نمود و بود کو عاقل حباب سمجھے ہیں
وہ جاگتے ہیں جو دنیا کو خواب سمجھے ہیں
کبھی برا نہیں جانا کسی کو اپنے سوا
ہر ایک ذرے کو ہم آفتاب سمجھے ہیں
کریم مجھ کو عطا کر وہ فقر دنیا میں
کہ جس کو فخر رسالت مآب سمجھے ہیں
بھگو کے کھاتے ہیں پانی میں نانِ خشک کو وہ
اِس آبرو کو جو موتی کی آب سمجھے ہیں
ابو تراب کے در کا ہے ذرۂ بے قدر
ہم آسماں پہ جسے آفتاب سمجھے ہیں
ارے نہ آئیو دنیائے دوں کے دھوکے میں
سراب ہے یہ جسے موجِ آب سمجھے ہیں
یہ اشکِ تاک ہے کہتے ہیں جس کو آبِ طرب
یہ خونِ گل ہے جسے سب گلاب سمجھے ہیں
شباب کھو کے بھی غفلت وہی ہے پیروں کو
سحر کی نیند کو بھی شب کا خواب سمجھے ہیں
جھکائیں سر کو نہ کیونکر عراق کے فصحا
سوالِ شاہ کو سب لاجواب سمجھے ہیں
خدا کی راہ میں ایذا سے جن کو راحت ہے
زمینِ گرم کو وہ فرشِ خواب سمجھے ہیں
انیس مخمل و دیبا سے کیا فقیروں کو
اسی زمین کو ہم فرشِ خواب سمجھے ہیں
میر انیس