نئی تعبیر کے بدلے پرانے خواب بِکتے ہیں
ذرا قیمت بڑھا دو تو یہاں نایاب بِکتے ہیں
جسے زاہد سمجھتے ہیں وہی تاجر نکلتا ہے
یہاں مسلک کی خاطر منبر و محراب بِکتے ہیں
جہاں گھوڑے گدھے کے درمیاں تفریق مٹ جائے
وہاں زاغوں کی قیمت پر کئی سُرخاب بِکتے ہیں
عطا ہوتی ہے خِلعت دیکھیے ایمان کے بدلے
سنا ہے شاہ کے دربار میں القاب بِکتے ہیں
جہاں خوددار لوگوں کی کوئی قیمت نہیں لگتی
وہاں پر سستے داموں رستم و سہراب بِکتے ہیں
بڑے طوفاں نظر آتے ہیں طاقت کے سمندر میں
جو کشتی کو ڈبوتے ہیں وہی گرداب بِکتے ہیں
جہاں لفظوں کی حُرمت کا جنازہ اُٹھ گیا صابرؔ
وہاں شہرت کی منڈی میں کئی احباب بِکتے ہیں
ایوب صابر