نہ اپنے آپ کو اس طرح در بدر رکھتے
پلٹ کے آتے اگر ہم بھی کوئی گھر رکھتے
عجیب وحشت شب تھی کہ شام ڈھلتے ہی
تمام لوگ منڈیروں پر اپنے سر رکھتے
جو اپنی فتح کے نشے میں چور تھے وہ بھلا
سلگتے شہر کے منظر پہ کیا نظر رکھتے
یہ اور بات کہ سرسبز تھے بہت لیکن
ہم ایسے پیڑ نہ بن پائے جو ثمر رکھتے
جنہیں ہوا کی رفاقت عزیز تھی شہزادؔ
وہ اپنے پاؤں بھلا کیا زمین پر رکھتے
قمر رضا شہزاد