نہ سہی ساز غم ساز تو ہے
زندگی کا کوئی انداز تو ہے
کچھ گریزاں ہے صبا ہی ورنہ
بوئے گل مائلِ پرواز تو ہے
بن سکے سرخیٔ روداد حیات
خون دل اتنا پس انداز تو ہے
لب خاموش بھی بول اٹھے ہیں
کچھ نہ کچھ وقت کا اعجاز تو ہے
میری آمد نہ گراں گزری ہو
اس خموشی میں کوئی راز تو ہے
کس توقع پہ صدا دیں باقیؔ
در ارباب کرم باز تو ہے
باقی صدیقی