"سر! کیا میں اندر آ سکتا ہوں؟” عابد نے میرے کمرے میں جھانکتے ہوئے مجھ سے اجازت طلب کی۔ میں اس وقت اگلے ہفتے میں ہونے والے سیمینار کے لیے اپنی تقریر لکھنے میں مصروف تھا۔ ایسے وقت میں کسی کی مداخلت میرے لیے خاصی تکلیف دہ تھی، مگر پھر بھی میں نے عابد کو اندر آنے کی اجازت دے دی، کیوں کہ وہ نہایت فرماں بردار اور ذہین طالب علم رہا تھا۔ وہ اندر آ کر میرے سامنے کرسی پر بیٹھ گیا اور میں دوبارہ تقریر لکھنے میں مصروف ہو گیا۔ کچھ دیر بعد میں نے سر اٹھا کر اس سے آنے کا مقصد دریافت کیا۔ عابد نے کہا: "سر! کافی دنوں سے آپ سے ملاقات کرنے کو دل چاہ رہا تھا۔ آج آپ سے ایک مشورہ کرنے کے لیے حاضر ہوا ہوں۔”
میں نے پہلے اس کے ابو کی خیریت معلوم کی، کیوں کہ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ مسلسل بیمار رہنے لگے تھے۔ عابد کے والد صادق صاحب ایک طویل عرصے تک پوسٹ آفس میں ملازم رہے تھے۔ وہ سیدھے سادھے اور شریف انسان تھے۔ دفتری چال بازیوں اور چاپلوسی سے کوسوں دور رہتے تھے، اس لیے ریٹائرمنٹ تک کسی بڑے عہدے تک نہ پہنچ سکے۔ عابد ان کا اکلوتا بیٹا تھا۔ مجھے معلوم ہے کہ گزشتہ کئی مہینوں سے بےکار ہے اور ملازمت کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا ہے۔ حالانکہ والد کی پنشن اور ریٹائرمنٹ کی رقم ایک چلتے ہوئے کاروبار میں لگانے کے بعد معقول آمدنی کی وجہ سے وہ مالی پریشانی کا شکار تو نہ تھا، مگر اپنے دوستوں کو سفارش کی بدولت اعلیٰ عہدوں پر فائز دیکھ کر وہ الجھن کا شکار ہو جاتا تھا۔ میں نے کری کی پشت سے کمر ٹکاتے ہوئے اس سے پوچھا: "ہاں اب کہو! کیا کہنا چاہتے ہو؟”
"کافی کوشش کے بعد ایک ملازمت کی امید ہوئی ہے۔ آپ سے اس سلسلے میں مشورہ کرنا چاہتا ہوں۔” عابد نے کہا۔
میں نے خوشی کا اظہار کیا: "مبارک ہو۔”
عابد نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا: "پولیس کے محکمے میں ہے اور اے ایس آئی کا عہدہ ہے۔”
"بھئی یہ تو اور بھی اچھی بات ہے۔ محکمہ پولیس کو تم جیسے محنتی اور ایمان دار لوگوں کی اشد ضرورت ہے۔”
"مگر ایک مسئلہ ہے۔” عابد نے ڈرتے ڈرتے کہا۔
میں نے جلدی سے پوچھا: "وہ کیا؟”
"یہ ملازمت بغیر سفارش کے مل رہی ہے، مگر ہمیں رشوت دینی پڑے گی۔”
"رشوت؟” میں نے حیرت سے اسے دیکھا۔
عابد بولا: "رشوت کے بغیر یہ نوکری نہیں مل سکتی۔”
"بیٹا! تم یہ رقم کس طرح دو گے؟”
عابد نے کہا: "ابو سے مانگوں گا، مگر میں یہ رقم انھیں جلد لوٹا دوں گا۔”
میں نے حیرت سے پوچھا: "مگر رقم اتنی جلدی کیسے لوٹاؤ گے؟”
عابد کچھ کہتے کہتے رک گیا۔ وہ اپنی بات کہتے ہوئے ہچکچا رہا تھا اور میں اسے دیکھے جا رہا تھا۔ کچھ دیر خاموشی رہی، پھر میں نے کہا:”یعنی تم رشوت دی ہوئی رقم رشوت لے کر ادا کرو گے؟”
عابد کچھ نہ بولا اور خاموشی سے سر جھکائے میری بات سنتا رہا۔ گویا میرا اندازہ درست تھا۔ افسوس اور تشویش کی ایک لہر میرے اندر ابھری، مگر میں نے خود پر قابو رکھا اور اسے بڑے پیار سے مخاطب کرتے ہوئے کہا: "بیٹا! اگر تمھیں جلدی نہ ہو تو میرے ساتھ چلو۔ میں تمھیں اپنے ایک دوست سے ملواؤں گا۔”
عابد نے فوراً کہا: "جی سر! مجھے آپ کے دوست سے مل کر خوشی ہو گی۔”
کچھ دیر بعد میں عابد کے ساتھ اپنے دوست نظامی صاحب کے بنگلے میں داخل ہو رہا تھا۔ چوکیدار مجھے جانتا تھا، اس لیے اس نے فوراً دروازہ کھول دیا۔
"اب تمھارے والد صاحب کی طبعیت کیسی ہے؟” میں نے ڈرائنگ روم میں داخل ہوتے ہوئے نظامی صاحب کے بڑے بیٹے شرجیل سے پوچھا۔
اس نے بیزاری سے جواب دیا: "ویسی ہی ہے جیسے آپ نے پچھلی بار دیکھی تھی۔”
شرجیل نے ہمیں مریض کے کمرے کے سامنے کھڑا کر دیا۔ ہمیں کھلے ہوئے دروازے سے کمرے کے درمیان میں ایک مریض لیٹا ہوا نظر آیا۔ شرجیل ہمیں وہیں چھوڑ کر گھر کے اندر چلا گیا۔
میں نے کہا: "اصل میں مسئلہ یہ ہے کہ مریض سے ملنے کمرے کے اندر کوئی بھی نہیں جا سکتا۔”
عابد نے حیرت سے پوچھا: "وہ کیوں سر؟”
اب میں نے عابد کو وضاحت سے بتایا: "یہ شخص میرا بہترین دوست ہے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد میں کالج میں لیکچرار ہو گیا اور پھر شہر کی اہم جامعہ میں چلا گیا۔ نظامی نے مقابلے کا امتحان دیا اور کامیابی کے بعد ایک افسر کی حیثیت سے ملک کی انتظامی مشینری کا حصہ بن گیا۔ اپنی ملازمت کے دوران اس نے حلال و حرام میں کوئی تمیز باقی نہ رکھی اور آج اس کے پاس یہ شان دار بنگلا اور کئی گاڑیاں ہیں۔ مزید یہ کہ مختلف کاروبار میں لگایا ہوا سرمایہ ہر مہینے معقول منافع بھی دیتا ہے، جس سے اس کے گھر والے چین کی زندگی گزار رہے ہیں۔”
عابد نے حیرت سے پوچھا: "مگر سر! انھیں ہوا کیا ہے؟ ان کے پاس تو کوئی بھی نہیں ہے۔”
میں نے جواب دیا: "میں وہی بتانے جا رہا ہوں۔ یہ کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہیں۔ اور مرض اس قدر بگڑ چکا ہے کہ ان کے جسم سے بدبو آتی ہے۔ گھر والے یا کوئی اور ان کے قریب بیٹھنے کی ہمت نہیں کر سکتا، اس لیے کوئی بھی ان کے پاس نہیں ہے۔ ایک ملازمہ ہے، جو ناک پر رومال رکھ کر وقت پر دوا دیتی اور کھانا کھلاتی ہے۔ صفائی وغیرہ کا کام دوسرا ملازم کرتا ہے۔”
عابد حیرت سے کبھی مجھے اور کبھی مریض کو دیکھنے لگتا۔ اس کے بعد ہم نظامی صاحب کے گھر سے نکل آئے۔ میں عابد کو اس کے گھر کے قریب اتارنے لگا تو اس نے کہا: "سر! میں سمجھ گیا کہ آپ کیوں مجھے اپنے دوست سے ملانے لے گئے تھے۔”
میں نے مسکرا کر کہا: "مجھے خوشی ہے کہ تم میری بات کی تہہ تک پہنچ گئے۔ نظامی صاحب کی حرام کی کمائی پر سارا گھر خوش ہے، مگر اب خود ان کے لیے دنیا کی ہر نعمت حرام ہو چکی ہے۔ یہ کیسی زندگی ہے۔ کیا تم بھی ایسی زندگی کے خواب دیکھ رہے ہو؟”
عابد فوراً بولا: "نہیں سر! میں ایمان دار باپ کا بیٹا ہوں، اس لیے رشوت دینے اور لینے سے خود کو ہمیشہ دور رکھوں گا۔ میں اس ملازمت کے بجائے مزید محنت کے بعد خود کو اہل ثابت کروں گا۔ ان شاء اللہ۔”
غلام حسین میمن