تندرستی کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑا ہے۔ میں انہیں یقین دلاتا ہوں کہ اگر خود کشی میرا منشا ہوتا تو یوں ایڑیاں رگڑ رگڑ کرنہیں جیتا، بلکہ آنکھ بند کر کے ان کی تجویز کردہ دوائیں کھا لیتا۔

آئیے، ایک اور مہربان سے آپ کو ملاؤں۔ ان کی تکنیک قدرے مختلف ہے۔ میری صورت دیکھتے ہی ایسے ہراساں ہوتے ہیں کہ کلیجہ منہ کوآتا ہے۔ ان کا معمول ہے کہ کمرے میں بغیر کھٹکھٹائے داخل ہوتے ہیں اور میرے سلام کا جواب دیئے بغیر تیمار داروں کے پاس پنجوں کے بل جاتے ہیں۔ پھر کھسر پھسر ہوتی ہے۔ البتہ کبھی کبھی کوئی اچٹتا ہوا فقرہ مجھے بھی سنائی دے جاتا ہے۔ مثلاً؛

”صدقہ دیجئے، جمعرات کی رات بھاری ہوتی ہے۔“

”پانی حلق سے اترجاتا ہے؟“

”آدمی پہچان لیتے ہیں؟“

یقین جانئے۔ یہ سن کر پانی سر سے گزر جاتا ہے اور میں تو رہا ایک طرف، خود تیماردار میری صورت نہیں پہچان سکتے۔

سر گوشیوں کے دوران ایک و دفعہ میں نے خود دخل دے کر بقائمی ہوش و حواس عرض کرنا چاہا کہ میں بفضل تعالی چاق و چوبند ہوں۔ صرف پیچیدہ دواؤں میں مبتلا ہوں۔ مگر وہ اس مسئلہ کو قابل دست اندازی مریض نہیں سمجھتے اور اپنی شہادت کی انگلی ہونٹوں پر رکھ کر مجھے خاموش رہنے کا اشارہ کرتے ہیں۔ میرے اعلان صحت اور ان کی پر زور تردید سے تیمار داروں کو میری دماغی صحت پر شبہ ہونے لگتا ہے۔ یوں بھی اگر بخار سو ڈگری سے اوپر ہو جائے تو میں ہذیان بکنے لگتا ہوں جسے بیگم، اقبال گناہ اور رشتے دار وصیت سمجھ کر ڈانٹتے ہیں اور بچے ڈانٹ سمجھ کر سہم جاتے ہیں۔ میں ابھی تک فیصلہ نہیں کر سکتاکہ یہ حضرت مزاج پرسی کرنے آتے ہیں یا پرسا دینے۔ ان کے جانے کے بعد میں واقعی محسوس کرتا ہوں کہ بس اب چل چلاو لگ رہا ہے۔ سانس لیتے ہوئے دھڑکا لگا رہتا ہے کہ روایتی ہچکی نہ آجائے۔ ذرا گرمی لگتی ہے تو خیال ہوتا ہے کہ شاید آخری پسینہ ہے اور طبیعت تھوڑی بحال ہوتی ہے تو ہڑبڑاکر اٹھ بیٹھتا ہوں کہ کہیں سنبھالا نہ ہو۔

لیکن مرزا عبد الودود بیگ کااندازسب سے نرالا ہے۔ میں نہیں کہہ سکتاکہ انھیں میری دلجوئی مقصود ہوتی ہے یااس میں ان کے فلسفہ حیات و ممات کا دخل ہے۔بیماری کے فضائل ایسے دل نشین پیرائے میں بیان کرتے ہیں کہ صحت یاب ہونے کو دل نہیں چاہتا۔تندرستی وبال معلوم ہوتی ہے اورغسل صحت میں وہ تمام قباحتیں نظر آتی ہیں، جن سے غالب کو فکر وصال میں دو چار ہونا پڑاکہ،

گر نہ ہو تو کہاں جائیں، ہو تو کیوں کر ہو

اکثر فرماتے ہیں کہ بیماری جان کا صدقہ ہے۔ عرض کرتا ہوں کہ میرے حق میں تو یہ صدقہ جاریہ ہو کر رہ گئی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے خالی بیمار پڑ جانے سے کام نہیں چلتا۔ اس لیے کہ پسماندہ ممالک میں،

فیضان علالت عام سہی، عرفان علالت عام نہیں

ایک دن میں کان کے درد میں تڑپ رہا تھا کہ وہ آ نکلے۔اس افراتفری کے زمانے میں زندہ رہنے کے شدائد اور موت کے فیوض و برکات پرایسی موثر تقریر کی کہ بے اختیار جی چاہا کہ انہی کے قدموں پر پھڑپھڑا کر اپنی جان آفرین کے سپرد کردوں اورانشورنس کمپنی والوں کو روتا دھوتا چھوڑ جاؤں۔ ان کے دیکھے سے میرے تیمار داروں کی منہ کی رہی سہی رونق جاتی رہتی ہے۔ مگر میں سچے دل سے ان کی عزت کرتا ہوں۔ کیونکہ میرا عقیدہ ہے کہ محض جینے کے لیے کسی فلسفہ کی ضرورت نہیں۔ لیکن اپنے فلسفہ کی خاطر دوسروں کو جان دینے پر آمادہ کرنے کے لیے سلیقہ چاہیے۔

چونکہ یہ موقع ذاتی تاثرات کے اظہار کا نہیں۔ اس لیے میں مرزا کے انداز عیادت کی طرف لوٹتا ہوں۔ وہ جب تندرستی کو ام الخبائث اور تمام جرائم کی جڑ قرار دیتے ہیں تو مجھے رہ رہ کر اپنی خوش نصیبی پر رشک آتا ہے۔ اپنے دعوے کے ثبوت میں یہ دلیل ضرور پیش کرتے ہیں کہ جن ترقی یافتہ ممالک میں تندرستی کی وبا عام ہے وہاں پرجنسی جرائم کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے۔ میں کان کے درد سے نڈھال ہونے لگا تو انہوں نے مسئلہ مسائل بیان کر کے میری ڈھارس بندھائی، ”میاں ہمت سے کام لو۔ بڑے بڑے نبیوں پر یہ وقت پڑا ہے۔“

میں درد سے ہلکان ہو چکا تھا ورنہ ہاتھ جوڑ کر عرض کرتا کہ خدا مارے یا چھوڑے، میں بغیر دعویٰ نبوت یہ عذاب جھیلنے کے لیے ہرگز تیار نہیں۔ علاوہ ازیں، قصص الانبیاء میں نے بچپن میں پڑھی تھی اور یہ یاد نہیں آ رہا تھا کہ کون سے پیغمبر کان کے درد کے باوجود فرائض نبوی انجام دیتے رہے۔

اس واقعہ کے کچھ دن بعد میں نے از راہ تفنن مرزاسے کہا، ”فیرینک ہیرس کے زمانے میں کوئی صاحب استطاعت مرد اس وقت تک ’جنٹلمین‘ ہونے کا دعویٰ نہیں کرسکتا تھا جب تک وہ کم از کم ایک مرتبہ نا گفتہ بہ جنسی امراض میں مبتلا نہ ہوا ہو۔ یہ خیال عام تھا کہ اس سے شخصیت میں لوچ اور رچاؤ پیدا ہوتا ہے۔ “

تمباکو کے پان کا پہلا گھونٹ پی کر کہنے لگے، ”خیر! یہ تو ایک اخلاقی کمزوری کی فلسفیانہ تاویل ہے مگراس میں شبہ نہیں کہ درد اخلاق کوسنوارتا ہے۔“

وہ ٹھیرے ایک جھکی۔ اس لیے میں نے فوراً یہ اقرار کر کے اپنا پنڈ چھڑایا کہ ”مجھے اس کلیہ سے اتفاق ہے۔ بشرطیکہ درد شدید ہو اور کسی دوسرے کے اٹھ رہا ہو۔“

پچھلے جاڑوں کا ذکر ہے۔ میں گرم پانی کی بوتل سے سینک کر رہا تھا کہ ایک بزرگ جواسی سال کے لپیٹے میں ہیں خیر و عافیت پوچھنے آئے اور دیر تک قبر و عاقبت کی باتیں کرتے رہے جو میرے تیمار داروں کو ذرا قبل از وقت معلوم ہوئیں۔ آتے ہی بہت سی دعائیں دیں، جن کا خلاصہ یہ تھا کہ خدا مجھے ہزاری عمر دے تاکہ اپنے اور ان کے فرضی دشمنوں کی چھاتی پر روایتی مونگ دلنے کے لئے زندہ رہوں۔ اس کے بعد جانکنی اور فشارگور کا اس قدر مفصل حال بیان کیا کہ مجھے غریب خانے پر گور غریباں کا گمان ہونے لگا۔ عیادت میں عبادت کا ثواب لوٹ چکے تو میری جلتی ہوئی پیشانی پر اپنا ہاتھ رکھاجس میں شفقت کم اور رعشہ زیادہ تھا اور اپنے بڑے بھائی کو (جن کا انتقال تین ماہ قبل اسی مرض میں ہوا تھا جس میں میں مبتلا تھا) یاد کر کے کچھ اس طرح آب دیدہ ہوئے کہ میری بھی ہچکی بندھ گئی۔

میرے لئے جو تین عدد سیب لائے تھے وہ کھا چکنے کے بعد جب انہیں کچھ قرار آیا تو وہ مشہور تعزیتی شعر پڑھا جس میں ان غنچوں پرحسرت کا اظہار کیا گیا ہے جو بن کھلے مرجھا گئے۔

میں فطرتاً رقیق القلب واقع ہوا ہوں اور طبیعت میں ایسی باتوں کی سہاربالکل نہیں ہے۔ ان کے جانے کے بعد ”جب لاد چلے بنجارا“ والا موڈ طاری ہو جاتا ہے اور حالت یہ ہوتی ہے کہ ہر پرچھائیں بھوت اور ہر سفید چیز فرشتہ دکھائی دیتی ہے۔ ذرا آنکھ لگتی ہے تو بے ربط خواب دیکھنے لگتا ہوں۔ گویا کوئی ”کامک“ یا باتصویر نفسیاتی افسانہ سامنے کھلا ہوا ہے۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ڈاکٹر میری لاش پر انجکشن کی پچکاریوں سے لڑ رہے ہیں اور لہولہان ہو رہے ہیں۔ ادھر کچھ مریض اپنی اپنی نرس کو کلوروفارم سنگھا رہے ہیں۔ ذرا دور ایک لا علاج مریض اپنے ڈاکٹر کو یاسین حفظ کرا رہا ہے۔ ہر طرف ساگودانے اور مونگ کی دال کی کھچڑی کے ڈھیر لگے ہیں۔آسمان بنفشی ہو رہا ہے اور عناب کے درختوں کی چھاؤں میں، سناکی جھاڑیوں کی اوٹ لے کر بہت سے غلمان ایک مولوی کو غذا بالجبر کے طور پر معجونیں کھلا رہے ہیں۔ تا حد نظر کافور میں بسے ہوئے کفن ہوا میں لہرا رہے ہیں۔ جا بجا لوبان سلگ رہا ہے اور میرا سر سنگ مرمر کی لوح مزار کے نیچے دبا ہوا ہے اوراس کی ٹھنڈک نس نس میں گھسی جا رہی ہے۔ میرے منہ میں سگرٹ اور ڈاکٹر کے منہ میں تھرمامیٹر ہے۔ آنکھ کھلتی ہے تو کیا دیکھتا ہوں کہ سر پر برف کی تھیلی رکھی ہے۔ میرے منہ میں تھرمامیٹر ٹھنسا ہوا ہے اور ڈاکٹر کے ہونٹوں میں سگرٹ دبا ہے۔

لگے ہاتھوں، عیادت کرنے والوں کی ایک اورقسم کا تعارف کرا دوں۔ یہ حضرات جدید طریق کار برتتے اورنفسیات کا ہر اصول داؤں پر لگا دیتے ہیں۔ ہر پانچ منٹ بعد پوچھتے ہیں کہ افاقہ ہوا یا نہیں؟ گویا مریض سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ عالم نزع میں بھی ان کی معلومات عامہ میں اضافہ کرنے کی غرض سے RUNNING COMMENTARY کرتا رہے گا۔ ان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ کس طرح مریض پر ثابت کر دیں کہ محض انتقاماً بیمار ہے یا وہم میں مبتلا ہے اورکسی سنگین غلط فہمی کی بنا پراسپتال پہنچا دیا گیا ہے۔ ان کی مثال اس روزہ خور کی سی ہے جو انتہائی نیک نیتی سے کسی روزہ دار کا روزہ لطیفوں سے بہلانا چاہتا ہو۔ مکالمہ نمونہ ملاحظہ ہو،

ملاقاتی: ماشاءاللہ! آج منہ پر بڑی رونق ہے۔

مریض: جی ہاں! آج شیو نہیں کیا ہے۔

ملاقاتی: آواز میں بھی کرارا پن ہے۔

مریض کی بیوی: ڈاکٹر نے صبح سے ساگودانہ بھی بند کر دیا ہے۔

ملاقاتی : (اپنی بیوی سے مخاطب ہوکر) بیگما! یہ صحت یاب ہو جائیں تو ذرا انہیں میری پتھری دکھانا جو تم نے چارسال سے اسپرٹ کی بوتل میں رکھ چھوڑی ہے (مریض سے مخاطب ہوکر) صاحب! یوں تو ہر مریض کو اپنی آنکھ کا تنکا بھی شہتیر معلوم ہوتا ہے۔ مگر یقین جانیے، آپ کا شگاف تو بس دو تین انگل لمبا ہو گا، میرا تو پورا ایک بالشت ہے۔ بالکل کنکھجورا معلوم ہوتا ہے۔

مریض: (کراہتے ہوئے) مگر میں ٹائیفائڈ میں مبتلا ہوں۔

ملاقاتی: (ایکا ایکی پینترا بدل کر) یہ سب آپ کا وہم ہے۔ آپ کو صرف ملیریا ہے۔

مریض: یہ پاس والی چارپائی، جواب خالی پڑی ہے، اس کا مریض بھی اسی وہم میں مبتلا تھا۔

ملاقاتی: ارے صاحب!مانئے تو! آپ بالکل ٹھیک ہیں۔ اٹھ کر منہ ہاتھ دھوئیے۔

مریض کی بیوی: (روہانسی ہو کر) دو دفعہ دھو چکے ہیں۔ صورت ہی ایسی ہے۔

اس وقت ایک دیرینہ کرم فرما یاد آ رہے ہیں، جن کا طرز عیادت ہی اور ہے۔ ایسا حلیہ بنا کر آتے ہیں کہ خود ان کی عیادت فرض ہو جاتی ہے۔

”مزاج شریف! “کو وہ رسمی فقرہ نہیں، بلکہ سالانہ امتحان کاسوال سمجھتے ہیں اورسچ مچ اپنے مزاج کی جملہ تفصیلات بتانا شروع کر دیتے ہیں۔

ایک دن منہ کا مزہ بدلنے کی خاطر میں نے ”مزاج شریف! “ کے بجائے ”سب خیریت ہے؟“ سے پرسش احوال کی۔ پلٹ بولے ”اس جہان شریت میں خیریت کہاں؟“ اس مابعد الطبیعاتی تمہید کے بعد کراچی کے موسم کی خرابی کا ذکر آنکھوں میں آنسو بھرکر ایسے اندازسے کیا گویا ان پر سراسر ذاتی ظلم ہو رہا ہے، اوراس کی تمام تر ذمہ داری میونسپل کارپوریشن پر عائد ہوتی ہے۔

آپ نے دیکھا ہوگا کہ بعض عورتیں شاعر کی نصیحت کے مطابق وقت کو پیمانہ امروز و فردا سے نہیں ناپتیں بلکہ تاریخ و سنہ اور واقعات کاحساب اپنی یادگار زچگیوں سے لگاتی ہیں۔ مذکورالصدردوست بھی اپنی بیماریوں سے کیلنڈر کا کام لیتے ہیں۔ مثلاً شہزادی مارگریٹ کی عمر وہ اپنے دمے کے برابر بتاتے ہیں۔ سوئزسے انگریزوں کے نہر بدر کیے جانے کی تاریخ وہی ہے جو ان کا پتا نکالے جانے کی ! میرا قاعدہ ہے کہ جب وہ اپنی اور جملہ متعلقین کی عدم خیریت کی تفصیلات بتا کر اٹھنے لگتے تو اطلاعاً اپنی خیریت سے آگاہ کر دیتا ہوں۔

بیمار پڑنے کے صد ہا نقصانات ہیں۔ مگر ایک فائدہ بھی ہے، وہ یہ کہ اس بہانے اپنے بارے میں دوسروں کی رائے معلوم ہو جاتی ہے۔ بہت سی کڑوی کسیلی باتیں جو عام طور پر ہونٹوں پر لرز کر رہ جاتی ہیں، بے شمار دل آزار فقرے جو”خوف فسادخلق“ سے حلق میں اٹک کر رہ جاتے ہیں، اس زمانے میں یار لوگ نصیحت کی آڑ میں ”ہو الشافی“ کہہ کربڑی بے تکلفی سے داغ دیتے ہیں۔

پچھلے سنیچرکی بات ہے۔ میری عقل ڈاڑھ میں شدید درد تھا کہ ایک روٹھے ہوئے عزیز جن کے مکان پر حال ہی میں قرض کے روپیہ سے چھت پڑی تھی، لقا کبوتر کی مانندسینہ تانے آئے اور فرمانے لگے، ”ہیں آپ بھی ضدی آدمی! لاکھ سمجھایا کہ اپنا ذاتی مکان بنوا لیجئے مگر آپ کے کان پر جوں نہیں رینگتی۔“

طعنے کی کاٹ درد کی شدت پر غالب آئی اور میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا، ”بھائی!میری عقل تواس وقت کام نہیں کرتی۔ خدارا! آپ ہی بتائیے، کیا یہ تکلیف صرف کرایہ داروں کو ہوتی ہے ؟“

ہنس کر فرمایا،”بھلا یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے۔ کرائے کے مکان میں تندرستی کیوں کر ٹھیک رہ سکتی ہے۔“

کچھ دن بعد جب انہی حضرت نے میرے گھٹنے کے درد کو بے دودھ کی چائے پینے اور رمی کھیلنے کاشاخسانہ قرار دیا تو بے اختیار ان کاسرپیٹنے کو جی چاہا۔

اب کچھ جگ بیتی بھی سن لیجئے۔

جھوٹ سچ کا حال خدا جانے۔ لیکن ایک دوست اپنا تجربہ بیان کرتے ہیں کہ دو ماہ قبل ان کے گلے میں خراش ہو گئی، جوان کے نزدیک بد مزہ کھانے اور گھر والوں کے خیال میں سگریٹ کی زیادتی کا نتیجہ تھی۔ شروع میں تو انھیں اپنی بیٹھی ہوئی آواز بہت بھلی معلوم ہوئی اور کیوں نہ ہوتی؟سنتے چلے آئے ہیں کہ بیٹھی ہوئی (HUSKY) آواز میں بے پناہ جنسی کشش ہوتی ہے۔ خدا کی دین تھی کہ گھر بیٹھے آواز بیٹھ گئی۔ ورنہ امریکہ میں تو لوگ کوکاکولا کی طرح ڈالر بہاتے ہیں جب کہیں آواز میں یہ مستقل زکام کی سی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ لہٰذا جب ذرا افاقہ محسوس ہوا تو انھوں نے راتوں کو گڑگڑا گڑگڑا کر، بلکہ خنخنا خنخنا کر دعائیں مانگیں،

”بار الہٰا! تیری شان کریمی کے صدقے! یہ سوزش بھلے ہی کم ہو جائے، مگر بھراہٹ یونہی قائم رہے!“

لیکن چند دن بعد جب ان کا گلا خالی نل کی طرح بھق بھق کرنے لگا تو انھیں بھی تشویش ہوئی۔

کسی نے کہا، ”لقمان کا قول ہے کہ پانی پیتے وقت ایک ہاتھ سے ناک بند کر لینے سے گلا کبھی خراب نہیں ہوتا۔“

ایک صاحب نے ارشاد فرمایا، ”سارافتورپھل نہ کھانے کے سبب ہے۔ میں تو روزانہ نہار منہ پندرہ فٹ گنا کھاتا ہوں۔ معدہ اور دانت دونوں صاف رہتے ہیں۔“ اور ثبوت میں انھوں نے اپنے مصنوعی دانت دکھائے جو واقعی بہت صاف تھے۔

ایک اور خیرخواہ نے اطلاع دی کہ زکام ایک زہریلے وائرس سے ہوتا ہے جوکسی دواسے نہیں مرتا۔ لہذا جوشاندہ پیجئے کہ انسان کے علاوہ کوئی جانداراس کا ذائقہ چکھ کر زندہ نہیں رہ سکتا۔

بقیہ روداد انہی کی زبان سے سنیئے، اور جن کرم فرماؤں نے از راہ کسرنفسی دوائیں تجویز نہیں کیں، وہ حکیموں اور ڈاکٹروں کے نام اور پتے بتا کر اپنے فرائض منصبی سے سبکدوش ہو گئے۔ کسی نے اصرار کیا کہ آیورویدک علاج کراؤ۔ بڑی مشکل سے انھیں سمجھایا کہ میں طبعی موت مرنا چاہتا ہوں۔

کسی نے مشورہ دیا کہ حکیم نباض ملت سے رجوع کیجئے۔ نبض پر انگلی رکھتے ہی مریض کا شجرہ نسب بتا دیتے ہیں (اسی وجہ سے کراچی میں ان کی طبابت ٹھپ ہے ) قارورے پر نظر ڈالتے ہی مریض کی آمدنی کا اندازہ کر لیتے ہیں۔ آواز اگرساتھ دیتی تومیں ضرور عرض کرتا کہ ایسے کام کے آدمی کو تو انکم ٹیکس کے محکمہ میں ہونا چاہیے۔

غرضیکہ جتنے منہ ان سے کہیں زیادہ باتیں !اور تو اور سامنے کے فلیٹ میں رہنے والی اسٹینوگرافر (جوچست سویٹر اور جنیز پہن کر، بقول مرزا عبد الودود بیگ، انگریزی کا معلوم ہوتی ہے ) بھی مزاج پرسی کو آئی اور کہنے لگی، حکیموں کے چکر میں نہ پڑیئے۔ آنکھ بند کر کے ڈاکٹر دلاور کے پاس جائیے۔ تین مہینے ہوئے، آواز بنانے کی خاطر میں نے املی کھا کھا کر گلے کا ناس مار لیا تھا۔ میری خوش نصیبی کہئے کہ ایک سہیلی نے ان کاپتہ بتا دیا۔ اب بہت افاقہ ہے۔

اس بیان کی تائید کچھ دن بعد مرزا عبد الودود بیگ نے بھی کی۔ انھوں نے تصدیق کی ڈاکٹر صاحب امریکی طریقہ سے علاج کرتے ہیں اور ہر کیس کو بڑی توجہ سے دیکھتے ہیں۔ چنانچہ سینڈل کے علاوہ ہر چیز اتروا کر انھوں نے اسٹینوگرافر کے حلق کا بغور معائنہ کیا۔ علاج سے واقعی کافی افاقہ ہوا اور وہ اس سلسلے میں ابھی تک پیٹھ پر بنفشی شعاعوں سے سینک کرانے جاتی ہے۔

مجھے یقین ہے کہ اس طریقہ علاج سے ڈاکٹر موصوف کو کافی افاقہ ہوا ہوگا!

مشتاق احمد یوسفی

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
عباس تابش کی ایک اردو غزل