- Advertisement -

نئے سال کا پہلا کالم محبت کے نام

ایک اردو کالم از روبینہ فیصل

نئے سال کا پہلا کالم محبت کے نام 

یہ بھی دن دیکھنا تھا کہ فلم اور محبت پر بھی لکھنا پڑے گا ۔کوئی بات نہیں سال کا پہلا دن ہے ، دانشوری لپیٹ کر سائیڈ پر کر دیتے ہیں ۔ ویسے بھی کچھ دوستوں کو اس سے نفرت سی ہو نے لگی ہے،انہیں لگتا ہے کہ یہ مجھے پتھرا رہی ہے۔ ان میں سب سے زیادہ شور فیصل فارانی مچاتا ہے ۔ اسے اب میں کیا بتاوں کہ اگر میں بھی دماغ سے زیادہ دل کا استعمال کرنے لگ گئی تو اس کی طرح ہر دوسرے روز ایک ہارٹ اٹیک کروا کے ہسپتال پہنچی ہونگی اور اس کے لئے تو یہ گھاٹے کا سودا نہیں کیونکہ ہوش میں آتے ہی بتانا شروع کر دیتا ہے کہ” افف!۱ نرس بہت حسین ہے” ۔ رضوان احمد ،حسین حیدر اور لطیف نظامانی صاحب گھر بیٹھے تڑپ کر رہ جاتے ہیں جب کہ فیصل عظیم پڑوسی ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فورا عیادت کو پہنچ جاتا ہے اور وہاں جا کر اسے بڑی رازداری سے پوچھتا ہے: یار میں کس طریقے سے یہاں ایڈمٹ ہو سکتا ہوں ۔۔۔ اور فارانی جواب دینے کی بجائے اس کا دھیان اپنی بیماری کی طرف لے جاتا ہے ۔ خیریہ ہنسی مذاق تو ہم” رائٹ ناو “کے دستوں کا وطیرہ ہے ۔خدا نئے سال میں بھی ہم سب کو ایسے ہی ہنستا کھیلتا رکھے ۔آمین ۔
مجھے 2018کا سال بہت پسند رہے گا ۔ اس سال نے مجھے بہت سچے لوگ دئیے جن کا سچا پیار اور دوستی پا کر مجھے اس بات کا اور شدت سے احساس ہوا کہ سب کچھ ہو اور یہ نہ ہو تو زندگی میں کیسا خالی پن ہوتا ہے ۔ لوگ کہتے ہیں نیا سال آیا ہے اس کے لئے ریسولیشن بنائی جائے ۔۔میں کہتی ہوں محبت ، خلوص اور سچائی سے بڑی بھی کوئی اور ریزولیشن ہو سکتی ہے ۔ اس کی ڈھونڈ کر کے دیکھیں، آپ کا دل ایسی خوشی اور اطمینان سے بھر جائے گا کہ زندگی میں ہوس اور حرص کے پیچھے بھاگنا بھول جائیں گے ۔
انسان کی ڈھونڈ خود کی تلاش سے شروع ہوتی ہے اور پھر وہ جو روح کا ساتھی ہوتا ہے ، جو جھوٹ نہیں حقیقت ہوتا ہے ، وہ بھی تو کہیں نہ کہیں
ہو تا ہے ۔۔ یہ سب کھوج کے مختلف راستے ہیں جن کی منزل ایک ہی ہے اور وہ ہے خود کی پہچان ۔یہ سب خیالات، شاہ رخ خان کی نئی فلم” زیرو “دیکھتے ہوئے آرہے تھے ۔بعد میں پتہ چلا کہ فلم فلاپ ہو گئی ہے ۔ میں نے” پی کے” کے بعد یہ ہندی فلم تھیڑ میں دیکھنے کا حوصلہ پکڑا تھا ،کون تین گھنٹے بندھا رہے۔مگر یہ فلم مجھے پسند آئی ۔ فلاپ ہونے کی وجہ بہت سطحی سی لگتی ہے چونکہ ہمارے لوگ ہیرو ہیروئن کو دنیا کا حسین ترین اور مکمل انسان دیکھنا چاہتے ہیں اس لئے انہیں ۴ فٹا ہیرو اور اپاہج ، ٹیڑھا منہ کر کے بولتی ہیروئین کو دیکھ کر برا لگا ورنہ اس فلم میں کچھ بھی ایسا نہیں تھا جو برا لگے۔ مجھے شاہ رخ خان اتنا پسند نہیں رہا مگر اس فلم میں اس کی اداکاری نے مجھے خوب متاثر کیا اور انوشکا شرما نے بھی کمال ڈھایا۔ شاہ رخ کے دوست کے کردار میں ذیشان ، بھی کسی سے کم نہیں رہا ۔ میرے بچوں کو بھی فلم اچھی نہ لگی تھی اور انہوں نے مجھ پر یہ الزام لگایا کہ اس فلم میں آپ کی فلم کا ہیرو ذیشان ہے اس لئے آپ اسے اچھا کہہ رہی ہیں ۔ میں نے سوچا: ان بچوں کو کیا پتہ کہ میں اتنا سستا بکنے والی نہیں ہوں ۔ خیر یہ تو تھیں فلم کے بارے عام سی باتیں، جو خاص بات ہے وہ تھی اسی محبت کی جو کچھ دوستوں کے بقول میری سمجھ سے باہر کی چیز ہے ۔ مگر شائدمیں نے” محبت” کو اس فلم کے ذریعے سمجھا ہے۔ جب بونا ہیرو ، وہیل چئیر پر بیٹھی ہیروئین کو کہتا ہے:
“تم دنیا میں وہ واحد عورت ہو جس کے لیول پر کھڑا رہ کر میں بات کر سکتا ہوں۔” اگرچہ دونوں کے مینٹل لیول اور ایجوکیشن بیک گراونڈ میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔ ہیرو میرٹھ، کاایک ان پڑھ امیر بزنس مین اور لڑکی امریکی شہری ناسا میں جاب کرنے والی سائنسدان ہے ،مگروہ دونوں ایک دوسرے کو ہمدردی یا حقارت سے نہیں دیکھتے کیونکہ دونوں ہی دنیاوی اعتبار سے نا مکمل اور عیبی ہیں ۔ دونوں کوایک دوسرے پر غصہ بھی کرنا ہے اورچیلنج بھی کرنا ہے۔یہ ہم آہنگی ان دونوں کے بیچ ہی ہے ۔۔ یہ بات نارمل نظر آنے والے انسانوں میں بھی ایسے ہی ہو تی ہے ۔۔کہ بغیر جھکے یا سر اٹھائے ایک ہائیٹ پر ایک دوسرے سے بات کر سکیں ۔۔ ان سب علامتوں کا مطلب ہے ایک ذہنی لیول ، ایک جیسی سوچ۔ مزاج تو کسی انسان کا دوسرے سے نہیں ملتا ۔۔ مگرایک جیسا مینٹل لیول ۔۔یہی محبت کی پہلی نشانی ہے۔
پھرجب لڑکا اپنے، فلمی ہیروئن( کترینہ کیف) کو ملنے کے خواب کو پورا ہو تا دیکھتا ہے اور عین شادی والے دن دلہن بنی اسی اپاہج لڑکی کو ، بڑی ہمت سے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بتا تا ہے کہ وہ اپنے خواب کے پیچھے اسے چھوڑ کے جا رہا ہے اوروہ یہ شادی نہیں کرسکتا تو لڑکی کے جذباتی جملوں نے شائد ہال میں بیٹھے میری طرح کے کتنے پتھر دلوں کو ہلا کر رکھ دیا ہو گا ۔۔ بولی :
“تو جانتا ہے نا کہ تو دنیا میں وہ واحد مرد ہے جس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر نے کے لئے مجھے اوپر نہیں دیکھنا پڑتا اور تیرے لئے میں ہی پوری کائنات میں وہ واحد عورت ہوں جس کی آنکھوں میں دیکھنے کے لئے تمھیں سر نہیں اٹھانا پڑتا ۔۔ ہم ایک لیول کے ہیں ۔۔ ” مگر وہ اس کے آنسوؤں کی پروا کئے بغیر ،وقتی جوش میں ، چکا چوند والی دنیا کی طرف یہ سوچ کر کہ اس کا سکون اس حسن کی دیوی کے ساتھ ایک دفعہ ناچنے میں ہے ادھر کو بھاگ جاتا ہے ۔وہ سڑک جو لے لی جاتی ہے اور وہ سڑک جو چھوڑ دی جاتی ہے ۔۔ (رابرٹ فراسٹ )۔
یہ بھی ایک علامتی موو ہے ۔۔ انسان کوئی ایک سڑک ایسی لے لیتا ہے جسے وہ سمجھتا ہے کہ وہ اسے اس کی منزل تک لے جائے گی ، کبھی کبھار قسمت مہربان ہو سکتی ہے مگر زیادہ تر ایسی سڑکیں منزل کی بجائے کھائی تک لے جاتی ہیں کیونکہ مسافر نے وہ سڑک جس نے اس کے قدموں کو پہچان لیا ہوتا ہے اور ا سکی منزل تک لے جاسکتی ہے ،کسی خام خیالی کی وجہ سے چھوڑ دی ہو تی ہے ۔ شاہ رخ خان نے بھی یہی کیا ، وہیل چئیر پر بیٹھی محبت کو ، اپنے روح کے ساتھی کو چھوڑ کر ،انجانی منزل کی طرف بھاگ گیا ، اس عورت کی طرف جس سے بات کرنے کے لئے اسے سر اٹھا کر دیکھنا پڑتا تھا ، اور جس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کی بجائے وہ اس کے قدموں کی طرف دیکھ کر صرف اور صرف اسے خوش کرنے کے سوا اور کچھ نہیں کر سکتا تھا ۔
ایک اور سین بظاہر فلم کی مبالغہ آمیزی مگر حقیقت میں ایک اور علامت ہے ۔۔ شروع میں ہیروئن کو جب ہیرو متاثر کر رہا ہوتا ہے تو اس وقت وہ اسے ایک کرتب دکھاتا ہے ۔۔ ایک دو تین چار اور اس کے ہاتھ کے اشارے سے آسمان سے تارے غائب ہوجاتے ہیں ۔۔ اور یہی ہیرو جب لڑکی کو روتا چھوڑ جاتا ہے او ر پھر ایک دفعہ یہی کرتب فلمی ستاروں کی ایک محفل میں دکھانے کی کوشش کرتا ہے، مگر ناکام رہتا ہے کیونکہ اب اس کے ہاتھ سے اور اس کی آنکھوں سے وہ جادو ختم ہو چکا ہوتا ہے۔ اس کی ناکامی دیکھ کر کترینہ کیف اس کے پاس آکر کہتی ہے :
تو تم بھی کسی کا دل دکھا کے آئے ہو ؟ ۔
اورپھرجب ہرتمنا کو پا کر بھی اس کے دل میں خالی پن بڑھتاہی جا تا ہے تو وہ تھک کر اسی لڑکی کی طرف لوٹ جاتا ہے مگر اب وہ اس کو قبول کرنے سے انکار کر دیتی ہے ،گو کہ دل میں محبت ہے ، مگر ایک دفعہ ا عتماد ٹوٹ جانے کی وجہ سے اس پر وہ دوبارہ اعتبار نہیں کرتی ۔۔ جب ناسا والے شاہ رخ خان کو خلا ( انوشکا سے معافی لینے کی خاطر جان جوکھم میں ڈالنے کا فیصلہ کرچکا ہوتا ہے)میں بندر کی جگہ بھیجنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو وہ دوسرے سائنسدانوں کو کہتی ہے:” اس پر یقین نہ کرو یہ بھاگ جا تا ہے ۔۔”
مگر اب کے وہ بھاگتا نہیں اورخلا میں جانے کے بعد کبھی واپس نہیں آتا ۔۔۔اس کی محبت ثابت ہوئی مگر کیا ایسی محبت کہیں ہوتی بھی ہے ؟شائد اس سیارے میں ،جہاں ابھی تک انسان کے قدم نہیں پڑے ۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
اسماعیلؔ میرٹھی کی ایک اردو غزل