بھنور میں اس کے ہم
کچھ ایسے پھنسے
طوق و سلاسل مقدر بن کر
ہماری تاحیات اسیری کا سبب بنے !
زندگی کی رفاقت تم کیا جانو
محبت کے چمن میں اداسی اتر آئی
سنو! یہ عشق تھا ہمارا
دیکھو تو ذرا اے بےوفا
یہ محبت کی کرچیاں کیسے بکھر گئیں
یہ سارے کھیل نصیب کے ہیں !
فکر دوست میں غلطاں
اشکوں نے طے کی
درد و غم کی مسافت دور تک
کیا تم محبت سے واقف نہیں
جو سات سمندر پار جا بسے !
اس سفر زیست کو ہم
امتحان سمجھ بیٹھے ہیں
یہ کٹھانیاں ،آزمائشوں کےسلسلے
زندگی ان سے بہت کچھ سیکھتی ہے !
چھوڑ بھی دو اب اس تکرار کو
تمنا تھی ہمیں تمہاری دید کی مگر
ہم تارِ عنکبوت میں الجھ کر
نماز عشق قضا کر بیٹھے !!
معطر عقیل